بدھ، 6 نومبر، 2013

Sayyed Aale Rasool Hasnain Miya Nazmi

سید آل رسول حسنین میاں نظمیؔ مارہروی
(محمد توفیق احسنؔ برکاتی مصباحی، ممبئی)
(09819433765)
    جانشین حضور سید العلماء (سید آل مصطفی سید میاں مارہروی نور اللہ مرقدہ) سید آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی خاندان برکات کے چشم وچراغ ہیں، یہ وہ عظیم خانوادہ ہے جس کی نجابت سیادت اور عظمت ورفعت ضرب المثل بن چکی ہے، ہندوستان کے نجیب الطرفین سادات کرام میں جس کا رتبہ انتہائی بلند وبالا ہے، جس کی خاندانی وجاہت، علمی برتری، دینی وملی شناخت ،فکری طہارت اور اصلاحی ودعوتی خدمات کو بین الاقوامی شہرت وناموری حاصل ہے اوریہ پاکیزہ خاندانی کئی صدیوں سے اپناعلمی وقلمی اور باطنی وروحانی فیضان لٹا رہا ہے اور ایک عالم سیراب ہورہا ہے۔
   
۶؍ رمضان المبارک ۱۳۶۵ھ مطابق۴ ؍اگست ۱۹۴۶ء کو علمی، ادبی اور روحانی خطہ مارہرہ مقدسہ میں جس بچے نے جنم لیا، آج جب فکر وفن کی انجمن میں اس کا نام لیا جاتا ہے تو تاریخ کا ایک بے حد حسین اور درخشندہ باب نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا ہے اور فروغ علم وفن کے مختلف میدانوں میں اس کے اجداد کے ذریعہ پیش کی جانے والی قربانیاں یکے بعد دیگرے ذہن کی اسکرین پر نمودار ہونے لگتی ہیں۔ سید نظمی کا خاندانی نام محمد حیدر اور تاریخی نام سید فضل اللہ قادری (۱۳۶۵ھ) تجویز کیاگیا اور سید اال رسول حسنین میاں نظمی مارہروی کے نام سے مشہور عالم ہوئے۔
    چار سال، چار ماہ، چار دن کی عمر میں بدست حضور تاج العلما سید شاہ اولاد رسول محمد میاں علیہ الرحمہ رسم بسم اللہ خوانی ادا کی گئی ۔پھوپھی صاحبہ حافظہ سیدہ عائشہ خاتون رحمۃ اللہ علیہا سے ناظرۂ قرآن ختم کیا اور حفظ اول کا آغاز ہوا، بعدہ درگاہ برکاتیہ کے مکتب میں داخل کردیاگیا، فارسی کی پہلی کتاب حضور احسن العلماء سید شاہ مصطفی حیدر حسن میاں علیہ الرحمہ سے پڑھی، اردو کی ابتدائی تعلیم مرحوم منشی عبد الرشید خاں مارہروی سے پائی، اردو کی دوسری اور تیسری کتاب والد ماجد حضور سید العلماء سید شاہ آل مصطفی سید میاں مارہروی علیہ الرحمہ کی تربیت میں رہ کر پڑھی، پنجم درجہ تک ممبئی اور پھر دوبار انٹر میڈیٹ تک کی تعلیم مارہرہ مطہرہ میں رہ کر مکمل کی۔ تفسیر قرآن اور درس حدیث (تجرید بخاری) شعبۂ اسلامیات جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دلی میں پایۂ تکمیل کو پہنچا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دلی سے انگریزی ادب کے ساتھ گریجویشن کیا اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونی کیشن سے میڈیا آپریشنز اور نیوز رپوٹنگ کی تربیت حاصل کی، بعدہ UPSC کے تحت منعقد ہونے والے سول سرسز کے مشکل ترین امتحان میں شرکت کی اور تمغۂ کامیابی سے سرفراز ہونے کے بعد مرکزی حکومت کی وزارت اطلاعات ونشریات کے محکمۂ پریس انفارمیشن بیورو (P.I.B) سے ملازمت کا آغاز کیا اور حکومت ہند کی ڈائرکٹوریٹ آف فیلڈ پبلسٹی کے جوائنٹ ڈائرکٹر کے عہدے سے
۳۳ سالہ بے داغ ملازمت کے بعد رضا کارانہ طور پر سبک دوش ہوئے۔ دوران ملازمت نظمی مارہروی نے کسی قسم کا غیر ضروری دباؤ قبول کیا ،نہ ہی کہیں گورنمنٹ کی کاسہ لیسی سے آپ کا دامن آلودہ ہوا، ان سب پر مستزاد وہ تعلیم وتربیت خاصی اہم ہے جو آپ نے والد ماجد حضور سید العلما سید آل مصطفی سید میاں مارہروی کے زیر سایہ رہ کر دینی وروحانی تربیت کی شکل میں پائی ،جس کے نتیجے میں آپ علوم جدیدہ کے ساتھ ساتھ علوم دینیہ کے ماہر وغواص بن کر دنیا ئے علم پر نمودار ہوئے اور ان میدانوں میں اپنی حیرت انگیز تحقیقات و تصنیفات کے ذریعہ مثالی شخصیت کے روپ میں جلوہ گر ہوئے۔
    آپ نے اپنی علمی وروحانی وراثت اور اخلاقی اقدار کی حفاظت وفروغ میں جان توڑ جد وجہد کی، شعر وسخن، علم وادب، فکر وفن اور تحقیق وتدقیق وترجمہ نگاری کے میدان میں گراں قدر کام کیے، جہاں تک زبان دانی کا معاملہ ہے تو اس یں عربی، فارسی، اردو، ہندی، انگریزی مراٹھی، گجراتی اور سنسکرت جیسی زبانوں پر آپ کو عالمانہ وفاضلانہ کمال حاصل ہے، اس کے علاوہ آپ نے مذاہب عالم کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہے، اور تقابل ادیان پر بھی آپ کی گہری نظر رہی ہے، مذہب حق دین اسلام کے ساتھ ساتھ مذاہب عالم پر آپ کی قیادت ووسعت نظری کا خلاصہ کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر انور شیرازی (لندن) رقم طراز ہیں:
’’تقریبا چونتیس کتابوں کے مصنف نے مجھ سے عالمی مذاہب کے تقابلی موازنے پر کافی تفصیل سے گفتگو کی کبھی مجھے ایسا لگا کہ میں پنڈت آل رسول سے مخاطب ہوں اور کبھی یوں محسوس ہوا کہ میرے سامنے فادر آل رسول بیٹھے ہوئے ہیں، نظمی اپنے ہر رنگ میں منفرد لگے‘‘ (بعد از خدا۔۔۔۔۔ ص:
۳۰)
    آپ نے دوران ملازمت تصنیف وتالیف اور تحقیق وتراجم کی طرف بھی توجہ کی اور بھرپور انہماک کے ساتھ شعر وسخن کی زلف برہم کی مشاطگی میں بھی اپنی مہارت کا مظاہرہ فرمایا، اردو کے علاوہ فارسی، ہندی، گجراتی، اور انگریزی میں اپنا قلمی اثاثہ دنیائے سنیت کو عطا کیا، دیگر زبانوں سے اردو میں تراجم بھی کیے اور اردو سے دیگر زبانوں میں بعض اہم کتابوں کو منتقل کیا ہے اور جہاں ادب کی اپنی گراں قدر ادبی وشعری نگارشات سے زینت بخشی ہے، گرچہ ناقدین ادب اور سخن وران عصر نے اس کی شایان شان اسے مقام نہ دیا اور تعصب وتنگ نظری نے اسے حاشیۂ ادب پر ڈالنے کی دانستہ کو شش کی اہم اس کے اندر موجود جواہر غالیہ کی چکا چوند نے کائنات سخن کی گلیوں کو سجانے سنوارنے میں کوتاہی نہ برتی، دبستان خیال میں روشنی پھیلی اور اقلیم سخن منور وتاباں ہوگیا۔
محترم سید آل رسول نظمی مارہروی کی تصانیف کا اجمالی فہرست پرنگاہ ڈال لیں اور پھر ان کے موضوعات کے تنوع، اسلوب کی پختگی اورزبان وبیان کی ندرت پر تنقید وتجزیہ کے پھول نچھاور کریں۔
(
۱) کلام الرحمن (ہندی ترجمہ کنزالایمان وتفسیر خزائن العرفان)
(
۲) مصطفی جان رحمت (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) (مختصر سیرت نبوی)
(
۳) شان مصطفی (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) (کلام رضا پر تضامین)
(
۴) مدائح مصطفی (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم (نعتیہ دیوان)
(
۵) اسرار خاندان مصطفی (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) (ترجمہ رسالہ فارسی)
(
۶) تنویر مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم (مجموعۂ نعت)
(
۷) عرفان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم (مجموعہ کلام)
(
۸) نوازش مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم (نعتیہ دیوان)
(
۹) مصطفی سے آل مصطفی تک (تذکرۂ مرشدان سلسلہ برکاتیہ)
(
۱۰) مصطفی سے مصطفی رضا تک (تذکرہ)
(
۱۱)قرآنی نماز بہ مقابلہ مائکروفو فی نماز (اردو اور ہندی میںرسالہ)
(
۱۲) دی گریڈ بیانڈ (علم غیب رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر انگریزی رسالہ)
(
۱۳) نظم الٰہی (انگریزی تفسیر سورۂ بقرہ تقریبا ۸۰۰ صفحات ) ادیان عالم کے تقابلی موازنہ کے روپ میں ، یہ تفسیر برطانیہ اور امریکہ کے کچھ سنی مدارس کے نصاب تعلیم میںداخل ہے۔
(
۱۴) گستاخی معاف (ہندی انشائیے)
(
۱۰) گھر آنگن میلاد (میلاد نامہ برائے خواتین، مختصر)
(
۱۶) گھر آنگن میلاد (میلاد نامہ برائے خوتین، مفصل)
(
۱۷) ذبح عظیم (واقعات کربلا)
(
۱۸) دی وے ٹو بی (انگریزی ترجمہ بہار شریعت ،سولہواں حصہ)
(
۱۹) کیا آپ جانتے ہیں؟ (ہفت رنگ اسلامی معلومات ،اردو اور ہندی میں)
(
۲۰) اسلامی دی ریل جن الٹی میٹ (انگریزی)
(
۲۱) ڈیسٹی نیشن پیراڈائز (فضائل صحابہ، انگریزی)
(
۲۲) گیٹ وے ٹو ہیون (خواتین کے لیے انگریزی رسالہ)
(
۲۳) ان ڈیفینس آف اعلیٰ حضرت (انگریزی)
(
۲۴)فضل ربی (سفر نامہ۔ اردو اور ہندی)
(
۲۵) سبع سنابل شریف پر اعتراضات کے جوابات
(
۲۶) قصیدۂ بردہ شریف (اردو، انگریزی اورہندی میں ترجمہ وتشریح)
(
۲۷) کتاب الصلوٰۃ (طریقہ نماز پر انگریزی رسالہ)
(
۲۸) اعلیٰ حضرت کی تصنیف ’’الامن والعلیٰ‘‘ کا انگریزی ترجمہ
(
۲۹) نئی روشنی (حضور سید العلما کے اصلاحی ناول کاہندی ترجمہ)
(
۳۰) مصطفی سے مصطفی حیدر حسن تک (تذکرہ)
(
۳۱) بعد از خدا۔۔۔۔۔(مکمل نعتیہ دیوان)
(
۳۲) چھوتے میاں (خانقاہی پس منظر میں ایک ناول)
(
۳۳) عمر قید (گجراتی کلاسیکی ناول کا اردو ترجمہ، نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا کے لیے)
(
۳۴) آگ گاڑی (گجراتی کلاسکی ڈرامہ کا اردو ترجمہ ،نیشنل بک ٹرسٹ آف انڈیا کے لیے)
(
۳۵) لؤلؤ (شیلاب کے پس منظر میں ایک سماجی ناول)
(
۳۶) طیبہ رشک جناں (اردو، ہندی)
(
۳۷)سب سے بڑا اللہ کا رشتہ (موضوع: الحب فی اللہ والبغض فی اللہ)
(
۳۸) چل قلم (نعتیہ دیوان بعد از خدا۔۔۔۔۔۔ کا ہندی روپ)
(
۳۹) دی ایکنرل ٹیڈہاؤس آف دی ہولی پروفیٹ( انگریزی ترجمہ رسالہ مبارکہ ’’الشرف المعبد لآل محمد‘‘ از: علامہ نبہانی)
    ان تصنیفات وتحقیقات وتراجم کے علاوہ سید نظمی مارہروی کے قلم زرنگار نے ملک وبیرون کے ممتاز اخبارات ورسائل وجرائد میں فکر وفن کے جو گل ولالہ سجائے ہیں وہ خود اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہیں، مثلا ًنیادور ّ(لکھنؤ) آج کل (نئی دہلی) استقامت ڈائجسٹ (کانپور) انقلاب، اردو ٹائمز، ہندوستان، سب رس، ہندوستانی زبان، صبح امید، قومی راج، (ممبئی) کھلونا، ہما، ہدیٰ، ہزار داستان، پیام مشرق، پرچم ہندی ،( نئی دلی) ہندی روزمانہ لیٹسٹ (رائے پور ایم پی) انگریزی رسالہ دی مرر، پندرہ روزہ ریاض عقیدت (کونچ ضلع جالون) میں کہانیوں، افسانوں، انشائیوں، نظموں اور غزلوں کی اشاعت، اس کے علاوہ سیکڑوں کتابوں پر تبصرے جو برسوں تک ماہ نامہ صبح امید (ممبئی) میں شائع ہوتے رہے جن پر مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی نے اردو کے بہترین صحافی کا نقد ایوارڈ برائے سال
۱۹۸۰ء عطا کیا، ساتھ ہی ممبئی سے نکلنے والے روزنامہ شامنامہ میں عرصہ دراز تک نظمی مارہروی کے مرتب کردہ علمی وادبی معمے شائع ہوئے اور کافی مقبول ہوئے۔
    سید آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی کو بیعت وخلافت والد مجاد حضور سید العلماء علیہ الرحمہ سے حاصل ہے، مزید عم محترم حضور احسن العلما یسید شاہ مصطفی حیدر حسن مارہروی علیہ الرحمہ اور سید شاہ حبیب احمد صاحب قبلہ علیہ الرحمہ (مسولی شریف بارہ بنکی) سے بھی اجازت وخلافت عطا ہوئی۔سید نظمی مارہروی امام احمدرضا قادری کے پیرو مرشد حضورخاتم الاکابر سید شاہ آل رسول احمدی مارہروی قدس سرہ اور مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا نوری بریلوی کے پیرو مرشد شیخ المشائخ حضور سید شاہ ابو الحسین احمد نوری مارہروی قدس سرہ اور حضور سیدنا شاہ غلام محی الدین امیر عالم قدس سرہ کی گدی کے وارث وامین اورسجادہ نشین ہیں، یہ خوبی سید نظمی مارہروی کی بڑی ممتاز اور اعلیٰ خوبی ہے جس پر نظمی کو بجا طور پر فخر کرنے کا حق حاصل ہے۔ نظمی مارہروی لکھتے ہیں:   ؎
میں اچھے میاں کے مکاں کا مکیں ہوں، میں ہوں شاہ نوری کی گدی کا وارث
مری پشت پر میرے مرشد کا پنجہ، وہی ہر قدم پر مرے رہ نما ہیں
    سید نظمی مارہروی کی ذات کی کئی حیثیتیں متعین کی جاسکتی ہیں، آپ ایک صاحب طرز ادیب، شاعر، افسانہ نگار، کہانی کار ،مصنف ومحقق ومترجم اور جلیل الشان مفسر قرآن ہیں، ساتھ ہی انتہائی مہذب اور صوفی منش بھی اور اعلیٰ صوفیانہ اقدار کے محافظ بھی۔ آپ کی اس ممتاز صفت اور خاندانی سیادت اور علمی وجاہت نے ایک ممتاز پیر طریقت کی حیثیت سے آپ کی ذات کو متعارف کرادیا، آپ کے ہزاروں مریدین ومتوسلین ملک وبیرون کے مختلف شہروں میں موجود ہیں، اور کئی اہم اہم شخصیات کو آپ نے اجازت وخلافت سے بھی سرفراز فرمایا ہے، جن میں نمایاں نام فقیہ اعظم ہند شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی برکاتی علیہ الرحمہ، محدث کبیر شہزادۂ صدر الشریعہ علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری، مناظر اہل سنت مفتی محمد امان الرب قادری رضوی،  صاحبزادہ سید شاہ سبطین حیدر برکاتی، سید شاہ صفی حیدر برکاتی، سید شاہ ذوالفقار حیدر برکاتی، سید شاہ محمد امان میاں مارہروی، سید شاہ محمد اویس مصطفی زیدی بلگرامی،اور سید شاہ محمد گلزار میاں واسطی سجادہ نشیں مسولی شریف ، وغیرہم کا نام آتا ہے۔
۱۹۸۵ء میں آپ پہلی بار زیارت حرمین شریفین سے مشرف ہوئے، دوسرا حج ۴ ۱۹۹ء میں نصیب ہوا اور ۱۹۹۷ء میں تیسری مرتبہ آپ حج بیت اللہ کی غرض سے تشریف لے گئے، ۱۹۹۹ء میں بڑا عمرہ اور زیارت مقامات مقدمہ بغداد، بیت المقدس، شام، اسرائیل کے لیے حاضر ہوئے، ۲۰۰۶ء ماہ رمضان المبارک میں ایک اور عمرہ نصیب ہوا، یہ سید نظمی مارہروی کی کتاب زندگی کے وہ درخشندہ اوراق ہیں جنہیں اجمالی طور پر روبرو کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
    سید آل رسول نظمی مارہروی نے جس ماحول میں اور جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ علم وادب، شعر وسخن، فکر وفن، شعور وآگہی، حق پرستی، دین داری، فیضان رسانی، اور اعلیٰ ترین روحانیت کا گہوارہ تھا اور اب بھی ہے، مذہب، مسلک، مشرب سب کچھ صاف وشفاف اور عشق سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مشک باری سے پوری آبائی نسل معطر ومنور ہے، عاشقان مصطفی اور عارفان خدا کا ایک تسلسل ہے، ایک خاموش ربط ہے جو صدیوں پر محیط ہے، حضرت نظمی کو نہ صرف علمی وادبی ماحول ملا، بلکہ ساتھ ساتھ مورث اعلیٰ کا فیضان بھی ان کی موزوں رہنمائی کررہاتھا، اس پر نظمی کی محنت، لگن وجاں فشانی اور وسعت مطالعہ نے ان کے افکار وخیالات پر بلند آگہی کا غازہ مل دیا جس نے ان کی شخصیت اور فکر وفن میں قوس قزحی رنگ بھر دیا۔
نظمی مارہروی نے ایک کامیاب اور قادر الکلام نعت گو شاعر کی حیثیت سے اپنا جو مقام بنایا یہ دراصل اس موروثی طہارت آمیز  تسلسل کو آگے لے جانا تھا جو خانوادۂ برکاتیہ کا وطیرہ رہا ہے اور جس خاندان نے تقدیسی شاعری کے ایک جہان سے ارباب فکر کو متعارف کرانے کی سعی بلیغ کی ہے، محترم نظمی کا شعری شجرہ حضور سید العلماء سید میاں مارہروی اور حضرت احسنؔ مارہروی سے ہوتا ہوا براہ راست داغؔ دہلوی تک پہنچتا ہے، اس لیے ان کی شاعری میں اس تسلسل کے اثرات کا پایا جانا کوئی تعجب خیز نہیں۔ اس لیے ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ نظمی عصر حاضر کے ایک عظیم اور قادر الکلام شاعر ہیں اور ان کا شعری سرمایہ نہ صرف اپنی کثرت کے لحاظ سے بہتوں پرفوقیت رکھتا ہے بلکہ کیف وکم ہر دو اعتبار سے امتیاز ی شان رکھتا ہے، اس مقام پر ٹھہر کر ہم محب گرامی ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی مالیگاؤں کی تحریر کا یہ اقتباس نذر قارئین کرتے ہیں جس سے نظمی مارہروی کے شعری خزانے اور موروثی کمال پر روشنی پڑتی ہے، رقم طراز ہیں:
    ’’نظمی مارہروی ہندوستان کے جس عظیم خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں، علم وفضل، زہد واتقا، سیادت وبزرگی اورشعر وادب میں اس کی خدمات جلیلہ مسلم مانی گئی ہیں، ایک زمانہ سے مارہرہ مطہرہ روحانیت وعرفانیت کا مرکز تو ہے ہی، شعر وسخن میں بھی اسے مرکزی حیثیت حاصل ہے، اردو زبان وادب کے آغاز، عروج اور ارتقا کی تاریخ میں بھی مارہرہ مطہرہ کے بزرگوں کی شراکت داری جگ ظاہرہے، میر عبد الواحد شاہدی بلگرامی علم وعرفان کے بحر ناپیدا کنار، تصوف وولایت کے در نایاب تو تھے ہی ساتھ ہی ساتھ آپ اپنے عہد کے ممتاز شاعر وادیب بھی گزرے ہیں، عہد عالم گیری میں جب کہ اردو کا تشکیلی دور شروع تھا تاج دار خاندان مارہرہ حضور سید شاہ برکت اللہ پیمیؔ وعشقیؔؔ مارہروی کی شعری ونثری خدمات اظہر من الشمس ہیں، آپ فن علم وادب اور شاعری میں مثل ونظیر نہیں رکھتے تھے، عربی، فارسی کے علاوہ ہندوی (جو آگے چل کر اردو کے نام سے معنون ہوئی) اور سنسکرت پر آپ کو مہارت تامہ حاصل تھی، چناں چہ آپ کی شاعری کے بارے میں حسان الہند میر غلام علی آزاد بلگرامی نور اللہ مرقدہ نے اپنی شہرۂ آفا ق تصنیف ’’مآثر الکلام‘‘ میں تحریر فرمایا ہے:
’’شاہ برکت اللہ پیمی نے پیامی شاعر کی حیثیت سے عالم گیر شہرت حاصل کی تھی‘‘
        (علامہ غلام علی آزاد بلگرامی، ماثر الکرام دفتر ثانی  ص:
۲۴۹)
علاوہ ازیں ’’مقدمہ تاریخ اردو زبان‘‘ میں ماہر لسانیات پروفیسر ڈاکٹر مسعود حسین خان راقم ہیں: ’’عہد عالم گیر کے مشہور مصنف سید شاہ برکت اللہ پیمیؔ مارہروی کو ہندی، فارسی اور عربی پر کامل عبور تھا، تصوف ومعرفت سے لبریز انسانیت کے پیغام کو انہوں نے اپنے دوہوں اور گیتوں کے ذریعہ پہنچایا (پروفیسر ڈاکٹر مسعود حسین خان، مقدمہ تاریخ اردو زبان ص:
۱۶۹)
حضور سید شاہ برکت اللہ مارہروی قدس سرہ نے عربی میں ’’عشقی‘‘ اور ہندی میں ’’پیمی‘‘ تخلص اختیار کیا ’’پیہم پرکاش‘‘ کے نام سے آپ کا دیوان طبع ہوچکا ہے۔‘‘ ( اقلم نعت کا معتبر سفیر۔ سید نظمی مارہروی، ص:
۷،۸)
    نظم گوئی کی یہ روایت میر عبد الواحد شاہدیؔ بلگرامی ،مخدوم صاحب البرکات عشقیؔ وپیمیؔ مارہروی، سید شاہ حمزہ عینیؔ مارہروی، سید شاہ آل احمد اچھے میاں، سید شاہ ابو الحسین احمد نوریؔ مارہروی، تاج العلما سید اولاد رسول محمد میاں فقیرؔ مارہروی، سید شاہ آل عبا مارہروی، سید شاہ آل مصطفی سیدؔ میاں مارہروی اورسید شاہ مصطفی حیدر حسنؔ مارہروی سے ہوتی ہوئی سید آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی تک پہونچتی ہے، اسی سلسلے کے چند اور نام (سید جمال الدین اسلم مارہروی، سید محمد اشرف مارہروی اور سید سبطین حیدر مصطفی مارہروی) بھی زندۂ جاوید ہیں اور اس سلسلہ نور کو آگے بڑھاتے ہوئے خاندان برکات کی شان دار نمائندگی فرما رہے ہیں لیکن موجود شعرا میں نظمی مارہروی کوکئی اعتبار سے انفرادیت حاصل ہے جس کا اظہار واعلان متعدد اہل قلم اور بزرگ شخصیات نے اپنی تحریرات اور بیان میں فرمایا ہے۔
    معروف قلم کار اور محقق علامہ ارشاد احمد ساحل شہسرامی سید نظمی مارہروی کے شعری امتیاز کو یہ لکھ کر خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ:
    ’’تقریبا تیس سال ہوتے ہیں جب سے حضرت نظمی کا قلم ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ کی برکتیں سمیٹ رہا ہے، اعلیٰ حضرت احمد رضا قادری برکاتی قدس سرہ اور استاذ زمن حضرت حسن بریلوی کے بعد حضرت نظمی پہلے شاعر ہیں جنہوںنے اردو زبان میں فن نعت کی اتنی مبسوط اور ایسی مقبول خدمت کی سعادت حاصل کی ہے، کلام رضا کے بعد شعر نظمی جہان نعت میں سکہ رائج الوقت کی مانند چلا کرتا ہے‘‘۔( بعد از خدا۔۔۔۔۔ ص:
۳۱)
اس کے بعد علامہ ساحل شہسرامی نے نظمی کی نعتیہ شاعری کا بڑا خوب صورت تجزیہ پیش کیا ہے ار ان کی شعری خصوصیات وامتیازات کو شمار کیا ہے جن میں عشق رسول، فنی مہارت، شعری معنویت، وسعت مطالعہ، حق گوئی اور صوقیاتی ترنم پر کھل کر بحث کی ہے اور بر محل اشعار سے اپنی بات کو وزن دار بنایا ہے (ملاحظہ فرمائیں، بعد از خدا۔۔ مطبوعہ ممبئی ص:
۳۱ سے ۳۶)
    علامہ ارشاد ساحل شہسرامی نے خانوادۂ برکات کی علمی وادبی خدمات پر
۱۷۵؍ صفحات پر مشتمل ایک انتہائی علمی وتحقیقی مقالہ تحریر فرمایاتھا جس میں میر عبد الواحد بلگرامی سے لے کر موجودہ ارباب قلم سید محمد اشرف مارہروی تک برکاتی خاندان کی کل چوبیس شخصیات کا تفصیلی تعارف اور ان کی علمی وادبی خدمات پر محاکماتی اور حوالہ جاتی گفتگو پیش کی تھی، یہ تحقیقی مقالہ خانقاہ برکاتیہ کے ترجمان ’’اہل سنت کی آواز‘‘ جلد ۶ میں ۱۹۹۹ء میں مکمل شائع ہوچکا ہے، ساحل صاحب قبلہ نے اس تفصیلی مقالے میں ممدوح گرامی سید نظمی مارہروی پربھی دس صفحات میں خوب خوب لکھا ہے، ساتھ ہی نظم مارہروی کی پندرہ تصنیفات کا اجمالی تعارف بھی بڑے سلیقہ مندی سے پیش کیا ہے۔
    نظمی مارہروی نے شاعری کاآغاز کم عمری ہی میں کردیاتھا، ویسے تو ان کا قلمی سفر
۱۹۵۸ء سے ہی جاری ہے، یادگار کے عنوان سے ایک کہانی لکھ کر انہوں نے بچوں کے رسالہ ماہ نامہ’’ کھلونا‘‘ دلی میں چھپوائی تھی، کئی اور کہانیاں اور افسانے ہندوستان کے مشہور ادبی جریدوں میں شائع ہوئے، غزلیں، نظمیں بھی اخبارات ورسائل میں چھپیں اور داد بھی ملی، لیکن خاندانی اثرات نے نظمی کو بھی اسی پاکیزہ اور تقدس مآب صنف سخن کا دلدادہ بنادیا جسے تقدیسی شاعری کا نام دیاجاتا ہے ، سید شاہ ابو الحسین احمد نوریؔ مارہروی قدس سرہ کے عرس مبارک کے موقع پر منعقد ہونے والے نعتیہ اور بہاریہ مشاعرے میں اول اول نظمی نے اپنے والد ماجد سید میاں مارہروی کا لکھا ہوا کلام پڑنا شروع کیا، یہیں سے آپ کے اندر بھی شعر گوئی کا شوق پروان چڑھنا شروع ہوا، بہ قول نظمی مارہروی:
    ’’یہیں سے میرے اندر خود اپنے شعر کہنے کا شوق پیدا ہوا، ابا حضرت کو معلوم ہوا تو پہلی ہدایت یہ فرمائی کہ میں بار بار اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا دیوان ’حدائق بخشش‘ پڑھا کروں، مجھے اس مشق میں کئی ایک نعتیں از بر ہوگئیں اور مختلف تقاریب میں وہ نعتیں پڑھنے بھی لگا، پھر میں نے شاعر شروع کردی۔ (بعد از خدا۔۔۔۔۔نعتیہ دیوان، مطبوعہ ممبئی ص:
۴۰)
    سید نظمی مارہروی کے عم محترم حضور احسن العلماء مصطفی حیدر حسن مارہروی قدس سرہ کو شارح کلام رضا کہا جاتا ہے اور آپ کے والد محترم حضور سید العلماء سید میاں مارہروی قدس سرہ بھی تحریر وتقریر، مجلس وعظ اور مختلف تقریبات میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدری کے اشعار تواتر سے استعمال فرماتے تھے ، ان کی تشریحات سے بھی سامعین کو آگاہ کرتے اور ان کے دلوں میں عشق مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ عشق امام احمد رضا کا چراغ بھی روشن کردیتے۔ ان دونوں حضرات کے تعلق سے خود نظمی مارہروی لکھتے ہیں کہ
    : ’’حضور سید میاں علیہ الرحمہ نے اپنی زندگی مسلک اعلیٰ حضرت کی نشرواشاعت، ترویج وترقی کے لیے وقف کررکھی تھی‘‘ حضور احسن العلماء اعلیٰ حضرت پر اتھارٹی تھے، حدائق بخشش پڑھنے اور سمجھانے کا انہیں کا حصہ تھا‘‘
                (سہ ماہی افکار رضا ممبئی، پچاسواں خصوصی شمارہ اکتوبر تا دسمبر
۲۰۰۷ء ص: ۲۹)
    سید نظمی مارہروی نے حضور تاج العلما ء سید شاہ محمد میاں مارہروی کو اچھے ہوش وہواس کی حالت میں برتا ہے، عم محترم حضور احسن العلما ء قدس سرہ کی صحبت بھی اٹھائی ہے، والد ماجد کے ساتھ رہنے کا موقع بھی نصیب ہوا ہے اس لیے آپ کے افکار اور شخصیت میں ان حضرات کی فکری جو لانیوں کا سمٹ جانا قرین قیاس ہے بلکہ حقائق کے اجالے میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ نظمی مارہروی کو محبت والفت کا عظیم سرمایہ ان اکابر کی صحبت سے حاصل ہوا ہے اور امام احمدرضا قادری بریلوی کی سچی عقیدت اسی صحبت بافیض کا ثمرہ ہے، اب بریلی شریف نظمی مارہروی کی دھڑکنوں میں بس گیا اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری کی شاعری، ان کی تحقیقات انیفہ اور فتاویٰ ودیگر رسائل ان کے مطالعہ میںآنے لگے، امام احمد رضا سے یہی عقیدت والفت انہیں بریلی شریف حاضری پر مجبور کرگئی اور نظمی نے والہانہ انداز میں مزار رضا پر حاضری دی، خود لکھتے ہیں:
    ’’ہم نے کئی برس غزلیں اور نظمیں لکھیں، ملک کے مشہور ومعروف ادبی رسالوں میں شائع بھی ہوئیں ،داد بھی ملی، پھر اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہمیں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ کے روضہ کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی، مزار رضا پر فاتحہ عرض کرکے ہم نے اپنے رب سے ایک ہی دعا مانگی:’’اے پروردگار! عشق رسالت اور نعت مصطفی علیہ التحیۃ والثناء کا جو سمندر تو نے اپنے محبوب بندے احمد رضا کے سینے میں موجزن فرمایاتھا اس کا ایک قطرہ اپنے کرم سے ہمارے سینے میں بھی دال دے۔‘‘
آگے مزید لکھتے ہیں:
    ’’کہتے ہیں کہ سچے دل سے نکلی دعا بارگاہ ایزدی میں ضرور مقبول ہوتی ہے، ہمیں یقین ہے کہ اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے بھی اپنے مزار میں لیٹے لیٹے ہماری دعا پر آمین کہا ہوگا، بریلی شریف سے واپسی پر ہم نے اعلیٰ حضرت کی سترہ نعتوں پر تضمین لکھی جو ’’شان نعت مصطفی ‘‘کے عنوان سے شائع ہوئی۔بس یہیں سے ہماری کایا پلٹ ہوئی۔ بہاریہ شاعری سے دل اوب گیااور قلم کا رخ مذہبی شاعری کی طرف مڑ گیا۔ (مقدمہ عرفان مصطفی ص:
۴، بحوالہ اہل سنت کی آواز شمارہ ۶، ص: ۲۵۹، ۲۶۰)
والد محترم سید مارہروی قدس سرہ نے نظمی کو جو نصیحت کی تھی کہ امام احمد رضا قادری کا شعری مجموعہ ’’حدائق بخشش‘‘ مطالعہ میں رکھو، نظمی مارہروی نے اس نصیحت پر روز اول سے عمل کرنا شروع کردیا، اس گہرے مطالعہ نے نظمی کی فکر وفن کو اپنے خوش کن اثرات سے بھی نوازااور مسلم الثبوت موضوعات نعت نے آپ کی شاعری کو تنوع بخشا ،جہاں حرمت رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پامالی کا ادنیٰ تصور ہی نعت نگاری کے لیے زہر قاتل ٹھہرا بلکہ قدم قدم پرحزم واحتیاط نے ان کی شاعری کو مقبول ومقدس بنادیا۔ سید نظمی مارہروی نے کلام امام احمد رضا سے کافی استفادہ کیا اور جس کے اثرات آپ کے کلام میں جا بجا ملتے ہیں اور نظمی نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔ معرف فکشن نگار شاعر وادیب سید محمد اشرف مارہروی لکھتے ہیں:
’’نظمی کی شاعری کی ایک بہت نمایاںخصوصیت ہے اعلیٰ حضرت مجدد دین وملت سیدی احمد رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان سے فیض اٹھانا، ایسے کسی بھی موقع پر نظمی نے اپنے فیض کے منبع کو چھپایا نہیں ہے، چھپائے وہ جو کسی اور کا مال تاک رہا ہو۔ بفضلہ تعالیٰ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ خاندان برکات کے چشم چراغ تھے اورخاندان برکات کا بچہ بچہ ان کو اپنی بپوتی سمجھتا ہے‘‘۔
                            (بعد از خدا۔۔ مطبوعہ ممبئی ص:
۱۹)
ایک سوال کے جواب میں کہ’’ آپ کی شاعری میں کس شاعر ونعت نگار کے اثرات حاوی ہیں؟ نظمی مارہروی فرماتے ہیں:
’’میری شاعری پر صرف اور صرف امام عشق ومحبت اعلیٰ حضرت امام احمد رضاقدس سرہ کے اثرات حاوی ہیں، میں ان کے کلام سے جی بھر کے فیض اٹھاتا ہوں، گویا وہ میرے باپ کا مال ہو‘‘ (پیغام رضا ممبئی کا فکر وتدبیر نمبر ، اپریل تا جون
۲۰۰۹ء ص: ۱۰۴)
یہی وجہ ہے کہ کلام نظمی کو’’ پرتو کلام رضا‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اس تعلق سے خود آپ نے تحریر کیا ہے کہ:
    ’’سنی دنیا نے مجھے پرتو کلام رضا کا لقب عطا کیا ہے، یہ میرے لے بڑے اعزاز کی بات ہے، اعلیٰ حضرت سے میرا رشتہ دور کا نہیں، بہت قریب کا ہے، اگر چہ کچھ احمقوں نے یہ مشہور کرنا شروع کیا ہے کہ نظمی اعلیٰ حضرت کے مخالفوں سے مل گیا ہے۔ یہ امام احمد رضا کی روح کا فیض ہے کہ میرے بارے میں ایسا غلط پروپیگنڈہ کرنے والے خود ہی اعلیٰ حضرت کے مخالفین کی جوتیاں سیدھی کرنے والوں میں شامل ہوگئے‘‘
آگے مزید لکھتے ہیں:
    ’’میری نعتوں کی شہرت اور مقبولیت صرف اور صرف اعلیٰ حضرت کی روح کا فیض ہے اور اس کا اعتراف کرنے میں مجھے ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔ میرے اکثر اشعار اسی اعتراف کی ترجمانی کرتے ہیں۔
                     (پیغام رضا ممبئی، ص:
۱۰۳، اپریل تا جون ۲۰۰۹ئ)
اب سید نظمی مارہروی کے وہ اشعار ’’مشتے از نمونہ خروارے‘‘ کی طرز پر ملاحظہ کرلیں جن میں یہ اعترافات موجود ہیں اور نظمی نے بڑی مہارت اور سلیقہ مندی سے اس اعتراف کو شعری پیکر عطا کیا ہے۔
پرتو کلک رضا لاریب نظمی کا قلم
فیض نے ان کے مجھے حساں بنا کر رکھ دیا
نعت گوئی نظمی نے سیکھی حسان الہند سے
نعت کہتے تھے بریلی میں جو طیبہ دیکھ کر
ہے فیض رضا نظمی تیرے قلم پر
کیے جایوں ہی نعت ومدحت کی بارش
ملا نظمی تجھے کلک رضا کافیض اس درجہ
ترے اشعار انداز رضا بن کر نکلتے ہیں
بارگاہ اعلیٰ حضرت سے ملا نظمی کو فیض
اس کی نعتوں کی زمانے بھر میں دھومیں مچ گئیں
ملا نام نظمی کو نعت میں ،یہ عطا رضا کے قلم کی ہے
کہاں میری اتنی بساط تھی ،نہ حساب میں نہ کتاب میں
آگے چل کر نظمی مارہروی نے اس بات کاخلاصہ بھی کردیا ہے:
    ’’میں نے جس وقت نعت کہنا شروع کیاتھا تب میرے والد ماجد حضور سید العلما ء نے مجھے نصیحت کی تھی کہ میں حدائق بخشش کا مطالعہ کروں۔ یہ اسی نصیحت پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے کہ میرے اشعار میں میرے چاہنے والوں کو اعلیٰ حضرت کار نگ نظر آتا ہے‘‘۔ (پیغام رضا، ممبئی ص:
۱۰۴، شمارہ اپریل تا جون ۲۰۰۹ئ)
گویا کہ فکر امام احمد رضا ہی نظمی مارہروی کے تمام تر شعری اثاثے کی بنیاد ہے اور اسی بنیاد پر نظمی نے نعت گوئی کی خوب صورت عمارت تعمیر کی ہے اور بے طرح کامیابیوں سے ہم کنار ہوئے ہیں، ایک مقام پر اسی فکر رضا کے تعلق سے چند جملوں میں بڑی دل لگتی اور مبنی بر حقیقت بات لکھی ہے، فرماتے ہیں کہ:
    ’’فکر رضا دراصل حلال کو حلال کہنے اور حرام کو حرام سمجھنے کا نام ہے۔اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے اپنی ساری زندگی او امرونواہی کی تبلیغ وتشہیر میں گزاری، امام احمد رضانے دنیائے اسلام کو ایک ہی فکر دی، وہ یہ کہ دل میں عشق رسول ہے تو سب کچھ ہے۔ انہی دو لفظوں میں چھپی ہے فکر رضا اور یہی دو لفظ ہر زمانے ہر دور میں انسانی بقا کے ضامن رہے ہیں۔ (حوالہ سابق :
۱۰۳)
    امام احمد رضا فاضل بریلوی کی ذات سے اور ان کے افکار ونظریات سے سیدنظمی مارہروی کی یہی وہ لگن اور سچی عقیدت تھی کہ جس نے انہیں ترجمۂ قرآن مجید ’’کنزالایمان ‘‘اورتفسیر قرآن’’ خزائن العرفان‘‘ کو ہندی زبان میںترجمہ ومنتقلی پر آمادہ کیا اور آپ نے اپنی بے پناہ مصروفیات سے وقت نکال کر اس اہم اور دشوارترین کام کا آغازکر دیا اور یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچا اور ’’کلام الرحمن‘‘ سے اس کی اشاعت عمل میں آئی اور حج ہاؤس ممبئی میں رضا اکیڈمی ممبئی اور بزم برکات آل مصطفی، ممبئی کے اشتراک سے اس کی شان دار رسم اجرا ہوئی۔
    امام احمدرضا کی ذات سے روحانی طور پر وابستگی نے انہیں شہر بریلی سے بھی مربوط کردیا اور امام احمد رضا کے خاندان سے بھی دلی تعلق بنائے رکھنے پر مجبور کیا، جس طرح مشائخ مارہرہ اور امام احمد رضا کے درمیان ایک طرز کا خاص تعلق اور لگاؤ تھا اور نظمی مارہروی نے اپنی زندگی میں موجودہ مشائخ واکابرین مارہرہ کو اسے نبھاتے ہوئے دیکھا تو اس کے اثرات آپ کی حیات کے لمحات میں بہ خوبی ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں، نظمی مارہروی نے ’’امام احمد رضا اور مشائخ مارہرہ‘‘ کے عنوان سے ایک تفصیلی مضمون سپرد قلم کیاتھا، جو سہ ماہی افکار رضا، ممبئی کے پچاسویں شمارہ امام احمد رضا نمبر میں بڑے اہتمام سے شائع ہوا، جو اس وقت راقم کے پیش نگاہ ہے، یہی مقالہ بعد میں پیغام رضا ممبئی شمارہ اکتوبر تا دسمبر
۲۰۰۸ء میں بھی شائع ہواتھا، اس مقالے میں آپ نے مشائخ مارہرہ سے امام احمد رضا کے روابط وتعلقات اور الفت ومؤدت پر تفصیل سے لکھا ہے اور فکر رضا کی اشاعت وفروغ میں مشائخ مارہرہ کی خدمات جلیلہ اور حد درجہ کاوشات کو جلوہ نما کیا ہے، ایک جگہ آپ رقم فرماتے ہیں:
’’الحمد للہ! مارہرہ کے اس سید گھرانے کو یہ فخر حاصل ہے کہ یہاں جتنا ذکر امام احمدرضا کا ہوتا ہے، اتنا شاید اعلیٰ حضرت کے اپنے خاندان میں نہیں ہوتا ہوگا  (سہ ماہی افکار رضا، ممبئی خاص شمارہ ص:
۲۹)
    خاندان برکات مارہرہ شریف اور بریلی شریف کے رشتے پر روشنی ڈالتے ہوئے نظمی مارہروی اپنے ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں کہ:
’’خاندان برکات مارہرہ شریف اور بریلی شریف ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں، وہ برکاتی نہیں جو خانوادۂ رضا کو نہ مانے اور وہ رضوی نہیں جو خانوادۂ مارہرہ سے عقیدت نہ رکھتا ہو، خود اعلیٰ حضرت اس اٹوٹ بندھن کا اعلان فرما گئے ہیں۔
کیسے آقاؤں کا بندہ ہوں رضاؔ
بول بالے مری سرکاروں کے
مارہرہ کے سادات کو ہمیشہ سے ہی اپنے اس رشتے پر ناز رہا ہے، ہم الحمد للہ سپوت ہیں کپوت نہیں، ہمارے اسلاف نے ہمیں محبت کی وراثت عطا کی ہے، اعلیٰ حضرت کو میرے دادا حضرت سید شاہ ابو الحسین احمد نوری میاں علیہ الرحمہ نے چشم وچراغ خاندان برکات کا لقب عطا فرمایا، ہم مارہرہ والے آج بھی اعلیٰ حضرت کو اپنے خاندان کاایک فرد مانتے ہیں، اعلیٰ حضرت نسب کے اعتبار سے خان زادے تھے، مگر ہم سید زادے اپنے نانا جان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اس سنت پر عمل پیرا ہیں جس کے تحت سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے فرمایاتھا ’’سلمان میرے اہل بیت سے ہے‘‘ میں نے اپنے ایک شعر میں مارہرہ اوراعلیٰ حضرت کی نسبت کا ذکر یوں کیا ہے:
حضرت آل سول پاک کے فیضان سے
خان زادہ سیدوں کااعلیٰ حضرت بن گیا
خانوادہ مارہرہ اور بریلی شریف کے رشتے پر اگر لکھا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوجائے‘‘۔
                        (پیغام رضا ممبئی شمارہ اپریل تا جون
۲۰۰۹ء ص: ۸۹)
    سید نظمی مارہروی نے اپنے احباب کی فرمائش پراپنے تمام شعری مجموعوں کویک جاکر کے
۲۰۰۸ء میں ایک مکمل نعتیہ دیوان’’ بعد از خدا۔۔۔۔‘‘ کے نام سے ۴۸۶ صفحات پر مشتمل شائع کیا، اس دیوان میں حروف ہجائیہ کا بھرپور لحاظ رکھاگیا ہے اس میں کل ۳؍ حمدیہ نظمیں ۱۶۰؍ نعتیں، ۳؍ طویل آزاد نظمیں، ۳۴ قطعات۔ ۵۰ مناقب اور ۲۴ سہرے اور دیگر منظومات کے علاوہ ۲۷ ہندی وسنسکرت زبان پر مشتمل نعتیہ کلام ہیں جو چھند اور چوپائیوں پر مشتمل ہیں، اس دیوان کا سرسری مطالعہ بتاتا ہے کہ بے شمار مقامات میں نظمی مارہروی نے بریلی اور مارہرہ کے اٹوٹ رشتے کو شعری لبادہ پہنایا ہے اورانتہائی ہنر مندی کے ساتھ قابل ذکر اشعارشعری بیاض میں سجائے ہیں ، چند کا ذکر یہاں کیا جارہا ہے: پڑھیں اور نظمی کے فکر وخیال اور اظہار حقیقت کی داد دیں    ؎
بریلی سے چلے مارہرہ پہنچے اور پھر اجمیر
مدینے کے لیے بغداد سے ہوکر نکلتے ہیں
مرکز ہے سنیت کا بریلی کا شہر پاک
چمکائی ہے رضا نے شریعت رسول کی
احمدرضا کو فیض ہے آل رسول کا
زندہ ہیں آج تک وہ فضیلت لیے ہوئے
کمال ہے کہ بریلی کے خان زادوں کو
فروغ بخشاہے مارہرہ کی سیادت نے
کہاں رسول کی مدحت کہاں قلم میرا
سلیقہ بخشا مجھے روح اعلیٰ حضرت نے
بے بریلی سے لو اور میم لو مارہرہ سے
قلعۂ نجدپہ اے سنیو! بم برساؤ
نام اعلیٰ حضرت پر جان نثار کرے ہیں
ہاں ہمیں بریلی سے ایسی ہی عقیدت ہے
شہر بریلی تجھ پہ فضل ہے نوری کا
آج بنا تو مرکز اہل سنت ہے
ان اشعار کے مطالعہ سے سید نظمی مارہروی کے فکری ارتکاز کا پتہ بہ آسان لگ جاتا ہے، یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نظمی کو مرکز سنیت بریلی کی مرکزیت پر ناز ہے اور انہیں اپنے برکاتی اعلیٰ حضرت پر فخر ہے۔
    امام احمد رضا قادری قدس سرہ کے خلف اصغر حضور مفتی اعظم ہند علامہ شاہ مصطفی رضا نوری برکاتی علیہ الرحمہ محترم نظمی مارہروی کی علمی لیاقت، روحانی سیادت، اور امام احمد رضا سے سچی عقیدت ووارفتگی کی سراہنا کرتے نظر آتے اور نظمی کی ذات پر کامل اطمینان کااظہار بھی کرتے تھے، محترم نظمی مارہروی کے والد ماجد حضور سید العلماء علیہ الرحمۃ والرضوان کے عرس چہلم میں بریلی شریف سے حضور مفتی اعظم ہند بھی مارہرہ مقدسہ تشریف لے گئے تھے اور نظمی کی رسم سجادگی کو خود اپنے دست مبارک سے عمامہ باندھ کر اعتبار بخشا تھا اور بھرے مجمع میں ان کی تحسین کی تھی۔
حضور مفتی اعظم علیہ الرحمہ جب شدت مرض کا شکار تھے حتی کہ کھانا تک ترک کردیاتھا، اس وقت محترم سید نظمی مارہروی نے بریلی شریف حاضر ہوکر آپ کی عیادت کی تھی، اسی موقع پر آپ نے حضور مفتی اعظم ہند کے لیے خود کھانا منگوا کر پیش کیا تھا، لیکن مفتی اعظم ہند کے کئی بار انکار کے بعد آپ نے یہ کہہ کر کھانا کھانے پر راضی کرلیا تھا کہ:
’’ایک آل رسول آپ کو حکم دیتا ہے کہ تھوڑا کھانا تناول کرلیں‘‘اور حضور مفتی اعظم نے اس پیر زادے کی بات تسلیم کرتے ہوئے کھانا تناول کیاتھا، محترم نظمی نے کئی جگہ حضور مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے علم وفضل، زہد وتقویٰ، تصلب فی الدین اور تفقہ وتدبر کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور آپ کے وصال پرایک طویل منقبت بھی سپردقلم کی تھی، جو نعتیہ دیوان بعد ازخدا کے صفحہ
۳۴۴ پر موجود ہے۔ چند اشعار نشان خاطر ہیں:
زندگی ان کی تھی شرح مصطفی کاآئینہ
 قول وفعل وحال میں تھے مرتضیٰ کا آئینہ
قوم نے جس کو دیاتھا مفتی اعظم لقب
شارح قرآن، حدیث مصطفی کا آئینہ
اپنے مرشد حضرت نوری سے جو نوری بنا
 صورت وسیرت میں وہ احمد رضا کا آئینہ
ولی صورت ولی سیرت ہمارے مفتی اعظم
 کہ جن کو دیکھنے کے ساتھ ہی یاد خدا آئے
ہوئے نوری کے تو نوری بنے ہیں مفتی اعظم
بریلی تجھ کو مارہرہ سے کیسی نوری نسبت ہے
    حضور خاتم الاکابر سید شاہ آل رسول احمدی علیہ الرحمہ نے امام احمدرضا قدری قدس سرہ کو مارہرہ مقدمہ کے جس ہجرے میں داخل سلسلہ فرمایاتھا اور اجازت وخلافت سے سرفراز کیاتھا محترم نظمی مارہروی اس ممتاز نسبت کے حصول پر بھی بڑے والہانہ انداز سے روشنی دالتے ہیں، اس سے بھی امام احمد رضا کی ذات سے ان کے روحانی ربط ووابستگی کی وضاخت ہوتی ہے۔
’’جس مقدس گدی پر بیٹھ کر حضور خاتم الاکابر نے اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب کو داخل سلسلہ عالیہ برکاتیہ کیا اور جس تخت کو حضور نوری میاں صاحب قدس سرہ نے زینت بخشی ،وہ گدی اور تخت بحمد للہ تعالیٰ اس فقیر برکاتی نوری کے پاس ہے ساتھ ہی حضور اچھے میاں صاحب قدس سرہ کا مکان سجادگی بھی‘‘ (مقدمہ مترجم سراج العوارف، مطبوعہ ممبئی، ص:
۱۸، ۲۰۰۹ )

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں