اتوار، 21 اکتوبر، 2012

حمد ونعت




بِسْمِ اللّٰہ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمْ
الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم

حمدِ باریِ تعالیٰ
تری ذات سب سے عظیم ہے تری شان جل جلالہ
تو ہر اک سے بڑھ کے کریم ہے تری شان جل جلالہٗ
تو قدیر ہے تو بصیر ہے ، تو نصیر ہے تو کبیر ہے
تو خبیر ہے تو علیم ہے تری شان جل جلالہٗ
تو غفور بھی تو شکور بھی ، تو ہی نور بھی تو صبور بھی
تو حفیظ ہے تو حلیم ہے تری شان جل جلالہٗ
تو مقیت بھی تو فرید بھی ، تو ممیت بھی تو وحید بھی
نہیں کوئی تیرا سہیم ہے تری شان جل جلالہٗ
تو حسیب ہے تو رقیب ہے ، تو مجیب ہے تو حبیب ہے
تو روف بھی تو رحیم ہے تری شان جل جلالہٗ
تو شہید بھی تو رشید بھی ، تو مجید بھی تو مُعید بھی
تو حمید ہے تو حکیم ہے تری شان جل جلالہٗ
تو ہے منتقم تو وکیل بھی ، تو ہے مقتدر تو کفیل بھی
تو ہی نعمتوں کا قسیم ہے تری شان جل جلالہٗ
ترے دم سے باغ و بہار ہے ، کہ تجھی سے ہر سو نکھار ہے
تو گلوں میں وجہِ شمیم ہے تری شان جل جلالہٗ
مِلا حمد و نعت کا شوق جو ، یہ مُشاہدِؔخطاکار کو
یہ ترا ہی فضلِ عمیم ہے تری شان جل جلالہٗ
٭
کلام : ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی


نویدِ عیسا دعاے خلیل
نویدِ عیسا دعاے خلیل ہیں آقا
حبیبِ اعظمِ ربِّ جلیل ہیں آقا
ہر ایک شَے کے لیے آپ بے گماں رحمت
کہ عاصیوں کے یقینا وکیل ہیں آقا
ہمارا ایماں ہے ابوینِ شہ کے ایماں پر
ہر اک اصیل کے بے شک اصیل ہیں آقا
نہ اُن سا کوئی بنایا ہے دستِ قدرت نے
خدا کی خلق میں وہ بے مثیل ہیں آقا
قسیمِ نعمتِ ربِّ جہاں وہی تو ہیں
زمانے بھر کے مُشاہدؔ کفیل ہیں آقا
٭
کلام : ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی

انوارِ محبت
اِس دل کی سیاہی کو سرکار مٹا دینا
انوارِ محبت سے پُر نور بنا دینا
پژمردہ طبیعت کو سرکار کھلا دینا
دربارِ مقدس کا دیدار کرا دینا
دنیا کی محبت سے سرکار چھڑا دینا
بس اپنی عقیدت ہی اِس دل میں بسا دینا
طائف میں ہُوا کیا کیا ہو کیسے بیاں؟ لیکن
سرکار کا دیکھیں تو ایسوں کو دُعا دینا
لب پر مرے نعتیں ہوں ، نظروں میں مدینہ ہو
اس وقت مرے مولا! تُو مجھ کو قضا دینا
مَیں نعت کے سارے ہی آداب بجا لاؤں
حسّان کے صدقے میں مدحت وہ سکھا دینا
کہتا ہے مُشاہدؔ یہ نوریؔ کے وسیلے سے
’’ہر داغ مٹا دینا اور دل کی دوا دینا‘‘
٭
کلام : ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی

دکھادے یاخدا طیبہ
شہِ کوثر کا بٹتا ہے جہاں میں ہر طرف باڑا
جو اُن سے دور ہوگا وہ رہے گا ہر جگہ تنہا
ہر اک دھڑکن یہ کہتی ہے دکھا دے یاخدا طیبہ
سیاہی دل کی دھل جائے جو دیکھوں گنبدِ خضرا
جہاں میں چار جانب نفرتوں کا بول بالا تھا
محبت کا مروّت کا اخوت کا کیا چرچا
کہ باندھا پیٹ پر پتھر چٹائی کا رہا بستر
دیا ہے سادگی کا درس ہم کو آپ نے ایسا
یتیموں ، بے کسوں ، بیواوں ، مظلوموں کو آقا نے
عطا کی عزّتیں ، جینے کا اُن کو حوصلہ بخشا
بنایا پیکرِ بے مثل اپنے چار یاروں کو
صداقت کا ، عدالت کا ، سخاوت کا ، شجاعت کا
مُشاہدؔ کچھ نہ تھا اوقات بھی رکھتا نہیں تھا کچھ
کرم سے آپ کے کہلارہا ہے نعت گو شاہا
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

مرکز تجلّیات کا روضا حضور کا
سوچو تو کیسا اعلا ہے رُتبا حضور کا
عرشِ بریں نے چوما ہے تلوا حضور کا
قرآن میں ہے رفعتِ خیرالبشر رَقَم
ادراک سے بھی دور ہے رُتبا حضور کا
مدحت کا حق ادا ہو یہ ممکن نہیں کبھی
اللہ جب ہے واصف و شیدا حضور کا
طیبا میں ہورہی جوہے برسات نور کی
مرکز تجلّیوں کا ہے روضا حضور کا
پُشتوں تلک مہک نہ گئی عرقِ پاک کی
خوش بُو کا وہ خزینا پسینا حضور کا
طرزِ حیات کی نہیں تمثیل دہر میں
سب سے بلند و بالا سلیقا حضور کا
فضلِ خدا سے ہے یہ مُشاہدؔ ہمیں یقیں
دیکھیں گے ہم ضرور مدینا حضور کا
٭
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

نعت سیدِ عالم 
بن جائے گا خادم جو اک بار شہِ دیں کا
دامن نہ وہ چھوڑے گا زنہار شہِ دیں کا
اے چارہ گرو! تم سے دنیا میں کسی صورت
اچھا نہ کبھی ہوگا بیمار شہِ دیں کا
کیوں دل میں کرے خواہش وہ اور کسی شَے کی
ہوجائے جسے حاصل دیدار شہِ دیں کا
کوشش تو کی لوگوں نے جاں توڑ مگر پھر بھی
حل کر نہ سکا کوئی اَسرار شہِ دیں کا
پہلے کی طرح قدسی پھر رشک کریں تجھ پر
اپنالے اگر انساں اَطوار شہِ دیں کا
پامال خزاوں سے ہوگا نہ قیامت تک
شاداب ازل سے ہے گل زار شہ دیں کا
اللہ بھلادوں مَیں ہر شَے کی محبت کو
جائے نہ مگر دل سے اِک پیار شہِ دیں کا
کرتا ہوں مُشاہدؔ مَیں دن رات دعا رب سے
دکھلادے مجھے روضہ اِک بار شہِ دیں کا
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی


جانِ بہار
فضا ہوئی ہے بڑی خوش گوار کیا کہنا
ہے لب پہ مدحِ شہِ ذی وقار کیا کہنا
جدھر سے گذرے وہ جانِ بہار کیا کہنا
مہک مہک اٹھی وہ رہ گزار کیا کہنا
دلِ حزیں مرا کھل جائے بن کے باغ و بہار
جو دیکھوں کوے نبی خلد زار کیا کہنا
کرم سے اُن کے تصور میں آگیا طیبا
قرار پا گئے یوں بے قرار کیا کہنا
بس ایک پیالہ سے ستّر کو کردیا سیراب
کہ مصطفی ہیں وہ بااختیار کیا کہنا
خدا نے اُن کو بنایا ہے قاسمِ نعمت
ہے اُن کے صدقے مرا روزگار کیا کہنا
لحد بنے گی مُشاہدؔ کی مسکنِ انوار
کہ آئیں گے مرے وہ غم گسار کیا کہنا
٭
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

نعتِ نبی 
جو نعتِ نبی گنگناتا رہے گا
تو پھر اس کو غم کیوں ستاتا رہے گا
وہ جنت میں اک گھر بناتا رہے گا
جو جاں اپنی اُن پر لٹاتا رہے گا
جو یادیں نبی کی بساتا رہے گا
کنول اپنے دل کے کھلاتا رہے گا
جو سنّت کو ہر دم نبھاتا رہے گا
خدا اس کا رتبہ بڑھاتا رہے گا
جو رہبر رضاؔ کو بناتا رہے گا
مُشاہدؔ تُو نعتیں سناتا رہے گا
٭
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

مدحتِ مصطفی 
جو دل سے کرتا ہے اظہار اُن کی عظمت کا
بنے گا دیکھنا حق دار وہ تو جنت کا
حرا کے چاند کی نوری کرن سے عالم میں
کہیں نظر نہیں آتا نشان ظلمت کا
یہ کہکشاں یہ ستارے یہ چاند یہ سورج
بلا شبہ ہے یہ صدقہ اُنھیں کی رحمت کا
کوئی گھٹا نہیں سکتا نبی کے رُتبے کو
بیان آیاہے قرآں میں اُن کی رفعت کا
کہاں قلم میں مُشاہدؔ کے تاب مدحت کی
جو نعت لکھتا ہے صدقہ ہے شاہِ برکت کا
٭
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

دامنِ رحمت
پوشیدہ نہیں آپ سے جو حال ہے امت کا
سیلاب سا امڈا ہے باطل کی عداوت کا
توحید کی دنیا میں پھیلے گی ضیا ہر سو
فاران سے ابھرا ہے خورشید رسالت کا
پھر آج ضرورت ہے فاروق کی خالد کی
دنیا ہے پھر بدلا انداز قیامت کا
پھر دامنِ رحمت میں خود آپ سمٹ آئے
جینے ہی نہیں دیتا احساس ندامت کا
اب گنبدِ خضرا کا منظر ہے نگاہوں میں
یا میرے تصور میں نظّارا ہے جنت کا
منزل مرے قدموں میںخود آپ سمٹ آئے
جب دل میں چلوں لے کر مَیں شوق زیارت کا
خالق نے ازل ہی سے سرکارِ مدینہ کو
مختار بنایا ہے مَے خانۂ وحدت کا
جب نام شہِ دیں کا سنتا ہوں سرِ محفل
جھک جاتا ہے سر میرے جذبات و عقیدت کا
مسرور نہ ہوں کیوں کر وہ اپنے مقدّر پر
حاصل ہے شَرَف جن کو سرکار کی مدحت کا
کیوں ڈر ہو مُشاہدؔ کو میزان و سرِ پُل پر
ہر شعر میں ہے میرے انداز عبادت کا
٭
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

نصیب
مرے قلم کا تو دیکھیں چمک اُٹھا ہے نصیب
جو نعت لکھنے کا فن اُس کو ہوگیا ہے نصیب
مَیں اُس کی پیاری نگاہوں کو چوم لوں بڑھ کر
جسے زیارتِ در کا شَرَف ہُوا ہے نصیب
جسے جگہ ملے طیبا میں دفن ہونے کی
ہر ایک انساں سے بڑھ کر اُسے مِلا ہے نصیب
درِ رسول پہ جانے کی آس ہو پوری
چمک اُٹھے مرے مولا! بجھا بجھا ہے نصیب
اے کاش! خواب میں آقا کبھی یہ فرمادیں
مرے غلاموں میں تیرا بھی ہوگیا ہے نصیب
وہ جس کے دل میں محبت نہ ہو شہِ دیں کی
یقین جانو کہ اُس کا بڑا بُرا ہے نصیب
نہ کیوں ہو نازاں مُشاہدؔ نصیب پر اپنے
کہ اُن کی مدحتیں لکھنا مرا بنا ہے نصیب
٭
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

مدحت کے گلاب
نوکِ خامہ نے کھلائے جب کہ مدحت کے گلاب
کھل اُٹھے بزمِ الم میں تب مَسرّت کے گلاب
آپ آئے تو صنم خانوں میں آیا زلزلہ
ہوگئے خوشبو بداماں ہر سو وحدت کے گلاب
دشتِ ویراں کی طرح ہو قبر اُن کی خار زار
ہوں نہ جن کے دل میں شاہِ دیں کی عظمت کے گلاب
سرخ روئی دونوں عالم کی اگر مقصود ہے
زیست کے حاصل بنیں آقا کی سیرت کے گلاب
نعت لکھناہے مُشاہدؔ ، تو رہے پیشِ نظر
عشق و الفت کے کنول ، حُسنِ شریعت کے گلاب
٭
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

رحمتِ غفّار
دیکھوں جو کبھی خواب میں سرکار کی صورت
دل میرا چمک اُٹّھے گا انوار کی صورت
وحشت بھی تھی نفرت بھی تھی ذہنوں میں ہر اک سمت
آقا نے نکالی حسیٖں کردار کی صورت
توحید کے انوار لیے آئے شہِ دیں
عالم میں بنے رحمتِ غفّار کی صورت
بس ایک تصور سے فقط شاہِ دنا کے
سب مٹ گئی اندوہِ گراں بار کی صورت
وہ جس میں ہوئے جلوہ فگن سیدِ عالم
میں دیکھ لوں اک بار اسی غار کی صورت
میں سانس بھی لوں تیز تو یہ بے ادبی ہے
کس طرح نکالوں یہاں اظہار کی صورت
یاربِّ جہاں کلکِ مُشاہدؔ سے ہمیشہ
کھلتی ہی رہے نعت کے گل زار کی صورت
٭
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

سرکار کی مدحت
قلم میں تاب کیا جو لکھ سکوں سرکار کی مدحت
بہ فضلِ رب زباں پر ہے شہِ ابرار کی مدحت
جہانِ فکر و فن اُن کا نکھر جائے سنور جائے
کہ جو کرتے ہیں ان کی زلفِ خوشبو دار کی مدحت
دلِ ظلمت زَدا میں نور کا سیلِ رواں اُترے
زباں کرنے لگے جب چہرۂ انوار کی مدحت
لحد اُن کی معطر ہو ، معنبر ہو ، منور ہو
کہ جو کرتے رہیں خوشبوے  تنِ سرکار کی مدحت
مُشاہدؔ اِک نہ اِک دن روضۂ سرکار دیکھے گا
کیے جا ہر نفَس اُمّت کے اُس غم خوار کی مدحت
٭
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

اُسوۂ حسّان
خدا رکھتا ہے ہر لمحہ اسی انسان سے رغبت
ہے جس کو شاہِ دیں صلِّ علا ذی شان سے رغبت
نہ وہ منزل کو بل کہ خود ہی منزل اُن کو ڈھونڈے گی
رہے پختہ دلِ مسلم میں گر قرآن سے رغبت
مقدر ذلّت و خواری ہمارا بن نہیں پاتا
جو رہتی دل میں شاہِ دین کے فرمان سے رغبت
نبیِ پاک کے دشمن سے وہ رشتہ نہیں رکھتے
ہے ذرّہ بھر بھی جس انسان کو ایمان سے رغبت
مُشاہدؔ خستہ جاں کی ہے دُعا ربِّ جہاں تجھ سے
رہے قائم ہمیشہ اُسوۂ حسّان سے رغبت
٭
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

ذریعۂ بخشش
لکھا جو شعرِ عقیدت محبتوں کے ساتھ
برس برس اٹھی رحمت محبتوں کے ساتھ
صریرِ خامہ نواے سروش بن جائے
کہ جب رقَم کرے مدحت محبتوں کے ساتھ
بنے گا ذریعۂ بخشش یہ فکر و فن میرا
کریں گے آقا شفاعت محبتوں کے ساتھ
جہاں میں امن کی بادِ بہار چلنے لگے
بنیں جو عاملِ سیرت محبتوں کے ساتھ
مکاں سے لامکاں ان کی رسائی کیا کہنا
عطا کی رب نے یہ رفعت محبتوں کے ساتھ
حرا کے چاند کی نوری کرن سے عالم میں
شکست کھا گئی ظلمت محبتوں کے ساتھ
ترے قلم کو مُشاہدؔ مَیں چوم لوں بڑھ کر
کہ لکھ رہا ہے وہ مدحت محبتوں کے ساتھ
٭
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

نعتِ پاک
ذکرِ نبی سے دوری ہو یہ بات ہے عبث
بے عشق جو بسر ہو وہ حیات ہے عبث
جس دن دُرود نہ پڑھیں وہ دن فضول ہے
یادِ مدینہ آئے نہ وہ رات ہے عبث
ہم تو گداے در ہیں ہمارے لیے سُنیں
لعل و جواہرات کی سوغات ہے عبث
وہ جس کے دل میں عظمتِ شاہِ رُسل نہیں
لاریب! اُس بشر کی ہر اک بات ہے عبث
جو لکھ سکے نہ نعت مُشاہدؔ کسی بھی طَور
فکرِ سخن وری میں وہی ذات ہے عبث
٭
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

قناعتوں کا تاج
سجے گا سر پہ انھیں کے شفاعتوں کا تاج
انھیں مِلا ہے یقینا وکالتوں کا تاج
بس اک چٹائی کا بستر ، شکم پہ ہے پتھر
نبی نے پہنا ہے کیسی قناعتوں کا تاج
زبان سارے فصیحوں کی ہوگئی گونگی
سجائے آئے جو آقا بلاغتوں کا تاج
کلیم طور پہ عرشِ عُلا سے آگے یہ
نبی کو زیبا ہے رب کی قرابتوں کا تاج
مہک مہک اُٹھے کوچے جدھر سے گذرے آپ
اُنھیں عطا ہوا ساری لطافتوں کا تاج
وہ صدق و عدل و سخا و وفا کے پیکر تھے
جنھیں بھی بخشا نبی نے خلافتوں کا تاج
رضاؔ کی نعتوں کو تُو رہنما بنائے رکھ
انھیں مِلا ہے مُشاہدؔ فصاحتوں کا تاج
٭
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

علوے روح
روضۂ پاک آرزوے روح
نعتِ سرکار آبروے روح
ارضِ طیبا پہ میرا دم نکلے
ہے یہی بالیقیں علوے روح
خاکِ پاے نبی ملے مجھ کو
پوری ہوجائے جستجوے روح
الفتِ شہ کی مَے سے دل ہو صاف
کہ اسی سے ملے وضوے روح
نعت کا فن مِلا مُشاہدؔ کو
روز افزوں ہوئی ہے بوے روح
٭
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

معراجِ قسمت
اُن کی مدحت کی طرف جب سے ہوا ہے میرا رُخ
روز افزوں ہے عنایاتِ خداوندی کا رُخ
کچھ نہ دے گی تجھ کو دنیا کی محبت دیکھنا
نوجواں کر اُن کی الفت کی طرف تو اپنا رُخ
ایک اک موے بدن پُرنور ہوجائے مرا
خواب میں گر دیکھ لوں مَیں سیدِ والا کا رخ
خارہاے دشتِ طیبا کی طلب ہے زاہدو!
لالۂ جنت کی جانب کیوں کروں میں اپنا رُخ
ہے یقیں معراجِ قسمت ہوگی میری جلد ہی
ہاں! مُشاہدؔ تُو کرے گا روضۂ آقا کا رُخ
٭
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

سردارِ انبیا
چل کر درِ رسول پہ آنے کے باوجود
اٹھتی نہیں نگاہ اٹھانے کے باوجود
عشقِ نبی میں لٹنے لٹانے کے باوجود
مٹتا نہیں یہ نقش مٹانے کے باوجود
قرآن ہے گواہ کہ موسا کلیم سے
دیکھا گیا نہ جلوہ دکھانے کے باوجود
سردارِ انبیا کا لقب آپ کو ملا
تشریف سب سے بعد میں لانے کے باوجود
سرکار کو عزیز تھی غربت کی زندگی
ساری خدائی ہاتھ میں آنے باوجود
عرشِ بریں سے بھی تھا تعلق حضور کا
تشریف بزمِ دہر میں لانے کے باوجود
مَیں مطمئن ہوں عشقِ رسولِ انام سے
سرمایۂ حیات لٹانے کے باوجود
جب تک نہ دل لگایا نبی سے ، ملا نہ کچھ
سر کو درِ خدا پہ جھکانے کے باوجود
ممکن نہیں کہ پوری نہ ہو آرزوے دل
یعنی درِ رسول پہ جانے کے باوجود
امت پہ اپنی رہتے ہیں ہر وقت مہرباں
سرکار بزمِ دہر سے جانے کے باوجود
مومن نہیں ہے وہ جو نہ دیکھے حضور کو
بزمِ تصورات سجانے کے باوجود
سرکارِ کائنات کے مستوں کو دہر سے
کوئی مٹا سکا نہ مٹانے کے باوجود
مجھ کو مُشاہدؔ اپنی شفاعت کا ہے یقیں
لہو و لعب میں عمر گنوانے کے باوجود
٭
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

نظمِ مصطفی 
جو ہر دیار میں ہو نظمِ مصطفی نافذ
تو ہوگا امن و صفا صدق و اتقا نافذ
اصولِ شرم و حیا ، نظم و ضبط و وفا
نبیِ پاک نے دنیا میں کردیا نافذ
بنیں جو سنتِ سرکارِ دوجہاں کے امین
ہمارے قلب میں ہو نور اور ضیا نافذ
وہی ہیں باعثِ تخلیقِ کل جہاں بے شک
انھیں کے نور سے ہر خشک و تر ہوا نافذ
رہے مُشاہدِؔ رضوی کے فکر و فن پہ خدا
ثناے سرورِ کونین کی ادا نافذ
٭
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

نازشِ مرسلاں صد سلام آپ پر
رحمتِ دوجہاں صد سلام آپ پر
شاہِ کون و مکاں صد سلام آپ پر
آپ ہوتے نہ گر کچھ بھی ہوتا نہیں
باعثِ کن فکاں صد سلام آپ پر
آپ آئے تو ظلمت جہاں سے مٹی
نورِ رب بے گماں صد سلام آپ پر
آپ ہیں بے قراروں کے آقا قرار
وجہِ تسکینِ جاں صد سلام آپ پر
آپ نے سب کو رب سے مِلایا شہا
رہبرِ انس و جاں صد سلام آپ پر
بے زباں جانور استغاثہ کریں
مرکزِ بے اماں صد سلام آپ پر
آپ ہیں نائبِ خالقِ کبریا
نازشِ مرسلاں صد سلام آپ پر
ہیں شفیع الورا آپ ہی ، ہوگا یہ
روزِ محشر عیاں صد سلام آپ پر
ہو مُشاہدؔ سے بے کل پہ لطف و کرم
آپ ہیں مہرباں صد سلام آپ پر
٭
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

حُسنِ یقیں
سنہری جالیوں والے یہی ہے التجا لب پر، مٹادیں داغِ فرقت اب مدینہ دیکھ لیں آقا
دلِ ظلمت زدا کردیں منور نورِ عرفاں سے مٹادیں ظلمتیں ساری مرے شمس الضحیٰ مولا
کرم فرمایئے ہم پر کرم فرمایئے ہم پر
مساوات و صفا و صدق و عدل و آگہی دیدیں اخوت دیں محبت دیں خلوص و سادگی دیدیں
تشدد سارے عالم سے فنا ہو یارسول اللہ ،ہو انصاف و مروت کا جہاں میں ہر طرف چرچا
کرم فرمایئے ہم پر کرم فرمایئے ہم پر
عطا ہو حق کے متوالوں کو ایسی شعلگی آقا ،جو کردے خرمنِ باطل کو یکسر راکھ کو تودہ
جہاں میں بول بالا ہو صداقت کا عدالت کاسخاوت کا شجاعت کا شریعت کا طریقت کا
کرم فرمایئے ہم پر کرم فرمایئے ہم پر
پریشاں کررہے ہیں ہر جگہ سرکار اُمت کو، مٹانے پر تُلے ہیں ہر نفَس سرکار سنّت کو
جلالِ بے نہایت دیں تمامی اہلِ سنّت کو ، رہے روشن چراغِ عشق و الفت ہر گھڑی آقا
کرم فرمایئے ہم پر کرم فرمایئے ہم پر
مُشاہدؔ کا قلم ہر پل بیاں کرتا رہے مدحت ، ہوشامل اُس کے روز و شب میں آقا آپ کی سیرت
رہے دل میں ہمیشہ اُس کے شاہا آپ کی الفت ، عطا حُسنِ یقیں کردیں شہِ کون ومکاں آقا
کرم فرمایئے ہم پر کرم فرمایئے ہم پر
٭
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

یا شہنشاہِ حجاز
بختِ خفتہ کو جگادیں یاشہنشاہِ حجاز
روضۂ والا دکھادیں یاشہنشاہِ حجاز
دم قدم سے آپ ہی کے ہے بہارِ جاوداں
سُونے گلشن کو کھلادیں یاشہنشاہِ حجاز
چارہ گر! ہیں آپ ہی رنج و غم و آلام کے
رنج و غم سارے مٹادیں یاشہنشاہِ حجاز
ظلمتِ فکر و نظر کو دور کردیں یانبی
نور اِس دل میں بسادیں یاشہنشاہِ حجاز
یہ مُشاہدؔ روز و شب بس نعت ہی لکھتا  رہے
اُس کو کچھ ایسا بنادیں یاشہنشاہِ حجاز
٭
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

ایمان کی اَساس
عشقِ رسولِ پاک ہے ایمان کی اَساس
نعتِ رسول راحت و درمان کی اَساس
تخلیقِ نورِ پاک سے ظاہر ہے بالیقیں
ذاتِ رسول روح و دل و جان کی اَساس
گنجینۂ غیاب و شہود اسوۂ نبی
علمِ رسول آگہی ، ایقان کی اَساس
وحیِّ خدا ہے آپ کی ہر بات بے گماں
قولِ رسول جملہ ایقان کی اَساس
مکہ کی فتح اور وہ اعلانِ در گزر
طرزِ رسول رحمت و احسان کی اَساس
سارے بلیغ مکہ کے گونگے ہی بن گئے
خُطَبِ نبی بیان و لَسّان کی اَساس
ڈوبا رہے ثنا میں مُشاہدؔ ، ہے بے گماں
یادِ رسول رحمت و غفران کی اَساس
٭
کلام: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں