پاسبانِ
ملّت علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمہ کی ایک چشم کُشا تحریر
دارالعلوم سے متعلق میرا نظریہ
یہ ایک حقیقت
ہے کہ مدارسِ عربیہ نظامیہ ایک بہت ہی جامع اور مکمل نصابِ تعلیم کے حامل ہیں۔
لیکن اس نصاب پر صدیاں بیت گئیں اور نت نئے مسائل نے ذہن و فکر کا رُخ بدل دیا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ قرآن و حدیث ہی ہمارے صحیح ماخذ اور سر چشمۂ ہدایت ہیں لیکن اسلام
نے اجتہاد کا دروازہ بند نہیں کیا ہے۔ آج بھی نہ صرف رازی و غزالی ، بلکہ اپنے وقت
کے ابوحنیفہ اور شافعی پیدا ہوسکتے ہیں بشرطیکہ اِس راہ میں نفس کی بے راہ روی اور
مطلق العنانی حائل نہ ہونے پائے ورنہ اِس نشہ میں بے لگام شرابی کی طرح آدمی وہی کہے
گا جو ملک کی بعض گمراہ جماعتیں لکھتی ہیں:’’قرآن کو سمجھنا ہے مگر تفسیر کے پُرانے
ذخیروں سے نہیں۔‘‘ معاذ اللہ!
کہنا یہ ہے کہ
آج کے مسائل نے اندازِ فکر بدل دیاہے۔ مثلاً:
1۔ٹیلی فون اور ریڈیو کی اطلاع سے رویتِ ہلال کی تصدیق ہوگی یا
نہیں؟
2۔لاؤڈ اسپیکر پر نماز درست ہے یا نہیں؟
3۔ بینک اور ڈاک خانے کی جمع شدہ رقم سے زائد روپیہ تجارتی منافع ہے
یا سود؟
الف: پھر اس کا لینا درست ہے یا نہیں؟
ب: اگر لے بھی لیا جائے تو اس کا مصرف کیا ہے؟
4۔ ہومیوپیتھک دوا کا استعمال درست ہے یا نہیں ؟ چوں کہ اُس میں الکحل
ہوتی ہے۔
الف: الکحل کیا
ہے اور اس کا حکم کیا ہے؟
5۔ چلتی ہوئی ٹرین پر اگر نماز
پڑھ لی گئی تو ہوجائے گی ، یا واجب الاعادہ ہے؟
الف: ٹرین اور ہوائی جہاز کو کشتی پر قیاس کرسکتے ہیں
یا نہیں؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟
6۔ مصلی کے لیے استمداد بالغیر
درست نہیں ہے اِس جزیہ کے تحت برقی پنکھے بھی آتے ہیں یا نہیں؟
7۔ انجکشن سے روزہ ٹوٹتا ہے
یا نہیں وغیرذٰلک۔
مثلاً
:
ایسے
ہی بہت سے عقلی مسائل ہیں ۔
1۔ آج سے پہلے آسمان کے خرقِ
والتیام کا انکار کیا گیا اور آج سائنس کا کہنا ہے کہ آسمان کوئی شَے نہیں یہ تو
حدِّ نگاہ ہے۔
2۔ زمین گردش کرتی ہے یا آفتاب؟
3۔ چاند میں ایک دنیا آباد
ہے۔ وغیرہ
اس کے یہ معنی
نہیں کہ یہ وہ سوالات ہیں جن کےجوابات نہیں ۔ مقصودِ نگارش یہ ہے کہ آج کے مسائل
نے ذہن کا رُخ موڑدیا ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی سوچنا ہے کہ وہ کون سی راہ اختیار کی
جائے کہ اپنی درس گاہ کے فاضل طلبہ ، اسلام پر ہونے والے ایسے سوالات کے تحقیقی جوابات
دے سکیں ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ ہم اپنے مضبوط اور کمزور دونوں پہلوؤں کا جائزہ
لیں ۔ مضبوط کو اور مضبوط و مستحکم کریں اور کمزوریوں کا ازالہ کریں۔
اب اس ضمن میں
ہم اپنے بعض کمزور پہلو کی طرف ہلکا سا اشارہ کرتے ہیں ۔مثلاً ہماری درس گاہ کے طلبہ
گرامر میں کئی برس صَرف کرتے ہیں ۔ مگر عربی بولنے اور لکھنے پر قادر نہیں ہوتے۔
حال آں کہ سندِ فراغت لیتے وقت انھیں زبان پر قدرتِ تام ہونی چاہیے۔ ایسے ہی
صَرف میں اس کا بھی امکان ہے کہ علم الصیغہ اور فصولِ اکبری کی جگہ صرف ایک ہی کتاب
داخلِ نصاب ہو۔ مگر اس میں کسی صاحب کو محنت کرنی پڑے گی۔ علم الصیغہ کی بحث اسماے
مشتقات اور مہموز اور اصولِ معتل کو لے لیا جائے۔ اور فصولِ اکبری سے خاصیتِ ابواب۔
اس میں کورس ہلکا ہوجائے گا۔طلبہ زیربار بھی نہ ہوں گے اور کم وقت میں اتنی ہی
استعداد بھی پیدا ہوجائے گی۔
ایسے ہی مقاماتِ
حریری ، سبعِ معلقہ ، حماسہ اور متنبی جیسی کتابیں محض تحفظِ زبان کی خاطر ہیں۔
لیکن اب وہ رائج الوقت زبان نہیں ہے لہٰذا اس کی جگہ رائج الوقت ادب داخلِ نصاب کیا
جائے ۔ تاکہ طلبہ عربی اخبارات و رسائل کو بہ آسانی پڑھ سکیں اور سمجھ سکیں ۔ اگر
زبان میں یہ صلاحیت پیدا ہوگئی تو اسی کے سہارے طلبہ خود اپنی قوتِ مطالعہ سے کہیں
سے کہیں پہنچ جائیں گے۔ مگر ان کو تو ایسے مواقع ہی دستیاب نہیں ہوتے۔
ایسے ہی معقولات
کی کتابوں کے کچھ خلاصے ترتیب دئیے جائیں جس سے تھوڑی مدت میں طلبہ ایک معیاری صلاحیت
کے مالک ہوجائیں۔مقصد یہ ہے کہ نصاب کو سہل العمل ، اور سہل الحصول بنایا جائے۔ اگر
میری اس جسارت کو میرے معاصر نظر انداز فرمائیں تو میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ
انسان اس کا دشمن ہوتاہے جو اسے نہیں آتا۔
ایسے ہی ہماری
درس گاہ کے جو اساتذہ ادب میں کمزور ہوتے ہیں وہ اس فن میں کیڑے نکالتے ہیں ۔ارے
بھائی!! اس میں کیارکھا ہے؟ رکھا تو بہت کچھ ہے مگر چوں کہ یہ فن آپ کو نہیں
آتا اس لیے اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے یہی حسین صورت ہوسکتی ہے کہ اس فن
ہی کو کنڈم دکھلادیا جائے۔
ایسے ہی جن لوگوں کو
عربی میں تھوڑی سی شُد بُد ہوتی ہے تووہ اپنے اظہارِ لیاقت کی خاطر نادان اور
ناسمجھ لڑکوں کو عربی تحریر و تقریر کی مشق شروع کرادیتے ہیں جن کاحاصل تضیعِ اوقات
کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
ایسے ہی جن لوگوں کو
معقولات سے دل چسپی نہیں ہوتی تووہ یہ کہہ کر اپنا دامن بچا لیتے ہیں علم فقہ ، تفسیر
و حدیث ہے جن کو نحو سے دل چسپی ہے وہ یہ کہا کرتے ہیں نحویاں رامغز باشد چوں شہاں الخ
بہ ہر کیف! ان
لطائف و ظرائف سے درس گاہوں کامعیار اونچا نہیں ہوسکتا۔ افسوس! یہ ہے کہ عنوان
بہت تفصیل طلب ہے اور شذرات کی چند سطریں اس کی متحمل نہیں ۔ اس لیے برسرِ راہ ایک
اشارہ کرکے گذرجاتا ہوں۔
ایسے ہی تعلیم
کے ساتھ ہماری درس گاہیں ایک مخصوص اندازِ تربیت چاہتی ہیں ۔ اسکول اور کالج کے
طلبہ کالج کے باہر خواہ کچھ بھی ہوں مگران کی کالج کی زندگی ایک دستور و ضابطہ کی پابند
ہوتی ہے وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر کالج کے قانون کی خلاف ورزی کی اور
کالج سے نکال دئیے گئے تو اس وقت تک دوسرے کالج میں داخلہ نہیں ہوسکے گا تاقتیکہ یہ
کالج ہمارے چال چلن کی تصدیق نہ کردے۔ لیکن افسوس! کہ ہماری درس گاہی کاطالبِ علم خواہ
کتنی ہی قبیح حرکت کیوں نہ کربیٹھے مگر دوسرا مدرسہ اس کے چال چلن کی تصدیق کیے بغیر
اس کا داخلہ کرلے گا۔
سوچیے!! کہ
قانون کی ایک دفعہ لاپرواہی برتنے سے فواحش کے کتنے دروازے کھل جاتے ہیں ۔
ایسے ہی ہماری
درسگاہ کے طلبہ دورۂ حدیث میں ہوتے ہوئے بھی یہ نہیں جانتے ہیں کہ ہمیں آیندہ
زندگی میں کیا کرنا ہے ۔ اور ہم خصوصی طور پر کس صلاحیت کے مالک ہیں۔ اب خواہ
مُدرِّسی مل جائے یاامامت یا سفارت و تبلیغ وغیرہ ۔حال آں کہ ہوش و گوش کے بعد
طالبِ علم کو اپنی راہ متعین کرلینی چاہیے اور اس میں ہمارے اساتذہ کی بھی ذمہ
داری کو دخل ہےکہ وہ طالبِ علم کی صلاحیت پرکھ لینے کے بعد اس میں اس فن کا کمال پیدا
کردیں تاکہ وہ اس توانائی سے سندِ فراغت اپنے ہاتھ میں لے کر اونچی سے اونچی درس
گاہ سنبھال سکتا ہو یا منصبِ افتا کی ذمہ داری بہ خوبی انجام دے سکتا ہو یا لاکھوں
کے مجمع میں اپنی شانِ خطابت کے جوہر دکھا سکتا ہو۔ یا شایستہ و صحت مند لٹریچر سے
قوم کا ذہن و فکر بدل سکتا ہو، وغیرہ۔ اگر شرحِ جامی کے بعد طلبہ میں یہ شعور پیدا
کردیا جائے اور طالبِ علم خود بھی اپنی اس چھپی ہوئ یطاقت کی ٹوہ میں پڑ کر اس کا صحیح
اندازہ کرے تو وہ اپنی صلاحیت کو بروے کار لانے میں خود بھی اپنی راہ متعین کرسکتا
ہے۔ میں اس بات کا قطعاً قائل نہیں کہ ہماری درس گاہ کا شیخ الحدیث ہر فن
کا ماہر ہوتا ہے۔ اس کو مہارت کسی اور ہی فن میں ہوتی ہے۔ بقیہ دوسرے فنون پر
اس کی ذیلی نگاہ ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر طلبہ میں یہ شعور پیاکردیاجائے تو کچھ دنوں
بعد ہماری درس گاہوں سے علاحدہ علاحدہ فن میں ماہرینِ فن نکل سکتے ہیں ۔
جن پر ہم بجا طور پر فخر کرسکیں گے اور آج ہماری درس گاہوں کو ایسے ہی ماہرینِ فن
کی ضرورت ہے۔
واضح رہے اپنی
کمزوریوں کا جائزہ اور اس کا اظہار بے سبب نہیں ہے ۔ جس قوم یا جس جماعت میں تنقید
کا مادہ نہیں وہ کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ باہمی خلوص و محبت کا یہی
تقاضا ہے کہ آپ ہماری کمزوریوں پر ہمیں مطلع کریں اور ہجومِ مشاغل سے جس
طرف آپ کی توجہ نہ ہوسکی ہم انگلیوں کے اشارے سے اس کی نشان دہی کردیں ۔ تنقید
اگر تنقید کے پیشِ نظر ہے تو یہ ایک ناقابلِ معافی جرم ہے ۔ لیکن اگر نقد
و نظر مقصود ہے تو یہی ترقی کازینہ ہے۔
((ماہ نامہ استقامت ،
کانپور فروری 1993ء ص 91/100
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں