لمعاتِ
بخشش پر لفظے چند
تنقید
نگار:پروفیسر مظہرؔ صدیقی ، مالیگاوں
محمد حسین مُشاہدؔ رضوی کا دیوانِ نعت’’لمعاتِ بخشش‘‘ میرے
ہاتھوں میں ہے ۔ میں اس بات کا دعویٰ تو نہیں کرتا کہ مُشاہدؔ صاحب کے بعد شاید
میں تنہا شخص ہوں جس نے دیوان کی مکمل خواندگی کا شرف حاصل کیا ۔ ہاں! اتنا ضرور
ہے کہ میں نے تقریباً مکمل دیوان کی خواندگی کی ہے۔
شاعری اپنی خصوصیات کے لحاظ سے اپنے اندر ایک جہاں آباد رکھے
ہوئے ہے، پروفیسر یوسف سلیم چشتی تحریر فرماتے ہیں ’’شاعری وہ ملکۂ فطری ہے جس کی
بدولت معمولی سی بات کو ایسے موثر اور دلکش انداز میں ادا کرسکے جسے سن کر صاحبِ
دل بے اختیار تڑپ اٹھے اس پر ایک عالمِ کیف و سرور طاری ہوجائے ۔اور شعر بلا کوشش کے صفحۂ دل پر نقش ہوجائے۔‘‘
حسرتؔ موہانی فرماتے ہیں
؎
شعر دراصل ہے وہی حسرتؔ
سنتے ہی دل میں جو اتر
جائے
انگریزی شاعر کیٹسؔ کی نظر میں: ’’ شاعری انتہائی درجہ کی حیرت
سے ہم آغوش کرتی ہے۔‘‘ اسی طرح انگریزی زبان کے ایک اور شاعر شیلےؔ فرماتے ہیں:’’
شعر نام ہے قلبی جذبات کا موزوں الفاظ میں استعمال کرنے کا۔‘‘…………علامہ اقبالؔ
گویا ہیں کہ ؎
حق اگر سوزے نہ دارد
حکمت است
شعر می گردد چوں سوز از
گرفت
یعنی سچائی ایسے کہنا
کہ سوزِ دل بھی شامل ہوجائے۔
’’شاعری جو حسن کی باز آفرینی تھی، اس کے حسن کے دو عناصر
قرارپائے ۔ حسنِ الفاظ اور حسنِ خیال ۔‘‘(پروفیسر عتیق احمد صدیقی)
لطیف تخیل کی بلند پروازی، سحر بیانی، جدت طرازی، جاں گدازی ،
جذباتِ قلبی کا اظہار ، حکیمانہ تفکر، تنوعِ موضوعات ، رمزیہ کنایہ، تشبیہہ،
استعارے، بلاغت، سلاست،اصلیت، وغیرہ یہ و ہ چند آبدار موتیاں ہیں جو اس ملکۂ
فطری کے گلے میں پڑے ہوئے خوبصورت ہار میں جڑے ہوئے ہیں جو اس کے حسن کو چار چاند
لگادیتے ہیں۔
لیکن نعت ِ پاک میں ان تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ ، خیالات کی
پاکیزگی و طہارت ، نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت اور قرینۂ ادب
بھی اگر شامل ہوتو وہ نورانی ماحول پیدا ہوجاتا ہے جس کے سامنے چار چاند بھی پانی
بھرتے نظر آتے ہیں ۔ سچ ہے شاعری میں نعت گوئی وہ صنف ہے جہاں ذرا سی قلمی لغزش ،
شاعر کے لیے دنیا و آخرت دونوں برباد کردینے کے لیے کافی ہے۔
میرے ان ابتدائی کلمات کا خدارا آپ یہ مطلب مت لیجیے کہ
مذکورہ بالا تمام ترخوبیاں مُشاہدؔ کے دیوان میں موجود ہیں ۔ لیکن اس میں کوئی شک
نہیں کہ کسی نہ کسی دردجہ میں ان میں بعض بلکہ اکثر خوبیاں مُشاہدؔ کے یہاں موجود
ہیں۔ علاوہ ازیں فی زمانہ اچھے اچھے شعرا اپنے دیوان کی اشاعت کی دیوانگی کا
مظاہرہ نہیں کرپاتے، لیکن مُشاہدؔ میں یہ دیوانگی ہے جس کا ثبوت ’’لمعاتِ بخشش‘‘
ہے۔
شاید آپ اس بات کے منتظر ہوں گے کہ شاعری کی جن خوبیوں کا
اظہار میں نے اوپر کے سطور میں کیے ہیں اس دعوے کی دلیل کے طور پر کچھ منتخبہ
اشعار کو اس مضمون کا حصہ بناؤں ،میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا ہے ۔ اگر یہ
کام میں کردیتا تو پھر آپ کیا کرتے؟ میں چاہتا ہوں لمعاتِ بخشش کا آپ خود مطالعہ
کیجیے ، اور آپ خود اپنی راے قائم کیجیے۔
ہاں! ایک مشورہ مُشاہدؔ کو ضرور دینا چاہوں گا ۔ شاعری کیجیے
بلکہ نعت زیادہ سے زیادہ لکھتے رہیے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دو باتیں بغور سنیے
اوّل تو اپنا مطالعہ بالخصوص شعر و نعت کا مطالعہ مزید بڑھائیے ، تاکہ آپ کی
طبیعت رواں دواں رہے اور دوم یہ مت بھولیے کہ استاد کے بغیر گھر خالی ہوتا ہے۔
زبان ، بیان و بحور کے پیشِ نظر آپ کی مَے انگبیں پیمانے سے چھلکی پڑ رہی ہے۔
اپنی کسی ایک غزل کا مطلع مجھے یاد آرہا ہے ، جس پر اپنا قلم روک رہا ہوں ؎
رہروے بے رہنما منزل
رسا ہوتا نہیں
کاش میں بھی رہروے بے
رہنما ہوتا نہیں
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں