منگل، 9 دسمبر، 2014

Imam Ahmad Raza K Jadeed Taleemi Nazariat

امام احمد رضا کے جدید تعلیمی نظریات

(ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی (بریلی شریف، انڈیا
مجدد اسلام، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز (م ۱۹۲۱ھ) علم و فضل میں یکتائے روزگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم ماہر تعلیم بھی تھے۔ ان کی متعدد تصانیف مثل ’’الاجازات المتینہ‘‘ اور ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ وغیرہ میں ان کے تعلیمی نظریات پائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے ۱۸۹۴ء میں ایک دس نکاتی جدید تعلیمی منصوبہ بھی پیش فرمایا تھا جو نہ صرف ان کے عہد کے مسلمانان برصغیر بلکہ مسلمانان عالم کے لئے اہمیت و افادیت کا حامل تھا بلکہ عصر موجودہ کے مسلمانان عالم کے لئے اسی اہمیت اور افادیت کا حامل ہے۔
مذکورہ دس نکات کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔
(۱)… تعلیم خواہ انفرادی طور پر دی جارہی ہو یا اجتماعی طور پر، ہر ایک کا مرکز اسلام ہو۔
(۲)… تعلیمی درس گاہوں سے سچے مسلمان فارغ التحصیل کئے جائیں۔ سائنس بھی علم کا حصہ ہے لیکن کسی بھی طرح کی یجاد کا علم خالق کے عطا کردہ علوم سے باہر نہ بلکہ ہر علم اسلام کی روشنی میں حاصل کیا جائے۔
(۳)… نظام تعلیم خاص طور پر محبت رسولﷺ پیدا کرے، ساتھ ہی ساتھ صحابہ، اہل بیت، اولیاء اور علماء کی محبت بھی درس گاہوںکے درس میں اول ہو۔
(۴)… نظام تعلیم حقانیت اسلام کا داعی ہو۔
(۵)… طلبہ اسلام کو ایسی تعلیم دی جائے جو دنیوی و اخروی فلاح و بہبود کا ضامن ہو۔
(۶)…اساتذہ کو صرف استاد ہونا چاہئے اور انہیں امت مسلمہ کی تعلیم و تربیت کا آفاقی تصور ذہن نشین ہونا چاہئے۔
(۷)… طلبہ اسلام کو دوران تعلیم خود اعتمادی اور مسلم قومیت کی اصلاح مدنظر رکھنا چاہئے۔
(۸)… فضول مضامین کو خارج از نصاب کیا جائے۔
(۹)…درسگاہوں میں تعلیم پانے والے طلبہ کے اخلاق و عادات اور کردار اعلیٰ ہوں اور ذہنی قابلیت کے ساتھ ساتھ انہیں جسمانی طور پر بھی صحت مند ہونا چاہئے۔
(۱۰)… درس گاہوں کے طلبہ کے لئے ایسا ماحول مہیا کرنا چاہئے جو ان کے تعلیم میں دلچسپی اور مقصد میں کامیابی کی راہ ہموار کرے۔
جائزہ
اب ہم امام احمد رضا کے اس دس نکاتی تعلیمی منصوبہ کا ایک جائزہ پیش کرتے ہیں۔ ایک صالح اور پرامن معاشرہ کی تشکیل موثر تعلیمی نظام کے بغیر ممکن نہیں اور یہ وہی نظام تعلیم ہے۔ جس کا مرکز اسلام ہو کیونکہ اسلام دین حق اور دین فطرت ہونے کے ساتھ ساتھ نظام حیات کا آفاقی تصور بھی ہے۔
امام احمد رضا کے دور میں اسلامی معاشرہ غیروں کے کنٹرول میں تھا اور اسلامی معاشرہ میں ظلم ایک جہت سے نہیں بلکہ ہر جہت سے تھا اور یہ حالت اب بھی جوں کی توں ہے لہذا ضرورت تھی ایسے نظام تعلیم کی جو طلبہ کے ذہن و فکر کو اسلامی رنگ، تب و تاب اور توانائی سے اس طرح آراستہ اور نوربار کردے کہ وہ اس ظلم کو کاٹ کر پرامن اور پاکیزہ اسلامی معاشرہ کی تشکیل کریں۔
وہ نظام تعلیم جو مسلمانوں میں لادینی نظریات کو فروغ دے رہا تھا اور آج بھی وہی پوزیشن ہے۔ امام احمد رضا نے اس کی نشاندہی فرمائی اور اسلامی نظام تعلیم کو ہر مسلم درسگاہ یعنی انسٹیٹیوٹ کی بنیاد قرار دیا۔
کتنی بڑی ٹریجڈی تھی اور آج بھی وہی المیہ ہے کہ مسلم خاندان کے بچے اسکول میں تعلیم حاصل ریں اور تہذیب و تمدن غیروں کا اپنانے میں فخر محسوس کریں۔ دراصل یہ ایک سازش تھی۔ اس خطرے کی طرف بھی امام احمدرضا نے اشارہ دیا اور اس سازش کے جال کو کاٹ پھینکنے کے لئے یہ دس نکاتی فارمولا پیش فرمایا۔
امام احمد رضا کے دور میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں جو تعلیم دی جارہی تھی، اس میں طلبہ کو دینینات یا اسلامیات کی تعلیم ضرور دی جارہی تھی مگر سائنس پر اسلام کو فوقیت دینے کے بجائے اسلام کو سائنس کے تابع کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ اس وقت ایسی ہی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل افراد کو انتظامی امور اور دوسرے اہم و اعلیٰ عہدوں پر جگہ مل پائی تھی۔ اس طرح اسلام کو اس کے حقیقی شکل میں پیش کرنے کے بجائے نئے روپ میں پیش کیا گیا۔امام احمد رضا نے ایسے نظام تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دلائی جو اسلام کی حقیقی شمع روشن کرنے کا سبب ہو۔
مسلم طلبہ کا علم اور ان کی صلاحیت اسلامی معاشرہ میں فوائد و ثمرات چھوڑنے کے بجائے دوسروں کی نذر ہوئی لہذا امام احمد رضا نے مسلمانان عالم کے لئے یہ منصوبہ پیش فرمایا اور انہیں اپنے علم اور صلاحیت کو اسلامی معاشرہ کے لئے وقف کرنے کی تلقین کی۔
امام احمد رضا نے پیغمبر اسلامﷺ، صحابہ کرام، اہل بیت اطہار، اولیائے امت اور علمائے ملت کی محبت و عقیدت اور احترام کی اولیت دی ہے۔ حضور نبی امیﷺ کی محبت اور ان کا اتباع تو حکم قرآنی ہے۔ آقا حضورﷺ ہی جان ایمان ہیں۔ علاوہ ازیں ان کے اصحاب عترت اور ان کی امت کے اولیاء علماء کا ادب و احترام بھی ایمان کا حصہ ہے۔ اﷲ کے ان احسان یافتہ بندوں کے دامن سے وابستگی کے بغیر مسلمان صراط مستقیم پا ہی نہیں سکتا۔
عہد امام احمد رضا کے جدید تعلیم یافتہ افراد میں بعض نے انگریزوں کے اشارے پر اسلامی عقائد و نظریات کے خلاف ’’جدید اسلام‘‘ کو فروغ دینے کے لئے بھرپور خدمات انجام دیں۔ امت مسلمہ میں نئے نئے فرقوں کی بنیاد ڈالی۔ مسلم طلبہ کو بھی طبقوں میں تقسیم کردیا۔ اعلیٰ طبقہ کے لوگوں کا اسلام مدرسہ کے غریب طلبہ کے اسلام سے جداگانہ ظاہر کیا گیا۔ آج بھی یہ طبقاتی تقسیم بہرحال قائم ہے۔
امام احمد رضا کا یہ تعلیمی پروگرام اس طبقاتی تقسیم پر روک بھی لگاتا ہے اور اسلام کے ثقافتی ورثہ کے تحفظ کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ مسلم طلبہ کو نبی امیﷺ کے عشق و اتباع اور ان کے صحابہ، اہل بیت، اولیاء و علماء کی وابستگی سے دور رکھنے کا اعداء اسلام اور ان کے ہمنوا ماڈرن مسلمانوں کا یہی مقصد تھا کہ اسلامی قیادت، اسلامی تشخچص اور اسلامی تعلیم و تہذیب کو مٹا کر ’’جدید اسلام‘‘ پیش کیا جائے تاکہ مسلمانوں پر انگریزوں کاغلبہ قائم رہے اور آج بھی جدیدیئے اور تہذیب مغرب کے دیوانے مسلمانوں کو غیروں کے حصار غلامی میں محصور رکھنا چاہتے ہیں۔
مصر میں محمدعبدہ مصری نے جدید تعلیمی تحریک کی آڑ میں یہی سب کیا اور ’’ماڈرن اسلام‘‘ متعارف کرایا۔ ہندوستان میں جب ۱۹ ویں صدی کے اواخر میں کسی دوسرے مفکر نے علی گڑھ تحریک کے متبادل نظام پیش نہیںکیا۔ صرف امام احمد رضا نے اس فریضہ کی طرف توجہ دی اور اسی سے ان کے اس اصلاحی تعلیمی منصوبہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ابھی تک امام احمد رضا کے تعلیمی منصوبہ کا جو تجزیہ پیش کیا گیا، وہ اس کے نکتہ اول، نکتہ دوم کے حصہ اول، نکتہ سوم اور نکتہ چہارم سے متعلق ہیں۔
امام احمد رضا کے اس تعلیمی منصوبہ سے یہ بھی واضح ہے کہ تعلیم کا مقصد فقط بچہ کو بہت ساری معلومات فراہم کرنا، نصاب کی تکمیل اور امتحان میں کامیابی حاصل کرکے سند یا ڈگری لے لینا اور پھر اھی ملازمت یا سماج میں اونچی پوزیشن حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک تعلیم انفرادی طور پر جاری ہو یا اجتماعی طور پر اس کا مقصد ہے معاشرہ میں ایسے افراد پیدا کرنا جن سے پورا معاشرہ اثر لے اور جو دوسروں کے لئے نمونہ ہوں۔
اس سے قبل امام احمد رضا کے اس تعلیمی منصوبہ کے دوسرے نکتہ کے آخری حصہ یعنی ’’سائنس بھی علم کا حصہ ہے لیکن کسی بھی طرح کی ایجاد کا علم خالق کیعطا کردہ علوم سے باہر نہ ہو بلکہ ہر علم اسلام کی روشنی میں حاصل کیا جائے‘‘ نیز پانچویں اور چھٹے نکتے سے بحث کی جائے ان کے فتاویٰ رضویہ میں شامل ان کا یہ تعلیمی نظریہ بھی ملاحظہ کرتے چلئے۔ فرماتے ہیں۔
(۱)… سب سے پہلے علم دین بقدر کفایت ضروری ہے۔
(۲)… اس کے بعد ایک جماعت تفصیلی طور پر علوم دینیہ مثل حدیث، تفسیر، فقہ وغیرہ کی تحصیل میں مشغول ہو۔
(۳)… بقیہ افراد امت کے لئے مباح ہے کہ وہ علوم جو دنیوی امور میں کارآمد اور مفیدہوں، حاصل کریں۔ایسا کرنا ان کے لئے مباح ہے۔
(۴)… بغرض تحقیق و تردید فرق باطلہ اوہام غاطلہ ان علوم کی تحصیل جائز ہے جن کی تحصیل و تعلیم سے روکتے ہیں (ملخصاً، فتاویٰ رضویہ جلد دہم، ۱۰۷۔۱۰۸)
امام احمد رضا کے قول کے مطابق ہر مسلمان مرد یا عورت وہ اسکول، کالج یا یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ ہوں یا نہ ہوں۔ عقائد ضروریہ دینیہ کا علم ہر ایک کے لئے لازمی ہے تاکہ وہ دینی عقائد اور فرائض و واجبات وغیرہ کی ادائیگی کے طریقوں سے کماحقہ واقف ہوسکے۔ یہ امام احمد رضا کا بنیادی تعلیمی نظریہ ہے یعنی مرکز تعلیم اسلام ہو۔
امام احمد رضا نے مسلمانوں کو دنیوی و عقلی علوم کی اجازت دی ہے وہ سائنس، ریاضی، جغرافیہ، معاشیات، علم تجارت، عمرانیات یا زبان و ادب وغیرہ کچھ بھی ہوں البتہ یہ ضروری ہے کہ ہر علم کو قرآن و سنت کی روشنی میں پرکھا جائے جو کھرا اترے، اسے تسلیم کیا جائے وگرنہ اس کا رد بلیغ کیا جائے۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ اشیاء کی معرفت سے پہلے خالق اشیاء کی معرفت حاصل کی جائے اور دنیوی علوم کو دین کا خادم بنادیا جائے۔ امام احمد رضا کا یہ فرمان ان کے تعلیمی پروگرام کے دوسرے نکتہ کے آخری حصہ کی وضاحت کرتا ہے۔
امام احمد رضا اپنے تعلیمی پروگرام کے توسط سے جس ماڈل اسلامی معاشرہ کی تشکیل چاہتے ہیں، اس معاشرہ میں تعلیم دینے والے اساتذہ کو ایسا استاد دیکھنا چاہتے ہیں کہ جو تعلیم دینے کا مقصد فقط ڈیوٹی کی انجام دہی نہ سمجھیں بلکہ وہ ایسے افراد کی پیداوار میں اضافہ کریں اور اس اضافہ کو یقینی بنائیں جن سے اسلامی فلاحی معاشرہ کی تشکیل ہو۔
موجودہ دور میں نظام تعلیم کا ایک اور سانحہ شعبہ جاتی پہلو ہے۔ جو ایک تنگ نظر تعلیمی نظریہ کا اظہار ہے کیونکہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اساتذہ کسی بھی ایک مضمون میں تحصص کی بنیاد پر تعلیم دیتے ہیں جنہیں اپنے مضمون کے علاوہ دیگر مضمون کے بارے میں علم حاصل نہیں ہوتا۔ ایک ہی دائرہ میں محدود اساتذہ ایک طالب علم کی کل ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں۔
امام احمد رضا نے اپنے تعلیمی نکات میں اسلام کو بنیاد تعلیم قرار دے کر اس کا متبادل تصور پیش کیا۔ ان کے دور میں بریلی شریف میں مضمون پر حاوی اساتذہ نے علم کے موتی بکھیرے۔ خود امام احمدرضا ۸۰۔۸۵ نقلی و عقلی علوم و فنون پر ملکہ رکھتے تھے۔ شریعت اسلامی و دیگر علوم دینیہ، سائنس، ریاضی، فلسفہ، منطق، عمرانی و معاشی علوم وغیرہ ان کے دائرہ تدریس میں داخل تھے (۱)
امام احمد رضا کے اس تعلیمی منصوبہ کی روشنی میں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام کو تعلیم کی بنیاد بنانے سے جملہ مضامین کاعلم اور فہم حاصل کرنا ممکن بلکہ ضڑوری ہوتا ہے کیونکہ قرآن حکیم میں جملہ مضامین کے بارے میں تفصیلی بیان موجود ہے۔ جیسا کہ اس کا دعویٰ ہے۔
وتفصیل کل شئی، یوسف : ۱۱۱
امام احمدرضا کے ان نکات کا خلاصہ اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے۔ کہ اس نظام تعلیم میں ایک طالب علم مکمل انسانیت کے لئے ایک نمونہ ہوگا۔ امام احمد رضا کے ان نکات میں اسلامی تہذیب کو پروان چڑھانے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ ایسے اداروں میں جہاں اسلامی نظام تعلیم کا نفاذ ہو، اسلامی تہذیب باآسانی اپنا مقام حاصل کرسکتی ہے اور اسلامی تہذیب و تمدن کے توسط سے اہل اسلام میں بھائی چارے کو فروغ حاصل ہوگا۔ دنیوی اور اخروی کامیابیاں اسلامی نظام میں مضمر ہیں۔ امام احمد رضا کے اس تعلیمی منصوبہ سے طلبہ نہ صرف اپنی دنیوی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں، بلکہ روحانی میدان میں بھی مقام کا حصول ان کے لئے آسان ثابت ہوسکتا ہے۔
امام احمد رضا نے اپنے تعلیمی پروگرام کے ساتویں نکتے میں وضاحت فرمائی ہے کہ طلبہ خود داری اورخود شناسی کا جوہرپیدا کریں تاکہ وہ دست سوال دراز کرنے کے عادی نہ ہو جائیں اور اپنا جوہر کھو کر معاشرے کے لئے ایک بوجھ اور اسلام کے لئے ایک کلنک نہ بن جائیں۔
امام احمد رضا کا آٹھواں نکتہ حرمت علم سے متعلق ہے۔ طلبہ کے دل میں علم اور متعلقات تعلیم کا احترام پیدا کیا جانا چاہئے کیونکہ معاشرہ کی صالحیت اور ترقی کا راز علم میں پوشیدہ ہے۔ علم ہی وہ نور ہے جو انسان کے فکر ونظر کو نوربار کرکے اس کے توسط سے معاشرہ بلکہ پوری قوم کو منور وتاباں کردیتا ہے۔
طلبہ کو صحبت بد سے بچایا جائے کیونکہ یہی عمر بننے اور بگڑنے کی ہوتی ہے۔تعلیم انسان کو مہذب بناتی ہے، اس کے اخلاق و کردار کو سنوارتی ہے اور وہ تعلیم جس کا مرکز اسلام ہو وہی طلبہ کو بلند اخلاق و کردار کا مالک بناسکتی ہی۔ البتہ اساتذہ کی تربیت ضروری ہے اور ایسے اساتذہ کی ضرورت ہے جو شخصیت کی تعمیر کا فن جانتے ہوں۔ امام احمد رضا مفید کھیل اور سیروتفریح کو بھی ضروری قرار دیتے ہیں تاکہ طالب علم کی طبیعت میں نشاط وانبساط باقی رہے اور وہ مسلسل تحصیل علم سے اکتا نہ جائے۔
آخر میں امام احمد رضا سکنیت پر زور دیتے ہیں یعنی تعلیمی ادارے کا ماحول پرسکون اور باوقار ہونا چاہئے تاکہ طالب علم کے دل میں وحشت اور انتشار فکر پیدا نہ ہو۔
خلاصہ کلام
امام احمد رضا کے ان تعلیمی نکات کا مقصد ایک ایسے معاشرہ کی تشکیل ہے جس کا ہر فرد دوسرے کے لئے نمونہ ہو، جس کے اخلاق و عادات اور اطوار اسلامی تعلیمات کا نمونہ ہوں۔ امام نے علوم دینیہ کے علاوہ دیگر ضروری اور کارآمد دنیوی علوم کو بھی ضروری قرار دیا ہے البتہ وہ علوم جو کلیتاً اسلامی نظریات سے متصادم ہوں، ان کی اجازت نہیں دی ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ امام کا منصوبہ طلبہ کے دنیوی اور اخروی فلاح کی کلید ہے۔ ان کے تعلیمی نظریات کا خلاصہ ہم اس طرح بھی بیان کرسکتے ہیں کہ اس نظام تعلیم میں ایک طالب علم قدیم و جدید علوم کا امتزاج یا جامع اور اسے ایک مکمل انسان کی صورت میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ جو زمین پر خدا کا نائب اور معاشرہ میں عالم انسانیت کے لئے نمونہ ہو۔
امام احمد رضا کے تعلیمی منصوبہ کے نفاذ کا مسئلہ
جہاں تک مدارس اسالمیہ کا تعلق ہے تو وہاں مرکز تعلیم بہرحال اسلام ہی ہے اور اب تقاضائے وقت کے مطابق ہندی، انگریزی اور کمپیوٹر وغیرہ کی تعلیم بھی دی جارہی ہے البتہ امام احمد رضا کے اس تعلیمی پروگرام کے پیش نظر مزید اصلاح و ترمیم کی ضرورت ہو تو علماء کرام اور دانشوران ملت کو مل بیٹھ کر غور وفکر کرنا چاہئے۔ لیکن اصل مسئلہ ہے کالج اور یونیورسٹی سطح پر اس تعلیمی منصوبہ کے نفاذ کا۔
مسلم اور غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کے لئے امام احمد رضا کے نظریات تعلیم کے مطابق علیحدہ اسکول یا کالج کھولنا بھی ایک مسئلہ ہے اور عصر موجودہ میں مسلمانوں کی کافی تعداد عام اسکولوں میں زیر تعلیم ہے جو حکومت کی نگرانی کے لئے گورنمنٹ فنڈ مہیا کرے گی یا نہیں اور مسلم اکثریتی ممالک میں غیر اسلامی ذہن کی حکومتیں اس منصوبہ میں مددگار ثابت نہیں ہوسکیں گی۔ نتیجتاً اس منصوبہ پر عمل درآمد کے لئے یا تو اسٹیٹ اسکولوں سے باہر یا پھر ان کے لئے اعلیٰ سمجھ بوجھ اور مالدار مسلمانوں کو جزوی طور پر کوشش کرنی ہوگی۔ بہرحال اصل مسئلہ ان تعلیمی نکات کے نفاذ کا ہے۔ کچھ مسلمان سوچ سکتے ہیں کہ امام احمد رضا کا یہ تعلیمی پروگرام اسٹیٹ اسکولوں کے نصاب سے سراسر مختلف ہے اور وہ ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کرکے فوائد حاصل کرناچاہتے ہیں حالانکہ ان اسکولوں میں بعض باتیں خلاف دین ہیں اور یہاں سارے مضامین سبھی طلبہ کے لئے لازمی ہیں۔ یہاں اسلام کو صرف ایک عام مذہب کوتسلیم کیا جاسکتا ہے لیکن اس کی افادیت اور عالم گیریت کو برداشت نہیں کیا جاسکتا اور علیحدہ اسکولوں پر بنیاد پرستی کا لیبل بھی لگ سکتا ہے لیکن آخر یہ الزام صرف مسلمانوں پر یا ان کے اداروں پر ہی کیوں؟ کیا اس سے دوسرے مذاہب کے تعلیمی ادارے دنیا میں طبقات کی تقسیم کا سبب نہیں بنتے۔ کیا یہودیوں اور عیسائیوں وغیرہ کے مذہبی ادارے بنیاد پرست نہیں پیدا کرتے؟
دراصل امام احمد رضا کا تعلیمی منصوبہ مسلم وغیر مسلم ممالک میں مسلم کمیونٹی کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ ابتداء میں مسلم کمیونٹی کو اپنی افادیت کو اسٹیٹ کے سامنے تسلیم کرانا ہے، اس کے لئے کمیونٹی کا اتحاد، دیگر اقوام سے رواداری کا برتائو اور حکومت سے دوستانہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے اس طرح ممکن ہے کہ مسلمان اپنے تعلیمی مقاصد کے لئے گورنمنٹ سے گرانٹ حاصل کرسکیں۔
مسلمانوں کی اجتماعی سوچ کو ایک نقطہ نظر پر مرکوز کرنے کے لئے امام احمد رضا کے اس تعلیمی منصوبہ کی اشاعت نہایت ضروری ہے۔ تاکہ ہر مسلمان تک رضا کا پیغام پہنچ جائے اور آہستہ آہستہ اہل اسلام تعلیم کی خاطر متحد ہوجائیں۔
(بشکریہ، کنزالایمان دہلی)



..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں