|
ذکرِ میلادُالنبی صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم کیا ہے؟....مصطفی جان رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت کا
ذکر،وقتِ ولادت کی بہار کا ذکر،ان کے حالات کا ذکر،ان کی خلوت کا ذکر، ان کی
جلوت کا ذکر،ان کی نشست و برخاست کا ذکر،ان کی گفتار و اطوار کا ذکر،ان کے
معجزات کا ذکر،ان کے اختےارات کا ذکر،ان کی فتوحات کا ذکر،ان کے خصائص و فضائل
کا ذکر،ان کی زلفِ واللّیل اور رُخِ والضحیٰ کا ذکر،ان کے حسن و جمال اور کمال
کاذکر .... ان کی نبوت و رسالت کا ذکر بھی ذکرِ میلادُالنبی صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم کا عنوان ہے۔
یہ ذکر کب سے ہورہا ہے؟ اس ذکر کی مجلس کس نے سب سے پہلے سجائی؟کون کون اس بابرکت مجلس میں سب سے پہلے شریک ہوئے اور ذکر مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سُنا؟کن کے نصیب میں یہ سعادت مندی تھی؟....سنو سنو! اللہ کی کتاب قرآن مجید میں خود اللہ واحدہ و یکتا کا ارشاد ہے: وَِذ اَخَذَ اللّٰہُ مِیثَاقَ النَّبِیِّنَ لَمَا اٰتَیتُکُم مِّن کِتٰبِِ وَّحِکمَةٍ ثُمَّ جَآئَ کُم رَسُول مُّصَدِّق لِّمَا مَعَکُم لَتُمِنُنَّ بِہ وَلَتَنصُرُنَّہُ قَالَ ئَ اَقرَرتُم وَاَخَذتُم عَلٰی ذٰلِکُمصرِی قَالُوا اَقرَرنَا قَالَ فَاشہَدُوا وَاَنَا مَعَکُم مِّنَ الشَّاہِدِینَ(آل عمران،آیت81)”اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا کہ جو مَیں تم کو کتاب اور حکمت دوںپھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ جو تمہاری کتابوں کی تصدےق فرمائے تو تم ضرورضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔فرمایا کیوں،تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا؟سب نے عرض کی،ہم نے اقرار کیا۔فرمایا تو ایک دوسروں پر گواہ ہوجاؤں اور مَیں آپ تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔“(ترجمہ کنزالایمان) سبحان اللہ! یہ سب سے پہلی محفل تھی جس میں ذکرِ رسولِ اعظم کیا گیا،ان کی نبوت کا ذکر ہوااور نبوت کے بارے میں عہد لیا گیا،یہ محفل خالقِ کائنات نے سجائی تھی،انبیا و مرسلین سے عہد و پیمان لیا گیا،کس کی نبوت کے بارے میں؟جو سب نبیوں اور رسولوں کے بعد میں پیدا ہونے والا تھا،جو خاتم النبیین ہے۔اللہ تو علیم و خبیر ہے سب جانتا ہے پھر بھی اس آخر آنے والے کا ذکر اور اس کی نبوت پر ایمان لانے کا عہد پہلے آنے والوں سے لیا۔کیوں؟ تاکہ اس با عظمت کی عظمت واضح ہوجائے....اس پہلی محفل کے بعد بھی مسلسل ذکر مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محفلیں آراستہ ہوتی چلی آرہی ہے اور ان شاءاللہ ! قیامت تک ہوتی رہے گی۔ذرا قرآن پڑھو!اللہ کی مقدس کتاب کا کیا انداز ہے اللہ کے محبوبوں کے ذکر کا؟جگہ جگہ اللہ نے اپنے برگزیدہ بندوںانبیاءکے فضائل و محامد بیان کیے،ان کے اوصاف و تخصصات کا ذکر کیا،ان کی شجاعتوں اور معجزات کو بیان کیا،ان کے یومِ ولادت و وفات پرسلامتی بھیجی،ان کے مقامِ ولادت و ہجرت کی قسم یاد فرمائی(دیکھیے:سورةالبقرہ،انبیائ،مریم،قصص،بلدوغیرہ)....اور جب اپنے حبیب اور سب سے پیارے نبی کا ذکر کیا تو کبھی یا ایھاالمزمل،یاایھاالمدثر،کبھی یٰسٓ،کبھی طٰہٰ اور کبھی یا ایھاالنبی تو کبھی یا ایھاالرسول کہہ کر یاد کیا....اور کبھی والضحیٰ فرماکر چہرہ حق نما کی قسم یاد فرمائی،تو کبھیواللّیل کہہ کر ان کی زلفِ معنبر کی قسم ذکر فرمائی،سورةالبلد میںان کی خاکِ گزراور ان سے نسبت رکھنے والے شہر کی قسم یاد فرماکر اہلِ ایمان کو اندازدے دیا کہ ان کا ذکر قرآن کا شعار ہے،اسی قرآن عظیم میں ان کی تعظیم و توقیرکا حکم بھی دیااور ان کے طریقوں کو اہلِ ایمان کے لیے سب سے بہتر قرار دیا....سنوسنو! ہم مسلمانوں کی عظیم ماں سیدتنا عائشہ صدیقہ نے اسی لیے تو فرمایاہے:”ان کا خُلق قرآن ہے۔“(کان خُلقہ قرآن)۔ ان کی مدحت میں قرآن ناطق ہے،احادیث ثابت ہے،ان کے جاںنثار اصحاب نے ان کی ایک ایک ادا کو محفوظ کیا،روایت کیا،ذکر کیا،بعد میں آنے والوں کے لیے ان کی سنتوں کا نقشہ کھینچا۔کس طرح ؟اورکس عاشقانہ انداز میں؟دیکھو دیکھو!ذرا احادیث کی کتابوں کو دل کی آنکھوں سے دیکھو!اور محبت کی عینک لگا کر دیکھو!اصحابِ رسول نے ہر ہر ادائے مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو کس طرح ہم تک پہنچایا۔جیسے ہی ہمارے آقا ﷺنے لب ہائے مبارکہ کو جنبش دی، صحابہ پکار اُٹھے فقال رسول اللّٰہ ﷺ،جیسے ہی تشریف فرما ہوئے، روایت کیاجلس رسول اللّٰہ ﷺ،جب سرکار کھڑے ہوئے نقل کردیافقام رسول اللّٰہ ﷺ،حتیٰ کہ جب کسی معاملے میں حضور نے خاموشی اختیار فرمائی، صحابہ پکار اُٹھے فسکت رسول اللّٰہ ﷺ....اہلِ علم خوب جانتے ہیں،جب کسی بات پر اللہ کے حبیب سکوت اختیار فرمائے تو یہ خاموشی بھی حدیث کا مقام رکھتی ہے اور قانون کی حیثےت بھی،اسے ہی محدثین کی اصطلاح میں ”حدیثِ تقریری“ کہتے ہیں۔ اللہ اللہ! یہ تو احادیث کی روایت کا حال ہے،ذرا دیکھو!خود زمانہ رسالت میں صحابہ کرام نے ذکر رسول کی محفلیں سجائیں،نعتیں کہیں،گستاخانِ رسول کی ہجو نظم کیں۔حضرت حسان بن ثابت،حضرت رواحہ،حضرت مالک بن انس،حضرت عباس،حضرت عبداللہ بن عباس،حضرت کعب وغیرہم رضوان اللہ علیہم اجمعین دربار رسالت میں نعتیں سناتے،حضور کی ولادت کاذکر کرتے،حضور کے فضائل و کمالات،معجزات و فتوحات کا ذکر کرتے،حضور کے حسن و جمال اور صداقت و امانت کے گےت گاتے اور بارگاہِ رسالت سے دعاؤں کے سوغات لوٹتے۔احادیث و سیر کی کتابوں نے ان واقعات کو اپنے سینوں میں محفوظ کررکھا ہے،ضرورت صرف منصفانہ مطالعہ اور شرح صدرکی ہے۔ صحابہ کا دور رخصت ہوا،تابعین تبع تابعین پھر ائمہ و محدثین پھر فقہاءو علما کا زمانہ آیا،مگر ذکر میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی روشنی بڑھتی گئی،کیوں نہ بڑھے یہ سب ورفعنالک ذکرک کے جلوے ہی تو ہیں،ہر آنے والے وقت کے ساتھ ان کے اقبال کا سورج بلندہوتا ہے اور ان کے ذکر کی روشنی کو پھیلتی ہے....چناں چہ دورِ صحابہ کے بعدامام اعظم ابو حنیفہ،امام شافعی،امام مالک،امام احمد بن حنبل،امام قاضی عیاض مالکی،سے لے کر محدث ابن جوزی،امام جزری،امام ابن حجر عسقلانی،امام قسطلانی،امام غزالی،حضور غوثِ اعظم،امام جلال الدین السیوطی وغیرہم جیسے جلیل القدر اصحابِ علم و فن کی قیادت میں اہلِ ایمان نے محفلِ ذکر میلادالنبی ﷺ کااہتمام کیا۔دورِ متاخرین میںامام ربانی مجددالف ثانی،شیخ عبدالحق محدث دہلوی،شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بن شاہ عبدالرحیم محدث دہلوی،شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی،شاہ احمد سعید مجددی،حاجی امداداللہ مہاجر مکی،شاہ ابوالخیر نقش بندی،مفتی ارشاد حسین رام پوری،علامہ فضل حق خیرآبادی،علامہ فضل رسول بدایونی،امام احمد رضا محدث بریلوی،پیر مہر علی شاہ گولڑوی،علامہ علوی مالکی مکی،مولانا ضیاءالدین مدنی،مبلغ اسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی،علامہ اسماعیل نبہانی اور مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوری وغیرہم نے عاشقانِ میلادِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی رہنمائی کی،ذکرِمیلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو استدلال کی زبان عطا کی اور امت میں اختلاف پھیلانے والوں کی بیخ کنی کرکے ذکر مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو فروغ دیا۔ عقلِ ناقص دلائل کی پرستار ہے مگر عشق کو دلیل کی حاجت نہیں ہوتی،اور ایسے پیارے کے ذکر کی محفل سجانے کے لیے کسی دلیل کی کیا ضرور جس کے ذکر سے قرآن معمور ہے۔ایسی کی ولادت کی خوشی منانے کے لیے دلیل کی کیا ضرورت جس کی خاطر رب تعالیٰ نے کائنات سجائی،عرش کا شامیانہ لگایا،پہاڑوں کے لنگر بنائے ،دریاؤں کو روانی،جھرنوں کو نغمگی،پھولوںکو نکہت،باغات کو شادابی اور آسمان کوتاروں کے موتیوں سے سجایا،اور شبِ ولادت ہزاروں فرشتوںکے جلوس کو بلبلِ سدرا حضرت جبریل امین کی قیادت میں روانہ کیا....ذکرِ سرکارِ اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم روز افزو ہے،من جانب اللہ ذکر مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بلند کرنے کا وعدہ ہے ۔بلا شبہہ یہ ذکرِ سرکار اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اجالے ورفعنالک ذکرک کے جلوے ہیں۔ ذکرِ سرکار کے اجالوں کی بے نہاں رفعتیں ہیں خالد یہ اجالے کبھی نہ سمٹیں گے یہ وہ سورج نہیں جو ڈھلتے ہیں |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں