کلیمؔ شاہدوی…مترنم بحروں کے مقبول نعت گو شاعر
٭ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی، مالیگاؤں
مرحوم کلیمؔ شاہدوی شہر مالیگاوں کے صالح فکر و نظر کے
امیٖن،ایک معتبر ومستند،زوٗد گو اور کہنہ مشق مقبولِ عام نعت گو شاعر گزرے ہیں۔آپ
کی ولادت ضلع دھولیہ کے شاہدہ میں ہوئی، تلاشِ روزگار کے سلسلے میں مالیگاوں آئے
اور یہیں فروکش ہوگئے۔ ۱۹؍ مارچ ۲۰۰۲ء کو آپ نے اس دارِ
فانی کو الوداع کہا۔ آپ کو شہرِ سخن مالیگاوں کے استاذ الشعرا جناب اخترؔ
مالیگانوی سے شرفِ تلمّذ تھا۔
مرحوم کلیمؔ شاہدوی نے شاعری کی کئی مروّجہ اصناف میں بھر پور
طبع آزمائی کی۔ ویسے آپ کی شناخت حمدیہ و نعتیہ شاعری، بزرگانِ دین کی شان میں
مناقب و قصیدہ نگاری، گاگر، چادر اور سہرا نویسی سے ہوئی،علاوہ ازیں شہیدِ
کربلاامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت،اہلِ بیتِ اطہار، آپ کے رُفقارضی
اللہ عنہم اجمعین اور واقعاتِ کربلا پر مشتمل کلیمؔ صاحب نے مختلف ہئیتوں میں
مراثی بھی قلم بند کیے۔مذہبی و اصلاحی موضوعات پر آپ نے بڑی دل کش اورشان دار
نظمیں بھی تحریر کیں جن میں بعض نظمیں زباں زدِ خاص و عام ہیںجیسے ؎
اے جانے والے مدینہ
بستی مرے نبی سے سلام کہنا
یہی تمنا ہے چشمِ تر کی
مرے نبی سے سلام کہنا
………
السلام اے مرے ہم وطن
ہم نوا ، ہم مدینہ چلے ہم مدینہ چلے
آگیا ہے پیامِ حبیبِ
خدا ، ہم مدینہ چلے ہم مدینہ چلے
کلیمؔ صاحب کا واقعاتِ کربلا پر مبنی ایک مجموعہ ’’پیغامِ
کربلا‘‘ متعدد بار شائع ہوکر اہلِ عقیدت و محبت سے خراجِ تحسین حاصل کرچکاہے۔
’’عرفانِ کلیم‘‘ کے نام سے حمد و نعت ،مناجات و سلام وغیرہ پر مشتمل پاکیزہ اور
قابلِ احترام مجموعۂ کلام بزمِ اکبر(محفلِ میٖلاد)، اسلام پورہ، مالیگاؤں نے ۱۹۸۸ء میں پہلی بار طبع
کروایا۔بعد ازاں اس مجموعہ کے بھی کئی ایڈیشن منظر عام پر آچکے ہیں۔جن سے کلیمؔ
صاحب کے کلام کی عوامی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔’’عرفانِ کلیم‘‘ کے اوّلین
ایڈیشن کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے یہ مقالہ ہدیۂ ناظرین ہے۔
’’عرفانِ کلیم‘‘ میں شامل بیش تر نعتیہ کلام آپ کی اعلا شعری
بصیرت و بصارت،صالح فکر و تخیل،فنِّ شاعری سے گہری واقفیت،زبان و بیان پر قدرت کے
ساتھ ساتھ سرورِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بے پناہ اُلفت و عقیدت،محسنِ
انسانیت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے شہرِ پاک مدینۂ منورہ سے والہانہ
لگاو،سیرتِ طیبہ سے آگاہی اور تصوف و معرفت کے رموٗز و اَسرار کا آئینہ دار ہے۔
میٖلاد خوانی کی بابرکت محفلوں میں شہر مالیگاوں کے علاوہ مہاراشٹر اور مدھیہ
پردیش کے دوٗر دراز علاقوں کی بیش تر میٖلاد خواں تنظیمیں زیادہ تر آپ ہی کے کلام
کو پڑھتے ہیں،دراصل کلیمؔ صاحب کے کلام میں بلا کی موسیقیت اور نغمگی ہے ۔ آپ نے
انتہائی مترنم بحروں میں شاعری کی ہے،نیز آپ کا طرزِ اسلوب بھی متاثر کُن ہے۔ ذیل
میں ’’عرفانِ کلیم‘‘سے چند اشعار نشانِ خاطر فرمائیں جن سے کلیمؔ صاحب کی اعلا
شعری صلاحیت مترشح ہوتی ہے ؎
مدینے کی منزل قریب
آرہی ہے مسلسل نبی کا پیام آرہا ہے
ادب سے جھکی جارہی ہیں
نگاہیں الٰہی یہ کیسا مقام آرہاہے
جس جگہ ذکرِ خیرالورا
ہوگا اُس جگہ پر ہی فضلِ خدا ہوگا
جس نے کلمہ نبی کا پڑھا
ہوگا وہ بشر جنتی مرحبا ہوگا
گل زارِ مدینہ خلدِ
بریں ، ہر ذرّہ جہاں کا لعل و گہر
اور گنبدِ خضرا نورِ
یقیں ، روضہ کی سنہری جالی ہے
مرحبا کیا ہے شانِ محمد
کوئی یہ شان والا نہیں ہے
سیکڑوں یوں تو آئے
پیمبر عرش پر کوئی پہنچا نہیں ہے
جس سے کونین میں اجالا
ہے
وہ مدینے کا رہنے والا
ہے
کلیمؔ صاحب کے کلام کے موضوعات میں پاکیزگی و طہارت ہے۔ عقیدۂ
توحید، عرفانِ خداوندی،رسولِ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا رتبۂ بلند،حضور
ختمیِ مرتبت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اختیارات و تصرفات،عقیدے سے گہری وابستگی،تصوف
و معرفت،فلسفہ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود،شہرِ رسول(ﷺ)مدینۂ منورہ سے گہرا
لگاو،زیارتِ مدینۂ منورہ کی شدید خواہش،فرقتِ مدینہ کا سوزِ دروٗں وغیرہ موضوعات
آپ کے کلام کی زیریں رَو میں پنہاں ہیں ، ذیل میں چند مثالیں خاطر نشین ہوں ؎
ترا جلوہ بر سرِ طور ہے
ترا ہر چمن میں ظہور ہے
ترا ذکر کرتا ہے گلستاں
تری شان جل جلالہٗ
حق کی گرہ نگاہ پہ
کھلتی چلی گئی
توحید کا سراغ لگاتے
چلے گئے
حُسنِ محمدی کا سہارا
لیے ہوئے
پردہ حریمِ دل کا
اٹھاتے چلے گئے
آپ نے چھلکادیا جب
ساغرِ وحدت کلیمؔ
ایک عالَم واقفِ
اَسرارِ عرفاں ہوگیا
جیتے جی ایک نظر روضۂ
اقدس دیکھوں
دل میں مدت سے ہے ارمان
مدینے والے
جانے لگتا ہے کوئی
جانبِ طیبہ جس دم
کچھ نہ ہو پھر بھی تو
احساس مگر ہوتا ہے
وہ ظلمت خانۂ عالم میں
چمکا دین کا سورج
کہ جشنِ عید
میٖلادالنبی شمعِ ہدایت ہے
کلیمؔصاحب کی لفظیات میں سادگی و صفائی ہے۔روزمرہ محاورات،عربی
و فارسی کی آمیزش اور ہندی بھاشا کا گہرا رچاوہے؛کہیں کہیں پورَبی بولی کا فن
کارانہ استعمال بڑالطف دے جاتا ہے۔ان شاعرانہ محاسن سے آپ کے اسلوب میں ایک کیف
آگیں بانکپن پیدا ہوگیا ہے۔علاوہ ازیں آپ کے کلام میں جو سلاست و روانی،شگفتگی و
پختگی،جذبے کی صداقت و سچائی،فکر ی بلندی،مضمون آفرینی،معانی کا عمل،اور بلاکی
موسیقیت و نغمگی ہے وہ لائقِ صد آفرین ہے ۔
آپ کا بیش تر کلام انتہائی مترنم اور موزوں بحرں پر مشتمل ہے
بہ ایں سبب آپ کے کلام کو عوامی مقبولیت حاصل ہے۔جب کوئی خوش الحان نعت خواں آپ
کے کلام کو ترنم سے گنگناتا ہے تو سامعین جھوم جھوم اٹھتے ہیںاور ایسا کیف و سروٗر
طاری ہونے لگتا ہے جس سے ذہن و قلب وجدانی کیفیت سے سرشار ہونے لگتے ہیں ؎
نورِ والشمس روے منور ،
اور واللیل زلفِ معنبر
مرحبا آپ کا جسمِ اطہر
نور ہے جس کا سایا نہیں ہے
جمالِ لاالٰہ سے ہوگئے
چودہ طبق روشن
لیے جب مشعلِ لا تقنطوا
عالی وقار آئے
توصیف کیا بیاں ہو
رسالت مآب کی
پڑھ کر دروٗد پھیلے کرن
آفتاب کی
پڑھ کے بسمِ اللہ چادر
بنائی ہے
اِنّا اعطینا کی جھالر
لگائی ہے
وحدت کے تاروں کی چادر
بنائی
ایمان کے رنگ میں ہے
رنگائی
اِنّا فتحنا سے خوب
سجائی ہے
……
یاد نبی کی موہے جب
آئے دن رات نیناں آنسوٗ بہائے
دھڑکے کریجوا چین نہ
پائے دل مورا رہ رہ ڈوبا جائے
جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ کلیمؔ صاحب کو شہرِ رسول مدینۂ
منورہ سے بے پناہ عقیدت و محبت تھی،اور آپ کے کلام میں فرقتِ مدینہ کا جابہ جا
ذکرِ جمیل ملتا ہے،آپ نے مدینۂ طیبہ جانے والے مسافروں سے جس گہرے درد و کرب اور
سوزِ قلبی سے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں سلام عرض کرنے کا
اظہار کیا ہے وہ آپ کی شہرِ مدینہ کے تئیں فداکارانہ سرشاری اور والہانہ وارفتگی
کو عیاں کرتا ہے ۔بالخصوص کلیمؔ صاحب نے مسافرینِ مدینۂ طیبہ کی روانگی کے مقدس
موقع پر جو نظمیں کہی ہیںانھیں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئیں۔ہر سا ل زائرینِ حرمین
شریفین کی الوداعی محفلوں میں خوش عقیدہ مسلمان ان نظموں کو ذوق وشوق سے پڑھتے
ہیں۔ان نظموں کاکربیہ آہنگ ہمیں خوشبوٗ اور نوٗر سے ہم کنار کرتا ہے اوروہ قاری و
سامع کو اپنے ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے ؛روح و قلب کی گہرائیوں میں اترتا چلا جاتا
ہے،بے اختیار فرقتِ مدینہ کے تصور سے آنکھیں چھلک پڑتی ہیں،اور ایک کیف آگیں
جذبات و احساسات کی چادر تن جاتی ہے۔میرا وجدا ن کہتا ہے کہ ان شآء اللہ کلیمؔ
صاحب کی یہ نظمیں آپ کو میدانِ محشر میں ضروٗر سر خروٗ کریں گی،چند اشعار نشانِ
خاطر ہوں ؎
اے جانے والے مدینہ
بستی مرے نبی سے سلام کہنا
یہی تمنا ہے چشمِ تر کی
مرے نبی سے سلام کہنا
تجھے مبارک مدینے جانا
، درِ مقدس سے فیض پانا
یہی صدا ہے دھڑکتے دل
کی ، مرے نبی سے سلام کہنا
رسولِ اکرم کا پیارا
روضہ ، جب اپنی نظروں سے دیکھ لینا
جھکا کے در پر جبین و
دل بھی ، مرے نبی سے سلا م کہنا
……………
السلام اے مرے ہم وطن
ہم نوا ، ہم مدینہ چلے ہم مدینہ چلے
آگیا ہے پیامِ حبیبِ
خدا ، ہم مدینہ چلے ہم مدینہ چلے
اُٹھ رہے ہیں قدم سوئے
طیبہ بہم ، نعرہ اللہ اکبر کا ہے دم بہ دم
سر سے باندھے کفن لب پہ
صلِ علا ، ہم مدینہ چلے ہم مدینہ چلے
وہ دیارِ مدینہ کی
رعنائیاں ، اور نورانی گنبد کی پرچھائیاں
برسے شام و سحر رحمتوں
کی گھٹا ، ہم مدینہ چلے ہم مدینہ چلے
باوجود ان شعری محاسن اور خوبیوں کے کلیمؔ صاحب کے کلام میں
بعض ایسے مضامین بھی نظم کیے گئے ہیں جو شریعتِ مطہرہ کے تقاضوں کے یک سرمنافی ہیں
جن سے فنِ نعت گوئی کے آداب سے شاعر کی روگردانی ثابت ہوتی ہے، ایسے اشعار کا ایک اچھے مجموعۂ نعت میں شامل
نہ ہونا ہی بہتر ہے ۔ اسی طرح دیگر انبیاے کرام علیہم السلام سے رسولِ کونین صلی
اللہ علیہ وسلم کا تقابل کرتے ہوئے بھی غایت درجہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔ کلیمؔ صاحب
ایسے موڑ پر بھی راہِ اعتدال سے ہٹتے نظر آتے ہیں ، مثلاً چند اشعار دیکھیں ؎
شکلِ احمد میں دیکھا
اَحَد کا جمال
میم احمد کی جس دم
ہٹائی ہے
فقط عین کا ہے پردا اے
کلیمؔ رب اور عرب میں
وہی طور کا ہے جلوہ جو
ہے جلوۂ مدینہ
نہ سمجھے تھے کلیم احمد
احد میں میم کا پردا
وگر نہ طور پر شعلوں سے
ٹکرانے کہاں جاتے
جلوۂ عرب ہی کا جلوہ
تو ہے پردۂ عین اُٹھ جائے گر ہم نشیں
ہم تو جائیں گے طیبہ
نگر سر کے بل ، اے کلیمؔ آپ گر طور پر جائیں گے
جلوۂ طور گر دیکھنا ہے
سر کے بل چلیے سوے مدینہ
اے کلیمؔ ہے ادب کی جگہ
یہ وادیِ طورِ سینا نہیں ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں