منگل، 15 اپریل، 2014

Aenul Muarif Aarif E Kaamil ka Nashsha E Irfani

"عین المعارف" … عارفِ کامل کا نشّۂ عرفانی

(صد سالہ عرس سرکار آسی غازی پوری 1435ھ کے مبارک موقع پر)

            حضرت عبدالعلیم آسیؔ غازی پوری سرزمینِ ہند کے اُن پاک بازوں میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ جنھوں نے اپنی فکر و نظر کے چشمۂ صافی سے انسانی قلوب و اذہان کی طہارت و پاکیزگی فرمائی ۔ آپ نے اپنی مساعیِ جمیلہ سے کفرو شرک کا قلع قمع کیا۔ شبِ ظلمت میں شمعِ ہدایت روشن فرمائی۔ مَے کدۂ رشیدیہ کے تشنہ کاموں کی سیرابی کے لیے آپ نے جامِ وحدت لُنڈھائے۔ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سرشاروں کو آپ نے جوش اور ہوش کے پیمانے بخشے۔ گم گشتگانِ راہ کو معرفت و سلوک کی منزل تک پہنچایا۔ عنفوانِ شباب کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی آپ کے شعری و فکری شعور نے یوں پکار کرکہا کہ   ؎
شعلے کی طرح پھونک دے جو دل کو جگر کو
للہ! کوئی ایسی مَے تُند پِلادو
یہ ظرف میں وسعت ہے کہ ’’بس ‘‘ منہ سے نہ نکلے
مَے خانے کا مَے خانہ اگر منہ سے لگادو
            بھلا جن کے ظرف کی وسعت کا یہ حال ہو کہ مَے خانے کا مَے کانہ پَلادینے کے بعد بھی ’’بس‘‘ کا لفظ منہ سے نہ نکلے، ایسے عارفِ کامل کے نشّۂ عرفانی کی بلندی کو کس کا پروازِ خیال چھو سکتا ہے   ؎
بقا جس شَے کوہو ، وہ چاہتا ہوں
سُن! اے تیرے سوا سب کچھ ہے فانی
            حضرت آسیؔ غازی پوری کے حالات سے واقف حضرات اِس بات کو بہ خوبی جانتے ہیں کہ آپ کی ذاتِ والا صفات اپنے مرشدِ گرامی علیہ الرحمہ کے فیوضِ روحانی کی تجلیات کو حاصل کرنے کے لیے روزِ ازل ہی سے بے قرار تھی ، کہتے ہیں    ؎
بک گئے روزِ ازل زِ ندِ خرابات کے ہاتھ
ہم ہوئے تم ہوئے یا آسیِؔ مَے خوار ہوئے
            حضرت آسیؔ غازی پوری نے جب حقیقت کی دنیا سے باہر قدم رکھا تو غربت کی فضا میں تشریف لائے ۔لیکن آپ کا دل اپنے وطنِ اصلی کی طرف پرواز کرنے کے لیے ہر لمحہ بے قرار رہتا تھا۔ آپ جیسا عارفِ کامل اس کو جانتا تھا کہ اُن کا اصلی مقام شاخِ طوبیٰ کی کسی شاخ پر ہی ہوسکتا ہے چناں چہ ’’عین المعارف‘‘ کے صفحات پر ایسے اشعار جگمگ جگمگ کرتے دکھائی دیتے ہیں    ؎
حجابِ گنجِ مخفی میں نہاں تھے
الٰہی ہم کہاں آئے کہاں تھے
چلے زیرِزمیں بے بال و پر آج
کبھی ہم طائرِ عرز آشیاں تھے
            اپنے اسی مقامِ حقیقی کو حاصل کرنے کی لگن نے آپ کو مراحلِ سلوک کا راہی بنادیا ۔ بالآخر آپ نے اپنے پیر و مرشد سے وہ کچھ پالیا جو ایک باہمت دل کے شایانِ شان تھا۔ حلقۂ بیعت کی نورانی و عرفانی منزل میں پہنچتے ہی آپ نے جس چیز کا مشاہدہ کیا اُس کا دل کش اظہاریہ آپ ہی کی زبانِ معرفت نشان سے خاطر نشین فرمائیں    ؎
جب بڑھایا دست ِ بیعت شیخ نے
ہوگئی آنکھوں میں دید اللہ کی
            اور جب دیدار کی لذت سے کیف حاصل ہوگیا تو تجربات کے مراحل شروع ہوئے، مرشدِ برحق کی روحانی توجہات کے سبب حقیقتِ اعلیٰ کی تجلی خود آپ کے آئینۂ دل سے منعکس ہونے لگی۔ آپ کے چمکتے دمکتے دل پر ایمان و ایقان نے وہ رنگ بکھیرا کہ اَسرارِ معرفت اور رموزِ طریقت کی بھینی بھینی خوشبو نے ہزاروں دلوں کو مہکادیا اور فکر و نظر کی وادیاں جلوہ زارِ تجلیات بن گئیں ۔ ایسے عالم میں سرکارآسیؔ کا قلب و ذہن ماسواے ذاتِ باریِ تعالیٰ کسی اور کی طرف حتیٰ کہ بہارِ خلد اور حور و قصور کو بھی دیکھنا گوارا نہیں کرتا    ؎
واعظو! اِس کو دیکھ لو پہلے
پھر کہو حور کیا ہے جنت کیا ؟
بہارِ خلد ہے اندھوں کے واسطے شاید
کہ کچھ نظر نہیں آتا ہے چشمِ بینا کو
            جمالِ ذاتِ احدیت کو پروانہ ، شاہِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا دیوانہ ، کونین کی ساری دولت کو ٹھکرادیتا ہے اُس کے لیے سب سے بڑی اور عطیم دولت بس جمالِ جہاں آرا کا دیدار ہی ہے    ؎
ہوں گنہگار مگر حسرتِ دیدار نہ پوچھ
جلوہ تیرا ہو تو دوزخ بھی ہے جنت تجھ کو
            حضرت آسیؔ کو بس ایک سودا تھا ، ایک ہی لگن تھی، ایک ہی تڑپ تھی ، ایک ہی فکر تھی ، ایک ہی تمنأا تھی ، ایک ہی دُھن تھی،چاہے اِس کی تکمیل کے نتیجے میں قیامت ہی کیوں نہ آجائے ، کہتے ہیں   ؎
ہم نہیں جاتے قیامت کیا
آج اگر تم مِلو قباحت کیا
            حضرت آسیؔ کی پوری شاعری ’’ لقاے الٰہی اور دیدارِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کے گرد گردش کرتی ہے ، آپ کا پورا دیوان اِ ن ہی دونوں پاکیزہ عناصر سے مملو ہے۔ ’’عین المعارف‘‘ میں اِن ہی دو حقیقتوں سے متعلق خوب صورت جذبات اور دل کش کیفیات کے نقش ہاے رنگا رنگ بکھرے نظر آتے ہیں ۔ آپ ایک ہنر مند اور مشّاق مصور کی طرح ان ہی خیالات کو شعری پیکر میں صفحۂ قرطاس پر اتارتے چلے جاتے ہیں ۔ اپنے خونِ جگر سے اُن میں رنگ آمیزی کرتے ہیں ۔ اور تخیل کی شاہراہ پر خلوص و للہیت کے چراغ روشن کرتے چلے جاتے ہیں ۔ اپنے اِس دعوے کے اثبات کے لیے سرکار آسیؔ جیسے عارفِ کامل کے نشّۂ عرفانی سے لبریز’’ عین المعارف‘‘ کے معدودے چند اشعار چھوڑ کر پورا دیوان پیش کردینا غیر مناسب نہ ہوگا ، بعض اشعار میں یہ دونوں حقیقتیں جزو لاینفک کی طرح ایک دوسرے سے باہم پیوستہ نظر آتی ہیں  ؎
اس کے کوچے میں کہاں کشمکشِ بیم و رجا
خوفِ دوزخ بھی نہیں خوہشِ جنت بھی نہیں
سرمۂ چشم نقشِ پا ہوئے ہم تیری راہ میں
کلیجہ منہ کو آتا ہے ، شبِ فرقت جب آتی ہے
اکیلے منہ لپیٹے روتے روتے جان جاتی ہے
نورِ خورشید ستاروں کو مٹادیتا ہے
تم ہو پہلو میں تو محفل بھی ہے خلوت مجھ کو
کہتے ہیں تم کو جو دیکھا تو خدا کو دیکھا
خواب میں بھی تو میسر ہو یہ دولت مجھ کو
عشق سے عشق محبت سے محبت مجھ کو
اس قدر ذوقِ بلا ، شوقِ مصیبت مجھ کو
جس میں دیدار ہو ، وہ بھی قیامت ہے کوئی
یہ قیامت ہے کہ وہ مجھ سے جدا ہوتے ہیں
مجھ کو ہنگامۂ محشر سے غرض
بس تمنا تیرے دیدار کی ہے
سارے عالم میں تیری خوشبو
اے میرے رشکِ گل کہاں تو ہے
            سرکار آسیؔ غازی پوری کے کلام میں نعت کا تقدس اورغزل کی رنگینی ِ بیان دونوں کا خوب صورت امتزاج ہمیں ایک کیف آگیں جذبات سے سرشار کرتا ہے۔ آپ نے بڑے ہی والہانہ مگر محتاط انداز سے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ جمیل کیا ہے۔
نہ میرے دل نہ جگر پر نہ دیدۂ تر پر
کرم کرے و ہ نشانِ قدم تو پتھر پر
پِلادے آج کہ مرتے ہیں رند اے ساقی
قریب کیا کہ یہ جلسہ ہو حوضِ کوثر پر
وہاں پہنچ کے یہ کہنا صبا سلام کے بعد
تمہارے نام کی رٹ ہے خدا کے نام کے بعد
دمِ جاں بخش اعجازِ مسیحا
نسیمِ گلشنِ کوے محمد (ﷺ)
بچھا جاتا ہے دل قدموں کے نیچے
یہ ہے اندازِ رفتار، محمد (ﷺ)
            سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس دیار کی محبت و الفت میں سرشار آسیؔ کی قلبی خواہش ہے کہ جب وقتِ اخیر ہو تو محبوبِ کردگار کا مقدس آستانہ نگاہوں کے سامنے ہو    ؎
اخیر وقت ہے آسیؔ چلو مدینے کو
نچار ہوکے مریں تربتِ پیمبر پر
            اور موت کا انتظار عاشقِ صادق کو صرف اس لیے ہے کہ    ؎
اب تو پھولے نہ سمائیں گے کفن میں آسیؔ
ہے شبِ گور بھی اُس گل سے ملاقات کی رات
            سرکار آسیؔ غازی پوری راہِ سلوک و معرفت میں بڑی کامیابی و کامرانی سے چلتے ہوئے سرخرو ہوئے اور اس راستے میں سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ اور سرورِکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذواتِ قدسیہ آپ کے لیے اشاراتی علامتوں کے طور پر سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ اگر کوئی جوش و ہوش کے ساتھ ان ذواتِ مقدسہ سے اپنے تعلقات کو استوار رکھنا چاہتا ہے تو وہ حضرت آسیؔ سے اِ س کا سلیقہ و شعور سیکھے  ؎
ہمتِ شیخ کی صیقل کی بدولت آسیؔ
یہی دل آئینۂ روے خدا ہوتا ہے
ظاہر و مظہر میں فرق ایسا نہیں
پیر ہاتھ آیا تو پیغمبر ملے
            وہ سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتائیں گے کہ     ؎
پوچھتے ہو شہِ جیلاں کے فضائل آسی ؔ
ہر فضیلت کے وہ جامع ہیں نبوت کے سوا
            وہ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق بتائیں گے کہ    ؎
تمہاری دید قیامت نہیں تو پھر کیا ہے
کہ مجھ کو آج نورِ خدا کا ہے نظّارا
کس کو دیکھا اُس کی صورت دیکھ کر
جی میں آتا ہے کہ سجدہ کیجیے
            وہ بتائیں گے کہ محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا احسان ہے انسانیت پر کہ     ؎
تو نے دعویِٰ خدائی نہ کیا خوب کیا
اے صنم ہم ترے دیدار کو ترسا کرتے
            سرکارآسیؔ کے شعروں میں جو مخلصانہ اظہاریہ ملتا ہے وہی اُن کی زندگی سے ظاہر تھا ۔ یعنی ان کے اقوال اور ان کے افعال میں ایک طرح سے جذباتی ہم آہنگی پائی جاتی تھی۔ یہی وہ تحیر خیز جذباتی ہم رشتگی ہے جو دوسروں کے یہاں شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ اِسی جذباتی ہم آہنگی کو دیکھ کر سرکار آسیؔ کا ایک شعر نقل کرتے ہوئے کسی ناقد نے یہ کہہ کر خراجِ تحسین پیش کیا ہے کہ : ’’ میں نہیں سمجھتا کہ اس اعلان کے بعد کون ہے جو آسیؔ کی شاعری کو الہامی اور آسیؔ کو جذباتی ہم آہنگی کا پیغام نہیں مانے گا۔‘‘ … اور وہ اعلان یہ ہے کہ    ؎
شعر گوئی نہ سمجھنا کہ مرا کام ہے یہ
قالبِ شعر میں آسیؔ فقط الہام ہے یہ
            شعر میں دعویٰ کرنا اور بات ہے اور شخصیت میں اس دعوے کی جھلکیاں ملنااور بات… زمانہ شاہد ہے کہ حضرت آسیؔ میں یہ دورنگی قطعاً نہیں تھی۔ وہ ’’لقاے الٰہی اور دیدارِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ کے ایمان افروز جذبے سے سرشار گلستانِ ادب میں کوب صورت اشعار کی فصلِ بہاری کھلاتے رہے ۔آپ جیسے عارفِ کامل کے نشّۂ عرفانی کا دل کش و دل نشین نظّارا کرنے کے لیے ’’عین المعارف‘‘ کے براہِ راست مطالعہ کی دعوت دیتے ہوئے قلم کو روکتا ہوں ۔           


..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں