اعلیٰ حضرت کے وصال پر حافظؔ پیلی بھیتی کے
مرقومہ قطعات و تاریخی مادّے
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ کے وصال 1340ھ کو
ہوا ۔ آپ کے وصال پر دنیاے سنیت جس غم و اندوہ سے دوچار ہوئی اس کا اندازہ اُس
زمانے کے اخبارات اور رسائل میں شائع شدہ تعزیتی مضامین اور منظومات سے لگایا
جاسکتا ہے۔
اعلیٰ حضرت کے معاصرین میں پیلی بھیت کے مشہور ترین شاعر استاذ الشعراء
حضرت الحاج حافظ قاضی خلیل الدین حسن صاحب فضل رحمانی حافظؔ پیلی بھیتی وکیل و
آنریری مجسٹریٹ(ولادت 1860ء وفات1929ء )
اردو کے نعت گو شعرا میں منفرد مقام رکھتے تھے۔ حضرت حافظؔ پیلی بھیتی کے
آٹھ دیوان اُن کی زندگی ہی میں شائع ہوچکے تھے ۔ علاوہ اِن کے تقریباً دس دیوان
غیر مطبوعہ لاپتا ہیں ۔ حضرت حافظ ؔ پیلی بھیتی کو اعلیٰ حضرت سے یک گونہ محبت و
انسیت تھی۔ آپ اعلیٰ حضرت کی بڑی قدر و منزلت کرتے تھے۔ اعلیٰ حضرت کے وصال
(1340ھ) پر آپ نے اپنے جذبات کا اظہار قطعات و تاریخی مادّے تحریر فرما کر کیا ۔
جو کہ حضرت حافظؔ پیلی بھیتی علیہ الرحمہ کے دیوان مسمیٰ باسمِ تاریخی " مَے
خانۂ خلد1340ھ" میں شامل ہیں ۔ حضرت حافظؔ پیلی بھیتی علیہ الرحمہ کے مرقومہ
قطعات و تاریخی مادّے 95 عرسِ اعلیٰ حضرت کی مناسبت سے ذیل میں نشانِ خاطر کریں:
تاریخِ وفات اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمدرضا خان
صاحب علیہ الرحمۃ
اُف وقت جمعہ مولوی احمد رضا خاں کی وفات
تاریک ہے اہلِ نظر کی آنکھ میں کُل کائنات
نامِ خدا ہوتی ہے ایسی بھی حیات و ممات
قالب سے نکلی روح اشاروں سے ادا کرکے صلاۃ
حادث ہے عالم حادثے ہوتے ہی رہتے ہیں یہاں
اس حادثے کا نام سچّا ہے اشدّالحادثات
کعبہ سیہ پوش آج ہے ، غم ناک ہے ہر حق پرست
خوش ہو پڑے پاپوش سے لات و منات و سومنات
حیرت ہے کیا نُدرت ہے کیا مدحت سرائی پر اگر
اُن کے لبوں کو بوسہ دیں آکر رسولِ کائنات
یہ گھر بھرا ہےخیر سے خوش حال و مالا مال ہے
مال اس میں ہے آل اس میں ہے اس میں ہیں ابنا و بنات
یہ ہیں وہی مال و بنوں جن کو کہا قرآن میں
زینِ حیاتِ دنیوی پھر باقیاتِ صالحات
یہ مال بھی یہ آل بھی قائم رہے دائم رہے
اب اس دعا کی آڑ میں لکھنا ہے تاریخِ وفات
تاریخ کا جو شعر ہو مطلع بھی ہومقطع بھی ہو
مطلب یہ ہے وہ بات کہیے جس سے نکلے کوئی بات
حافظؔ کو مصرع غیب سے تاریخی آیا ہے یہ ہات
مال بنودودماں الباقیات الصالحات
1340ھ
اس نظم کے علاوہ حضرت حافظؔ پیلی بھیتی علیہ الرحمہ نے
اعلیٰ حضرت کے فرزندِ اکبر حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا علیہ الرحمہ کو جو منظوم تاریخی
تعزیت نامہ ارسال کیا وہ بھی "مَے خانۂ خلد1340" کی زینت ہے ، ذیل میں
ملاحظہ کریں :
آپ کے والدِ ماجد پر ہو
حضرتِ حامد رحمتِ ایزد
ہوگئے مل کر دونوں اک ذات
آپ کے والد رحمتِ ایزد
تاریخ کی فکر میں تھا حافظؔ
خود ہوئی وارد رحمتِ ایزد
پورا مصرع آکے بتایا
رحمتِ ایزد ، رحمتِ ایزد
1340ھ
حجۃ الاسلام کو روانہ کردہ اس منظوم تاریخی تعزیت نامہ
علاوہ حضرت حافظؔ پیلی بھیتی علیہ الرحمہ کے موے قلم ایک تاریخی رباعی اور کئی
قطعات بھی نکلے ، جن سے آپ کی اعلیٰ حضرت
سے محبت و الفت کا والہانہ اظہار بھی ہوتا ہے اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اعلیٰ
حضرت کی وفات کا اُن کو کس قدر گہراصدمہ ہو ا تھا ، ذیل میں "مَے خانۂ خلد
1340ھ " میں شامل بقیہ تاریخی مادّے خاطر نشیں کریں:
رباعی تاریخی
صد حیف وہ مقتداے اہل سنت
سب کرتے ہیں ہاے ہاے اہلِ سنت
حافظؔ نے کہا مصرعِ تاریخِ وفات
سردار پیشواے اہلِ سنت
1340ھ
قطعہ
وہ سنیوں کا مقتدا
وہ ناجیوں کا پیشوا
وہ جامعِ صدق و صفا
وہ ہادیِ راہِ ہدیٰ
بہکے ہوؤں کا خضر تھا
بھٹکے ہوؤں کا رہنما
وہ سرگروہِ اتقیا
خلدِ بریں کو چل دیا
اللہ کا مقبول تھا
اسمِ شریف احمدرضا
اک مادّے تاریخ کا
احباب کو مطلوب تھا
حافظؔ نے یہ مصرع کہا
مقبولِ حق احمدرضا
1340ھ
قطعہ
عالم بھی تھا عامل بھی تھا
حافظؔ ہمارا مقتدا
جس ناو پر ہم ہیں سوار
اُس ناو کا تھا ناخدا
بندوں کو روتا چھوڑ کر
اللہ سے واصل ہوگیا
تاریخ کی تھی مجھ کو دُھن
چپکے سے ہاتف نے کہا
تاریخ کا مصرع ہے یہ
علم و عمل احمد رضا
1340ھ
قطعۂ تاریخ کی دواقسام ہیں ایک صوری دوسرا معنوی ۔ صوری
تاریخ میں الفاظ سے سال کا اظہار کیا جاتا ہے اور معنوی تاریخ میں یہ اعداد حسابِ
جمل یا ابجد کے حساب سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اگر اعدا پورے کرنے کے لیے کچھ الفاظ
یاحروف بڑھانے پڑیں تو اس کو تعمیہ اور اگر گھٹانے پڑیں تو اسے تخرجہ کہتے ہیں ۔
حضرت حافظؔ پیلی بھیتی علیہ الرحمہ نے اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ کے وصال پر ہر قسم کے
تاریخی مادّے تحریر فرمائے ، صوری بھی ، معنوی بھی اور تعمیہ و تخرجہ بھی۔ ذیل میں
بقیہ قطعات ملاحظہ ہوں :
قطعہ
عالموں میں مستند اہلِ حق میں نامور
فاضلوں میں معتمد مفتیوں میں معتبر
ملک کو بتادیا مستقیم راستہ
خلق کو سکھا دیا امتیازِ خیر و شر
صاحبِ فراش تھے یوں اٹھے کہ ہوگئے
اِس جہانِ پست سے
سوے اوج وہ سپر
فکرِ حافظِ غمیں سال کی تلاش میں
ہر طرف چلی پھری سو بسو اِدھر اُدھر
معنوی و صوری اچھا ملا یہ مادّہ
اوج کو کیا سفر بست و پنجمِ صفر
قطعہ
حق سے رافت کی جو رکھتے تھے آس
کوئی وسواس تھا نہ بیم و ہراس
آپ تاریخ ہوگئی جس دم
پہنچے "احمد رضا" ۔ "رؤف"
کے پاس
احمدرضا=1054
رؤف=286
میزان=1340
قطعہ
مفتی احمدرضا نے پائی وفات
اہلِ دیں دنیا ہوئے اشک بار
اِس طرف شور تھا الوداع الوداع
اُس طرف باغِ فردوس میں انتظار
پوچھے جاتے تھے رضواں سب سالِ نقل
کہ دیا " مومنِ حق نما" چار یار
"مومنِ حق نما" کا عدد 335 نکلتا ہے ، جس کو چار
مرتبہ جمع کرنے سے کل میزان 1340 ہوتا ہے اور یہی اعلیٰ حضرت کا سالِ وصال ہے ۔
25 صفر المظفر 1435ھ بروز اتوار بہ موقع 95 واں عرسِ رضا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں