سید
الشہداء حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ : فضائل ومناقب
ترتیب
و پیش کش : ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی
اللہ تعالی نے امام الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم
کی نسبت گرامی کے سبب حضرات اہل بیت کرام وحضرات صحابۂ عظام رضی اللہ تعالی عنہم کو
امتیازی شان اور خصوصی فضیلت عطا فرمائی ،ان کے سروں پر عظمت و رفعت کا تاج سجایااور
انہیں شرافت وبزرگی کی نعمت لازوال سے مالامال فرمایا۔
اللہ تعالی نے حضرات اہل بیت کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو ہر طرح
کی گندگی خواہ وہ فکری ہو یا اعتقادی،علمی ہو یا عملی ،ظاہری ہو یا باطنی ہر طرح کی
نجاست وگندگی سے پاک وصاف رکھااور ان کی پاکی وطہارت کے بیان میں آیت کریمہ نازل فرمائی:
إِنَّمَا یُرِیدُ اللَّہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَہْلَ
الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا ۔
ترجمہ: اللّٰہ تو یہی چاہتا
ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا
کردے ۔(سورۃ الاحزاب۔33، ترجمہ : کنزالایمان)
اور حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے متعلق اپنی رضاوخوشنودی
کا اس طرح اظہار فرمایا:
رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ وَأَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ
تَجْرِی تَحْتَہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَدًا ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ
ترجمہ:ا اللّٰہ
ان سے راضی اور وہ اللّٰہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں
بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔(سورۃ التوبۃ۔100، ترجمہ کنزالایمان)
اسی طرح سورۂ نسآء میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
وَکُلًّا وَعَدَ اللَّہُ الْحُسْنٰی ۔
ترجمہ:اور اللّٰہ
نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرمایا ۔(سورۃ النساء۔95، ترجمہ کنزالایمان)
ہمارے لیے سعادت اور نجات کا ذریعہ یہی ہے کہ ہم اپنے دلوں کو حضرات
اہل بیت کرام کی محبت سے آباد کریں اور حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی
محبت سے اپنے قلوب کو روشن ومنور کریں،کیونکہ یہی وہ مقدس حضرات ہیں جو ہماری نجات
کا ذریعہ بھی ہیں اور ہمارے لیے ہدایت کا معیار بھی ہیں۔
ان ذوات قدسیہ میں بعض وہ مقدس ہستیاں ہیں جنہیں خالق کائنات نے
اہل بیت نبوت اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قرابت کے شرف سے بھی نوازا
ہے اور صحابیت کے درجۂ باکمال سے بھی بہرہ مند فرمایا ہے ، انہی مقدس باکمال وبے مثال
عبقری شخصیات میں ایک صاحبِ عظمت ورفعت ہستی ‘سید الشہداء ،شیر خدا سیدنا ابو عمارہ
امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات گرامی نمایاں حیثیت کی حامل ہے۔
چوں کہ شوال المکرم کی 11 تاریخ کو اور ایک روایت کے مطابق 7یا15شوال
المکرم کو اسلام کا ایک عظیم معرکہ "غزوۂ احد"رونما ہوا اور اس معرکہ میں
ستر(70)صحابۂ کرام جام شہادت نوش کئے‘ جن میں سرفہرست سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ
والہ وسلم کے چچا جان سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ ہیں،اسی مناسبت سے آپ کے
فضائل ومناقب ہدیۂ ناظرین کیے جاتے ہیں۔
مذکورہ آیت کریمہ کی تلاوت کا شرف حاصل کیا گیا اس میں اللہ تعالی
کا ارشاد ہے:
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَمْوَاتًا
بَلْ أَحْیَاء ٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ ۔
ترجمہ:اور جو اللّٰہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مردہ نہ خیال
کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں۔
(سورۃ اٰل عمران۔169، ترجمہ کنزالایمان)
اس آیت کریمہ میں عمومی
طور پر تمام شہداء کرام کی حیات اور انہیں ملنے والی نعمتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے،حقیقت
میںیہ آیت کریمہ سید الشہداء سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ اور آپ کے ساتھ
شہید ہونے والے حضرات کی شان میں نازل ہوئی،جیساکہ مستدرک علی الصحیحین میں روایت ہے:
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ، قال : نزلت ہذہ الآیۃ فی حمزۃ وأصحابہ
(وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَاء
ٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ۔
ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے
،انہوںنے فرمایا :یہ آیت کریمہ " وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ
اللَّہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَاء ٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ ۔ترجمہ:اور جو
اللّٰہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مردہ نہ خیال کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ
ہیں روزی پاتے ہیں۔"سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ اور آپ کے ساتھ شہیدہونے
والے حضرات کی شان میں ناز ل ہوئی ۔( المستدرک علی الصحیحین للحاکم، کتاب التفسیر،
تفسیر سورۃ الحج ،حدیث نمبر3414)
حضور
اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے نسبت قرابت ورضاعت
سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ والہ
وسلم سے نسبت قرابت بھی حاصل ہے اور رشتۂ رضاعت بھی،آپ نسبی رشتہ کے لحاظ سے حضور
اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچا جان ہیںاور چونکہ حضرت ثُوَیْبَہ رضی اللہ عنہا
نے سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو بھی دودھ پلایا ہے،اس لحاظ سے آپ حضور اکرم صلی
اللہ علیہ والہ وسلم کے دودھ شریک بھائی بھی ہیں،جیساکہ سیرت کی معروف کتاب "الروض
الانف "میں مذکور ہے
۔ ۔ ۔ وَذَکَرَ إسْلَامَ حَمْزَۃَ وَأُمّہُ ہَالَۃُ بِنْتُ أُہَیْبِ
بْنِ عَبْدِ مَنَافِ بْنِ زُہْرَۃَ وَأُہَیْبُ عَمّ آمِنَۃَ بِنْتِ وَہْبٍ تَزَوّجَہَا
عَبْدُ الْمُطّلِبِ ، وَتَزَوّجَ ابْنُہُ عَبْدُ اللّہِ آمِنَۃَ فِی سَاعَۃٍ وَاحِدَۃٍ
فَوَلَدَتْ ہَالَۃُ لِعَبْدِ الْمُطّلِبِ حَمْزَۃَ . وَوَلَدَتْ آمِنَۃُ لِعَبْدِ
اللّہِ رَسُولَ اللّہِ ۔ صَلّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ ۔ ثُمّ أَرْضَعَتْہُمَا ثُوَیْبَۃُ
ترجمہ:سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام قبول کرنے کا تذکرہ
کرتے ہوئے حضرت ابن اسحاق رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فرمایا:آپ کی والدہ حضرت ہالہ بنت
اُہَیْب بن عبد مناف بن زُہْرَہ ہیں،اور حضرت اہیب سیدہ آمنہ بنت وہب رضی اللہ تعالی
عنہا کے چچا جان ہیں،حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے حضرت ہالہ سے نکاح کیااور اس
زمانہ میں آپ کے شہزادے سیدنا عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدہ آمنہ رضی اللہ
تعالی عنہا سے عقد فرمایا،تو حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ کو حضرت ہالہ کے بطن سیدنا
امیر حمزہ رضی اللہ عنہ تولد ہوئے اور حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کو حضرت آمنہ
رضی اللہ عنہا کے بطن مبارک سے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تولد ہوئے،پھر
حضرت ثُوَیْبَہ رضی اللہ عنہا نے ان دونوں حضرات کو دودھ پلانے کی سعادت حاصل کی
۔(الروض الأنف، إسلام حمزۃ رضی اللہ عنہ)
سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ
عنہ اور شان رسالت ﷺکا دفاع
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے چالیس سال کی عمر مبارک
میں نبوت کا اعلان فرمایااورمسلسل دین اسلام کی تبلیغ واشاعت فرماتے رہے،جس کے نتیجہ
میں اسلام ترقی کرتاہوا امن و امان کی چادر پھیلاتاجارہا تھا،دن بہ دن لوگ حلقہ بگوش
اسلام ہونے لگے، اب ایسے لوگوں کی باری تھی جو جاہ و جلال ، عزت و عظمت رکھتے ہوں اور
اہل مکہ میں ان کا رعب و دبدبہ ہو اوران کی بات ٹالی نہ جاتی ہو۔
چنانچہ اعلان نبوت کے چھٹے سال ایسی مقدس ہستیاں قلعۂ اسلام میں
داخل ہوئیں؛جن سے اسلام کا پرچم مزیدبلند ہوا اور مسلمان علانیہ طور پر معبود حقیقی
کی عبادت کرنے لگے۔ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم
سے بے حد محبت کرتے تھے اور سرداران قریش میں آپ بڑی بہادری و دلیری رکھتے تھے ‘صبح
شکار کے لیے جاتے تو شام گھر واپس لوٹتے ‘ پھرخانۂ کعبہ کے طواف کے لیے آتے ، اس
کے بعد قریش کے سرداروں کی محفل میں بیٹھتے تھے۔
ایک دن معمول کے مطابق
جب شکار سے واپس لوٹے تو آپ کی بہن حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا:کیا آپ کو معلوم
ہے کہ آج ابو جہل نے آپ کے بھتیجے کے ساتھ کیسا گستاخانہ برتاؤ کیا ؟ یہ سن کر سیدنا
امیر حمزہ رضی اللہ عنہ اپنی تیر کمان لیکر ابوجہل کے پاس پہنچ گئے اور کمان سے بڑی
قوت کے ساتھ اس کے سر پر ایسا مارا کہ اس کا سر پھٹ گیا اور فرمایا: کیا تو نہیں جانتا
کہ میں بھی انہیں کے دین پر ہوں ! یہ دیکھ کر قبیلہ بنی مخزوم کے لوگ ابوجہل کی مدد
کیلیے آئے تو اس نے یہ سوچ کر کہ کہیں بنی ہاشم سے بنی مخزوم کی جنگ نہ چھڑجائے، کہنے
لگا: جانے دو! میں نے آج ان کے بھتیجے کو بہت سخت سست کہا ۔ (شرح الزرقانی علی المواہب
، ج1 ، ص 477۔سبل الھدی والرشاد ، ج2،ص332۔الروض الانف،اسلام حمزۃ رضی اللہ عنہ،ج2،ص43)
اولاد
امجاد
سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی اولاد امجاد سے متعلق کتب سیروتاریخ
میں یہ تفصیل ملتی ہے کہ آپ کو دو(2)شہزادے اور تین( 3) شہزادیاں ہیں،جیساکہ سبل الہدی
والرشاد میں مذکور ہے:
واثنان لحمزۃ عمارۃ، ویعلی، ۔۔۔وواحدۃ لحمزۃ وہی أمامۃ، ویقال
أمۃ اللہ۔۔۔ولحمزۃ أیضا ابنۃ تسمی أم الفضل وابنۃ تسمی فاطمۃ۔
حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو دو شہزادے (1)حضرت عمارہ رضی اللہ
عنہ اور (2)حضرت یعلی رضی اللہ عنہ ہیں،اور آپ کو تین شہزادیاں ہیں ،ایک شہزادی کا
نام:(1)حضرت امامہ رضی اللہ تعالی عنہا جنہیں "امۃ اللہ"بھی کہا جاتا ہے
،(2)اور دوسری شہزادی کا نام:حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا (3)اور تیسری شہزادی کا نام
:حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہے۔(ترجمہ ملخصاً)(سبل الہدی والرشاد، فی سیرۃ خیر العباد،جماع
أبواب أعمامہ وعماتہ وأولادہم وأخوالہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج11،82)
دعاے
حبیبﷺ کی برکت سے مشرف بہ اسلام
سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ
عنہ جو مشرف بہ اسلام ہوئے دراصل یہ سرور کونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی دعاء مقبول
کا نتیجہ تھا،خود سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:
أَنّہُ قَالَ لَمّا احْتَمَلَنِی الْغَضَبُ وَقُلْت : أَنَا عَلَی آبَائِی وَقَوْمِی ، وَبِتّ مِنْ الشّکّ فِی أَمْرٍ
عَظِیمٍ لَا أَکْتَحِلُ بِنَوْمِ ثُمّ أَتَیْت الْکَعْبَۃَ ، وَتَضَرّعْت إلَی اللّہِ
سُبْحَانَہُ أَنْ یَشْرَحَ صَدْرِی لِلْحَقّ وَیُذْہِبَ عَنّی الرّیْبَ فَمَا اسْتَتْمَمْتُ
دُعَائِی حَتّی زَاحَ عَنّی الْبَاطِلُ وَامْتَلَأَ قَلْبِی یَقِینًا أَوْ کَمَا
قَالَ۔فَغَدَوْت إلَی رَسُولِ اللّہِ صَلّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ فَأَخْبَرْتہ
بِمَا کَانَ مِنْ أَمْرِی ، فَدَعَا لِی بِأَنْ یُثَبّتَنِی اللّہُ وَقَالَ حَمْزَۃُ
بْنُ عَبْدِ الْمُطّلِبِ حِینَ أَسْلَمَ۔
ترجمہ:واقعہ یہ ہے کہ جب مجھ پر غصہ غالب ہوگیا تو میں نے کہا کہ
میں اپنی قوم وقبیلہ کے دین پر ہوں ،اور میں نے بڑی کشمکش میں اس اہم معاملہ میں اس
طرح رات گزاری کہ لمحہ بھر بھی نہ سویا،پھر میں کعبۃ اللہ شریف کے پاس آیا اور اللہ
سبحانہ وتعالی کے دربار میں تضرع وزاری کی کہ اللہ تعالی میرے سینہ کو حق کے لیے کھول
دے اور مجھ سے شک وشبہ کو دفع کردے،تو میں نے ابھی دعا ختم بھی نہ کی تھی کہ باطل مجھ
سے دور ہوگیا اور میرا قلب یقین کی دولت سے مالا مال ہوگیا۔ پھر صبح میں حضرت رسول
اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی تمام حالت بیان کی تو
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے میرے حق میں دعا فرمائی کہ اللہ تعالی مجھے اس
نعمت اسلام پرہمیشہ ثابت قدم رکھے۔جس وقت آپ نے اسلام قبول کیا یہ اشعار کہے
:
حَمِدْت اللّہَ
حِینَ ہَدَی فُؤَادِی
إلَی الْإِسْلَامِ وَالدّینِ
الْحَنِیفِ
میں اللہ تعالی کی تعریف بجا لاتا ہوں اور اس کا شکر اداکرتا ہوں
کہ اس نے میرے دل کو اسلام اور دین حنیف کے لیے کھول دیا۔
الدّینُ جَاءَ
مِنْ رَبّ عَزِیزٍ
خَبِیرٍ بِالْعِبَادِ بِہِمْ
لَطِیفِ
یہ وہ مبارک
دین ہے جو ایسے پروردگار کی جانب سے آیا ہے جو غلبہ والا ، بندوں کی خبر رکھنے والا
ہے اور اُن پر مہربان ہے۔
إذَا تُلِیَتْ
رَسَائِلُہُ عَلَیْنَا
تَحَدّرَ دَمْعُ ذِی اللّبّ
الْحَصِیفِ
جب اس خدائے واحد کی آیتیں ہمارے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو کامل
عقل رکھنے والے شخص کے آنسو بے اختیار بہہ جاتے ہیں۔
رَسَائِلُ جَاءَ
أَحْمَدُ مِنْ ہُدَاہَا
بِآیَاتِ مُبَیّنَۃِ الْحُرُوفِ
یہ وہ باعظمت احکام ہیں کہ اُن کی ہدایت دینے کے لیے حضرت احمد
مجتبی محمدعربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایسی روشن آیات لائے ہیں جن کے ہرحرف میں
ہدایت ہے۔
وَأَحْمَدُ
مُصْطَفًی فِینَا مُطَاعٌ
فَلَا تَغْشَوْہُ بِالْقَوْلِ
الْعَنِیفِ
اور حضرت احمد مجتبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ تعالی کی جانب
سے ہم میں منتخب اور برگزیدہ ہیںاور آپ کے ہر حکم کی تعمیل کی جاتی ہے ،تو اے لوگو!ان
کی تعلیمات کو باطل کے ذریعہ نہ چھپاؤ!۔(الروض الأنف، إسلام حمزۃ رضی اللہ عنہ ،ج2،ص43۔)
سیدنا
امیرحمزہ رضی اللہ عنہ کا سینہ نور سے معمور‘قرآن کریم کی گواہی
انسان کی خوش بختی اور
سعادت مندی یہ ہے کہ وہ دامن اسلام سے وابستہ رہے ،ایمان کے انوار سے اپنے دل و جان
کو روشن ومنور کرے،اسی لیے بندۂ مؤمن کی عین آرزو وتمنا یہی ہوتی ہے کہ جب تک وہ
زندہ رہے اسلام پر ثابت قدم رہے اور موت بھی آئے تو ایمان کی حالت میں آئے اور اس
کا خاتمہ بالخیر ہو۔یہ تو عمومی طورپر تمام اہل ایمان کی کیفیت ہے لیکن سیدنا امیر
حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات قدسی صفات وہ ہے ،جن کے سینہ کو اللہ تعالی نے اسلا
م کے لیے کھول دیا تھااور اُسے نورایمان سے معمور فرمادیاتھا۔
سورۂ زمر میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
أَفَمَنْ شَرَحَ
اللَّہُ صَدْرَہُ لِلْإِسْلَامِ فَہُوَ عَلَی نُورٍ مِنْ رَبِّہِ فَوَیْلٌ لِلْقٰسِیَۃِ
قُلُوبُہُمْ مِنْ ذِکْرِ اللَّہِ أُولَئِکَ فِی ضَلَالٍ مُبِینٍ ۔
ترجمہ:اور جو اللّٰہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مردہ نہ خیال
کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں۔(سورۃ الزمر۔22)
اس آیت کریمہ میں عمومی طور پر ان حضرات کا تذکرہ کیا گیا جن کے
سینوں کو اللہ تعالی نے اسلام کے لیے کھول دیا ہے اور انہیں روشن ومنور بھی فرمادیاہے
،نیز ان کی عظمت ورفعت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ حضرات ہرگز اس شخص کی طرح نہیں
ہوسکتے جس کا دل یادِ الہی سے غافل ہے،تاہم علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ تعالی علیہ
نے "تفسیر روح البیان"میں لکھا ہے کہ یہ آیت کریمہ بطور خاص سیدنا امیر
حمزہ اور سیدناعلی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہما کی شان میں نازل ہوئی،جیساکہ تفسیر روح
البیان میں ہے:
واعلم ان الآیۃ
عامۃ فیمن شرح صدرہ للاسلام بخلق الایمان فیہ وقیل نزلت فی حمزۃ بن عبد المطلب وعلی
بن ابی طالب رضی اللہ عنہما وابی لہب وولدہ . فحمزۃ وعلی ممن شرح اللہ صدرہ للاسلام
. وابو لہب وولدہ من الذین قست قلوبہم فالرحمۃ للمشروح صدرہ والغضب للقاسی قلبہ۔
اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ یہ آیت کریمہ ان حضرات کے حق میں
وارد ہوئی ہے جن کے سینوں میں ایمان کی شمع روشن کرکے انہیں اسلام کے لیے کھول دیا
گیا ہو۔نیز یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ آیت کریمہ سیدناامیر حمزہ رضی اللہ تعالی
عنہ اور سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں اور ابو لہب اور اس کے لڑکے
کی مذمت میں نازل ہوئی،کیونکہ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا علی مرتضی
رضی اللہ تعالی عنہ یہ وہ برگزیدہ حضرات ہیں جن کے سینہ کو اللہ تعالی نے اسلام کے
لیے کھول دیا ہے،اور ابولہب اور اس کا لڑکا ان لوگوں میں سے ہے جن کے دل سخت ہوگئے
ہیں۔تو اللہ تعالی کی خصوصی رحمت اس خوش نصیب کے لیے ہے جس کا شرح صدر ہوگیا ہو،اور
اللہ تعالی کا غضب وقہر اس کے لیے ہے جس کا دل سخت ہوگیا ہے۔ (تفسیر روح البیان،سورۃ
الزمر۔22)
القاب
مبارکہ
سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو جن مبارک القاب سے یاد کیا
جاتا ہے ان میں سے چند یہ ہیں:(1)سید الشہداء ،(2)اسد اللہ ،(3)اسد الرسول ، (4)افضل
الشہداء ،(5)فاعل الخیرات،(نیکیاں کرنے والے)(6)کاشف الکربات(مصائب کو دور کرنے والے)۔
محبوب دوجہاں
صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو آپ کا نام بھی محبوب
سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ وہ باعظمت صحابی ہیں کہ حضور اکرم
صلی اللہ علیہ والہ وسلم صرف آپ کی ذات ہی سے محبت نہیں کرتے بلکہ آپ کا نام بھی
بے حد پسند فرماتے تھے،جیساکہ اس روایت سے ظاہر ہے:
عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما ، قال : ولد لرجل منا غلام
فقالوا : ما نسمیہ ؟ فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم : سموہ بأحب الأسماء إلی حمزۃ
بن عبد المطلب ۔
ترجمہ:حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے،انہوں
نے فرمایا:ہمارے قبیلہ کے ایک صاحب کو لڑکا تولد ہوا،تو انہوں نے عرض کیا کہ اس لڑکے
کا کیا نام رکھا جائے؟تو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مجھے
سب سے زیادہ محبوب جونام ہے وہی اس لڑکے کا نام رکھاجائے!(مجھے سب سے پسندیدہ نام)"حمزہ بن عبد المطلب
"رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے۔ (المستدرک
علی الصحیحین للحاکم، ذکر إسلام حمزۃ بن عبد المطلب ،حدیث نمبر4876)
سیدنا
امیرحمزہ رضی اللہ عنہ نے حضرت جبریل علیہ السلا م کا دیدار کیا
سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے بحالت ایمان حضرت رسول اکرم صلی
اللہ علیہ والہ وسلم کا چہرۂ انور دیکھ کر صحابیت کا عظیم مرتبہ حاصل کیا اور اسی
نبی برحق صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت بابرکت میں ایک معروضہ کیا کہ وہ وحی الہی
کے امین،سدرۃ المنتہی کے مکین حضرت جبریل امین علیہ السلام کو ان کی حقیقی صورت میں
دیکھنا چاہتے ہیں،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس درخواست کو منظور فرما یا۔
جب روح الامین بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے توسیدنا امیرحمزہ رضی
اللہ عنہ سے ارشاد فرمایاکہ اوپر دیکھو!سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے جب نگاہ اٹھائی
توکیا دیکھتے ہیں کہ سامنے حضرت جبریل علیہ السلام ہیں،چنانچہ امام بیہقی رحمۃ اللہ
تعالی علیہ نے "دلائل النبوۃ "میں روایت نقل کی ہے:
عن عمار بن أبی
عمار ، أن حمزۃ بن عبد المطلب قال : یا رسول اللہ أرنی جبریل علیہ السلام فی صورتہ
. فقال : إنک لا تستطیع أن تراہ قال : بلی
فأرنیہ . قال : فاقعد ، فقعد، فنزل جبریل علیہ السلام علی خشبۃ کانت فی الکعبۃ یلقی
المشرکون علیہا ثیابہم إذا طافوا فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم : ارفع طرفک فانظر
، فرفع طرفہ، فرأی قدمیہ مثل الزبرجد کالزرع الأخضر فخر مغشیا علیہ ۔
ترجمہ:حضرت عمار بن ابو عمار رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے
کہ حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ تعالی عنہما نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ
علیہ والہ وسلم !مجھے جبریل امین علیہ السلام کا ان کی حقیقی صورت میں دیدار کروائیے!تو
آپ نے ارشاد فرمایا:آپ انہیں حقیقی صورت میں نہیں دیکھ سکتے!انہوں نے عرض کیا:یقینا
میں نہیں دیکھ سکتا،لیکن آپ مجھے دکھائیے!آپ نے ارشاد فرمایا:بیٹھ جاؤ!جب وہ بیٹھ
گئے،تو حضرت جبریل علیہ السلام خانۂ کعبہ کی اس لکڑی پر اتر آئے جس پر مشرکین طواف
کے وقت اپنے کپڑے ڈالا کرتے،پھر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اپنی
نگاہ اٹھاؤ اور دیکھو!انہوں نے اپنی نگاہ اٹھائی اور حضرت جبریل علیہ السلام کے دونوں
قدموں کو دیکھا جو زمرد کی مانند سبز کھیتی کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔تو(کثرت انوار
کی وجہ سے)آپ پر بے خودی طاری ہوگئی۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی، جماع أبواب کیفیۃ نزول
الوحی علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،حدیث نمبر3010)
ہدیۂ
درودمیزان میں سب سے وزنی عمل
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت اقدس میں درود وسلام
پیش کرنا یہ وہ حکم الہی ہے کہ اللہ تعالی نے نہ صرف بندوں کو اس کا حکم فرمایا بلکہ
وہ خود اپنے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود بھیجتا ہے ،اسی لیے سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ نے امت کو پیام دیا کثرت سے درود شریف
کااہتمام کریں‘کیونکہ حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت بابرکت میں درود پیش کرنا
میزان میں سب سے زیادہ وزنی عمل ہے،سفر معراج کے موقع پر سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ
عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت میں ملاحظہ فرمایا کہ وہ حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم کا استقبال فرمارہے ہیںاور ان سے ارشاد فرمایاکہ تمہاری نظرمیں محبوب
ترین عمل کونساہے ؟تو انہوں نے یہی عرض کیا کہ ہدیۂ درود ہی بہتر عمل اور نامۂ اعمال
میں سب سے اہم چیز اور قیمتی ذخیرہ ہے ۔جیسا کہ" نزہۃ المجالس "میں روایت
ہے :
عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم دخلت الجنۃ لیلۃ أسری بی فاستقبلنی
حمزۃ بن عبد المطلب فسألتہ أی الأعمال أفضل وأحب إلی اللہ أثقل فی المیزان فقال
الصلاۃ علیک والترحم علی أبی بکر وعمر۔
ترجمہ:حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت ہے،آپ نے
فرمایا کہ شب معراج جب میں جنت میں داخل ہوا تو حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے
میرا استقبال کیا،میں نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کونسا عمل ہے جس کو سب سے زیادہ فضیلت
والا ، اللہ تعالی کے دربار میں محبوب ترین اور میزان میں سب سے زیادہ وزنی سمجھتے
ہیں؟ انہوں نے عرض کیا:آپ کی خدمت میں درود پیش کرنا اور آپ کی شان و عظمت بیان کرنا‘نیزحضرت
ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں خدائے تعالی
سے درخواست رحمت کرنا۔ (نزہۃ المجالس ومنتخب النفائس،باب مناقب أبی بکر وعمر جمیعا
رضی اللہ عنہما،ج1،348)
جنت
میں اعلی مقام پر فائز
سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ تعالی نے حضور اکرم
صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قرابت بافیض وصحبت بابرکت سے جنت کے اعلی مقامات پر فائز
فرمایا،جیساکہ ابھی مذکورہ روایت سے معلوم ہوا کہ آپ نے سفر معراج کے موقع پر جنت
میں حضورپاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کا استقبال کیا ، اسی طرح امام حاکم رحمۃ اللہ تعالی
علیہ کی "مستدرک" اور امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی
"جامع الاحادیث"میں روایت ہے:
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ، قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم : دخلت الجنۃ البارحۃ فنظرت فیہا فإذا جعفر یطیر مع الملائکۃ ، وإذا حمزۃ متکء
علی سریر۔
ترجمہ:سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے،انہوں
نے فرمایا : حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:گزشتہ شب جب میں
جنت میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ (حضرت)جعفر (رضی اللہ تعالی عنہ) جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کررہے ہیں اور (حضرت)حمزہ
(رضی اللہ تعالی عنہ) ایک عظیم تخت پر ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔(المستدرک علی الصحیحین
للحاکم،ذکر إسلام حمزۃ بن عبد المطلب،حدیث نمبر4878۔جامع الأحادیث للسیوطی،حدیث نمبر12265۔)
آسمانوں
میں آپ کا مبارک تذکرہ
سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ
تعالی عنہ کی سیرت کے بیان اور آپ کے مبارک تذکرہ کو اللہ تعالی نے یہ رفعت و عظمت
اور قبولیت وبلندی عطا کی ہے کہ آپ کا تذکرہ صرف زمین والے ہی نہیں کرتے بلکہ آسمان
والے بھی آپ کا ذکر خیر کرتے ہیں،جیساکہ مستدرک علی الصحیحین میں روایت ہے:
قالوا : لما أصیب حمزۃ جعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول
: لن أصاب بمثلک أبدا ، ثم قال لفاطمۃ ولعمتہ صفیۃ رضی اللہ عنہما : أبشرا أتانی
جبریل علیہ الصلاۃ والسلام ، فأخبرنی أن حمزۃ مکتوب فی أہل السماوات حمزۃ بن عبد
المطلب أسد اللہ وأسد رسولہ۔
ترجمہ:حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے فرمایا:جب سیدنا
امیر حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد
فرمانے لگے:آپ کی جدائی سے بڑھ کر میرے لیے کوئی اور صدمہ نہیں ہوسکتا، پھر آپ نے
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اپنی پھوپھی جان حضرت صفیہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا:خوش
ہوجاؤ!ابھی جبریل امین علیہ السلام میرے پاس آئے تھے ،انہوں نے مجھے خوشخبری سنائی
کہ یقینا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا نام مبارک آسمان والوں میں لکھا ہوا ہے
:"حمزۃ بن عبد المطلب أسد اللہ وأسد رسولہ"سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اللہ
تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شیر ہیں۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، ذکر إسلام حمزۃ
بن عبد المطلب،حدیث نمبر ،حدیث نمبر4869)
غزوۂ احد میں چونکہ سیدنا امیرحمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت عظمی
ہوئی ،اسی لیے بہ اختصار اس کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ کی شہادت کا واقعہ ذکر کرنے کی
سعادت حاصل کی جارہی ہے:
غزوۂ
احد
غزوۂ احد 3ھ میں واقع
ہوا۔ ’’اُحُد ‘‘مدینہ طیبہ کے ایک وسیع پہاڑ کا نام ہے ،جس کے متعلق نبی برحق صلی اللہ
علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
ہَذَا جَبَلٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّہُ۔
ترجمہ:یہ (اُحُد) وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے
محبت کرتے ہیں ۔ (صحیح البخاری ،کتاب المغازی،باب احد یحبنا ونحبہ ،حدیث نمبر4083)
یہ حق و باطل کا معرکہ اسی پہاڑ کے دامن میں واقع ہوا۔ اس معرکہ
میںمسلمانوں کے کاروان حق کی تعداد سات سو (700)تھی ،جس میں صرف سو (100)صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم زرہ پوش تھے، اور قریش کا لشکر تین ہزار(3000) افراد پر مشتمل تھا، جن
میں سات سو(700) افراد زر ہ پوش تھے۔ حق و صداقت کی راہ میں جام شہادت نوش کرنے والے
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد ستر(70)تھی ‘جبکہ باطل پرستوں کے تیس (30)افراد
جہنم رسید ہوئے۔
سیدالشہداء
سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت عظمیٰ
غزوۂ احد میں سیدنا امیر
حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی مکمل شجاعت و جواں مردی کے ساتھ اہل مکہ کا مقابلہ کرتے
رہے۔ ہند بنت عتبہ کے وحشی نامی ایک حبشی غلام جو ماہر نشانہ باز تھے اور وہ دونوں
اس وقت تک مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے‘چنانچہ ان سے ہندہ نے کہا: اگر تم جنگ میں امیر
حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کردو تو تمہیں آزاد کردیا جائے گا، وہ سیدنا امیر حمزہ
رضی اللہ عنہ کا مسلسل تعاقب کررہے تھے اور موقع کی تلاش میں تھے کہ جیسا ہی موقع ملے
سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ پر نشانہ لگائیں گے۔ وہ ایک مقام پر چھپ کر بیٹھ گئے
،جب سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ مقابلہ کرتے ہوئے ان کے قریب سے گزرے تو انہوں نے
چھپ کر آپ رضی اللہ عنہ پر ایک نیزہ سے وار کیا جو سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی
ناف مبارک سے ہوکر پشت مبارک سے نکل گیا۔ اور آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ پھر ہندہ
نے سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی نعش مبارک کی بے حرمتی کی اور آپ کا شکم مبارک
چاک کرکے اس سے جگر کو نکالا اور چبا کر نگلنا چاہا لیکن وہ نگل نہ سکی۔واضح رہے کہ
بعد میں حضرت وحشی اور حضرت ہندہ دونوں کو نعمت اسلام سے سرفرازی ہوگئی !رضی اللہ عنہما۔
جس وقت آپ کی شہادت ہوئی اس وقت آپ کی عمر مبارک چوپن (54)سال
تھی۔
جیساکہ امام حاکم نے ’’مستدرک ‘‘ میں روایت کی ہے
:
حمزۃ بن عبد المطلب وقتل
یوم أحد وہو ابن أربع وخمسین۔
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم ،ذکر إسلام حمزۃ بن عبد المطلب ،
حدیث نمبر4880)
نیکیاں کرنے والے اور
مصیبتوں کو دور کرنے والے
جب سیدنا امیرحمزہ رضی
اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے شدید رنج وملال کااظہار
فرمایا اور نہایت غمگین ہوگئے یہاں تک کہ آپ کی چشمان مقدس سے آنسو رواں ہوگئے اور
جب حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شہداء احدکی نماز جنازہ پڑھائی تو ہرشہید کی نمازجنازہ
کے ساتھ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی نمازجنازہ بھی پڑھائی ، اس لحاظ سے آپ کو
یہ اعزاز وامتیاز حاصل ہے کہ سترمرتبہ آپ کی نمازجنازہ ادا کی گئی‘ چنانچہ شرح مسند
ابو حنیفہ،ذخائر عقبی اور سیرت حلبیہ میں روایت ہے:
وعن ابن شاذان من حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ : ما رأینا رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باکیا قط أشد من بکائہ علی حمزۃ رضی اللہ عنہ ، وضعہ فی القبلۃ
، ثم وقف علی جنازتہ ، وأنحب حتی نشغ، أی شہق ، حتی بلغ بہ لغشی من البکاء یقول
: یا حمزۃ یا عم رسول اللہ وأسد رسولہ : یا حمزۃ یا فاعل الخیرات ، یا حمزۃ یا کاشف
الکرب ، یا حمزۃ یا ذاب عن وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، وکان صلی اللہ تعالی
علیہ وسلم إذا صلی علی جنازۃ ، کبر علیہا أربعا.وکبر علی حمزۃ سبعین تکبیرۃ ، رواہ
البغوی فی معجمہ.
ترجمہ:حضرت ابن شاذان رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے حضرت عبد اللہ بن
مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی ہے کہ ہم نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ
وسلم کو کبھی اتنا اشک بار نہیں دیکھا جتنا کہ آپ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت
پر اشک بار ہوئے،آپ نے انہیں قبلہ کی جانب رکھا ،پھرآپ جنازہ کے سامنے قیام فرماہوئے،آپ
اس قدر اشک بار ہوئے کہ سسکیاں بھی لینے لگے ، قریب تھا کہ رنجیدگی کے سبب آپ پر بیہوشی
طاری ہوجائے،آپ یہ فرماتے جاتے:اے حمزہ !اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے
چچا،اے رسول اکر م صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے شیر!اے حمزہ ! اے نیکیوں کو انجام دینے
والے!اے حمزہ ! اے مصیبتوں کو دور کرنے والے!اے حمزہ ! اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
والہ وسلم کی جانب سے دفاع کرنے والے،حضو ر صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب نماز جنازہ
ادا فرماتے تو چار مرتبہ تکبیر فرماتے اور آپ نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی ستر(70)
مرتبہ تکبیر کے ساتھ نمازِجنازہ ادا فرمائی۔امام بغوی نے اس روایت کو اپنی معجم میں
نقل کیا ہے۔ ( شرح مسند أبی حنیفۃ،ج1،ص526۔ ذخائر العقبی۔ ج 1 ، ص : 176۔ السیرۃ الحلبیۃ،ج4،ص153۔سمط
النجوم العوالی فی أنباء الأوائل والتوالی، ج1، ص161۔ المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی۔)
عظمت
وفضیلت
سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ
عنہ کی شہادت کا جو اندوہناک واقعہ پیش آیا اور حق تعالی نے آپ کو جو سرفرازی اور
فضیلت عطافرمائی ، اس کا تذکرہ مختلف کتب حدیث وکتب تاریخ میں ملتاہے ‘ چنانچہ مستدرک
علی الصحیحین اور امام طبرانی کی معجم اوسط وغیرہ میں روایت ہے:
عن علی قال : إن أفضل الخلق یوم یجمعہم اللہ الرسل ، وأفضل الناس
بعد الرسل الشہداء ، وإن أفضل الشہداء حمزۃ بن عبد المطلب
ترجمہ:حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، آپ نے فرمایا:جس
دن اللہ تعالی تمام مخلوق کو جمع فرمائے گاان میں سب سے افضل انبیاء ومرسلین ہی رہیں
گے اور رسولوں کے بعد سب سے افضل شہداء کرام ہوں گے اوریقینا شہداء کرام میں سب سے
افضل حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ ہونگے۔( المستدرک علی الصحیحین للحاکم، ذکر إسلام
حمزۃ بن عبد المطلب،حدیث نمبر4864۔ المعجم الأوسط للطبرانی، حدیث نمبر930۔ جامع الأحادیث
للسیوطی،حدیث نمبر4003۔کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال،کتاب الفضائل من قسم الأفعال،باب
فضائل الصحابۃ مفصلا مرتبا علی ترتیب حروف المعجم،حرف الحاء ،حمزۃ رضی اللہ عنہ،حدیث
نمبر36937)
سید
الشہداء ہونے کا شرف
مخبر صادق صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے سیدنا
امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی عظیم شہادت سے متعلق ارشاد فرمایا کہ آپ شہداء امت کے سردار
ہیں،جیساکہ امام حاکم رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے روایت کی ہے:
عن جابر رضی اللہ عنہ ، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : سید
الشہداء حمزۃ بن عبد المطلب ، ورجل قام إلی إمام جائر فأمرہ ونہاہ فقتلہ ۔
ترجمہ:حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما حضرت نبی اکرم صلی
اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت کرتے ہیں،آپ نے ارشاد فرمایا:حمزہ بن عبد المطلب تمام
شہیدوںکے سردار ہیںاور ایک وہ ہستی بھی سید الشہداء ہے جو کسی ظالم بادشاہ کے سامنے
حق کا پرچم بلند کرے اور اسے بھلائی کا حکم دے اور برائی سے روکے اور وہ بادشاہ اسے
شہیدکردے۔( المستدرک علی الصحیحین للحاکم، ذکر إسلام حمزۃ بن عبد المطلب ،حدیث نمبر4872)
نیز اس روایت کو امام طبرانی نے معجم اوسط میں امام اعظم ابو حنیفہ
رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے روایت نقل کیا ہے۔( المعجم الأوسط للطبرانی،باب العین من
اسمہ علی،حدیث نمبر:4227)
لقب
’’سید الشہداء ‘‘ سے متعلق ایک شبہ کا ازالہ
یہاں یہ شبہ نہ کیا جائے کہ حدیث مبارک میںسید الشہداء سیدنا امیر
حمزہ رضی اللہ عنہ کو کہا گیاہے ،توپھر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو سید الشہداء
کیوں کہاجاتاہے؟حقیقت یہ ہے کہ سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ بھی سید الشہداء ہیں اور
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بھی سید الشہداء ہیں ،کیونکہ حدیث شریف میں حضور اکرم
صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو بھی سید الشہداء فرمایا
اور اس ہستی کو بھی سیدالشہداء کے لقب سے ممتاز کیا جو کسی ظالم بادشاہ کے سامنے حق
کو پیش کرے اور باطل کے خلاف آواز اٹھائے یہاں تک کہ جامِ شہادت نوش کرے،چنانچہ سیدنا
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے ظالم وجابر حاکم یزید پلید کے خلاف آواز اٹھائی اور
حق کا پیام پہنچایا اور آپ کو اس ظالم نے شہید کروادیا ،لہذا اس حدیث شریف کی روشنی
میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بھی سید الشہداء کہا جاتا ہے اور دونوں حضرات کا
اپنی اپنی شان کے لحاظ سے سیدالشہداء ہونا حدیث شریف کی روشنی میں حق وصداقت پرمبنی
ہے۔
شہداے
احد کی فضیلت
غزوۂ احد میں شہید ہونے والے صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم
کی خصوصی حیات سے متعلق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ اللہ
تعالی نے انہیں جنت میں امتیازی مقام ومرتبہ عطا فرمایاہے اور وہ اللہ تعالی کی عطا
کردہ نعمتوں سے استفادہ کررہے ہیں جیساکہ مسند امام احمد میں حدیث شریف ہے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا أُصِیبَ إِخْوَانُکُمْ
بِأُحُدٍ جَعَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ أَرْوَاحَہُمْ فِی أَجْوَافِ طَیْرٍ خُضْرٍ
تَرِدُ أَنْہَارَ الْجَنَّۃِ تَأْکُلُ مِنْ ثِمَارِہَا وَتَأْوِی إِلَی قَنَادِیلَ
مِنْ ذَہَبٍ فِی ظِلِّ الْعَرْشِ فَلَمَّا وَجَدُوا طِیبَ مَشَْربِہِمْ وَمَأْکَلِہِمْ
وَحُسْنَ مُنْقَلَبِہِمْ قَالُوا یَا لَیْتَ إِخْوَانَنَا یَعْلَمُونَ بِمَا صَنَعَ
اللَّہُ لَنَا لِئَلاَّ یَزْہَدُوا فِی الْجِہَادِ وَلاَ یَنْکُلُوا عَنِ الْحَرْبِ.
فَقَالَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ أَنَا أُبَلِّغُہُمْ عَنْکُمْ فَأَنْزَلَ اللَّہُ
عَزَّ وَجَلَّ ہَؤُلاَئِ الآیَاتِ عَلَی رَسُولِہِ (وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ
قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَمْوَاتاً بَلْ أَحْیَاء۔ )۔
ترجمہ:سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے
،انہوں نے فرمایا ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب’’احد
‘‘میں تمہارے بھائی شہید ہوگئے تو اللہ تعالی نے ان کی ارواح کو سبز پرندوں کے پیٹ
میں رکھا،وہ حضرات سیرابی کے لیے جنت کی نہروں پر آتے ہیں،وہ جنت کے پھل تناول کرتے
ہیںاور عرش کے سایہ میں سونے کی قندیلوں میں آرام کرتے ہیں،جب وہ اپنے کھانے اور مشروبات
کی خوشبو کو پائے اور اپنے بہترین ٹھکانہ کو دیکھے تو کہنے لگے:اے کاش! ہمارے بھائی
بھی جان لیتے کہ اللہ تعالی نے ہمارے لیے کیا کیا نعمتیں تیار کر رکھی ‘تاکہ وہ جہاد
سے بے رغبتی نہ کریں اور میدان جنگ سے پیچھے نہ ہٹیں۔تو اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:تمہاری
جانب سے یہ خوش خبری میں ان تک پہنچاتا ہوں!پھر اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم پر یہ آیاتِ کریمہ نازل فرمائیں: وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ
اللَّہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَاء ٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ ۔ترجمہ:اور جو
لوگ اللہ تعالی کے راستہ میں شہید کیے گئے انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھنابلکہ اللہ تعالی
کے نزدیک زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے۔(سورۃ اٰل عمران،169۔مسند الامام احمد،
مسند عبد اللہ بن العباس،حدیث نمبر2430)
شہداے
احد کی زیارت پرحضور ﷺ اور خلفاےثلاثہ کی مداومت
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہ معمول مبارک تھا کہ
آپ ہر سال اہتمام کے ساتھ شہداء احد کی زیارت کے لیے تشریف لیجایا کرتے اور حضورپاک
علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال مبارک کے بعد آپ کی اتباع میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ
تعالی عنہ ،سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی
عنہ اپنے اپنے دورِخلافت میں ہر سال پابندی کے ساتھ شہداء احد کی زیارت کے لیے تشریف
لیجایاکرتے تھے ،سیدنا علی مرتضی رضی للہ عنہ کے دورِ خلافت میں چونکہ آپ نے کوفہ
کو دارالخلافہ بنایاتھا‘اسی لیے آپ کا قیام کوفہ میں تھا، چنانچہ آپ کے بارے میں
اس معمول کا تذکرہ نہ ملنے کی وجہ سے غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے ،جیساکہ تفسیر
روح المعانی،تفسیر قرطبی،تفسیر در منثوراورتفسیر ابن کثیر وغیرہ میں روایت ہے:
وأخرج ابن جریر عن محمد بن إبراہیم قال : کان النبی صلی اللہ علیہ
وسلم یأتی قبور الشہداء علی رأس کل حول فیقول : (سلام عَلَیْکُم بِمَا صَبَرْتُمْ
فَنِعْمَ عقبی الدار ) وکذا کان یفعل أبو بکر . وعمر . وعثمان رضی اللہ تعالی عنہم
ترجمہ:حضرت ابن جریر رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے حضرت محمد بن ابراہیم
رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے روایت نقل کی ہے،آپ نے فرمایا ، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ
والہ وسلم ہر سال کی ابتداء میں شہداء احد کی زیارت کے لیے تشریف لاتے اور فرماتے:"سلامتی
ہو تم پرکیونکہ تم نے صبر کیا ،تو کیا ہی اچھا آخرت کا گھر ہے"اور اسی طرح ہر
سال حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ ،حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عثمان
رضی اللہ تعالی عنہ بھی زیارت کیا کرتے (تفسیر القرطبی،ج9،ص312۔روح المعانی فی تفسیر
القرآن العظیم والسبع المثانی۔الدر المنثور فی التأویل بالمأثور۔تفسیر ابن کثیر۔السیرۃ
النبویۃ لابن کثیر،ج3،ص90۔ مغازی الواقدی،دفن شہداء احد،ج1،311)
ماہ شوال المکرم کی مناسبت سے آج غزوۂ احد کا تذکرہ کیا گیا اور
سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے فضائل و مناقب بیان کیے گئے،اللہ سبحانہ وتعالی
سے دعا ہے کہ جو کچھ ہم نے کہا اور سنا ہے اسے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم
کے توسل سے قبول فرمائے اور سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت مبارکہ کی
روشنی سے ہماری تاریک زندگیوں کو روشن ومنور کرے ۔
آمِیْن بِجَاہِ سَیِّدِنَا طٰہٰ وَیٰسٓ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی وَبَارَکَ وَسَلَّّمَ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ وَاٰخِرُ
دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں