تعلیم نسواں فوائد و نقصانات
(جماعت دہم 1995ء میں لکھا گیا ایک مضمون)
محمو داسرائیلی نے کہا ہے کہ
اک مردِ پیر بولے
"یہ عورت کی ذات ہے
اے مومنو! پڑھانا اسے واہیات
ہے"
میں نے کہا کہ " عائشہ
صدیقہ تھیں ادیب "
بولے کہ "آپ چپ رہیں
یہ اور بات ہے"
عورتوں کی تعلیم پر بزرگ لوگ بڑی غلط فہمیاں رکھتے ہیں اور وہ سمجھتے
ہیں کہ تعلیم صرف لڑکوں ہی کو دینا ضروری ہے۔ تعلیم ، روزگار کے لیے چاہیے ، دین کے
لیے چاہیے اس میدان میں صرف مَردوں کو ہی آنا چاہیے عورتیں باورچی خانے کے لیے پیدا
ہوئی ہیں اور ان کی زندگی باورچی خانے سے شروع ہوکر دسترخوان پر ختم ہوجاتی ہے ۔ یہ
باتیں ہر گز درست نہیں ، عورتیں بھی انسان ہیں ، علم کی روشنی انسان کو جینا سکھاتی
ہے ۔ علم و ہ سمند ر ہے جس کاساحل کبھی نظر نہیں آتا اور انسان کو اس کی ہر دم ہر
لحظہ تلاش رہتی ہے ۔ اس لیے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے
کہ : علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
جاننا چاہیے کہ مرد و عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں اگر ایک
پہیہ تعلیم میں کافی آگے ہو اور دوسرا پچھڑا ہوا ہو تو زندگی کا چکر تیز رفتاری سے
نہیں چل سکتا ۔ عورتوں کی تعلیم کے بارے میں مخالفت کا سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آج
نسلِ نو تعلیم سے زیادہ فیشن کو اپنا رہی ہے ، تعلیم حاصل کرنے کے بعد معدودے
چند ایک کو چھوڑ کر زیادہ تر لڑکیاں فیشن کی پرستا رہو کر رہ جاتی ہیں ، ظاہری بناو
سنگھار، سنیمابینی اور ٹی وی سرئیلوں نے عورتوں کے دل و دماغ سے ذمہ داری کا احساس
ختم کردیا ہے۔
اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ عورت کی وجہ سے نسلوں کا مقدر
سنورتا ہے اور قوم کی اصلاح ہوتی ہےاور اس کا م کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے عورتوں
کا تعلیم یافتہ ہونا بے حد ضروری ہے ، اسے اپنی اولاد کو بھی اپنی معلومات کی بنا پر
تربیت کرنا چاہیے ۔ عورت کی فطرت مرد کی فطرت سے بلند ہوتی ہے ۔ اگر ایک عورت جاہل
ہوگی تو پوری نسل غیر تعلیم یافتہ ہوگی اور معاشرے میں اس کی کوئی عزت نہ ہوگی۔ ان
ہی چیزوں کو دیکھ کر اکبر الٰہ آبادی نے کہا ہے کہ
تعلیم لڑکیوں کو تو دینی
ضرور ہے
لڑکی جو بے پڑھی ہے وہ بے
شعور ہے
عورتوں کی تعلیم منصوبہ بندی کے تحت ہوتو وہ برائیاں جو آج قوم
کی بچیوں اور بچوں میں پائی جاتی ہیں سب کا خاتمہ ہوسکتا ہے ۔ عورتوں کی تعلیم میں
مذہبی تعلیم کو اولیت دی جائے تاکہ مذہبی اور اخلاقی اصولوں سے عورتیں واقف ہوں خود
ان پر عمل کریں نیزاپنے شوہر کو رغبت دلائیں اور اپنی اولاد کی صحیح تربیت کریں ۔ اس
کے بعد زبان کی تعلیم دی جائے اپنی زبان پڑھنا اگر سیکھ جائیں تو ہر گھر میں اچھی زبان
بولی جائے گی اور گھر کا ماحول امن و شانتی کا گہوارہ بن جائے گا۔
عورتیں گردشِ لیل و نہار
کا ایک حسین اور کیف آور نغمہ ہیں ۔ تعلیم و ہ رہبر ہے جو کارروانِ جہلا کو ترقی کی
راہ پر گامزن کرتا ہے۔ عورتوں کو تعلیم دینا ضروری ہے کیوں کہ عورت ایک بہترین سرمایہ
ہے۔ جس کی تعلیم خلوص ، سچائی اور محبت میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے ۔ وہ معاشرے کو بہترین
تربیت یافتہ ، صالح ، پاک باز، بہادراور دین دار انسان کا تحفہ دے سکتی ہے ،انھیں سب
چیزوں کو دیکھ کر شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا ہے کہ
وجودِ زن سے ہے تصویر
کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی
کا سوز ِدروں
"عورت کے وجود سے دنیا میں رنگینی برقرار ہے۔"
عورت کے لیے مذہبی تعلیم اور زبان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ علم الحساب
کی تعلیم بھی ضروری ہے ۔ اس سے ان کے اندر کفایت شعاری کو فروغ ملے گا ۔ فضول خرچی
سے بچنے کی عادت پیدا ہوگی ۔ امورِ خانہ داری کی تعلیم بھی دی جائے جس میں سلائی ،
کڑھائی، کشیدہ کاری، پکوان اور بچوں کی نگہداشت وغیرہ کو مد نظر رکھا جائے۔ اس سے بہت
سارے وہ کام جو دوکانوں پر کروانا پڑتے ہیں وہ گھر ہی پر انجام پاجائیں گے۔اس طرح آمدنی
میں بچت بھی ممکن ہے۔ علم طب اور حفظان صحت کی تعلیم بھی لڑکیوں کو دینا ضروری ہے۔
تاکہ اس سے اپنی صحت کوبرقرار رکھنے ، بیماریوں سے بچنے اور تیمارداری کا سلیقہ پیدا
ہو ۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ عورتوں کو تعلیم اور تہذیب و تمدن سے کیا مطلب ہے؟؟ وہ یہ نہیں سوچتے کہ جس عورت کو وہ تعلیم حاصل کرنے
سے باز رکھنا چاہتے ہیں اسی عورت نے افلاطون ، ارسطو اور سقراط جیسے نامور عالم اور
فلسفی کو جنم دیا ہے، بہ قول اقبال
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی
لیکن
اسی کے شعلے سے پھوٹا شرارِ
افلاطوں
دنیا کے تمام ممالک میں عورتوں کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی تھی
، لیکن پیغمبراسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے عورت کو صحیح طور پر زندگی گزارنے کا حق
دیا اور اس کی عزت و حرمت اور پاس و ناموس کی حفاظت کا باضابطہ انتظام فرمایا۔
غرض یہ کہ جس طرح مَردوں کے لیے دینی و دنیاوی تعلیم ضروری ہے اسی
طرح عورتوں کے لیے بھی یہ لازم ہے ۔ عورت کی عملی زندگی کا انحصار دونوں قسم کے فرائض
کی انجام دہی پر ہے۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ دنیاوی تعلیم اس وقت مفید ثابت ہوگی جب اسے
دینی تعلیم بھی مل جائے ورنہ دینی تعلیم کے بغیر وہ نامکمل اور غیر سود مند ہی نہیں
بل کہ گمراہ کن بھی ثابت ہوسکتی ہے ، جیسا کہ آج مغربی ممالک میں ہورہا ہے
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ
امومت
ہے حضرت انساں کے لیے اس
کا ثمر موت
بیگانہ رہے دین سے گر مدرسۂ
زن
ہے حضرتِ انساں کے لیے اس
کا ثمر موت
لڑکیوں کے لیے لیڈی ڈاکٹر یا معلمہ کا پیشہ بھی مناسب ہے مگر تمام
لڑکیوں کو یہ کامیابی حاصل ہوسکتی ۔ اس لیے بنیادی طور پر مذکورہ تعلیمات سے فائدہ
اٹھائیں اور سماج و معاشرے کا وقار بحال کرنے میں اہم رول ادا کریں ۔
کسی فلسفی کا قول ہے کہ :"تمہاری اکثر برائیاں تعلیم نہ ہونے
کی وجہ سے ہوتی ہیں۔" اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ :"ایک مرد اگر تعلیم حاصل
کرتا ہے تووہ تنہا تعلیم یافتہ کہلاتا ہے جب کہ عورت اگر تعلیم حاصل کرتی ہے تو وہ
پورے خاندان کی تعلیم کے بارے میں فکر مند ہوجاتی ہے۔" اسی لیے کہا جاتا ہے کہ
بہترین اور تعلیم یافتہ مائیں ہی بہترین اور تعلیم یافتہ بچے جنم دیتی ہیں جو بعد میں
ملک و ملت کے لیے مایۂ ناز ہستیاں بنتی ہیں۔
ایک عورت تعلیم یافتہ ہوتی ہے تو اپنے بچے کی تربیت میں خوب محنت
کرتی ہے ۔ سچ تو یہ ہے انسانی سیرت ماں کی آغوش ہی میں بنتی ، نکھرتی اور سنورتی ہے
۔بڑا مشہور ترین قول ہے کہ "ماں کی گود اولین درس گاہ ہے۔" عالم اسلام کی
عظیم ترین شخصیت حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی ماں ہی تھیں کہ
جن کی اعلیٰ تربیت کا اثر تھاکہ بچپن میں آپ کے دست مبارک پر ڈاکووں نے توبہ کی ۔ اور
رواں صدی میں امام احمد رضا بریلوی کی ماں نے ان کی جو تربیت کی اسی کا نتیجہ ہے کہ
آپ پوری دنیا میں احترام کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں ۔
بہ ہر کیف! تعلیم نسواں کے ان فوائد کے ساتھ ساتھ بہت سے نقصانات
بھی ہیں ۔ دراصل تعلیم کا غلط استعمال عورتوں کو گمراہ کررہا ہے ۔ آج کل جدید دور
میں عورت نے تعلیم حاصل کرکے اپنے اوپر فیشن کا خول چڑھا رکھا ہے ۔ آج کل کی
عورتوں کو دیکھ کر یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کیا یہ وہی عورت ہے جس کی کوکھ سے پیغمبروں
نے جنم لیا ہے۔ اور جسے شرم و حیا کے پیکر کا خطاب دیا گیا ۔ آج کی عورت اور ماضی کی
عورتوں میں کتنا فرق ہے ۔ آج تعلیم کے غلط استعمال نے لڑکیوں کو اس حد تک پہنچا دیاہے
کہ وہ مشرق کی صاف و شفاف اورپاک باز ہوا کو آلودہ کررہی ہیں۔وہ یہ نہیں سوچتیں کہ
وہ اپنے آپ کو ترقی کی جس راہ پر لے جارہی ہیں وہ روشنی کا مینار ہے یا تاریکی کا گہر
اگڑھا
وہ اندھیرا ہی بھلا تھا
کہ ہم راہ پہ تھے
روشنی لائی ہے منزل سے بہت
دور ہمیں
ویسے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تعلیم نسواں کے فوائد زیادہ نقصانات
کم ہیں۔ اس لیے ان پر غور کرنا چاہیے اور مسلم خواتین کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے
کہ غیر اسلامی معاشروں نے ہی عورتوں کو مناسب مقام نہ دے کر انھیں احساسِ کم تری
میں مبتلا کردیا ہے ۔اور ستم تو یہ ہے کہ دوسری طرف مساواتِ مرد و زن کا شوشہ چھوڑ
کر "آزادیِ نسواں" کا فتنہ جگا دیا ہے ۔ آنچل کو پھاڑ کر پرچم بنانے کا مشورہ
تو کوئی سچا مسلمان ہر گز نہیں دے سکتا ۔ خواتین اہلِ مغرب کی فتنہ گری کے اس
چکر سے نکل آئیں اور یہ تسلیم کرلیں کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے
عورت کو اہمیت ، عفت ، عزت اور عظمت کے حقوق عطا کیے ہیں ۔ لیکن مرد کی برابری نہیں،
۔ عورت کو چاہیے کہ اپنے آپ کو مشرقی خاتون بنا کر خاندان کے جس رتبے پر ہو اپنے باپ
، بھائی، خاوند یا بیٹے، بیٹیاں وغیرہ اگر غلط راہ پر چل رہے ہوں انھیں راہِ راست
پر لاکر ایک انقلاب لائیں ۔ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم حاصل کرنے ہی سے
یہ سب ممکن ہوگا۔
آج تعلیم نسواں کی اہمیت اس لیے بڑھی ہے کہ تعلیم یافتہ ماؤں کے
بچّے اعلیٰ دماغ اور سلیقہ مند ہوتے ہیں لیکن اس کے برخلاف جاہل ماؤں کے بچّے کند
ذہن اور الھڑ ہوتے ہیں ۔ اس لیے جدید دور میں تعلیم نسواں کی اشد ضرورت ہے ۔ تعلیم
نسواں ہی زندگی کو کامیاب بنا سکتی ہے ، لیکن یہ ہمیشہ یاد رے کہ
نازل ہوئی ہیں تجھ پہ تقدس
کی آیتیں
تنویرِ فاطمہ سے ہے عورت
تری حیات
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں