علم
کی اہمیت و ضرورت
محسن رضا
البرکات اسلامک ریسرچ
اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ، علی گڑھ
علم اللہ رب العزت کا بہت
بڑا فضل اور انسان کی بلندی و رفعت کا بہت بڑا ذریعہ ہے ۔ علم کے ذریعہ ہی انسان اپنے
آپ کو اور اپنے رب کوبھی پہچانتا ہے۔
علم
والا انسان جاہل سے ہمیشہ ممتاز رہتا ہے اور دنیا اور آخرت کی سعادتیں حاصل کرتا ہے۔بہت
سی نا معلوم باتوں کا جانکار اور اپنا اور اپنے معاشرے کابہت بڑا خیر خواہ ہوتا ہے
۔
علم
سے یہاں وہی علم مقصود و مطلوب ہے جو اسلام و اہل اسلام اور ساری عالم انسانیت کے لیے
مفید و نفع بخش ہے خواہ براہ راست اس کا تعلق کتاب و سنت سے ہو جیسے علم قرآن ،علم
حدیث ۔یا بطور آلہ ہو ،یا کسی بھی جہت سے وہ نفع بخش ہوجیسے کسی بھی زبان کا علم ،علم
طب اورعلم ریاضی وغیرہ ۔
علم
کی اہمیت ،قرآن و حدیث کی روشنی میں :
قرآن
کریم کی روشنی میں یہ راز کھل کر سامنے آتا ہے کہ علم سے انسان کا رشتہ اتنا ہی پرانا
ہے جتنا خود اس کا وجود ،اور جس دن اللہ رب العزت نے اس اشرف المخلوقات کو وجود بخشا
اسی دن اسے زیور علم سے آراستہ کر دیا اور اسکی شان بھی علم کے ذریعہ ہی ظاہر فرمائی
،اسے مسجود ملائکہ بنایا ۔قرآن پاک کی آیتیں شاہد ہیں ۔
(پہلی آیت):
وَعَلَّمَ
آدَمَ الأَسْمَاء کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلَی الْمَلاَئِکَۃِ فَقَالَ أَنبِئُونِیْ
بِأَسْمَاء ہَـؤُلاء إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ قَالُواْ سُبْحَانَکَ لاَ
عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّکَ أَنتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ قَالَ یَا آدَمُ أَنبِئْہُم بِأَسْمَآئِہِمْ فَلَمَّا
أَنبَأَہُمْ بِأَسْمَآئِہِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّکُمْ إِنِّیْ أَعْلَمُ غَیْْبَ
السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا کُنتُمْ تَکْتُمُونَ وَإِذْ
قُلْنَا لِلْمَلاَئِکَۃِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِیْسَ أَبَی وَاسْتَکْبَرَ
وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ (البقرۃ:۳۱،۳۲،۳۳،۳۴)
ترجمہ
:اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاکے نام سکھائے،پھر سب اشیاملائکہ پر پیش کرکے
فرمایا ؛سچے ہو تو ان کے نام تو بتائو؟ بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا
تو نے ہمیں سکھایا ،بیشک تو ہی علم و حکمت والا ہے ۔فرمایا اے آدم ! بتا دے انہیں
سب اشیا کے نام ؟ جب آدم نے انہیں سب کے نام بتا دیے،فرمایا ،میں نہ کہتا تھا کہ میں
جانتا ہوں آسمان و زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور
جو کچھ تم چھپاتے ہو ۔اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو
،تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ،منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہو گیا ۔(کنز الایمان
فی ترجمۃالقرآن،للامام احمد رضا القادری البرکاتی البریلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ(۱۳۴۰ھ))
صاحب
تفسیر کبیر امام فخر الدین رازی شافعی علیہ الرحمہ (۶۰۴ھ )نے مذکورہ بالا آیات میں سے پہلی
آیت کے تحتــــ
ـــ ـ
ـ ــــــ
ــ ــــتفسیر
کبیر میں علم کی فضیلت اور اس کی اہمیت و ضرورت ــــــپر
جو شاندار گفتگو فرمائی ہے ہم اس کے چند اقتباسات یہاںپیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے
ہیں :
ــــــــــ’’اس
آیت سے علم کی فضیلت واضح و ثابت ہے ۔اس لئے کہ اللہ رب العزت نے آدم علیہ الصلوٰۃ
والسلام کی تخلیق میں اپنے کمال حکمت کو علم کے ذریعہ ہی ظاہرفرمایا ۔اگر علم سے زیادہ
کوئی شی معظم و مشرف ہوتی تو ضرور اللہ رب العزت اسی کے ذریعہ آدم علیہ الصلوٰۃ و
السلام کی فضیلت ظاہر فرماتا نہ کہ علم کے ذریعہ۔
اور
جان لو کہ علم کی فضیلت پر قرآن و حدیث اور آثار سبھی شاہد ہیں ۔قرآن کریم چند طریقوں
سے علم کی اہمیت کو آشکار کرتا ہے:
(۱)اللہ رب العزت نے قرآن
کریم میں علم کا نام حکمت رکھا جیسا کہ حضرت مقاتل سے مروی ہے۔ پھر خود ہی حکمت کی
شان ظاہر فرمائی اور ارشاد فرمایا :
وَمَن
یُؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْْراً کَثِیْراً (البقرۃ:۲۶۹)(ان آیات کا ترجمہ ہم نے کنزالایمان
سے نقل کیا ہے)
ترجمہ:
اور جسے حکمت ملی اسے بہت بھلائی ملی ۔
اور
خیال رہے کہ اللہ رب العزت علم کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :
وَمَا
أُوتِیْتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِیْلاً (الاسراء:۸۵)
ترجمہ
: اور تمھیں علم نہ ملا مگر تھوڑا ۔
اور
ساری دنیاکو متاع قلیل فرمایا:
قُلْ
مَتَاعُ الدَّنْیَا قَلِیْلٌ (النساء:۷۷)
ترجمہ
: تم فرمادو کہ دنیا کا برتنا تھوڑا ہے ۔
جس دنیا کو اللہ رب العزت
نے قلیل فرمایا ہم اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے ۔تو جس حکمت کو اللہ رب العزت نے خیرکثیر
فرمایا ہم اس کا اندازہ کہاں لگا سکتے ہیں ۔
دنیا
کا مال و متاع اس لیے قلیل ہے کہ اس کی مقدار اور اس کو برتنے کا وقت محدود ہے جبکہ
علم کی نہ تو مقدار محدود ہے اور نہ ہی اس سے حاصل ہونے والی سعادت محدود ہے جو علم
کی شان و عظمت کا بین ثبوت ہے ۔
او
ر مزید یہ کہ اللہ رب العزت نے اسے فضل عظیم فرمایا :
وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ
تَکُنْ تَعْلَمُ وَکَانَ فَضْلُ اللّہِ عَلَیْْکَ عَظِیْما(النساء :۱۱۳)
ترجمہ : اور تمہیں سکھا
دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے ۔
(۲)اللہ رب العزت ارشاد
فرماتا ہے :
(۱) قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا
یَعْلَمُونَ (الزمر:۹)
ترجمہ
: تم فرمائو کیا برابر ہیں جاننے والے اور
انجان۔
اور
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں سات چیزوں کے درمیان فرق کو بیان فرمایا:
(۲)خبیث و طیب کے درمیان
،ارشاد فرمایا:
قُل لاَّ یَسْتَوِیْ الْخَبِیْثُ
وَالطَّیِّب (المائدۃ:۱۰۰)
ترجمہ : تم فرمادو کہ ستھرا اور گندہ برابر نہیں۔
(۳،۴،۵،۶)اندھے اور بینا،روشنی
و تاریکی،سائبان و عدم سائبان اور زندہ و مردہ کے درمیان:
وَمَا
یَسْتَوِیْ الْأَعْمَی وَالْبَصِیْرُ وَلَا
الظُّلُمَاتُ وَلَا النُّورُ وَلَا الظِّلُّ
وَلَا الْحَرُورُ وَمَا یَسْتَوِیْ الْأَحْیَاء
وَلَا الْأَمْوَات (۱۹،۲۰،۲۱،۲۲)
ترجمہ: اور برابر نہیں
اندھا اور انکھیارا ،اور نہ اندھیریاں اور اجالا،اور نہ سایہ اور نہ تیز دھوپ ،اور
برابر نہیں زندے اور مردے ۔
(۷) لَایَسْتَوِیْ أَصْحَابُ النَّارِ وَأَصْحَابُ الْجَنَّۃِ (الحشر:۲۰)
ترجمہ : دوزخ والے اور
جنت والے برابر نہیں ۔
ان تمام چیزوں میں جب آپ
غور کریں گے تو محسوس کریں گے کہ حقیقت میں یہ سب کچھ عالم و جاہل کا فرق ہے ۔
(۳) اللہ رب العزت ارشاد
فرماتا ہے :
أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ
الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنکُمْ (النساء:۵۹)
ترجمہ : حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان
کا جو تم میں حکومت والے ہیں ۔
اور اصح قول کے مطابق اولی
الامر سے مراد علمائے کرام ہیں ۔ اس لئے کہ بادشاہوں پر علما کی اطاعت واجب ہے اس کے
بر عکس نہیں ۔ پھر اس مرتبے کو دیکھو کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں دو جگہ عالم
کا ذکر دوسرے مرتبے پر کیا ہے :
(۱) شَہِدَ اللّہُ أَنَّہُ
لاَ إِلَـہَ
إِلاَّ ہُوَ وَالْمَلاَئِکَۃُ وَأُوْلُواْ الْعِلْمِ (آل عمران :۱۸)
ترجمہ : اللہ نے گواہی
دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے۔
(۲) أَطِیْعُواْ اللّہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ
مِنکُمْ (النساء:۵۹)
ترجمہ: حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا
جو تم میں حکومت والے ہیں ۔
پھر اللہ رب العزت نے
اور عزت بڑھائی تو دو آیتوں میں انہیں پہلے مقام پر رکھ دیا :
(۱) وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیْلَہُ
إِلاَّ اللّہُ وَالرَّاسِخُونَ فِیْ الْعِلْم (آل عمران :۷)
ترجمہ : اور اس کا ٹھیک
پہلو اللہ ہی کو معلوم ہے اور پختہ علم والے ۔
(۲) قُلْ کَفَی بِاللّہِ شَہِیْداً بَیْْنِیْ وَبَیْْنَکُمْ وَمَنْ
عِندَہُ عِلْمُ الْکِتَابِ(الرعد :۴۳)
ترجمہ : تم فرمائو اللہ گواہ کافی ہے مجھ میں اور تم میں
اور وہ جسے کتاب کا علم ہے ۔
(۴)اللہ رب العزت ارشاد
فرماتا ہے :
یَرْفَعِ اللَّہُ الَّذِیْنَ
آمَنُوا مِنکُمْ وَالَّذِیْنَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ (المجادلۃ:۱۱)
ترجمہ : اللہ تمہارے ایمان
والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا ۔
اور جان لو کہ اللہ رب
العزت نے چار طرح کے لوگوں کے درجات کا ذکر فرمایا ہے :
(۱) مومنین اہل بدر
:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ
الَّذِیْنَ إِذَا ذُکِرَ اللّہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْْہِمْ
آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیْمَاناً وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ الَّذِیْنَ یُقِیْمُونَ
الصَّلاَۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ اُوْلَـئِکَ
ہُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقّاً لَّہُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ رَبِّہِمْ ( الانفال:۲،۳،۴)
ترجمہ : ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے ان
کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے
رب ہی پر بھروسہ کریں ،وہ جو نمازقائم رکھیں اور ہمارے دیے سے کچھ ہماری راہ میں خرچ
کریں ۔یہی سچے مسلمان ہیں ۔ان کے لیے درجے ہیں ان کے رب کے پاس ۔
(۲) مجاہدین :
وَفَضَّلَ اللّہُ الْمُجَاہِدِیْنَ
عَلَی الْقَاعِدِیْنَ أَجْراً عَظِیْماً
(النساء:۹۵)
ترجمہ : ا ور اللہ نے جہاد والوں کو بیٹھنے والوں پر بڑے
ثواب سے فضیلت دی ہے ۔
(۳) صالحین :
وَمَنْ یَأْتِہِ مُؤْمِناً
قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَأُوْلَئِکَ لَہُمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلَی (طٰہٰ:۷۵)
ترجمہ : اور جو اس کے حضور ایمان کے ساتھ آئے کہ اچھے کام کیے ہوں تو انہیں کے درجے
اونچے ۔
(۴) علما
:
وَالَّذِیْنَ أُوتُوا
الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ (المجادلۃ:۱۱)
اور اللہ رب العزت نے
اہل بدر کو دوسرے مومنین پر درجوں فضیلت عطا فرمائی اور مجاہدین کو بیٹھنے والوں پر
درجوں بلند فرمایااور صالحین کو ان تمام پر کئی درجہ فضیلت بخشی ۔پھر علما کو تمام
طبقوں پر درجوں بلند فرمایا ۔تو ثابت ہوا کہ علما سب سے افضل ہیں۔
(۵) سب سے پہلی نازل ہونے والی وحی میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا
ہے:
إقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ
الَّذِیْ خَلَقَ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ إقْرَأْ وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ الَّذِیْ
عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ (العلق:۱-۵)
ترجمہ : پڑھو اپنے رب
کے نام سے جس نے پیدا کیا ۔آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا ۔پڑھو اور تمہارا رب ہی سب
سے بڑا کریم جس نے قلم سے لکھنا سکھایا ۔آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا ۔
(۱)یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ :
آیات کے درمیان آپس میں
ربط ہونا ضروری ہے ۔تو اللہ رب العزت کے اس قول :
خَلَقَ
الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔
اور
اس قول :
إقْرَأْ
وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔
میں وہ ربط اور نسبت کیا
ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ
:
ربط
اور مناسبت اس اعتبار سے ہے کہ اللہ رب العزت نے انسان کی پہلی حالت کا ذکر فرمایا
اوروہ اس کا دم بستہ ہونا ہے باوجودیکہ وہ نہایت کمتر چیز ہے ۔پھر اس کی آخری حالت
کاذکر فرمایااور وہ اس کا عالم ہونا ہے اور یہ بہت بڑا مقام ہے ۔گویا اللہ رب العزت
یہ ارشاد فرمارہا ہے :
اے
ابن آدم !تو اپنی پہلی حالت میں نہایت ہی پستی کے مقام پر تھا ۔پھر اپنی آخری حالت
میں کمال کی انتہا کو پہنچ گیا۔
یہ ربط اسی وقت مکمل ہوسکتا
ہے جب کہ علم مقام کے اعتبار سے سب سے بلند تر ہو ۔اس لیے کہ علم کے سوا اگر کوئی دوسری
چیز زیادہ معزز ہوتی تو اس مقام پر اسی کا ذکر زیادہ مناسب ہوتا ۔(اس سے معلوم ہوا
کہ علم ہی انسان کے کمال کی انتہا اور اس کا سب سے اونچا مقام ہے
)
(۲) اللہ رب العزت نے سب سے پہلی نازل ہونے والی وحی میںاپنا تعارف
علم کے ذریعہ کرایا، جس سے معلوم ہوا کہ معرفت خداوندی علم پر منحصر ہے۔بغیر علم کے
اللہ رب العزت کی معرفت ،جو انسان کی زیست کا اولیں مقصد ہے ،حاصل نہیں کی جا سکتی
۔
(۳) اس تعارف کے وقت اپنی
تمام نعمتوں پر علم کو مقدم رکھا جو اس کی عظمت شان کو ظاہر کر رہی ہے ۔
(۶) اللہ رب العزت نے
رسول اللہ ﷺکو یہ دعا تعلیم فرمائی :
وَقُل رَّبِّ زِدْنِیْ
عِلْماً(طہ :۱۱۴)
ترجمہ : اور عرض کرو کہ اے میرے رب مجھے علم زیادہ دے
۔
اس
آیت کریمہ میں علم کے حسن ،اس کی عظمت شان اور اللہ رب العزت کی اس سے فرط محبت پر
عظیم دلیل ہے کہ اس نے اپنے نبی کو خاص طور سے اس میں اضافے کی دعا کرنے کا حکم فرمایا
نہ کہ دوسری چیزوں میں ۔
اور
حضرت قتادہ کا قول ہے کہ :
اگر علم سے کسی شخص کا
جی بھرتا تو وہ اللہ کے نبی حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام ہوتے اور وہ (حضرت خضر
سے )یہ نہ کہتے :
ہَلْ أَتَّبِعُکَ عَلَی
أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدا(الکھف :۶۶)
ترجمہ : کیا میں تمہارے
ساتھ رہوں اس شرط پر کہ تم مجھے سکھا دوگے نیک بات جو تمہیں تعلیم ہوئی ۔(التفسیر الکبیر،للامام
فخر الدین الرازی الشافعی(۶۰۴ھ
))
حضرت سید محمود آفندی
علامہ آلوسی شافعی بغدادی علیہ الرحمہ (۱۲۷۰ھ) اپنی تفسیرــ’’روح
المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی‘‘ میں اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں :
اس آیت سے علم کی فضیلت
پر استدلال کیا گیا ہے کہ اللہ رب العزت نے رسول اللہ ﷺکو اس آیت میں علم کے اضافے کی دعا مانگنے کا
حکم فرمایا ہے ۔بعض حضرات نے ذکر کیا ہے کہ علم کے سوا رسول اللہ ﷺکو کسی بھی چیزمیں اضافے کی دعا مانگنے کا حکم
نہیں دیا گیا ۔
اور امام ترمذی اور ابن
ماجہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے :
کَانَ رَسُولُ الّٰلہِ
ﷺ یَقُول ُ:
ألّلھُمَّ
انفَعنِی بِمَا عَلَّمتَنِی و عَلِّمنِی مَا یَنفَعُنِی وَ زِدنِی عِلمًا وَالحَمدُ
لِلٰٔہِ عَلیٰ کُلِّ حَالٍٍ (ابن ماجۃ، باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ)
ترجمہ : رسول اللہ ﷺیہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ :
اے
اللہ!اپنے عطا کردہ علم سے مجھے نفع عطا فرما ۔مجھے علم نافع عطا فرما اور میرے علم
میں اضافہ فرما ۔اور ہر حال میں تمام تعریفیں اللہ رب العزت کے لیے ہیں ۔
مصنف تفسیر روح البیان
حضرت علامہ اسمٰعیل حقی حنفی ترکی علیہ الرحمہ(۱۱۲۷ھ) اس آیت کی تفسیر میں ارشاد
فرماتے ہیں کہ :
شیخ اکبر(محی الدین امام
محمد بن علی بن محمدحاتمی طائی اندلسی ابن عربی(۶۳۸ھ)) قدس سرہ الاطہر ارشاد فرماتے ہیں
کہ :
علم ایک نورہے جسے اللہ
رب العزت اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے ڈال دیتا ہے ۔یہ نور اس بندے کی
صفت خاصہ بن کر اسے اشیا کی حقیقتوں پر آگاہ کرتا ہے ۔در حقیقت یہ بصیرت کاایسا نور
ہوتا ہے جیسے سورج بصارت کے لیے نور ہوتا ہے ۔بلکہ بصارت کے نور سے کہیں زیادہ کامل
و اکمل ہوتا ہے ۔
اور روایت میں آتا ہے
کہ :
عرض کی گئی
:
یا
رسول اللہ ! ﷺ کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟
فرمایا
معرفت
خداوندی
عرض
کی گئی :
حضور
!ہماری مراد عمل ہے
(دوبارہ)ارشاد فرمایا:
معرفت
خداوندی
عرض
کی گئی ’’حضور ہم عمل کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور آپ جواب علم کے بارے میں عطا
فرماتے ہیں ‘‘
ارشاد
فرمایا:
’’علم کے ساتھ تھوڑا عمل
نفع بخش ہے جبکہ جہل کے ساتھ زیادہ عمل بھی نفع بخش نہیں ‘‘
اور معتبر علم نافع ہی
ہے
اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺیہ دعا کیا کرتے تھے :
أَلّٰلھُمَٔ اِنِّی أَعُوذُ
بِکَ مِن عِلمٍ لَّا یَنفَعُ ۔(ابن ماجۃ، باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ)
ترجمہ
:اے اللہ میں ایسے علم سے تیری پناہ مانگتا ہوںجو نفع بخش نہ ہو۔(روح البیان)
(دوسری آیت) سورۃ توبہ میں اللہ رب
العزت ارشاد فرماتا ہے :
وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ
لِیَنفِرُواْ کَآفَّۃً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ
فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَیْْہِمْ لَعَلَّہُمْ
یَحْذَرُون(التوبۃ:۱۲۲)
ترجمہ : اور مسلمانوں
سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں تو کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک
جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس امید
پر کہ وہ بچیں ۔
اس آیت کی تفسیر میں امام
فخر الدین رازی شافعی علیہ الرحمہ (۶۰۴ ھ)نے
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک روایت نقل فرمائی ہے جو اس آیت کاشان نزول
ہے :
حضرت ابن عباس رضی اللہ
تعالیٰ عنہما سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺجب
کسی غزوے کے لیے تشریف لے جاتے تو سوائے منافق یا معذور کے کوئی شخص باقی نہیں رہتا
تھا ۔پھر جب غزوہ تبوک کے موقع سے اللہ رب العزت نے منافقوں کے عیوب کو کھول کر بیان
کر دیا تو مسلمانوں نے کہا :
’’اللہ کی قسم !نہ ہم کسی
غزوہ میں پیچھے رہیں گے اور نہ کسی سریۃ میں ‘‘
پھر جب رسول اللہ ﷺمدینہ تشریف لائے اور کفار کی جانب سرایا روانا فرمائے ۔تمام کے تمام صحابہ جنگ کے لیے تشریف
لے گئے اور حضور کو مدینے میں تنہا چھوڑ دیا تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔
اور
مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ سب کے سب جنگ و جہاد کے لیے چلے
جائیں ۔بلکہ ضروری یہ کہ وہ دو گروہ ہو جائیں ؛ایک گروہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رہے اور دوسرا گروہ جنگ کے لیے تشریف
لے جائے اور وہ اس لیے کہ اس زمانے میں اسلام کو جنگ و جہاد اور کفار پر غالب ہونے
کے ساتھ ساتھ ،جدید نازل ہونے والے احکام و شرائع کی بھی ضرورت تھی ۔اور مسلمان اس
بات کے حاجت مند تھے کہ کوئی شخص رسول اللہ
ﷺ کی بارگاہ میں حاضر رہ کر شریعت کا علم حاصل کرے اور اسے یاد کرکے غائبین
تک پہنچائے۔(التفسیر الکبیر)
حضرت عبد اللہ بن عمرامام
بیضاوی شافعی (۶۹۱ھ)اپنی
تفسیر’’ انوار التنزیل واسرار التاویل‘‘ تفسیر بیضاوی میں اس آیت کے تحت تحریر فرماتے ہیںکہ :
ــایک
قول کے مطابق اس آیت کریمہ کا ایک دوسرا معنیٰ بھی ہے اور وہ یہ کہ جب غزوات سے پیچھے
رہ جانے والوں کے بارے میں شدید وعیدیں نازل ہوئیں تو مسلمانوں نے جنگوں میں شرکت کرنے
میں سبقت کرنی شروع کر دی اور حال یہ ہوا کہ ان کی تعلیم فقہ کا سلسلہ منقطع ہو گیا
۔تو انہیں حکم دیا گیا کہ ان میں کا ایک گروہ جہاد کے لیے جائے اور باقی افراد تعلیم
فقہ کے لیے رک جائیں ۔تاکہ اس تفقہ کا سلسلہ منقطع نہ ہو جو جہاد اکبر ہے ۔اس لیے کہ
دلائل سے جہاد کرنا ہی اصل اور مقصد بعثت ہے ۔(تفسیر بیضاوی)
حضرت ابو محمد حسین بن
مسعود الفراء امام بغوی علیہ الرحمہ(۵۱۰ھ)اپنی تفسیر ’’معالم التنزیل‘‘معروف
بہ تفسیر بغوی میں اس آیت کے تحت تحریر فرماتے ہیں کہ :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ:
رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا :
لوگوں کوتم سونے چاندی
کی کانوں کی طرح پائوگے ، زمانہ جاہلیت کے ان میںکے بہترین لوگ زمانہ اسلام کے بھی
بہترین لوگوں میں سے ہیں جبکہ وہ فقیہ ہو جائیں ۔
اور فقہ، دین کے احکامات
کے جاننے کو کہتے ہیں ۔ اور دین کے احکامات کی دو قسمیں ہیں :
(۱)فرض عین
(۲)فرض کفایہ
فرض عین ،جیسے طہارت
،نماز اور روزے کا علم ۔کہ ہر مکلف پر ان کا جاننا ضروری ہے
رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا :
طَلَبُ العِلمِ َفِریضۃٌ
عَلیٰ کُلِّ مُسلِمٍ (ابن ماجۃ ، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم
)
ترجمہ : علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔
اور اسی طرح ہر وہ عبادت
جسے شریعت نے فرض قرار دیا ہے۔مکلف پر ضروری ہے کہ اس کا علم حاصل کرے ۔مثلاً
:
زکوٰۃ کا علم ،اگر وہ
صاحب نصاب ہے ۔
حج کا علم ،اگر اس کی
استطاعت رکھتا ہے ۔
اور فرض کفایہ یہ ہے کہ
علم حاصل کرتا رہے یہاں تک کہ درجہ اجتہاد اور درجہ افتا تک پہنچ جائے ۔تو اگر پورے
شہرمیں اسے حاصل کرنے والا کوئی نہ ہو ،سب کے سب گنہگار ہوں گے ۔ اور اگر کوئی ایک بھی ان علوم کو حاصل کر لے ۔سب
کے ذمہ سے فرض ساقط ہو جائے گا ۔اور شرعی معاملات میںسب پر اس کی پیروی لازم ہوگی
۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد
فرمایا :
فَضلُ العَا لِمِ عَلیٰ
العَابِدِ کَفَضلِی عَلیٰ أَدنَاکُم
ترجمہ:عالم کی فضیلت عابد
پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں کے ادنیٰ شخص پر ۔
اور حضرت ابن عباس رضی
اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ
ﷺنے ارشاد فرمایا :
فَقِیہُٗ وَّاحِدُٗ أََشَدُّ
عَلیٰ الشَّیطَانِ مِن أَٔلفِ عَابِدٍ (ابن ماجۃ ، باب فضل العلماء والحث علی طلب
العلم )
ترجمہ :ایک فقیہ شیطان
پر ہزار عابدوں سے زیادہ سخت ہے ۔
امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ
عنہ فرماتے ہیں :
علم حاصل کرنا نفل نماز
پڑھنے سے بہتر ہے۔(تفسیر بغوی)
اس آیت کی تفسیر میں
امام رازی نے ایک اہم بات لکھی ہے :
’’سوال: کیا اس آیت کریمہ
کا مطلب یہ ہے کہ ہر زمانے میں فقہ حاصل کرنے کے لیے سفر کرنا واجب ہے ؟
جواب : اگر بغیر سفر کیے
علم فقہ کا حصول ممکن نہ ہو تو سفر ضروری ہے اور رسول اللہ ﷺکے زمانے میں ایسا ہی تھا کیوں کہ شریعت کے احکام
مکمل نہیں ہوئے تھے بلکہ آئے دن نئے احکامات کا ورود ہو رہا تھا ۔اور ہمارے زمانے
میں شریعت مکمل موجود ہے ۔لہٰذا اگر وطن میں رہ کر ان کا حصول ممکن ہو تو سفر واجب
نہیں ورنہ ہے ۔اور یقینی طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ مبارک اور نفع بخش علم سفر کر کے
ہی حاصل ہوتا ہے ۔(التفسیر الکبیر)
مذکورہ
بالا آیات ،تفاسیر ،احادیث طیبہ اور اقوال ائمہ کرام سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی
ہے کہ علم انسان کی بلندی کا ضامن اور اس کی ترقی کا باعث ہے ۔صاحب علم دنیا میں اللہ
کی رضا والے کاموں کو پہچان کر آخرت میں اس کی خوشنودی پانے والا بن جاتا ہے۔گویا
صاحب علم دنیا میں بھی سرخرو وکامیاب ہے اور آخرت میں بھی۔
اللہ
تعالی ہم سب کو علم کی ضرورت و اہمیت کو سمجھنے اور اس کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے
کی توفیق عطا فرماے۔
آمین
بجاہ النبی الامین ﷺ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں