منگل، 30 اکتوبر، 2012

ڈاکٹر مُشاہدؔ رضوی ۔۔۔۔ اک تعارف



ڈاکٹر مُشاہدؔ رضوی ۔۔۔۔ اک تعارف
از قلم : شبیر آصف ، مالیگاؤں

       میرے ذمہ ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی کا تفصیلی تعارف ہے ۔ مَیں شکیب جلالی کے اس شعر سے موصوف کا تعارف شروع کرتا ہوں کہ ؂
شکیب اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہوجائے
              اور
ملا تو آنکھ میں چاہت کا اک زمانہ تھا
وہ شخص جس سےتعارف بھی غائبانہ تھا
       محمد حسین حاجی عبدالرشید برکاتی کا قلمی نام محمدحسین مشاہد رضوی ہے ۔ آپ 1979ء میں شہرعزیز میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم میونسپل اردو پرائمری اسکول میں پائی اور ثانوی تعلیم اے ٹی ٹی ہائی اسکول میں ۔ اے ٹی ٹی میں اردو کے مضمون مین ٹاپ کیا اور مہاراشٹر اردواکیڈمی سے ایوارڈ حاصل کیا ۔ بعدازاں آپ نے ڈی ایڈ ، بی اے اور ایم اے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ۔ آپ نے بی اے اور ایم اے میں بھی اردو کے مضمون میں ٹاپ کیا اور مہاراشٹر اردو اکیڈمی سے ایوارڈ حاصل کیا ۔ پھر یوجی سی کے تحت مقابلہ جاتی امتحان NETیعنی نیشنل ایجوکیشنل ٹیلنٹ میں شریک ہوئے اور اس مشکل ترین امتحان میں فرسٹ اٹیمپٹ میں کامیابی حاصل کی ۔
       اس کے بعد محمدحسین مشاہد رضوی صاحب نے ڈاکٹر رفیق زکریا کالج اورنگ آباد کے شعبۂ اردو کی صدر محترمہ ڈاکٹر شرف النہار کی نگرانی میں "مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی نعتیہ شاعری " پر اپنا تحقیقی مقالہ مکمل کیا اور مراٹھواڑہ یونی ورسٹی اورنگ آباد سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے سرفراز ہوئے ۔
       ان علمی و ادبی اور تحقیقی کارناموں کے علاوہ حسین صاحب کا ایک تخلیقی کارنامہ بھی ہے ۔ ان کے نعتیہ کلام کا مجموعہ "لمعاتِ بخشش" شائع ہوکر مقبول ہوچکا ہے۔ 240 صفحات کایہ مجموعۂ نعت صور ی اور معنوی اعتبار سے بلند معیار ہے ، ان کی تخلیقی صلاحیتیں نعت گوئی کے لیے وقف ہیں    ؂
مدحتِ شافع محشر پہ مقرر رکھا
میرے مالک نے مرا بخت اجاگر رکھا
       مُشاہد صاحب کے علمی اور ادبی مضامین اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔
       مُشاہد صاحب ضلع پریشد کی پرائمری اسکول میں مدرس ہیں جن کا اسکول نیاے ڈونگری تعلقہ ناندگاؤں ضلع ناشک میں ہے ۔ ایسے کارہاے نمایاں اور وہ بھی 32 برس کی عمر میں    ؂
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشد خداے بخشندہ
       میں اپنے اس شعر سے مشاہدصاحب کے تعارف کا اختتام کرتا ہوں اور یہ ان کی نذر کرتا ہوں     ؂
ریت میں پھول کھلانا کوئی آسان نہیں
مَیں نے صحراوں میں آبلہ پائی کی ہے
 مئی 2011ء کو تقریبِ تہنیت براے محققین اردو ادب میں پڑھا گیا تعارفی مضمون جس 18 ڈاکٹر مشاہدرضوی کو وقار قلم ایوارڈ سےنوازا گیا میں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں