بچوں کی تعلیم و تربیت
معاشرے کا سب سے نازک تر ین اور حساس ترین طبقہ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں
اور ان میں بھی اہم ترین بچیاں ہیں۔ نو مولود سے شباب تک اور شادی سے بڑھاپے تک کا
سفر کوئی معمولی نہیں ہوتا ۔ہمارے ہاں ایک نہیں سب معاملات ہی الٹ ہیں ۔ بچیوں کی
درست تعلیم وتربیت کوئی کرتا ہی نہیں اور پھر مور ودِ الزام ٹھہراتے ہیں زمانے کو
، چھوٹے بچے تو ایک صاف شفاف صفحے کی طرح بالکل کورے ہوتے ہیں ۔ آپ اس صفحے پر
یعنی ان کے ذہن پر کچھ بھی لکھ سکتے ہیں۔
جیسے غوث اعظم سرکار رحمۃاللہ علیہ کے نانا نے اپنے داماد سے کہا تھا
کہ میری بیٹی اندھی ، لو لی لنگڑی اور گونگی ہے ۔ دراصل شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃاللہ
علیہ کی والدہ کی تربیت ایسے ماحول اور ایسے انداز سے کی گئی تھی کہ ان کی والدہ
محترمہ نے اپنی شادی ( نکاح ) سے پہلے نہ تو کسی نامحرم کو دیکھا ، نہ کہیں چل کر
غیر محرم کے گھر گئیں اور نہ ہی کبھی حتیٰ کہ پردے کے پیچھے بھی کسی سے بات کی ،
وہ پندرہ سپاروں کی حافظہ بھی تھیں اور ان سپاروں کو اکثر زبانی پڑھتی رہتی تھیں ۔
اگر بیٹیوں کی ایسی اسلامی تعلیم و تربیت کی ہوئی ہو تو پھر بیٹا بھی غوث الثقلین
ہی بنتا ہے ۔ کسی نے کہا تھا کہ تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تمہیں پڑھی لکھی
قوم دوں گا ۔ ایک دانا کا قول ہے کہ ایک مر د کی تعلیم و تربیت صرف ایک فرد کی
تعلیم ہے جبکہ ایک لڑکی کی تعلیم و تربیت ایک پورے کنبے کی تعلیم و تربیت کا بند
وبست ہے ۔ علامہ اقبال بھی بچیوں کی اچھی تعلیم و تربیت کے قائل تھے لیکن وہ مغربی
تعلیم اور مغربی تعلیمی نظام کو زہر ہلاہل سمجھتے تھے ۔ حتیٰ کہ مو صوف تو نوجوانوں
کے لیے بھی اس تعلیم کو زہر قاتل ہی گردانتے تھے ۔ بچیاں تو بہت دور کی بات ہے ۔
اسی مغربی نظامِ تعلیم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے فرمایا
گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا اَلہ الا اللہ
اس لفظِ مدرسہ سے مُراد دین کی تعلیم دینے والا مدرسہ ہر گز نہ تھا ۔
اقبال کے طرز تفکر کو یہ زیب نہیں دیتا ۔ اس سے ان کی مراد مغربی باطل نظام تعلیم تھا۔
کیونکہ اس دور میں اس تعلیم کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔آج بھی بچیوں کی تعلیم
و تربیت کا معاملہ انتہائی مخدوش ہے ۔ ہم ان ننھی منھی کو نپلو ں کو آغاز بچپن میں
انگریزی نظام تعلیم کو سونپ دیتے ہیں اور پندرہ ، سو لہ سال کی کافرانہ طرز کی
تعلیم و تربیت کے بعد ہمارے سامنے ہماری اپنی بیٹی اندر سے انگریزی ذہن بنا کر
ہمارے سامنے کھڑی ہوتی ہے اور ہم ہی کو پاگل ، جاہل ، جنگلی ، وحشی ، دقیانوسی اور
قدامت پسند کہتی ہے ۔ ورنہ خو د کشی اور دوسرے اخلاق باختہ راستے اس کی تباہ کاری
پر آخری ضرب کار ی ہوتی ہے ۔ یہاں بات ہوتی ہے خواتین کو دیئے گئے اسلام کے حقوق
کی ۔ لیکن عملی طور پر کہیں بھی ان کو وراثت میں سے حصہ نہیں دیا جاتا اور ان کی
کمائی کو کہیں بھی ان کی ذاتی ملکیت قرار نہیں دیا جاتا ہمارے قول و فعل میں تضاد
ہے ہم دو غلے ہیں ، منافق ہیں ،غدار ہیں اور جو کچھ جھیل رہے ہیں اسی کے سزا وار
ہیں ۔جیسا کہ ڈاکٹر نے فرمایا۔
اقبالؔ بڑا اُپد یشک ہے ، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا ، کر دار کا غازی بن نہ سکا
ہم نے اسلام کی حقیقی تعلیمات کو چھوڑ کر غیروں کی تقلید کو اپنا لیا
اور اپنی ہی بوئی ہوئی فصل کاٹ رہے ہیں ۔ ہر ایک بچی کو اگر زمانہ طفولیت ہی سے وہ
پیار اور شفقت نصیب ہو جو نبی کریم ﷺ نے اپنی بیٹیوں کو دی اور ان کے ذہن کی زرخیز
سر زمین پر اسلامی تعلیمات کا پودا کاشت کیا جائے اور ان کے حقوق کو پورا کرنے کا
عملی مظاہرہ کیا جائے ان کی تعلیم و تربیت اسلامی انداز میں کی جائے ۔ ان کی نیک
گھروں میں شادیاں کی جائیں تو کیا وجہ ہے کہ آنے والوں زمانوں میں محمد بن قاسم
اور محمود غز نوی کے پیرو کاروں کی قطاریں نہ لگ جائیں ۔
ہمارے ہاں بچی پیدا بعد میں ہوتی ہے ۔ ماتم پہلے شروع ہو جاتا ہے
۔حالا نکہ اللہ کے سب سے اعلیٰ وارفع نبی ﷺنے اُسے اللہ کی رحمت قرار دیا ۔ ہم
کہاں کے مسلمان ہیں جو اپنے نبی کی بات کو ماننا گوارا نہیں کرتے ۔ ویسے بہت بڑے عاش
رسول ﷺ بنتے ہیں ۔پھر بچی کو گھر میں بیٹوں کے بعد ثانوی حیثیت دی جاتی ہے ۔ جیسے
وہ کوئی گھٹیا مخلوق ہو پھر اس کی تعلیم و تربیت میں لڑکوں کی نسبت حددرجہ تک غفلت
برتی جاتی ہے ۔حالا نکہ نبی کریم روف رحیم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص دو بچیوں کی (
ایک روایت میں چار بچیوں کی ) اچھی پرورش کرے اور ان کو اچھی جگہ نکاح دے تو وہ
قیامت کے دن یوں میرے ساتھ ہو گا جیسے میری یہ دو انگلیاں ایک دوسرے کے قریب ہیں ۔
آج ہم بڑا واو یلا کرتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو وہ حقوق صدیاں پہلے عطا کر دیئے
تھے جو مغرب نے آج تک بھی نہیں دیئے اور مغربی انسانی حقوق کی ظالم تنظیمیں فضول
میں ہی شور مچاتی رہتی ہیں ۔ دراصل اس دور کے عرب معاشرے میں وہ قانون فوراَ لا گو
بھی ہو گیا تھا اور اس پر عمل بھی ہوا۔ہمارے پاکستانی اور ہندو ستانی خطے میں انگریزی
سام راج سے لے کر اب تک بیٹی اور بہن کو وراثت کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے ۔میں
آئین کی بات نہیں کر رہا عمل کی بات کر رہا ہوں ۔ آ ئین میں نجانے کیا لکھا ہو گا۔
بہر حال یہاں عمل نام کی کوئی چیزنہیں ہے اور پھر آج ثقافتی یلغار کا دور ہے ۔ ہم
نے اپنے بچوں کو گھر میں ٹی وی اور کمپیوٹر تو لا کر دے دئیے ۔ لیکن ان کو ان کا
درست استعمال نہیں بتایا اور نہ ہی عملی مظاہر ہ کر کے ان کو اچھے چینلز اوراچھی
ویب سائٹس کا عادی بنایا۔ سارا دن ہندو ستانی کافرانہ تہذیب و کلچر اور مور تیوں
کا پو جا جانا دیکھنے والے بچوں سے اسلام پسندی کی توقع رکھنا عبث ہے ۔
ان کو ہندو ستانی رسم و رواج اور ان کی شادی بیا ہ کے طریقے ، ہولی
اور دیوالی کی تو مکمل سو جھ بو جھ ہے مگر افسوس اسلامی نظامِ حیات کا کچھ پتہ ہی
نہیں ۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات تھا اور ہم نے اُسے صرف چند عبادات کا مجموعہ
سمجھ لیا ۔اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری مغربی افکار کے حامل اساتذہ کے رحم و کرم
پر چھوڑ کر خود بری الذمہ ہو گئے ۔ اورمعاشرہ ناسور بنتا جارہا ہے ۔ ہمیں صرف دھن
دولت اکٹھی کرنے کی پڑی ہوئی ہے اور آسمانوں پر ہماری تباہی کے تذکرے ہورہے ہیں۔
ہم خوابِ فر گوش سے کب جاگیں گے اور اپنے آپ کو کب پہچانیں گے ۔ وہ وقت کب دوبارہ
آئے گا جب اقوام عالم ہمیں ہمارے اعلیٰ کردار سے جانیں گی اور ہم ان کے آئیڈیل بن
جائیں گے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں