’’رب کے متوا‘‘… ادریس وارثیؔ کا نعتیہ مجموعہ
جناب ادریس وارثیؔ
صاحب کا شناخت نامہ میدانِ شاعری میں ایک پوربی نعت نگار کے طور پر معروف ہے ۔ آپ
مشاعروں کی دنیا میں اپنے مخصوص لب و لہجے اور ترنم کے سبب پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے
جاتے ہیں ۔ موصوف نے اپنی شعر گوئی کی ابتدا نعت جیسی مقدس اور پاکیزہ صنف سے کی۔ یقینا
یہ بڑی سعادت مندی اور فیروز بختی کی بات ہے ۔ سید محمد اشرف میاں برکاتی مارہروی کے
بہ قول :ـ’’
فنِ نعت کسبی نہیں وہبی ہے یہ صرف عطاے الٰہی سے حاصل ہوتاہے۔‘‘(لمعاتِ بخشش پشتی سرورق)
، یہ ادریس وارثیؔ صاحب پر ربِ ذوالجلال کا بے پناہ فضل و احسان ہے کہ آپ کا فکر و
قلم ابتدا ہی سے تقدیسی شاعری کی سمت بہتر انداز میں رواں دواں ہے۔ یہاں تک کہ آپ
مذہبی شاعر کے روپ میں پہچانے جاتے ہیں ۔
ادریس صاحب کی
پسندیدہ صنف نعت ہے اورآغازِ شعر گوئی کے وقت اس میدان میں آپ نے عقیدت و محبت کے
جو گل بوٹے بکھیرے وہ زیادہ تر پوربی بھاشا میں تھے ۔ لیکن یہ بڑی خوش آیند بات ہیکہ
اُنکی زنبیلِ شاعری میں خاصی تعداد میں اردو نعت بھی جگمگارہی ہے۔ ’’ رب کے متوا‘‘
آپ کی تقدیسی شعری کائنات کا اولین مجموعہ ہے ۔ جس میں حمد و نعت ، سلام و مناقب اور
مناجات شامل ہیں۔
’’رب کے متوا‘‘
کے سرسری مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وارثی صاحب نے بڑی سلیقہ مندی سے الفاظ کے مناسب
رکھ رکھاو کے ساتھ بڑے اچھے اور خوب صورت اشعار قلم بند کیے ہیں۔ روایت کے مطابق
’’رب کے متوا ‘‘ کا دروازۂ مدحت ربِ کریم جل جلالہٗ کی حمد سے ہوتا ہے ۔ یہ کائنات
اور اس کا تمام تر نظام اُسی خالقِ کل کا مرہونِ منت ہے ۔ادریس صاحب کی مرقومہ حمد
کئی ایسے تاریخی واقعات کو اپنے اندر سموے ہوئے ہے جو قرآن و حدیث سے ماخوذ ہیں اس
لحاظ سے یہ حمدتلمیح کے ساتھ ساتھ تلمیع جیسی صنعت کے زمرے میں بھی رکھی جاسکتی ہے
، چند اشعار دیکھیں ؎
کسی
کو طور پہ جلوہ دکھانے والاتو
کسی
کو عرش پہ مہماں بنانے ولاتو
دیا
ہے تو نے ہی موسیٰ کو نیل میں رستہ
سفینہ
نوح کا ساحل پہ لانے والا تو
کسی
کو طورِ سیہ پر دکھائی چیونٹی بھی
کسی
کو تختِ صبا پر بٹھانے والاتو
حمد باری تعالیٰ
کے بعد نعتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف شاعر کا قلم محوِ پرواز ہوتا ہے ۔ وارثی
ؔ صاحب نے نعت نگاری میں اس بات کی پوری پوری کوشش کی ہے کہ فنِ نعت جن نزاکتوں کا
متقاضی ہے اُس کا بھر پور لحاظ رکھا جائے ۔ آپ نے اپنی نعتوں کو عقیدے و عقیدت کا
اظہاریہ تو بنایا ہی ہے ساتھ ہی ساتھ شعریت کی خوب صورت پرچھائیاں بھی آپ کی نعتوں
سے ابھرتی دکھائی دیتی ہیں۔آپ نے عامیانہ اندازِ بیان سے بھی گریز کیا ہے۔ آپ کی
نعتوں میں سیرتِ طیبہ مختلف پہلووں کا حسین عکس دکھائی دیتا ہے ؎
پتھر
کی بارشوں میں بھی دیتے رہے دعا
کردارِ
شاہ رحمتِ پروردگار لکھ
نوازا
دشموں کو شاہِ دیں نے
کوئی
مایوس اس در سے گیا کیا؟
شب
گذاری کی ہے رو کر امتی کے واسطے
جان
و دل قرباں ہمارے اُس نبی کے واسطے
آج پوری دنیا
میں امتِ مسلمہ غیروں کے ہاتھوں تاراج ہوکرہی ہے ۔ ہم ہر جگہ ستائے جارہے ہیں ۔ وہ
کون سا ظلم و ستم نہیں ہے جو ہم پر روا نہیں رکھا جارہا ہے اگر ہم ان مظالم کے اسباب
کا پتا لگائیں تو یہی ظاہر ہوگا ہم نے سیرتِ طیبہ پر عمل کرنا چھوڑدیا ہے ۔ اگر ہمیں
اپنا باوقار ماضی واپس لانا ہے اور سراُٹھانا کر جینا ہے تو ہمیں سنتِ سرکارصلی اللہ
علیہ وسلم پر مکمل عمل کرنا پڑے گا ؎
اگر
دنیا کو قدموں میں جھکانا ہے تو لازم ہے
رسولِ
پاک کی سیرت کو اپنے درمیاں کرلیں
رسولِ
پاک کی سیرت پہ چلیے
یقینا
دشمنوں کو مات ہوگی
وارثیؔ صاحب
کے ان اصلاحی اور پیغامی اشعار کے علاوہ درج ذیل شعر نے مجھے خاص طور پر متاثر کیا
،دشمنوں کو دعا دے کر سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے ’’پتھر کو نم‘‘
کرنے کی خواہش کیا کہنے سبحان اللہ !! لکھتے ہیں ؎
میرا
یہ فرض بنتا ہے دشمن کو دعا دے کر
نبھاؤں
سنتِ احمد کسی پتھر کو نم کردوں
جیسا کہ میں
نے عرض کیا کہ وارثیؔ صاحب بنیادی طور پر پوربی کے شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں
۔ موصوف کا یہ اختصاصی شناخت نامہ اُن کے پیشِ نظر مجموعۂ کلام کے نام ’’رب کے متوا
‘‘ سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اس مجموعے میں کئی کلام پوربی میں قلم بند کیے ہوئے خوانِ
قرطاس پر سجائے گئے ہیں ۔پوربی بھاشا میں لکھے گئے کلام میں بلا کی سلاست و روانی اور
نغمگی و غنائیت کے ساتھ ساتھ خیالات میں احترام و تقدس اور فکری پاکیزگی بھی بہتر انداز
میں رچی بسی دکھائی دیتی ہے ؎
امّی
لقب ہیں نورِ خدا کل نبین کے سردار
بند
کتب خانے سب ہوی گئے پڑھے لکھے بیکار
سب
پہ غالب ہمرے آقا کے قرآن ہوی گئے نا
…………
نور
کے تن من نور کے گیسو نور کی سگری کایا
آمنہ
بی بی کے انگنیا جانے کُونے آیا
اوڑھے
نورانی چدریا بڑا نیک لاگے لا
نعت بڑی نازک
اور مشکل ترین صنف ہے ۔ ایوانِ نعت ’’باخدا دیوانہ باش وبامحمد ہوشیار ‘‘ اور ’’آہستہ
رہ کہ بردمِ تیغ است قدم را‘‘ کی منزل ہے۔ اس راہ میں بڑے حزم و احتیاط سے سفر کرنے
کی ضرورت ہے ۔ چراغِ شریعت کے اُجالے میں الفاظ و موضوعات کو چھان پھٹک کر پیش کرنا
شاعرکافریضۂ اولین ہے۔ نعت میں من گھڑت روایات اور غلط واقعات کا بیان کرنا کسی طرح
بھی صحیح نہیں۔ حتیٰ کہ نعت میں اس امر کا بھی لحاظ رکھنا از بس اہمیت کا حامل ہے کہ
نعت کی زیریں رَو سے منقبت کا اندازبھی مترشح نہ ہو۔اور ہم نعت میں جن باتوں کوپیش
کررہے ہیں اُن میں بھی صداقت ہو نہ کہ محض شعری حُسن کے لیے ہم بے ساختہ ایسی بات بیان
کردیں جو خلافِ واقعہ ہو۔ ’’ رب کے متوا‘‘ میں شامل بعض اشعار ایسے دکھائی دیتے ہیں
جس نے مجھ ایسے نعت کے ادنیٰ طالب علم کو حیرت میں مبتلا کردیا ۔ ساتھ ہی کہیں کہیں
نعت و منقبت کے درمیان کا فرق بھی متاثر ہوتا نظر آتا ہے ۔امید ہے کہ وارثیؔ صاحب
اُن پر ضرور نظر ثانی فرمائیں گے ؎
جنگِ
خندق میں علی ٹھہرے ہیں کُلِ ایماں
کوئی
ملتا ہی نہیں فاتحِ خیبر جیسا
میں
تصور میں عرشِ معلی گیا
دیکھتے
دیکھتے نقشِ پا آپ کا
اِنّا
اعطینا کو پڑھ کر بو جہل کہنے لگا
ہم
زباں رکھتے ہوئے بھی بے زباں سے ہوگئے
اذاں
نہ دیں تو سحر بیٹھی انتظار کرے
یہ
شان رکھتے ہیں دنیا میں مجتبیٰ والے
اسی طرح واقعہ
معراج سے متعلق ایک شعر بھی توجہ کاحامل ہے ، ذیل کے شعر میں بیان کردہ واقعہ کی تقریباً
تمام ہی مستند سیرت نگار حضرات نے تردید کی ہے
؎
تھا
حکم موسیٰ کو آئیں پا برہنہ طور پر
اور
مع نعلین پہنچے لامکاں صلِ علیٰ
حضرت موسیٰ علیہ
السلام طور پر پا برہنہ پہنچے یہ تو درست اور قرآن سے ثابت ہے لیکن نبیِ کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کا نعلین سمیت معراج پر جاناسیرت کی کسی بھی مستند کتاب میں نہیں ملتا
۔ بہ ہرکیف! ناچیز جناب محمد ادریس وارثیؔ صاحب کو اِس خوب صورت مجموعے کی اشاعت پر
ہدیۂ تبریک و تحسین پیش کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ اللہ کریم جل جلالہٗ نبیِ کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کے صدقے و طفیل آپ کی مخلصانہ عقیدت نگاری کو شرفِ قبول عطا فرمائے
اور موصوف کے لیے توشۂ آخرت بنائے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں