ہفتہ، 20 اکتوبر، 2012

Allama Fazl E Haq Awr Mirza Ghalib




مجاہدِ جلیل علامہ فضلِ حق خیرآبادی اور مرزا غالب
کے دیرینہ تعلقات پر اک نظر
٭ ڈاکٹرمحمد حسین مُشاہد رضوی ، مالیگاؤں

                دارالسلطنت دہلی زمانۂ قدیم سے ہی علم و فن اور شعر وادب کا گہوارہ رہا ہے۔ مغلیہ حکومت کے اخیر دور میں انقلاب ۱۸۵۷ء سے قبل دہلی کی علمی و ادبی دنیا میں جن حضرات کا غلغلہ بپا تھا ان میں علامہ فضل حق خیرآبادی(م۱۲۷۸ھ)،مفتی صدرالدین آزردہؔ(م۱۲۸۵ھ)،مرزا اسدا للہ خان غالبؔ(م ۱۲۸۵ھ) اور حکیم مومن خان مومنؔ(م) کا شمار صفِ اول کے ممتاز ترین شعرا و ادبا میں ہوتا ہے۔ ’’غالبؔ نام آورم ‘‘ کے مصنف نادمؔ سیتا پوری لکھتے ہیں  :
       ’’انقلاب سنہ ستاون سے پہلے دہلی کی ادبی فضا جن عناصرِ اربعہ سے ترتیب پارہی تھی وہ یہی چار ہستیاں تھیں۔ مولانا خیرآبادی،مفتی صدرالدین آزردہؔ،مرزا غالبؔ اور حکیم مومنؔ۔‘‘(ص ۸۱)
       متذکرہ بالا ہستیوں میںعلامہ فضل حق خیرآبادی،مفتی صدرالدین آزردہؔ اورمرزا اسدا للہ خان غالبؔکے مابین بہت گہری دوستی اور الفت و محبت تھی۔ خصوصاً علامہ فضل حق خیرآبادی اور مرزا غالبؔکے تعلقات انتہائی پُرخلوص اور نہایت گہرے تھے۔علامہ فضل حق خیرآبادی کے علم و فضل کا پایہ بہت بلند و بالا تھا آپ کی شخصیت حکمت و دانش کے اعتبار سے یگانۂ روزگار تھی۔ آپ اپنے عہد کے مرجع العلماوالادباتھے۔سر سید احمد خان علامہ فضل حق خیرآبادی سے سیاسی و دینی لحاظ سے مختلف الخیال اور جدا جدا عقیدہ رکھتے تھے لیکن ملاحظہ فرمائیے کہ سر سید کے ذہن و قلب پر علامہ فضل حق خیرآبادی کی حکمت و دانش کے اثرات کتنے گہرے تھے :
       ’’جمیع علوم و فنون میں یکتاے روزگار ہیں اور منطق و حکمت کی تو گویا انھیں کی فکرِ عالی نے بِنا ڈالی ہے بارہا دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو یگانۂ فن سمجھتے تھے جب ان کی زبان سے ایک حرف سنا،دعوائے کمال کو فراموش کرکے نسبتِ شاگردی کو اپنا فخر سمجھا،بایں کمالات علم و ادب میں ایسا عَلمِ سرفرازی بلند کیا ہے کہ فصاحت کے واسطے ان کی شستۂ محضر عروجِ معارج ہے اور بلاغت کے واسطے ان کی طبعِ رسا دست آویز بلندیِ معارج ہے ۔ سحبان کو ان کی فصاحت سے سرمایۂ خوش بیانی اورامراء القیس کو ان کے افکارِ بلند سے دست گاہِ عروج و معانی،الفاظ پاکیزہ ان کے رشکِ گوہر،خوش آب اور معانی رنگین ان کے غیرتِ لعلِ ناب، سرو ان کی سطورِ عبارت کے آگے پابہ گِل،اور گُل ان کی عبارتِ رنگیں کے سامنے خجل،نرگس ان کے سواد سے نگاہ ملا دیتی۔ مصحفِ گل کے پڑھنے سے عاجز نہ رہتی۔ اور سوسن اگر ان کی عبارتِ فصیح سے زبان کو آشنا کرتی ،صفتِ گویائی سے عاری نہ ہوتی۔‘‘(آثارالصنادیدص ۲۸۱)
       علامہ فضل حق خیرآبادی کے علم و فضل کا سکہ اس زمانے میں آپ کے ہم عصروں پر بیٹھا ہوا تھا۔ آپ تمام علمی و ادبی شخصیتوں کے مرکز و محور کی حیثیت رکھتے تھے۔ مرزا اسداللہ خان غالبؔ کی شعر گوئی کا طرز سب سے جداگانہ اور نرالاتھا۔ طبیعت انتہائی مشکل پسند واقع ہوئی تھی۔اس عہد کے جید علما و فضلاکی بابرکت صحبت نے غالبؔ کی قابلیت و لیاقت میں چار چاند لگادئیے تھے۔ روزانہ کی باہمی مجالست میں دورانِ گفتگو دقیق،مشکل اور فصیح و بلیغ الفاظ استعمال ہوتے تھے۔جملوں کی نئی نئی تراکیب،نئی نئی بندشیں پیدا ہوتی رہتی تھیں۔ مرزا غالبؔ جب شعر کہنے بیٹھتے تو اِنہیں مجالس و محافل کا خیال دامن گیر رہتا۔ وہ یہی سمجھتے تھے کہ میرے اشعار کے مخاطب یہی باکمال حضرات ہیں۔ تحسین و آفرین اور داد و دہش کی توقع بھی انھیں سے ہوتی تھی اسی لیے مرزا غالبؔ اپنے اشعار میں نئی نئی تراکیب اور مشکل و دقیق الفاظ کے استعمال کے لیے ایک طرح سے مجبور بھی تھے۔
       مفتی صدرالدین آزردہ،ؔ مرزا غالبؔ کے اسی رویّے کے سبب بہت ناخوش رہا کرتے تھے اورایسے مشکل اور دقیق اشعار سے آپ کی طبیعت میں تکدر پیدا ہوجاتاتھا جس کا اظہار مفتی صدرالدین آزردہؔ ،غالبؔ کی موجودگی میں برملا کردیتے تھے ۔لیکن غالبؔ ،آزردہؔ کی اس روش کی بالکل پروا نہ کرتے تھے۔ لیکن جب علامہ فضل حق خیرآبادی مجلس میں شریک ہونے لگے اور غالبؔ کی غزلوں کو سننے اور دیکھنے کا موقع میسر آیاتو آپ نے مرزا غالبؔ کو بے حد سمجھایاکہ یہ اشعار عام لوگوں کی فہم سے ماورا ہیں۔اس مشکل روش کو ترک کرکے آسان اور سہل روش کو اختیار کیا جائے چنانچہ علامہ فضل حق کے کہنے پر غالبؔ بہت پریشان ہوئے ۔ اس داستان کو مولوی محمد حسین آزادؔ کی زبانی سنیے موصوف لکھتے ہیں  :
       ’’مولوی فضل حق صاحب فاضلِ بے عدیل تھے۔ ایک زمانے میں دہلی میں سر رشتہ دار تھے اس عہد میں مرزا خاں کوتوال تھے وہ مرزا قتیلؔ کے شاگرد تھے۔ نظم و نثر فارسی اچھی لکھتے تھے۔ غرضیکہ یہ دونوں باکمال مرزا صاحب کے دلی دوست تھے۔ ہمیشہ باہم دوستانہ جلسہ اور شعر و سخن کے چرچے رہتے تھے انھوں نے اکثر غزلوں کو سنا اور دیوان کو دیکھا تو مرزا صاحب کو سمجھایا کہ یہ اشعار عام لوگوں کی سمجھ میں نہ آئیں گے۔ مرزا صاحب نے کہا جو کچھ کر چکا اب تدارک کیا ہوسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ خیر ہوا سو ہوا انتخاب کرو اور مشکل شعر نکال ڈالو۔مرزا صاحب نے دیوان حوالے کردیا ۔یہ دونوں صاحبوں نے دیکھ کر انتخاب کیا۔ وہ یہی دیوان ہے جو آج عینک کی طرح لوگ آنکھوںسے لگائے پھرتے ہیں ۔‘‘ (آبِ حیات ص ۵۱۲)
       اس عبارت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ موجودہ دیوانِ غالبؔ ،علامہ فضل حق خیرآبادی کا انتخاب فرمودہ ہے۔ اس بات کی تصدیق الطاف حسین حالیؔ کی اس عبارت سے بھی ہوتی ہے، حالیؔ لکھتے ہیں :
       ’’مولوی فضل حق کی تحریک سے انھوں نے اپنے اردو کلا م میں جو اس وقت موجود تھا دو ثلث کے قریب نکال ڈالا اور اس کے بعد اس روش پر چلنا بالکل چھوڑ دیا۔‘‘(یادگارِ غالبؔ ص ۲۰۱)
       مرزا غالبؔ نے علامہ فضل حق خیرآدی کی اسی تفہیم سے متأثر ہوکر یہ رباعی کہی تھی     ؎
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
سُن سُن کے اسے سخن ورانِ کامل
آسان کہنے کی کرتے ہیں فرمایش
گویم مشکل و گر نگویم مشکل
       علامہ فضل حق خیرآبادی کی سخن فہمی اور نکتہ پروری کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔حالیؔ لکھتے ہیں  :
       ’’مرزا کے ایک فارسی قصیدے کی تشبیٖب کا شعر ہے   ؎
ہمچناں در تتق غیب ثبوتے دارند
بوجودے کہ نداند ز خارج اعیاں
       مرزاصاحب نے خود مجھ سے کہا کہ میں نے ’ثبوتے‘ کی جگہ ’نمودے‘ لکھا تھا۔ مولوی فضل حق کو جب شعر سنایا تو انھوں نے کہا کہ اعیانِ ثابتہ کے لیے نمود کا لفظ نامناسب ہے اس کی جگہ ثبوت بنادو۔چنانچہ طبعِ ثانی میں بجائے’نمود‘ کے ’ثبوت‘ بنادیا ہے۔‘‘(یادگارِ غالبؔ ص ۷۹)
       حالیؔکی مذکورہ بالا عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا عبدالشاہد خاں شیروانی(تلمیذِ رشید علامہ خیرآبادی)یوں رقم طراز ہیں  :
       ’’اہلِ علم جانتے ہیں کہ اس اصلاح سے فلسفیانہ اصطلاح کے مطابق شعر کو کہاں سے کہاں پہنچادیا ۔ مرزا کو ایسے باریک بینوں اور بال کی کھال نکالنے والوں سے سابقہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ موصوف کو اپنے لیے نئی راہ نکالنی پڑی اور دشواریوں میں مبتلا ہوکر ’گویم مشکل وگر نہ گویم مشکل‘ کہنا پڑا۔‘‘(الثورۃ الہندیہ ،اردو ترجمہ ص ۱۵۹)
       ان مثالوں کے علاوہ اور بھی بہت ساری مثالیں ’’یادگارِ غالب،غالبؔ نام آورم‘‘ جیسی کتب میں مرزا غالب کے اور علامہ فضل حق خیرآبادی کے دیرینہ تعلقات کے بارے میں موجود ہیں۔
       علامہ فضل حق خیرآبادی اور مرزا غالبؔ کے درمیان خط و کتابت تواتر کے ساتھ جاری تھی یہی نہیں بلکہ غالبؔ، علامہ کی خدمت میں اپنا فارسی کلام دادو تحسین اور نظرِ ثانی کے لیے ارسال کیا کرتے تھے ۔چنانچہ غالبؔ نے ایک خط میں علامہ کو خط نہ بھیجنے کی شکایت لکھی ہے اور ایک قصیدہ جو حمد میں عرفیؔ کے قصیدے پر لکھا ہے خط کے ساتھ بھیجا ہے اور اس پر داد چاہی ہے،غالبؔ لکھتے ہیں  :
       ’’سبحان اللہ! باآنکہ از فرامش گشتگان ام،ودانم کہ دوست دوست مرا بہ دو جَو بلکہ بہ نیم خَس بر نگیرد۔ہر گاہ بسازدادن آہنگ گلہ روئے آرم و سنجم کہ ایں پردا(یعنی نغمہ)را بے پردا(بے تکلف)می توانم سرود،از قہر مان اندیشہ دوربائے شَے(یعنی امتناعی)درمیاں نیست،ہر آئینہ بدیں شادمانی کہ ہنوزم بادوست روئے سخنے ہست۔آنچناں بر خویشتن می بالم کہ غم جاں گداز فراموشی فراموش ، و الب از زمزمۂ کہ دل دربند سرودن آنست(یعنی شکایت)خاموش میگردد   ؎
از خویشتن بہ ذوقِ جفا با تو ساختیم
بامادگر ساز کہ مابا تو ساختیم
       دریں روز ہوائے آں در سر افتاد کہ بیتے چند در توحید مجیباً لعُرفی گفتہ آید۔چوں کوشش اندیشہ بجائے رسید کہ نہ عُرفی رامحل ماند و نہ مرا جائے۔ناگزیرآن ابیات را بر کسے عرضہ میدارم کہ چوں من صدو چوں عُرفی صد ہزار را بہ سخن پرورش تواند کرد،وپایۂ ہر یک تواند نمود۔والسلام۔‘‘(یادگارِ غالبؔ ص ۳۶۵)
       اس خط سے پتہ چلتا ہے کہ غالبؔ کی نظر میں علامہ فضل حق خیرآابدی کی سخن فہمی اور نکتہ پروری کی کتنی اہمیت تھی، نیزیہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مرزاغالبؔ کی شاعری علامہ فضل حق کی توجہ والتفات کی کس قدر رہینِ منت تھی۔
       مرزا غالبؔ پر علامہ خیرآبادی کی علمی وادبی شخصیت کے اثرات کا ذکر دیگر کتب میں بھی تسلسل سے کیا گیا ہے۔مالک رام ،ذکرِ غالبؔ میں تحریر کرتے ہیں  :
       ’’اگر مولوی فضل حق اور ان کے رفقاکی صحبت کا فقط اتنا ہی اثر ہوتا کہ وہ (غالبؔ)شاعری میں اپنی غلط رو ش کو چھوڑ کر ایک معتدل راہ پر آجائے تو یہ بھی کچھ معمولی بات نہیں تھی مگر اس سے بھی زیادہ قابل قدر کام غالبؔ کی ’اخلاقی اصلاح‘ کا ہوا۔‘‘(ذکرِ غالبؔ ص ۴۳)
       علاوہ ازیں معروف مؤرخ شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں  :
       ’’مولوی فضل حق، غالبؔ کے سب سے بڑے محسن اور محب تھے ،انھوں نے نہ صرف مرزا کی شعر وسخن کے میدان میں رہِ نمائی کی جوان کا اصل دائرۂ عمل تھا بلکہ ان کی مالی مشکلات دور کرنے کی بھی کوشش کی۔‘‘(غالب نامہ ص۵۴)
       مرزا غالبؔ بڑے بڑوں کوخاطر میں نہیں لاتے تھے لیکن ان کے دل میں علامہ فضل حق خیرآبادی کے لیے بڑے ہی ادب و احترام کا جذبہ موجزن تھا ۔چنانچہ اردو کے نام ور محقق محی الدین قادری زورؔ لکھتے ہیں :
       ’’جن(غالبؔ) کی نظروں میںبڑے بڑے شعرا و علما نہیںجچتے تھے مولانا خیرآبادی کی بڑی تعظیم اور عزت کرتے تھے۔ چنانچہ جب و ہ دہلی سے سررشتہ داری عدالت چھوڑ کر جانے لگے تومرزا نے ’آئینۂ سکندر‘ میں اشاعت کے لیے ایک تحریر بھیجی جس کا آخری جملہ یہ ہے؛’حقّا کہ اگر پایہ علم و فضل و دانش و بینش مولوی فضل حق آں بامایہ بکاہند کہ ازیں صدیک داماند و باز آں پایہ را بہ سر رشتہ داری عدالت دیوانی سنجتہ ہنوز یں عہدہ دوں مرتبہ ولے خواہد بود‘۔‘‘(سرگذشتِ غالبؔ ص ۵۹)
       اس تاریخی حقیقت سے ہر اہل فہم اور ذی علم واقف ہے کہ سرزمین ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کی تحریک کے قائدِ اعظم کی حیثیت علامہ فضل حق خیرآبادی ہی کو حاصل ہے۔ چند متعصب مورخین کو چھوڑ کر ہر کوئی اس بات پر متفق ہے کہ علامہ ہی کی ذات وہ پہلی شخصیت ہے جس نے انگریزوں کے خلاف علَمِ جہاد بلند کرنے کا فتوا صادر فرمایا اور جس کے نتیجے میں سرزمین ہند کے مختلف بلاد و امصار میں انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت و شورش برپا ہوئی جسے ہم ۱۸۵۷ء کی پہلی جنگِ آزادی کے نام سے جانتے ہیں ۔ علامہ فضل حق خیرآبادی کو اس زمانے میں گرفتار کرکے ان پر انگریزی حکومت سے بغاوت کرنے کی پاداش میں جزائرِ انڈومان سزائے کالا پانی کے طور پر بھیج دیا گیا۔علامہ فضل حق خیرآبادی کی اس قید و بند کی صعوبتوں کے دوران جب کہ آپ دہلی سے بہت دور جلاوطنی کی زندگی گذار رہے تھے،غالبؔ کے ذہن و قلب پر آپ کی یاد تازہ ہی رہی اور گاہے بگاہے علامہ کا ذکر غالبؔ اپنے خطوط میں کیا کرتے تھے۔چنانچہ شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں  :
       ’’(غالبؔ ) نے انہی کی نسبت یوسف مرزا کے نام ایک خط میں لکھا ؛مولانا کا حا ل کچھ تم سے مجھ کو معلوم ہوا،کچھ مجھ سے تم معلوم کرو،مرافعہ میں حکم دوام حبس بحال رہا،بلکہ تاکید ہوئی کہ جلد دریائے شور (کالا پانی)کی طرف روانہ کرو۔‘‘(غالبؔ نامہ ۱۴۰)
       علاوہ ازیں اکتوبر ۱۸۶۱ء کے خط میں منشی داد خان سیاحؔ کو غالبؔ لکھتے ہیں  :
       ’’ہاں خان صاحب!آپ جو کلکتہ پہنچیں اور سب صاحبوں سے ملیں،تو مولوی فضل حق کا حال اچھی طرح سے دریافت کرکے مجھ کو لکھیںکہ اس نے رہائی کیوں نہ پائی اور وہاں جزیرے میں اُس کا کیا حال ہے؟‘‘(غالبؔ نامہ ۱۴۱)
       جب جزیرۂ انڈومان میں غریب الوطنی کے عالم میں اسیرِ زنداں،مجاہدِ جلیل علامہ فضل حق خیرآبادی وصال فرماگئے تو مرزا غالبؔ کو کتنا گہرا صدمہ اور رنج و غم پہنچا اس کا اندازہ غالبؔ کے اس خط سے لگایا جاسکتا ہے جو غالبؔ نے علامہ کے سانحۂ ارتحال پر شیخ عبداللطیف بلگرامی کو تحریر کیا تھا،ذیل میں اُس خط کا اقتباس خاطر نشین کریں   :
       ’’کیالکھوں اور کہوں؟نور آنکھوں سے جاتا رہااور دل سے سرور،ہاتھ میں رعشہ طاری ہے۔کان سماعت سے عاری ہے   ؎
عتابِ عروساں در آمد بجوش
صراحی تہی گشت و ساقی خموش
       فخرِ ایجاد و تکوین مولانا فضل حق ایسا دوست مرجائے غالب نیم مردہ،نیم جاں رہ جائے   ؎
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی‘‘
(ماہ نامہ اردوئے معلی ،علی گڑھ،دسمبر۱۹۰۷ء ،ص ۳۲)
       جنگ ِ آزادیِ ہندوستان کے مجاہدِ اعظم علامہ فضل حق خیرآبادی اور مرزا غالبؔ کے دیرینہ تعلقات و مراسم پر اس اجمالی جائزے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مرزا اسداللہ خان غالبؔکہ جن کی نظروں میں بڑے بڑے علما و شعرا و ادبا نہیں جچتے تھے وہ علامہ فضل حق خیرآبادی کی بہت قدر و منزلت اور عزت و احترام کیا کرتے تھے۔علامہ کی وفاتِ حسرت آیات پر غالبؔ نے جس درجہ گہرے رنج وغم کا اظہار کیا تھا اس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مرزا غالبؔ کے ذہن و قلب پر علامہ کے فضل و کمال اور دانش و بینش کی کتنی گہری چھاپ تھی۔ غالبؔ ،علامہ کے بڑے قدرداں تھے۔علامہ نے بھی غالبؔ کے طرزِ سخن کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اس کی ’’اخلاقی اصلاح‘‘ کا کام بھی انجام دیا اور برے اوقات اور عسرت و تنگ دستی کے دوران غالبؔ کی مالی مشکلات کو دور کرنے میں ہر ممکن کوشش کی۔غرضیکہ غالب ؔ کی شہرت، عظمت،رفعت اور فنی علوئے مرتبت میں علامہ فضل حق خیرآبادی کا بہت بڑا حصہ ہے۔

(روزنامہ اردو ٹائمز ،ممبئی اتوار ۔۱۸؍ جنوری ۲۰۰۴ئ،ص۱۲)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں