خاتم المحققین علامہ نقی علی خاں بریلوی قدس سرہ
از قلم: برادرم مفتی محمد توفیق احسنؔ برکاتی
مصباحی
پیش کش: محمد حسین مُشاہدؔرضوی
امام احمد رضا قدس سرہ کے والد ماجد علامہ مفتی نقی علی خاں بن رضا
علی خاں بریلوی ۳۰؍جمادی الآخرہ یا یکم رجب المرجب ۱۲۴۶ھ کو
بریلی میں پیدا ہوئے(۹) اپنے والد محترم مولانا رضا علی خاں بریلی سے جملہ علوم ظاہری
و باطنی کا اکتساب کیا، والد ماجد نے آپ کی تعلیم پر کافی توجہ دی، آپ کو انوار علوم
اسلامیہ کا درخشندہ آفتاب بنا دیا اور مسند افتا سونپ دی۔
مولانا سید شاہد علی رضوی تحریر فرماتے ہیں:
’’امام
العلما نے نہ صرف خود مسند افتا کو زینت بخشی بلکہ اپنے فرزند سعید امام المتکلمین
مولانا مفتی نقی علی خاں بریلوی قدس سرہ (م۱۲۹۷ھ) کو
خصوصی تعلیم و تربیت دے کر مسند افتا پر فائز کیا‘‘(۱۰)
علامہ نقی علی بریلوی درس و تدریس، تصنیف و تالیف، تحقیق و تدقیق،
فقہ و افتا کے علاوہ فہم و فراست، جودت طبع اور علو ہمت میں یگانۂ زمانہ تھے، آپ
کی فراست صادقہ کا یہ حال تھا کہ جس معاملہ میں جو کچھ فرمایا وہی ظہور میں آیا، فقر
ا و مساکین کے ساتھ آپ کے معاملات بڑے عمدہ تھے، اغنیا و روسا و حکام کو دینی امر
میں قابل اعتنا نہ گردانتے، سخاوت، شجاعت، قناعت، حلم و بردباری جیسے اوصاف جلیلہ کے
مرقع تھے۔ ۵؍جمادی الآخرہ ۱۲۹۴ھ کو
مارہرہ مقدسہ میں حضرت سید شاہ آلِ رسول احمدی تاجدارِ مارہرہ قدس سرہ کے دست حق پرست
پر بیعت کی۔ آپ نے باقاعدگی کے ساتھ مسند افتا سنبھالے رکھی اور فتویٰ نویسی کا عظیم
فریضہ انجام دیتے رہے۔
مولانا سید شاہد علی رضوی رقم طراز ہیں:
’’آپ
نے مسند افتا پر فائز ہونے کے بعد ۱۲۹۷ھ تک نہ صرف فتویٰ نویسی
کا گراں قدر فریضہ انجام دیا بلکہ معاصر علما و فقہا سے اپنی علمی صلاحیت اور فقہی
بصیرت کو لوہا منوا کر مرجع فتاویٰ ہوگئے‘‘(۱۱)
علامہ نقی علی خاں چالیس سے زیادہ علوم و فنون پر کامل دستگاہ رکھتے
تھے، تیس سے زائد آپ کی اہم تصانیف اس کی بین ثبوت ہیں اور آپ کی علمی یادگار ہیں،
ڈاکٹر غلام یحییٰ انجم مصباحی آپ کی تصنیفات و تالیفات کے حوالے سے فرماتے ہیں:
’’علامہ
نقی علی خاں قدس سرہ کی تصنیفات کی تعداد تقریباً چالیس ہے، تذکرۂ علمائے ہند کے مصنف
نے ان کی تعداد ۲۶؍بتائی ہے۔ صاحب الاعلام نے تصانیف کے ضمن میں ۶؍کتابوں
کا ذکر کیا ہے، مولانا شہاب الدین رضوی نے ۱۹؍کتابوں
کا تذکرہ کیا ہے‘‘(۱۲)
حیات اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین رضوی جلد اول ص:۹۱،۹۲ میں ۲۶ کی صراحت
موجود ہے۔ محقق رضویات ڈاکٹر غلام جابر شمسؔ مصباحی نے آپ کی ۲۶ تصانیف پر اجمالاً روشنی ڈالی ہے(۱۳) علامہ
نقی علی بریلوی قدس سرہ العزیز کی یہ تحریر پڑھیں اور اس سے عیاں رموز ادب اور پند
و نصیحت پر خوب خوب غور کریں:
’’دیوار
جس قدر بلند ہو، نیو کی طرف احتیاج زیادہ ہوتی ہے اور نیو کے خراب ہوتے ہی گر جاتی
ہے، جب تک درخت قائم ہے ثمر متوقع ہے، جب درخت نہ رہا ثمر کہاں؟ صوفیائے کرام فرماتے
ہیں: آج جو راہِ شرع پر ثابت قدم ہے قیامت کو صراط مستقیم پر قائم رہے گا اور جو خط
مستقیم شریعت سے ذرا بھی جدا ہوگا جس قدر چلے گا مرکز و مقصد سے دور پڑے گا‘‘
(ہدایۃ البریۃ الی الشریعۃ الاحمدیۃ،
طبع ممبئی، ص۱۷)
آخری ذوالقعدہ ۱۲۹۷ھ/۱۸۸۰ء میں
۵۱ سال
کی عمر میں آپ کا انتقال ہوا۔ (۱۴)
آگے کی ابحاث میں آپ کے نامور، بلند اقبال اور عالمی شہرت یافتہ
فرزند جلیل امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی علیہ الرحمۃ و الرضوان کی خدمات پر تفصیلاً
روشنی ڈالی جائے گی، جن کی ذات پر وقار نے علم و فضل، شعور و آگہی، فکر و تدبر، فن
و ادب کا ایک دبستاں تشکیل دیا کہ ان کے انہیں کارناموں اور دین کی راہ میں پیش کی
جانے والی قربانیوں نے قیامت تک کے لیے انہیں زندۂ جاوید بنا دیا۔
٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں