بدھ، 7 نومبر، 2012

حیات ِ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی



حیات ِ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی
(1310ھ1893ء تا1402ھ /1981ء)
ازقلم : ڈاکٹر محمدحسین مُشاہدرضوی

:                                      ولادت 
       تحقیق ومطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی دنیاے اسلام کے عظیم رہِ نما ، قطبِ زمانہ، مرجع العلماء و الخلائق ، رہبرِ شریعت و طریقت ، غزالی دوراں ، رازیِ زماں، با فیض مدرس ، پُر خلوص داعی، عظیم فقہیہ، مفسر ،محدث ،خطیب، مفکر، دانش ور،تحریک آفریں قائد، مایۂ ناز مصنف و محقق اور بلند پایہ نعت گو شاعر اور گوناگوں خصوصیات کے مالک تھے۔ آپ عالمِ اسلام کی مشہور شخصیت امام احمد رضا بریلوی کے فرزندِ اصغر تھے ۔آپ کا خاندان علم و فضل ، زہد و اتقا اور عشقِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں نمایاں مقام رکھتا ہے ۔آپ کی ولادت 22؍ ذی الحجہ1310ھ بمط 7 جولائی1893ء بروز جمعہ بہ وقتِ صبح صادق آپ کے چچا استاذِ زمن علامہ حسن رضا بریلوی کے دولت کدہ پر،واقع رضانگر ،محلہ سوداگران ،بریلی ، یوپی، (انڈیا) میں ہوئی۔(2)
:     اسم گرامی
       مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کاپیدایشی اور اصل نام ’ ’محمد‘‘ ہے ۔ آپ کاعقیقہ اسی نام پرہوا۔ غیبی نام ’’آلِ رحمن ‘‘ہے ۔پیر ومرشد نے آپ کا پورانام ’’ابوالبرکات محی الدین جیلانی ‘‘ تجویز فرمایااور والد گرامی نے عرفی نام ’’مصطفیٰ رضا‘ ‘ رکھا۔فنِ شاعری میں آ پ اپنے پیر ومرشد شیخ المشائخ سید شاہ ابوالحسین نوریؔ میاں مارہروی نوراللہ مرقدہٗ(م1324ئ) کی نسبت سے اپنا تخلص ’’نوریؔ ‘‘ فرماتے تھے۔ عرفی نام اس قدر مشہور ہوا کہ ہر خاص وعام آ پ کو اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔(3)
:     مشہور ترین لقب
       یوں توآپ کو علم و فضل کی بنیاد پر بہت سارے القاب سے نوازا گیا،مگر جس لقب کو شہرتِ دوام حاصل ہوئی وہ ہے ’’مفتیِ اعظم‘‘ ۔ اس کی تفصیل آ گے پیش کی جائے گی۔
:     ولادت سے قبل بشارت
        مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی ولادت سے پہلے والد ماجد امام احمد رضابریلوی اپنے پیر ومرشد حضرت سید شاہ آل رسول احمدی مارہروی (م1297ھ) کے مزارِپاک کی زیارت اور سید المشائخ سید شاہ ابوالحسین نوری ؔ مارہروی(م1324ھ) سے ملاقات کے لیے مارہرہ مطہر ہ تشریف لے گئے تھے۔اس موقع پر جو واقعات ہوئے اس کی الگ الگ روایتیںسامنے آئی ہیں، مگر ان میںفقیہ النفس مفتی مطیع الرحمن رضوی کی وہ روایت جسے آپ نے مولاناسید شاہد علی رضوی رام پو ری سے بیان کیا، بہ ایں معنی قابلِ ترجیح ہے کہ مفتی صاحب موصوف نے اس کو خودمفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی زبانی سماعت کیا ہے ۔سید شاہد علی رضوی تحریر فرماتے ہیں  :
       ؍22 ذی الحجہ1310ھ کی شب میں تقریباً نصف رات تک امام احمد رضا قدس سرہ اور سید المشائخ حضرت نوری میاں قدس سرہ کے درمیان علمی مذاکرات رہے۔ پھر دونوں اپنی اپنی قیام گاہوں میں آرام فرما ہوئے۔ اسی شب عالمِ خواب میں دونوں بزرگوں کو حضرت مفتی اعظم کی ولادت کی نوید دی گئی اور نومولود کا نام ’آل الرحمن ‘ بتا یا گیا ۔ خواب سے بیداری پر دونوں بزرگوں میں سے ہر ایک نے یہ فیصلہ کیا کہ بہ وقتِ ملاقات مبارک باد پیش کروں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ فجر کی نما ز کے لیے جب دونوں بزرگ مسجد پہنچے تو مسجد کے دروازے پر ہی دونوں بزرگوں کی ملا قات ہو گئی اور وہیں ہر ایک نے دوسرے کو مبارک باد پیش کی ۔فجر کی نماز کے بعد سید المشائخ حضرت سید شاہ ابو الحسین نوری میاں قدس سرہ نے امام احمد رضا سے ارشاد فرمایا :
       مولاناصاحب!آپ اس بچے کے ولی ہیں ۔اگر اجازت دیں تو میں نو مولود کو داخلِ سلسلہ کرلوں ۔‘… امام احمد رضا قدس سرہ نے عرض کیا :  ’حضور غلام زادہ ہے اسے داخلِ سلسلہ فرمالیا جائے ۔‘… سید المشائخ حضرت سید شاہ ابو الحسین نوری میاں قدس سرہ نے مصلا ہی پر بیٹھے بیٹھے مفتی اعظم کو غایبانہ داخلِ سلسلہ فرمالیا ۔ حضرت سید المشائخ نے امام احمد رضا کو اپنا عمامہ اور جبہ عطا فرماتے ہو ئے ارشاد فرمایا :
       میری یہ امانت آپ کے سپرد ہے جب وہ بچہ اس امانت کا متحمل ہوجائے تو اسے دے دیں ۔ مجھے خواب میں اس کا نام ’آل الرحمن ‘بتایا گیا ہے۔لہٰذا نومولود کا نام ’آل الرحمن ‘ رکھیے ۔ مجھے اس بچے کو دیکھنے کی تمنا ہے۔ وہ بڑا ہی فیروز بخت اور مبارک بچہ ہے ۔ میں پہلی فرصت میں بریلی حاضر ہوکر آپ کے بیٹے کی روحانی امانتیں اس کے سپرد کردوں گا ۔‘‘
       دوسرے روز جب ولادت کی خبر مارہرہ پہنچی تو سید المشائخ حضرت سیدشاہ ابوالحسین نوری قدس سرہ نے نومولود کا نام ’ابوالبرکات محی الدین جیلانی ‘منتخب فرمایا۔۔۔۔۔۔ا مام احمد رضا قدس سرہ نے ساتویں روز ’’محمد ‘‘ نام پر بیٹے کا عقیقہ کیا ۔(4)
       متذکرہ واقعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت جل شانہٗ کے نیک طینت اور پاک باز بندوں پر عنایاتِ الٰہیہ سے غیبی طور پر آیندہ پیش آنے والے امور منکشف ہوجاتے تھے۔مفتیِ اعظم قدس سرہ کی ولادت کی خبریں جن بندگانِ خدا نے دیں وہ اپنے عہد کے قطب اور مجدد ہیں۔انھیں نفوسِ قدسیہ کی بشارتوں کا یہ ثمرہ ہے کہ مفتیِ اعظم قدس سرہ کانام آج دنیاے اسلام کے افق پر روشن و منور ہے ۔
:                                      بیعت وخلافت 
       ؍ 6ماہ بعد جب 25 جمادی الثانی 1311ھ کو سید المشائخ سید شاہ ابوالحسین نوری میاںمارہروی (م1324ھ) بریلی تشریف لائے تومفتیِ اعظم قدس سرہ کو اپنی آغوش میں لے کر دعاوں سے نوازا اور چھ ماہ تین دن کی عمر میں ہی آپ کو داخلِ سلسلہ فرماکر تمام سلاسل کی اجازت و خلافت سے سرفراز کیا۔اور دورانِ بیعت ارشاد فرمایا کہ   :
       ’’یہ بچہ دین وملت کی بڑی خدمت کرے گااور مخلوق خدا کو اس کی ذات سے بہت فیض پہونچے گا، یہ بچہ ولی ہے ،اس کی نگاہوں سے لاکھوںگم راہ انسان دین حق پر قائم ہوں گے۔ یہ فیض کا دریابہائے گا۔‘‘(5)
       سید المشائخ نے حلقۂ بیعت میں لینے کے بعد قادری نسبت کادریاے فیض بناکر ابوالبرکات محی الدین جیلانی کوامام احمدرضا کی آغوش میںدیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
       ’’مبارک ہو آپ کو یہ ، قرآنی آیت…  ’’واجعل لی وزیرا من اہلی ‘‘ کی تفسیر مقبول ہو کر آ پ کی گود میںآگئی ہے… ’’ آل الرحمن ۔ محمد۔ ابولبرکات۔ محی الدین جیلانی۔ مصطفیٰ رضا ‘‘  (6)
       بزرگوں کے اقوال سے یہ بات مذکور ہے کہ جب کسی شخص میںمحاسن کی کثرت ہوتی ہے تو اس کاہر کام تشنۂ توصیف ہوتاہے ؛ اور لوگ ایسی جامع الصفات شخصیت کو مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔مفتیِ اعظم حضرت نوریؔ بریلوی کے نام میںپہلی نسبت رحمن سے ہے،دوسری نسبت حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلمسے ہے ،تیسری نسبت غوث اعظم علیہ الرحمہ سے ہے اور چوتھی والد گرامی امام احمد رضابریلوی سے ہے۔اگرچہ یہ اہتمام تو اکابر نے اپنی بالغ نظری سے کیامگر دنیانے اس منبعِ خیر و فلاح سے قریب ہوکر جب فیوض حاصل کیاتولوگ اپنے جذبۂ ستایش پر قابو نہ پاسکے ۔یہی وجہ ہے کہ آج آپ مختلف مبارک ناموں سے یاد کیے جاتے ہیں۔
:                                          تعلیم کاآغاز
        جب مفتیِ اعظم قدس سرہ نے ہوش وخردکی منزل میں قدم رکھا تو آپ کو زیورِ علم اور تہذیبِ اخلاق سے آراستہ کرنے کے لیے والدِ ماجد امام احمد رضا بریلوی کے قائم کردہ مدرسہ’’منظرِ اسلام‘‘ میں داخل کرایا گیا ۔ آپ نے مدرسہ کے مختلف اساتذہ سے کسبِ علم کیا مگر آپ کی تربیت میں سب سے زیادہ دخل آپ کے برادرِ اکبر مولانا حامد رضاخاں بریلوی (م1362ھ/1943ئ) کا رہا ، انھوں نے اس ہیرے کو خوب خوب تراشا ہر زاویے سے دیکھا پرکھا اور جب قوم کے روٗ بہ روٗ کیا تو بڑے بڑوں کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں ، بعد اس کے آپ نے اپنے والدِ گرامی امام احمد رضا بریلوی سے اکتسابِ فیض کیا ۔ ابتدا ہی سے ذکاوت و نکتہ سنجی ، جودتِ طبع، فکر وخیال کی بلندی، حصولِ علم میں کد وکاوش نمایاں رہی۔آپ کے اساتذۂ کرام میںبرادرِ اکبر مولانا حامد رضاخاں بریلوی، مولانا شاہ رحم الٰہی منگلوری (م1361ھ)، مولانا سید شاہ بشیر احمد علی گڑھی، مولانا ظہور الحسین فاروقی رام پوری (م1342ھ) علیہم الرحمۃکا شمار ہوتا ہے ۔
:     تعلیم سے فراغت  
       مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ نوری ؔ بریلوی نے 1328ھ/1910ء میںبہ عمر اٹھارہ سال خداد اد ذہانت، ذوقِ مطالعہ ، لگن ومحنت اور اساتذۂ کرام کی شفقت ومحبت ، والد گرامی امام احمد رضا بریلوی کی کامل توجہ اور مرشد گرامی حضرت سید شاہ ابوالحسین احمدنوری مارہروی کی روحانی عنایات کے نتیجے میں جملہ علوم و فنون، منقولات و معقولات پر عبور حاصل کیا اور دارالعلوم منظر اسلام بریلی سے فراغت پائی ۔(7)
:                                      علوم و فنون
       مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی تصنیفات و تالیفات کے مطالعہ کے بعد یہ خیال تقویت پاتا ہے کہ برِ صغیر ہند وپاک میں علومِ عقلیہ و نقلیہ کی جتنی مشہور سندیں ہیں۔آپ کا سلسلۂ تلمذ اُن سب کا جا مع ہے ۔ ذیل میں ان علوم و فنون کی فہرست پیش کی جاتی ہے جوآپ نے’’ بریلوی سلسلۂ تلمذ ‘‘کے واسطے سے نہ صرف حاصل کیے بل کہ ان میںانھیں مہارتِ تامّہ و کاملہ بھی حاصل رہی۔
              (1)   علم تفسیر      
              (2)   علم حدیث    
              (3)   اُصول حدیث        
              (4)   فقہ(جملہ مذاہب)
              (5)   اصول فقہ
              (6)   علم الفرائض
              (7)   جدل
              (9)   عقائد
              (10) کلام
              (11) نحو
              (12) صرف
              (13) معانی
              (14) بیان
              (15) بدیع
              (16) منطق
              (17) مناظرہ
              (18) فلسفہ
              (19) تکسیر
              (20) ہیئت
              (21) حساب
              (22) ہندسہ
              (23) قراء ت
              (24) تجوید
              (25) تصوّف
              (26) سلوک
              (27) اخلاق
              (28) اسماء الرجال
              (29) سیَر   
              (30) تاریخ
              (31) لغت
              (32) ادب(عربی،فارسی،اردو)
              (33) عروض وقوافی 
              (34) توقیت 
              (35) اوفاق
              (36) فنِ تاریخ و اعداد
              (37) جفر   
              (38) ریاضی  وغیرہ۔  (8)
       علوم و فنون کی یہ کثرت مفتیِ اعظم حضرت نوریؔ بریلوی کے علوے مرتبت پر دلالت کرتی ہے۔ ان علوم فنون کو آپ نے خالص اللہ و رسول (جل وعلا و صلی اللہ علیہ وسلم )کی رضا و خوش نودی اور دین و مذہب کی ترویج و اشاعت کے لیے حاصل کیا ۔مذکورہ بالا علوم و فنون آپ نے جن سلاسل سے حاصل کیے اور امام احمد رضا بریلوی نے آپ کو جن 25سلاسل اولیا و سلاسل قرآن و سلاسل حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی ان اسنادکے نقشے آیندہ صفحات کی زینت بنیں گے۔
:                                          خلافت واجازت 
       تعلیم و تربیت سے فر اغت کے بعد آپ کے والدِ ماجد امام احمد رضامحدثِ بریلوی نے آپ کو جمیع اوراد و وظائف اور جملہ سلاسلِ طریقت کی خلافت و اجازت عطافرمائی۔
:     عقد مسنون
       امام احمد رضابریلوی کے برادر اصغر مولانامحمد رضاصاحب کی اکلوتی صاحب زادی سے مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کاعقدِ مسنون1911ء میںہوا ۔جن کو مخدومۂ اہل سنت کے لقب سے یاد کیاجاتاتھا،جو 16 جمادی الثانی 1405ھ /1985ء کو وصال کر گئیں۔
:     اولاد
       مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی اولاد میں ایک صاحب زادہ محمد انور رضا خاں تولد ہوئے افسوس! جو کم سنی ہی میں انتقال فرماگئے اور آپ کے یہاں چھ صاحب زادیاںپیدا ہوئیں، جن کو آپ نے نہایت شفقت و محبت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی سیرتِ طیبہ کے مطابق تربیت دی اور فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کرتے ہوئے اپنی صاحب زادیوں کو پارۂ جگر تصور کیا ۔اُن کی پرورش و پرداخت میں حقِ پدری ادا کیا۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے نواسوں میں ہر کوئی ’’ہر گلے را رنگ وبوے دیگر است‘‘کے مصداق گلشنِ اسلام کا بے خزاں شگفتہ پھول تصور کیا جاتا ہے۔
:     حج وزیارت
       مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کوتین مرتبہ حجِ بیت اللہ شریف اور زیارتِ مواجہہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سعادت حاصل ہوئی۔آپ نے پہلاحج 1364ھ/1945ء میںاوردوسرا حج1366ھ / 1948ء میںادا کیا۔ان دونوں حج و زیارت کے دوران پاسپورٹ میں فوٹو کی قید نہیںتھی۔  جب آپ نے تیسرا حج اپنی زوجۂ محترمہ کے ہم راہ 1391ھ/1971ء میںادا کیاتو اس وقت پاسپورٹ میں فوٹو لازمی ہوگیا تھالیکن آپ کا یہ حج اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کاحامل ہے کہ آپ نے بغیرفوٹوکے حج کی سعادت حاصل کی۔اس معاملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ تقوا و طہارت کی کس بلند منزل پر فائز تھے اور فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل میں آپ کتنے غیور تھے۔(9)
:                                          نقش سراپا
         جب آپ کے حسن وجمال اور نقش سراپا پر نظر کرتے ہیں تومعلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نقش ونگار پر جو خامہ فرسائی آپ کے شاگرد و خلیفہ جناب مفتی سید شاہد علی رام پوری نے کی ہے اُنھیں کے حوالے سے معمولی حذف واضافہ کے ساتھ دیگر مصنفین نے نقل کیا ہے۔ لہٰذا اسی روایت کواعتبار کا درجہ حاصل ہے ۔ذیل میں آپ کا سراپامفتی موصوف کی زبانی خاطر نشین ہو  :
       ’’رنگت سرخی مائل سفید، قد میانہ، بدن نحیف، سر بڑا گول اس پر عمامہ کی بہار، چہرہ گول روشن وتاب ناک نور برساتاہواجسے دیکھ کر خداکی یاد آجائے، پیشانی کشادہ، بلند تقدس کا آثار لیے ہوئے، بھویںگنجان ہالہ لیے ہوئے، پلکیںگھنی بالکل سفید ہالہ نما، آنکھیںبڑی بڑی کالی چمک دار گہرائی و گیرائی لیے ہوئے، رخسار بھرے بھرے گداز روشن جلال و جمال کا آئینہ ، ناک متوسط قدرے اٹھی ہوئی ، مونچھ نہ بہت پست نہ اٹھی ہوئی، لب پتلے گلاب کی پتی کی طرح تبسم کے آثار لیے ہوئے ، دنداں چھوٹے چھوٹے ہم وار موتیوںکی لڑی کی طرح جب تبسم ریز ہوتے ، کان متناسب قدرے درازی لیے ہوئے، گردن معتدل، سینہ فراخ کچھ روئیںلیے ہوئے، کمر خمیدہ مائل، ہاتھ لمبے لمبے جو سخاوت وفیاضی میں بے مثل، کلائیاںچوڑی روئیںدار، ہتھیلیاں بھری ہوئیں گداز، انگلیاںلمبی لمبی موزوںکشادہ، پاؤں متوسط، ایڑیاںگول موزوں۔‘‘(10)
:                                          خصوصیات
       مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضانوریؔ بریلوی کی حیات و خدمات کا تحقیقی جائزہ لینے کے بعد اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ آپ گوناگوںخصوصیات اور متنوع صفات کے حامل تھے ،آپ کی ہمہ جہت خوبیوںمیں تین خوبیاںانتہائی نمایاںاور ممتاز ہیں  :
(1)عشق رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم۔یہ آپ کے خانوادے کاطرۂ امتیازہے ۔
(2)تقوا ۔ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضانوریؔ بریلوی کے عہد میںاور بعد بھی دوردور تک تقوا میںکوئی آپ کامثیل و نظیر نہیں۔
(3)تفقہ فی الدین(دیٖن کی سمجھ)۔یہ وہ امتیازی وصف ہے جس میں آپ اپنے معاصرین مفتیانِ کرام کے مقابلہ میں سب سے زیادہ نمایاں تھے۔اسی سبب سے آپ کو  ’’مفتیِ اعظم ‘‘ کے لقب سے سرفراز کیا گیا۔
       علاوہ ازیںآپ نے ہمیشہ آل رسول کااحترام کیا،غیر محرم عورتوںکوکبھی بھی بے پردہ نہیں دیکھانہ ہی کبھی غیر محرم عورتوںکوبے پردہ مرید کیا،بے شرع کو سخت فضیحت اور شریعت مطہرہ پر قائم رہنے کی نصیحت کی،آپ نے تاحیات نمازکی ادایگی میں پاسداری اختیار کی،حتیٰ کہ نماز تہجد اور دیگر نوافل پر بھی مداومت کی،طہارت کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ وضو سے رہتے ہوئے بھی ہر نماز کے لیے تازہ وضو فرماتے ،ڈاکٹروںکی ممانعت پر بھی آپ نے حالتِ بیماری میں وضو کیا،  انگریزی اشیا،دوات ،دوائیں او ردیگر کو کبھی بھی استعمال نہ کیا،آپ کی طبیعت میں مہمان نوازی کا جذبہ نہایت بلند تھا،گویا مہمان کو آپ خدا کی رحمت سمجھتے تھے اور ہر کس و ناکس سے شفقت و محبت کا سلوک کرنا آپ کی منکسر المزاجی کو ظاہر کرتا ہے ۔ غرض یہ کہ آپ سراپا خلوص ومحبت تھے ۔
:                                          وصال
       مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضانوریؔ بریلوی تاعمر اہلِ اسلام کواپنے علمی،روحانی اور عرفانی فیوض سے مالامال فرماتے رہے۔اللہ رب العزت کی مرضی و مشیت کے مطابق علم و فضل اور زہد و اتقا کا یہ روشن ستارہ 92 ؍برس کی عمر میں14؍ محرم الحرام1402ھ بمط12نومبر 1981ء بروز جمعرات شب ایک بج کر چالیس منٹ پر غروب ہوگیا ۔جوںہی ریڈیو کے ذریعہ آپ کے وصالِ پُرملال کی خبر اکنافِ عالم میں نشر ہوئی ،پورے عالمِ اسلام میں رنج و غم کی فضا چھا گئی ۔ سارا ماحول سوگوار ہوگیا ۔مختلف ممالک سے آپ کے عقیدت مند ،مریدین و متوسلین جوق در جوق اپنے اس عظیم روحانی رہِ نماکے آخری دیدار کے لیے بریلی جمع ہونے لگے۔15؍ محرم ا لحرام 1402ھ بروز جمعہ صبح تقریباً نوبجے آپ کے جسدِ خاکی کو غسل دیا گیا ۔صبح تقریباً دس بجے جنازۂ مبارک لاکھوں عشاق کی اشک بار آنکھوں سے خراجِ عقیدت و محبت وصول کرتا ہوا کلمۂ طیبہ اور درود و سلام کی پُر کیف و روحانی گونج میں کاشانۂ اقدس سے بر آمد ہوا۔یہ وہ لمحہ تھا جب ہر دل تڑپ رہا تھا ۔ ہر آنکھ برس رہی تھی ۔ہر فرد مغموم تھا گویا انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا جو اپنے اس عظیم محسن کو آخری آرام گاہ تک پہنچا نے کے لیے بریلی میں امنڈ آیا تھا۔تقریباً دوپہر سوا تین بجے نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ جس کی امامت پیر طریقت مولاناسید مختار اشرف اشرفی الجیلانی الملقب بہ سرکار کلاں کچھوچھوی نے کی۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق نمازِ جنازہ میں تقریباً پانچ لاکھ اور جلوسِ جنازہ میں تقریباً بیس لاکھ مسلمانوں نے شرکت کی۔حکومتِ وقت کے وزرا اور بیرونِ ملک کے سفرا و مشاہیر بھی بریلی حاضرہوئے۔تقریباً ہر زبان کے ملکی و بین الاقوامی اخبارات و رسائل نے حضرت نوریؔ بریلوی کے وصالِ پُر ملال پر تعزیتی پیغامات شائع کیے۔(11)
       مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضانوریؔ بریلوی کے مریدین ہندوستان،پاکستان کے علاوہ حجازِ مقدس،مصر،عراق،برطانیہ،افریقہ،امریکہ،ترکی،افغانستان،بنگلہ دیش، وغیرہ ممالک میںپھیلے ہوئے ہیں۔بڑے بڑے علما،فضلااور دانش وروںنے آپ سے شرف بیعت حاصل کیا۔ آپ کے مریدین کی تعدادایک کروڑ سے زائد ہے ، روایتوں میں آتا ہے کہ بیش تر جن بھی آپ سے بیعت تھے ۔آپ کی علمی و ادبی اور سیاسی و تدریسی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔جس کی تفصیل کے لیے ایک دفتر درکار ہے ۔اگلے صفحات پر آپ کی خدمات پر روشنی ڈالی جارہی ہے ۔
       حواشی
(1)ماہ نامہ اعلیٰ حضرت :مفتیِ اعظم نمبر ،ستمبر ،نومبر 1990ء ،ص14/15
(2)پندرہ روزہ رفاقت: پٹنہ ج 1، ش 5 ، 1؍ فروری 1982ئ، ص 6
]نوٹ :مفتیِ اعظم قدس سرہٗ کی تاریخ ولادت سے متعلق مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ’’ تاریخ ولادت بعض سوانح نگاروں نے 25؍ جمادی الاولیٰ 1310ھ لکھا ہے یہ صحیح نہیں ہے، خود حضرت مفتیِ اعظم ہند نے اپنی تاریخ ولادت 22؍ ذی الحجہ 1310ھ بتائی ہے۔ خود حضرت مفتیِ اعظم ہند سے یہ سننے والے آج بھی اتنے موجود ہیں کہ ان سب کو غلط نہیں کہا جاسکتا ، ایک شہرت یہ ہے کہ مفتیِ اعظم کا تاریخی نام ’’محمد‘‘ ہے۔ اس طرح کہ سالِ ولادت 1892ء ہے ، اوربہ حذف ِ صدی 92 کا عدد آتا ہے۔ مگر قواعد اس کی تائید نہیں کرتے ۔ سنہ ہجری و عیسوی میں تطابق کے جتنے قاعدے ہیں کسی قاعدے سے تطابق نہیں ہوتا۔ ہر قاعدے سے سالِ عیسوی 1893ء آتا ہے ۔ نہ معلوم کیسے اسے شہرت ہوگئی ۔ بہ ہرحال! 1892ء درست نہیں۔ اس کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ الملفوظ میں اَعلا حضرت کا یہ ارشاد تو مذکور ہے کہ میرے بڑے بیٹے حامد رضا کا تاریخی نام ’’محمد‘‘ ہے، ان کا سالِ ولادت 1292ھ ہے ……مقام اس کا مقتضی تھاکہ اگر واقعۃً حضرت مفتیِ اعظم کانام نامی ’’محمد‘‘ بھی تاریخی ہوتا تو اس کا تذکرہ بھی ضرور فرماتے خصوصاً جب کہ وہی جامعِ ملفوظات ہیں ۔‘‘[…(شریف الحق امجدی، مفتی: مقالہ مفتیِ اعظم اپنے فضل و کمال کے آئینے میں، مشمولہ: انوارِ مفتیِ اعظم ، رضا اکیڈمی ، ممبئی ، اکتوبر 1992ء ، ص 275 )… (  علاوہ ازیں کمپیوٹر سافٹ ویئر Hijri Gregorian Conveمشمولہ: انوارِ مفتیِ اعظم ، رضا اکیڈمی ، ممبئی ، اکتوبر 1992ء ، ص 275 )… (  علاوہ ازیں کمپیوٹر سافٹ ویئر Hijri Gregorian Converterسے بھی 22؍ ذی الحجہ 1310ھ کی عیسوی تاریخ 7؍ جولائی 1893ء بر آمد ہوتی ہے ، مُشاہدؔ )
(3) شاہد علی رضوی،سید،مفتی:مقدمہ مفتی اعظم اور ان کے خلفا ،رضا اکیڈمی ،ممبئی ،ج1 ص 20
(4) شاہد علی رضوی،سید،مفتی:مقدمہ مفتی اعظم اور ان کے خلفا ،رضا اکیڈمی ،ممبئی ،ج1 ص 22/23
(5) شاہد علی رضوی،سید،مفتی:مقدمہ مفتی اعظم اور ان کے خلفا ،رضا اکیڈمی ،ممبئی ،ج1 ص 25
(6) محمد جلال الدین قادری:محدث اعظم پاکستان ،مکتبۂ نبویہ ،لاہور ،ج۱ ص67
(7)مرزا عبدالوحید بیگ بریلوی: حیاتِ مفتیِ اعظم کی ایک جھلک، مطبوعہ بریلی، ص 6
(8) شاہد علی رضوی،سید،مفتی:مقدمہ مفتی اعظم اور ان کے خلفا ،رضا اکیڈمی ،ممبئی ،ج1 ص 31/32
(9)شریف الحق امجدی، مفتی: مقالہ مفتیِ اعظم اپنے فضل و کمال کے آئینے میں، مشمولہ: انوارِ مفتیِ اعظم ، رضا اکیڈمی ، ممبئی ، اکتوبر 1992ء ، ص 276
(10) شاہد علی رضوی،سید،مفتی:مقدمہ مفتی اعظم اور ان کے خلفا ،رضا اکیڈمی ،ممبئی ،ج1 ص 17/18
(11)ماہ نامہ اعلیٰ حضرت :مفتی اعظم نمبر ، بریلی ،ستمبر تا نومبر 1990ء ص49     {……}

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں