وجودِ
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم
دنیا میں پہلے انسان ، انسان کی پوجا کرتاتھا۔ وہ بڑی ذلت ورسوائی ، محکومی اورغلامی کی زندگی بسر کرتاتھا۔ قیصر وکسریٰ کی شان وشوکت نے اُسے لوٹ لیا تھا۔ اس کے ہاتھ پاؤں میں زنجیریں اور گلے میں طوق دال دیئے گئے تھے۔ پوپ ، کاہن ، بادشاہ ، امیر ، وزیرالغرض ایک انسان کو شکار کرنے کے لیے سیکڑوں شکاری موجود تھے۔ کلیسا کا "جنت فروش پادری" بھی اس صیدِ زبوں کو شکار کرنے کے لیے ہمیشہ کاندھے پر جال لیے رہتاتھا۔"برہمن" اس کے گلشن سے پھول توڑ لیے جاتاتھا۔ آتش کدہ کا "پروہت" اس کے خرمن کو نذرِ آتش کردیتا تھا۔ غلامی نے اس کی فطرت کو ذلیل و خوار اور پست بنادیا تھا ۔ اس کی حیات کے نغمات لہولہان ہوگئے تھے۔ زمانہ گذرگیا۔ یہاں تک کہ اللہ کے حبیب روؤف و رحیم صلی اللہ علیہ وسلم امین و صادق اور رحمتِ عالم بن کر اس خاک دانِ گیتی پر جلوہ فرما ہوئے ، اور
دنیا سے جہل وکفر کی
تاریکیاں مٹیں
انسان کو وہ رشتۂ درد
آفریں ملا
(مُشاہدؔ
رضوی)
سرورِ کائنات ﷺنے حق داروں کے حق دلائے ۔مردہ خاکستر سے شعلے
پیدا کیے۔ کوہکنوں کو پرویز کا مقام عطا کیا۔ اُن ﷺکی قوت نے تمام پُرانے رسم و
رواج اور قدیم پیکروں کو توڑدیااور نوعِ انسانی کے لیے ایک نیا نظامِ زندگی ، نیا
حصار اور نیا قلعہ تعمیر کیا۔ انھوں نے انسان کے تنِ بے جان میں نئی روح پھونک دی
۔ بندوں کو آقاؤں کے چنگل سے آزاد کیا۔ اُن ﷺ کی ولادتِ طیبہ قدامت پرستوں کے
لیے موت کا پیغام تھی اور آتش کدوں ، شوالوں اور بت کدوں کے حق میں اعلانِ مرگ
تھا۔ اُن ﷺ کے پاک ضمیر سے انسانوں میں حریت اور آزادی کا جذبہ پیدا ہوا۔
دورِ جدید نے تہذیب و تمدن ، سائنس اور ٹیکنالوجی کے صدہا چراغ روشن کیے
حقیقت یہ ہے کہ دورِ جدید نے بھی اپنی آنکھیں اسی کی آغوش میں کھولی ۔ ہمارے آقا
نبیِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے صفحۂ ہستی پر ایک نیا نقشہ کھینچا ایک نیا مذہب
اور اسلامی نظام قائم فرمایااور ایسی امت پیدا کی جو دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا
پر چھا گئی ۔ یہ وہ امت ہے جس کا سینہ عشقِ الٰہی کی آگ سے روشن ہے اس کا ذرّہ
ذرّہ آفتاب کی حریم کا شمع بنا ہواہے۔ اس کی تعلیماتِ عالیہ اور روح پرور نظام کے
کیف سے ساری کائنات رنگین بنی ہوئی ہے۔ ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم کے مطابق سرورِ
انبیا صلی اللہ علیہ وسلم سیرت وکردارا ور فضائل وشمائل میں تمام انبیا ورسل علیہم
السلام سے افضل و اعلیٰ ہیں۔ لہٰذا مخلوقات میں بعدِ خدا وہی سب سے محترم و مکرم
اور بزرگ و برتر ہستی ہیں۔ یہ وہی ہیں جن کے صدقے میں رب تبار ک وتعالیٰ نے اس
کائنات کی تخلیق فرمائی ہے ، ہاں ! ہاں! مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
ہی باعثِ تکوینِ روزگار ہیں۔ آپ آئے تو ہمیں ہر چیز میسر ہوئی اگر آپ نہ آتے تو
ذرا سوچیے کیا ہمیں کچھ ملتا؟؟ نہ عید ملتی نہ عیدِ قرباں ، بل کہ ہم خدا کو
بھی نہ پہچان سکتے ، ارے حقیقت تو یہ ہے کہ رب تعالیٰ کچھ نہ پیدا کرتا ۔۔۔
پھر ہم اس محسنِ انسانیت ﷺ کی ولادتِ طیبہ کا دن کیوں نہ منائیں ؟؟ ضرور ضرور ہم
اس محسنِ اعظم کا یومِ ولادت منائیں گے۔ اگر خردہ گیروں اور نکتہ چینوں کو یومِ
ولادت کی محفل کھٹکتی ہے تو کیا ہوا؟؟ بقولِ امام احمدرضا
خاک ہوجائیں عدو جل کر
مگر ہم تو رضا
دم میں جب تک دم ہے ذکر
اُنکا سناتے جائینگے
ہمیں چاہیے کہ ہم بادِ سموم کے جھکڑ اور ہواے مخالف کی تندی کی
پروا کیے بغیر آندھی کی زد پہ شمعِ رسالت کے گرد پروانوں کی طرح طواف کرتے رہیں
اور جشنِ ولادت کی بابرکت محفلوں میں چلنے والی نسیمِ پربہار کے جھونکوں سے مشامِ
جان وایمان کو معطر و معنبر کرتے رہیں۔اور بہ زبانِ رضا یہ گنگناتے رہیں کہ
حشر تک ڈالیں گے ہم
پیدایشِ مولاکی دھوم
مثلِ فارس نجد کے قلعے
گراتے جائیں گے
Assalamualekum !
جواب دیںحذف کریںPyare Bhai Allah Aap k Ilm me Izafa farmae.
Aap ki Har post Qabil-E-Taheseen hoti hae .
Dua Go : Azra Naz, Reading UK