محمد حُسین مُشاہدؔ رضوی…
ایک سچے اور باخبر نعت گو شاعر
شاہد ندیم(ریسرچ اسٹوڈنٹ شعبۂ اردو بھاگل پور یونی ورسٹی ، بھاگل پور
محمد حُسین مُشاہدؔ رضوی(مالیگاؤں،ناسک مہاراشٹر) پیشۂ معلمی
سے وابستہ ہیں۔اردو میں ایم۔اے کے علاوہ NETپاس ہیں۔مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی
کے فرزند مولانا مصطفی رضا نوریؔ بریلوی کی نعتیہ شاعری کے حوالے سے ڈاکٹر بابا صاحب
امبیڈکر مراٹھواڑہ یونی ورسٹی ست ڈاکٹریٹ کررہے ہیں۔ درس و تدریس کے لحاظ سے بہترین
اساتذہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔علمی و ادبی دنیا میں اچھے نثر نگار کی حیثیت سے متعارف
ہیں ،لیکن میرے نزدیک اُن کی یہ خوبیاں اہمیت کی حامل نہیں ہیں بل کہ لائقِ قدر و منزلت
اور قابلِ تحسین و آفرین مُشاہدؔ رضوی کا وصفِ شاعری ہے جو حمد و مناجات و دعا اور
نعت و منقبت اور سلام پر مشتمل ہے۔
نعت گوئی رحمۃ للعالمین
ﷺ کی ثنا خوانی ہے جو ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں بل کہ یہ سعادت مندی اور
فیروز بختی انھیٖںخوش قسمت افرا د کو ملتی ہے جن پر ربُ العالمین جل و علا کا فضل و
کرم ہوتا ہے۔حبیبِ خدا ﷺ کی شان میں قصیدہ
خوانی کرنا ایک طرح سے عبادت ہے۔بارگاہِ رسالت مآب ﷺ کا ادب و احترام ہر مسلمان کے لیے لازمی عمل ہے۔خود
قرآن میں اللہ پاک نے آپ ﷺ کے اوصافِ عالیہ
،خصائصِ حمیدہ اور شمائلِ اقدس کا ذکرِ جمیل کیا ہے اور نعت گوئی کا قرینہ بتایا ہے۔لہٰذا
ایسی عظیم بارگاہ میںجو کہ ممدوحِ خالقِ کائنات ہے؛ نذرانۂ عقیدت پیش کرنا کتنا دشوا
گذار امر ہوگااس کا اندازہ اہلِ علم کو بخوبی ہے۔ویسے اللہ کے کچھ بندے اُسی کی خاص
عطا سے نعت گوئی کی سعادت سے مُشرّف ہوجاتے ہیں اُنھیں خوش نصیبوں میںبلاشبہہ محمد
حسین مُشاہدؔ رضوی کا شمار ہونا چاہیے۔
حال ہی میں مُشاہد ؔرضوی نے بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں اپنا نعتیہ دیوان’’لمعاتِ بخشش‘‘ کا نذرانہ
ٔ عقیدت و محبت پیش کیا ہے۔جس میں شامل زیادہ
تر نعتیںغزل کے فارم میں لکھی گئی ہیں ۔جذبہ و تخیل اور عشقِ نبی ﷺ کے سوز و ساز کے اعتبار سے کلامِ مُشاہدؔ بلند
پایہ ہے۔مذکورہ دیوان میں انھوں نے اپنے کسی نہ کسی نعتیہ شعر سے کوئی لفظی ترکیب نکال
کر نعت کا عنوان دیا ہے۔ مثلاً:خدا کایقین، سایۂ زلفِ رحمت، جلوۂ زیبا، الطافِ خسروانہ،
قاسمِ روزگار، باعثِ کن فکاں، شہِ کارِ قدرت، صہبائے طیبہ،نبوی طلعت،صد رشکِ خلد،کیفِ
حسنِ آقا،توشۂ نجات،تجلیٖہائے جاناں،مصطفاے ذاتِ یکتا،شعورِ زندگی،ادراکِ نظم و ضبط،کوچۂ
پُرنور،نوعِ بشر کی آبروٗ وغیرہ وغیرہ۔
محض ان لفظی تراکیب پرشرح و نقد کی جائے تو کئی صفحات سپردِ قرطاس
کیے جاسکتے ہیں۔ذیل میں مُشاہدؔ رضوی کے چند ایسے نعتیہ اشعار ملاحظہ کیجیے جن میں
اچھی اور سچی شاعری کی تقریباً خصوصیات موجود ہیں ؎
مجھ کو غرض نہیں ہے زر و
سیٖم و مال کی
رکھتا ہوں نعلِ احمدِ مختار
کو عزیز
سُنا ہے میں نے بزرگوں سے
آگ دوزخ کی
نہ آئے گی کبھی اُن کے
قصیدہ خواں کے پاس
جو قتل کرنے کے در پَے تھے
وہ بھی کہتے تھے
امیٖن آپ امانت کی آبروٗ
بھی آپ
اشاخِ طوبیٰ کے قلم سے ہو
رقَم نعتِ نبی
تو لکھوں لالہ و گل کے میں
بنا کر کاغذ
غارِحرا سے نکلی تھی عرصہ
گذر گیا
اب بھی ہے خوب رَوشن قرآن
کی شعاع
جینے کا حق جو دُخترِ حوّا
کو مل گیا
ہے یہ بھی ایک اُن کے فیضان
کی شعاع
مُشاہدؔ رضوی نے قرآن و تفسیر اور سیرت ِ طیبہ کی روشنی میں نعتیں
لکھی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اُسوۂ حسنہ کے وہ جواہرِ عالیہ اشعار میں نظم کیے ہیںجو عہدِ
جدید میں لمحہ بہ لمحہ انحطاط پذیر اعلیٰ اخلاقی قدروں کو نکھارنے اور سنوارنے کا سامان
فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔مُشاہدؔ رضوی نے سائنس و ٹکنالوجی کی تصنع زدگی
اور سیاسی شعبدہ بازوں کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے انسانوں کی زبوں حالی پر گریہ و زاری
کی ہے ،نیز اسلامی نظم و ضبط،مساوات و عدل، صدق و صفا،اخوت و مروت اور اخلاق و کردار
کی بلندی و رفعت کو بیان کیا ہے۔جو رحمۃ للعالمین
ﷺ کی سیرتِ طیبہ کے حوالے سے عصرِ جدید حاصل کرکے آفاقی سطح پر پھیلے ہوئے
انتشار و افتراق کو ختم کر سکتا ہے ، مشاہدؔ کے ان اشعار سے ان کا وسیع مطالعہ مترشح
ہوتا ہے ؎
اوروں کا کام کرکے مسرت
سمیٹ لو
اخلاق کا انھیں سے یہ درسِ
حسیں ملا
یہ ستم شافعِ محشر نہیں
دیکھے جاتے
اہل حق ہوگئے بے گھر نہیں
دیکھے جاتے
خلوص و عدل و مساوات و نظم
و ضبط و وفا
جہاں میں بانٹتا محبوبِ
کردگار آیا
سنگ باری کے بدلے میں دعاوں
سے نوازا
لاریب! ہے بے مثل یہ کردار
نبی کا
آپ آئے سر کشی کا جنازہ
نکل گیا
پھیلادی جگ میں عظمتِ انسان
کی شعاع
اُن سے روشن ہیں شانتی کے
چراغ
امن و انصاف و آشتی کے
چراغ
علاوہ ازیں مُشاہدؔ رضوی نے اپنے نعتیہ کلام کے ذریعہ اس بات کی
طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ عصرِ موجودہ میں جب کہ ہر طرف اخلاقی پستی اور اقدار کی پامالی
عروج پر ہے،وہی شخص سر بلند ہوسکتا ہے جو اُسوۂ حسنہ اور حیاتِ طیبہ پر صدقِ دل سے
عامل و پابند ہو۔اور بارگاہِ رسالت مآب ﷺ
سے زندگی بسر کرنے کا سلیقہ و شعور حاصل کرے
؎
اسوۂ سرکار کا ہو جو کہ
پیرو روز وشب
اُس کی تو پھر حاملِ ادراک
ہوجاے حیات
جس کو ہوا حضور سے ادراکِ
نظم و ضبط
ایوانِ خسروی میں وہ مسند
نشیٖں ملا
منزلیں خود ہی قدم بوسی
کریں گی آکر
اپنی ہستی کا فقط اُن کو
ہی عنواں کرلیں
کہتے ہیں:’’ سچا شاعر وہی ہوتا ہے جس کے کلام میں عصری حسیت موجود
ہو اور جو اپنے گرد و پیش اور عہد سے باخبر ہو‘‘۔مُشاہدؔ کے کلام میں یہ خوبیاں بدرجۂ
اتم موجود ہیں ۔ ان کی لفظیات میں تنوع ہے اور کلام میں عصرِ حاضر کے سلگتے ہوئے مسائل
اور ان کے حل کے طریقِ کار بھی ان کے اشعار کی زیریں لہروں میں پنہاں ہیں۔طنز و نشتریت
بھی کلام کے اجز ا میں شامل ہیں اس سے کلام کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے۔اور کیف و ملاحت
پیدا ہوتی ہے۔فی زمانہ مغرب زدہ افراد رحمۃ للعالمین ﷺ کی ذاتِ بابرکات اور اسلامی اُصولوں کو مسخ کرکے
پیش کررہے ہیں اور اسلام جیسے امن و امان کے داعی مذہب پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں
کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اس قسم کی بے بنیاد الزام تراشی کرنے والوں پر مُشاہدؔ رضوی
کا طنزیہ انداز قابلِ دیدنی ہے جو اُن کے سچے اور باخبر نعت گو شاعر ہونے پر دلالت
کرتے ہیں ؎
ہاں امن کے دشمن تم ہی ہو
، الزام ہمیں دیتے ہو مگر
آکر کے ذرا تم دیکھ تو
لو ، اخلاقِ پیمبر کی باتیں
دشمنِ جاں کو دعاوں سے نواز
آپ نے
ہاں! نرالی اس قدر ہر ایک
سے ہے خوئے دوست
مُساوات و صفا و صدق و عدل
آگہی لے کر
جہاں میں کون آیا؟ آئے
یہ میرے نبی لے کر
آپ آئے سر کشی کا جنازہ
نکل گیا
پھیلادی جگ میں عظمتِ انسان
کی شعاع
بیواوں اور یتیموں کی نصرت
نبی نے کی
کم زوروں کو عطا ہوئی توقیر
ہر طرف
اُن کے اخلاق ہی کی خوش
بو سے ، زندگی ہے بہار کی حامل
مصطفی جانِ امن کے صدقے
،ہر تشدد جہاں سے غارت ہے
ہے یہ روشن عمل سے آقا
کے ،دوسروں کی خوشی ، خوشی سچی
بے کسوں بے بسوں کے کام
آنا،رحمتِ دوجہاں کی سنت ہے
بے حیائی عرب کا کلچر تھا،رحم
و انصاف و عدل عنقا تھے
آپ آئے تو سارے عالم میں
، چار سوٗ الفت و مروّت ہے
صنفِ نسواں کی کچھ نہ تھی
وقعت ،زندہ در گور اُس کو کرتے تھے
بنتِ حوّا کو آپ نے بے
شک، بخش دیں عزت اور عصمت ہے
مُشاہدؔ کی شاعری کے محاسن سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ الفاظ کا استعمال
بر محل اور بر جستہ کرتے ہیں۔جس پر تصنع کا شائبہ نہیں گذرتا ،آورد کی بجاے آمدآمد
کی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ کہیں کہیں آورد کا احساس بھی ہوتا ہے۔اُن
کی بعض لفظیات میں جدت و ندرت بھی ہے جو ان کے وسعتِ مطالعہ کو عیاں کرتی ہے۔مُشاہدؔ
نے جذبہ و تخیل،لب و لہجہ،زیر وبم،معنوی تلازمات،لفظی انسلاکات،محاکات و پیکرات،ترکیبات
و محاورات،تشبیہات و استعارات اور تلمیحات کے ساتھ ساتھ اپنے اردو کلام میں فارسی اور
ہندی لفظیات کی جو آمیزش کی ہے اس کی وجہ سے مُشاہدؔ رضوی کے اسلوب میں تازگی اور
متانت کے ساتھ ایک طرح کا بانکپن پیدا ہوگیا ہے ؎
نکالا ہم کو جہالت کے اندھے
غاروں سے
نہ آیا جگ میں کوئی میرے
رہِ نُما کی طرح
شاہِ کونین کی اُلفت کے
جلا کر دیپک
دل کی دنیا میں ہر ایک سمت
چراغاں کرلیں
اُن سے روشن ہیں شانتی کے
چراغ
امن و انصاف و آشتی کے
چراغ
جس پہ سرکار کا فرمان ہوا
ہے مرقوم
ہے وہ لاریب! بڑا دل کش
و سُندر کاغذ
مُشاہدؔ رضوی نے اتنی کم عمری میں وہ بھی پختہ اسلوب کے ساتھ دنیائے
اردو ادب کو نعتیہ دیوان ’’لمعاتِ بخشش‘‘ کی شکل میں جو خوبصورت اور معانی آفریں تحفہ
دیا ہے وہ یقینالائقِ صد آفرین ہے۔اس طرح مُشاہد ؔرضوی نے اردو ادب کی گراں قدر خدمت
انجام دی ہے ۔جو انھیں مالیگاوں کے ادبی افق پر زندۂ جاوید رکھے گی اور ان شآء اللہ
میدانِ محشر میں بھی سر خرو رکھے گی۔
اخیر میں جملۂ معترضہ کے طور پر ایک بات کی طرف اشارہ کرنا چاہوں
گا کہ مُشاہدؔ نے اپنی بعض نعتوں کے مقطع میں منقبت کے اشعار بھی قلم بند کیے ہیں اگرچہ
کہ ان مقطعوں میں مُشاہدؔ نے جس امر کی طرف اشارہ کیا ہے وہ نعت ہی سے مربوط ہے لیکن
میری ناقص راے میں جہاں رحمتِ عالم ﷺ کا ذکر
ہو وہاں کسی اور کا ذکر لانا مناسب نہیں۔مُشاہدؔ ہی کے ایک شعر پر قلم روکتا ہوں کہ ؎
کام مُشاہدؔ کا بن جائے
، نام مُشاہدؔ کا بھی آئے
محشر میں جب ذکر ہو آقا
آپ کے مدحت خوانوں کا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں