ہفتہ، 28 نومبر، 2015

Islah E Masajid awr Imam Ahmed Raza



اصلاح مساجد اورامام احمدرضا

مولانا محمد مجاہد حسین حبیبی

رکن آل انڈیا تبلیغ سیرت مغربی بنگال ،۶؍تالتلہ لین کولکاتا ۱۴ 

            امام عشق و محبت مجدد دین وملت ، اعلیٰ حضرت الحاج الشاہ امام احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ والرضوان کی ذات گرامی آج دنیاے اسلام کے لیے محتاج تعارف نہیں۔آپ ایسے عالم ربانی تھے جو بہ یک وقت محدث و مفسر،فقیہ اور محتاط عالم ہونے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے عظیم مصلح اورداعی بھی تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کی پوری زندگی سنت وشریعت کی آئینہ داراور عشق رسول کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔ آپ نے خلق خدا کی رشد وہدایت کے لیے سوسے زائد علوم وفنون پر گیارہ سو سے زائد کتابیں تحریر فرمائیں اوردوسو سے زائد کتابوں کے شروح وحواشی تحریر کیے۔ جن سے آج ایک جہاں فیض یاب ہورہاہے۔ ذلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء بہ ایں وجہ اکابر و معاصرین نے آپ کی خدمات جلیلہ کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ آیۃ من آیات اللّٰہ  اورچودہویں صدی ہجری کامجدد تسلیم کیا۔  ؎

ایں سعادت بزور بازو نیست

تانہ بخشد خداے بخشندہ

            آپ نے جہاں اپنے زمانے میں پنپنے والی تمام عملی و نظریاتی خرابیوں کے سدباب کی کوشش فرمائی وہیں مساجد کی اصلاح پر بھی خاصا زور دیا جس پر آپ کی تحریریں اورفتاویٰ شاہد عدل ہیں۔مگر افسوس آج مسلمان ان سے یکسرغافل ہیں ۔ اس لیے ذیل میں ہم مختلف عنوانات کے تحت اصلاح مساجد کے تعلق سے اعلیٰ حضرت کی تحریریں درج کررہے ہیں تاکہ منتظمین ،ائمہ نیز دیگر وابستگان مساجد اکتساب فیض کے ساتھ ساتھ اپنے احوال کی اصلاح کرسکیں۔

مسجد بہ ہرصورت بانی کے نام سے رہے گی:

         ہمارے علم میں شہر کلکتہ میں بہت سی ایسی مسجدیں ہیں جن کے نام تعمیر جدید کے بعد لوگوں نے بانیان مساجد کانام بدل کر دوسرا کردیا ہے۔ حالاں کہ یہ جائزنہیں، اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:مسجد قیامت تک اصل بانی کے نام سے رہے گی اگرچہ اس کی شکست وریخت یاشہید ہوجانے کے بعد دوبارہ تعمیر اورلوگ کریں، ثواب ان کے لیے بھی ہے مگربنا بانی وقف کے واسطے خاص ہے۔ فان اصل المسجد الارض والعمارۃ وصف ولایکون من اعاد الوصف کمن احدث الاصلکیوں کہ اصل مسجد تو زمین ہے اورعمارت وصف ہے۔ چناں چہ جس نے وصف کااعادہ کیا وہ موجد اصل کی مانند نہیں ہوسکتا۔                                                                (فتاویٰ رضویہ مترجم جلد ۲۴، ص۷ ۲۵)

مسجد میں کارخیر کے لیے چندہ کرنا اورعالم کا وعظ کہنا جائز ہے:

            کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ غلط نظریہ راسخ ہو چکا ہے کہ چوں کہ مسجد میں کسی غریب کا سوال کرنا جائز نہیں اس لیے مدرسہ کے لیے چندہ کرنا یا اس کے لیے اعلان کر نا بھی درست نہیں ۔اسی طرح امام کے ہو تے ہوئے کسی دوسرے عالم کا وعظ کہنا درست نہیں اگرچہ امام تقریر کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو۔جب کہ یہ صحیح نہیں ہے۔دیکھیے اعلیٰ حضرت کیا فرماتے ہیں :مسجد میں کارخیر کے لیے چندہ کرناجائز ہے جب کہ شورو چپقلش نہ ہو خود احادیث صحیحہ سے اس کا جواز ثابت ہے۔ مسجد میں وعظ کی بھی اجازت ہے جب کہ واعظ عالم دین سنی صحیح العقیدہ ہو اورنماز کاوقت نہ ہو ، اور ان دونوں باتوں کو کہ منکرات سے خالی ہوں متولی یاکوئی منع نہیں کرسکتا۔                     (فتاویٰ رضویہ مترجم جلد ۲۴، ص۳۶۱)

متولی مسجدکا دیانت دار ہونا ضروری ہے:

            قرآن پاک ہمیں یہ نظریہ دیتا ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں مکرم وافضل وہ ہے جو متقی و پرہیزگار ہو لیکن ہم مسلمانوں کی حرما ںنصیبی کہیے کہ ہم نے تقویٰ و پرہیز گاری کو چھوڑ کر محض مال و دولت کو وجہ شرف سمجھ لیا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیاوی معاملات کی طرح فی زمانہ مساجدومدارس میں بھی ایسے ہی لوگ متولی ومنتظم مقرر کیے جاتے ہیں جو خوب مال دار ودولت مند ہوں ۔اگر چہ نماز نہ پڑھتے ہوں ۔اورنجی معاملات میں دغا ودھوکہ کے مرتکب ہوں۔اس سلسلے میں اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں :اس (متولی) کے لیے دیانت دار کارگزار ہوناشرط ہے ۔ مال دار ہونا ضروری نہیں۔           (فتاویٰ رضویہ مترجم جلد ۲۴، ص ۲۵۸)

خائن کا متولی ہونا درست نہیں:

            خائن جس کی خیانت ظاہر ہواسے متولی و منتظم بنے رہنے کا کوئی حق نہیں ۔اس سلسلے میں اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں :درمختار میں ہے: وینزع وجوبا ولو الواقف فغیر ہ اولی لو غیرمامومن۔ خائن متولی کوولایت وقف سے وجوباً نکال دیاجائے گا۔ (بزازیہ) اگرچہ وہ خود وقف کرنے والا ہو، توغیر واقف کو بہ صورت خیانت بدرجۂ اولیٰ نکال دینا واجب ہوگا۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم ،جلد ۲۴، ص۵۹۸)

بلاضرورت مسجد کی نئی تعمیر جائز نہیں:

            شہروں میں بڑی تیزی کے ساتھ لوگوں کا یہ مزا ج بن رہا ہے کہ پڑوسی محلے کی مسجد نئی بن رہی ہے تو ہماری مسجد بھی نئی بننی چاہیے۔ اگر وہ تین منزلہ ہے تو ہماری چار منزلہ ہونی چاہیے۔اگر چہ پرانی عمارت مضبوط و مستحکم ہی کیوں نہ ہواور نمازیوں کے لیے کافی کچھ اس میں گنجائش ہی کیوں نہ ہو۔جب کہ یہ سراسر غلط اور ناجائز ہے۔ دیکھیے اعلیٰ حضرت کیا فرماتے ہیں: اور اگر (مسجد) اس لیے شہید کی کہ یہیں ازسرنو اس کی تعمیر کرائے تواگر یہ امر بے حاجت وبلا وجہ صحیح شرعی ہے تو لغو وعبث وبے حرمتی مسجد وتضییع مال ہے۔ اور یہ سب ناجائزہے۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم ،جلد ۲۴، ص ۳۵۴)

مسجد میں معتکف کے علاوہ کسی کاسونا جائز نہیں:

       روزمرہ کامشاہدہ ہے کہ بہت سے لوگ روزانہ دوپہر کے وقت یا ویسے ہی مسجد میں سوجایاکرتے ہیں ایسے لوگوں کے تعلق سے اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں: صحیح راجح یہ ہے کہ معتکف کے سواکسی کو مسجد میں سونے کی اجازت نہیں۔ در مختار وغیرہ  میں ہے کہکرہ النوم فیہ الاالمعتکف مسجد میں غیرمعتکف کے لیے سوناجائز نہیں ۔                                                   (فتاویٰ رضویہ مترجم، جلد ۲۴، ص۴۳۴)

مسجد میں نا سمجھ بچوں کا جانا اور معلم کا اجرت لے کرپڑھانا جائز نہیں:

            کسی نے سوال کیا نا سمجھ بچوں کا مسجد میں جانا اور اجرت لے کر معلم کا ا نھیں پڑھا جائز ہے یا نہیں؟اس مسئلے کا جواب آ پ یوں دیتے ہیں :  مسجد میں ناسمجھ بچوں کے لے جانے کی ممانعت ہے۔ حدیث میں ہیجنبوا مساجد کم صبیانکم ومجانینکم (سنن ابن ماجہ) اپنی مساجد کو ناسمجھ بچوںاور پاگلوں سے محفوظ رکھو۔خصوصاً اگرپڑھانے والا اجرت لے کر پڑھاتا ہو تواوربھی زیادہ ناجائز ہے کہ اب کار دنیا ہوگیا اوردنیا کی بات کے لیے مسجد میں جانا حرام ہے۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم، جلد ۲۴، ص۴۳۴)

مسجد میں سوال کرنا جائز نہیں :

            عموماً غربا ومساکین فرض نمازوں کے بعد اپنی بے بسی و بے چارگی کا ذکر کر کے لوگوں سے امداد طلب کرتے ہیں جب کہ مسجد کے اندر کسی سے سوال کرنا جائز نہیں ہے ۔اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں: مسجد میں اپنے لیے مانگنا جائز نہیں اوراسے دینے سے بھی علمانے منع فرمایا ہے۔ یہاں تک کہ امام اسمٰعیل زاہد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: جومسجد کے سائل کو ایک پیسہ دے اسے چاہیے کہ ستّر پیسے اللہ تعالیٰ کے نام پر اور دے کہ اس پیسہ کاکفارہ ہوں، اورکسی دوسرے کے لیے مانگا یامسجد خواہ کسی اورضرورت دینی کے لیے چندہ کرنا جائز اورسنت سے ثابت ہے۔                         (فتاویٰ رضویہ مترجم، جلد ۲۴، ص۴۱۸)

امام مسجد کے ضروری اوصاف:

            امام صرف پنج گانہ نمازوں کا امین ہی نہیں بلکہ اللہ کی بارگاہ میں قوم کاترجمان ہوتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ وہ عالم ،فاضل ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے عادات وخصائل کاپیکر ہو۔اس مسئلے میں اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:امام مسجد صحیح العقیدہ ، صحیح الطہارۃ ، صحیح القراء ت، غیر فاسق معلن، عالم احکام نماز وطہارت ہوناچاہیے جس میں ایسی کوئی بات نہ ہو جس سے جماعت کی قلت ونفرت پیداہو۔ 

(فتاویٰ رضویہ مترجم ،جلد ۲۴ ،ص۴۱۸)

فاسق کی امامت درست نہیں:        

            فی زمانہ بہت سے ایسے لوگ امامت سے وابستہ ہیں جن کی داڑھی ایک مشت سے کم یاوہ کسی ایسے کام کے مرتکب ہیںجن کو شریعت نے فسق قرار دیا ہے لہٰذا وہ ضرور فاسق ہیں اور ان کی امامت کسی طرح درست نہیں ۔مگر وہ جوڑ توڑ کے ذریعہ زبردستی منصب امامت سے جڑے رہنا چاہتے ہیں ۔ایسوں کے تعلق سے اعلیٰ حضرت کا نظریہ ملاحظہ فرمائیں، فرماتے ہیں :فاسق معلن کوامام بنانا گناہ اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے کہ پڑھنا منع اورپڑھ لی تو پھیر ناواجب۔

(فتاویٰ رضویہ مترجم، جلد ۲۴، ص۴۳۱)

تمامیت مسجد کے بعداس میں دکان یاامام کے لیے حجرہ بنانا جائز نہیں:

            اخراجات مسجد پورا کرنے کے لیے بعض مساجد کے ذمہ دار حضرات مسجد کی نئی عمارت کی تعمیر کے وقت اس کے نیچے تہہ خانہ بناکراسے کرایہ پہ لگا رہے ہیںیہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ مسجد سے کچھ جگہ نکال کر دکانیں بنائی جارہی ہیں۔جب کہ یہ کسی بھی طرح صحیح نہیں ۔اس سلسلے میں اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں :متولی کومسجد کی حدیامسجد کے فنا میں دکانیں بنانے کااختیار نہیں کیوں کہ مسجد کوجب دکان یارہائش گاہ بنالیاجائے تواس کااحترام ساقط ہوجاتاہے جوکہ ناجائز ہے اورفناے مسجد چوں کہ مسجد کے تابع ہے لہٰذا اس کاحکم بھی وہی ہوگا جومسجد کا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم، جلد ۲۴، ص۳۵۲)

            اسی مسئلے پرروشنی ڈالتے ہوئے ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں:جو زمین مسجد کی ہوچکی اس کے کسی حصے کسی جز کا غیرمسجد کردینا اگرچہ متعلقات مسجد ہی سے کوئی چیزہو حرام قطعی ہے قال اللّٰہ تعالٰی وان المساجد للّٰہ (اللہ تعالیٰ نے فرمایا، بے شک مسجدیں اللہ تعالیٰ کی ہیں)ایک سطر کے بعد تحریر فرماتے ہیں: اب فرش مسجد کادکانیں کرناچاہتے ہیں یہ حرام اورسخت حرام ہے ، ان دکانوں میں بیٹھنا حرام ہوگا ان سے کوئی چیز خریدنے کے لیے جانا حرام ہوگا۔ فناے مسجد میں دکانیں کرنے کو توعلما نے منع فرمایا، نہ کہ معاذ اللہ نفس مسجد میں بزازیہ اوردر مختار میں ہے: لایجوزان یتخذ شئی منہ مستغلا۔ مسجد کے کسی حصے کو کرایہ حاصل کرنے کو دینا جائز نہیں۔ ( فتاویٰ رضویہ مترجم، جلد ۲۴، ص۴۸۲)

            اسی مسئلے پرروشنی ڈالتے ہوئے ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں: ہاں وقت بناے مسجد قبل تمام مسجدیت نیچے مسجد کے لیے دکانیں یااوپر امام کے لیے بالاخانہ بنائے اوراس کے بعد اسے مسجد کرے تو جائز ہے اوراگر مسجد بنا کربنانا چاہے اگرچہ مسجد کی دیوار کاصرف اسارہ اس میں لے اورکہے میری پہلے سے یہ نیت تھی ہرگز قبول نہ کریں گے اوراس عمارت کوڈھادیں گے۔ 

(فتاویٰ رضویہ مترجم، جلد ۲۴، ص۴۳۲)

بلاضرورت نچلے منزلے کو چھوڑ کر مسجد کے اوپری منزلے پر نماز پڑھنا درست نہیں:

            گرمی کے زمانے میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بجلی نہ رہنے کی صورت میں نمازمسجد کی چھت پر اداکی جاتی ہے جو کہ صحیح نہیں اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں: مسجد کی چھت پر بلاضرورت جانا منع ہے اگرتنگی کے سبب کے نیچے کادرجہ بھر گیااوپر نماز پڑھیں جائز ہے اوربلاضرورت مثلاً گرمی کی وجہ سے پڑھنے کی اجازت نہیں، کمانص علیہ فی الفتاویٰ عالمگیر یہ۔  (فتاویٰ رضویہ مترجم، جلد ۲۴، ص۴۳۹)

امامت میںوراثت نہیں،جو نماز کا پابند نہیںامام نہیں ہوسکتا:

            ناخواندگی اورعلم دین سے دوری کے سبب کچھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ امامت میں بھی میراث جاری ہوتی ہے لہٰذا امام کے انتقال کے بعد ان کے بیٹوں میں سے کسی کوامام بناناچاہیے، اس کی داڑھی مکمل ہویانہ ہو، چاہے قرآن صحیح نہ پڑھتا ہواوراحکام شرع سے مطلق واقفیت نہ رکھتاہو بہ ہرصورت وہی امام بنے گا جب کہ اعلیٰ حضرت فرماتے  ہیں: امامت میں میراث جاری نہیں۔

            پھرایک سطر کے بعد لکھتے ہیں: جو نماز کاپابند نہ ہولائق امامت نہیں اسے معزول کرناواجب ہے۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم ،جلد ۲۴، ص۴۷۷)

تعلیم یافتہ کی موجودگی میں غیرپڑھے لکھے کوامام مقرر کرنا:

            علاقائی عصبیت یاہم مشربیت کے سبب یا قرابت و رشتہ داری یاکسی کی سفارش کی بنیاد پر تعلیم یافتہ کی موجودگی میں غیرتعلیم یافتہ کو امام مقرر کرنا کسی طرح درست نہیں، لیکن بدقسمتی سے آج کل اس کارواج بڑھتاجارہاہے ۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:اگرمتولی دیدہ دانستہ افضل کے ہوتے ہوئے مفضول کوامام مقرر کرے تووہ اس حدیث کامورد ہے کہ من استعمل علی عشرۃ من فیھم ارضی منہ للّٰہ تعالٰی فقد خان اللّٰہ رسولہ والمومنین (کنزالعمال) جس نے دس شخصوں پرکسی ایسے کوافسر کیا کہ نظر شرع میںاس سے بہتران میں موجود تھا تو اس نے اللہ ورسول اورمسلمان سب کی خیانت کی۔                                               (فتاویٰ رضویہ مترجم، جلد ۲۴، ص۵۶۷)

مسجد میں کافر کا جانا جائز نہیں:

            الیکشن کے زمانے میں ووٹ مانگنے کے لیے یا عام دنوں میں اظہار یک جہتی کے لیے سیاسی لیڈران سیاست سے جڑے مسلمانوں کی دعوت پر مسجد آیا کرتے ہیں۔حالاں کہ انھیں مسجد بلانا اور مسجد میں ان کا بیان کرانا جائز نہیں ہے۔ دیکھیے اعلیٰ حضرت اس مسئلے میں کیا فرمارہے ہیں : کا فر کا اس(مسجد) میںجانا بھی بے ادبی ہے کما حققنا ہ فی فتاونا بتوفیقہ تعالٰی (جیساکہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس کی تحقیق ہم نے اپنے فتاویٰ میں کر دی ہے ) وھو تعالٰی اعلم

(فتاویٰ رضویہ مترجم ،جلد ۲۴،ص ۳۴۷)

مسجد کوگندگی سے بچانا ضروری ہے:

            مسجد کو حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہر طر ح کی گندگی اور خراب مہک سے صاف رکھنے کا حکم فرمایا ہے مگر منتظمین ومصلی حضرات فی زمانہ اس امر سے مجرمانہ حد تک غفلت کا شکار ہیں۔ دیکھیے اعلیٰ حضرت اس سلسلے میںکیا تحریر فرمارہے ہیں:مسجد کو بو سے بچانا واجب ہے لہٰذا مسجد میں مٹی کا تیل جلانا حرام ، مسجد میں دیاسلائی سلگانا حرام۔                          (فتاویٰ رضویہ مترجم، جلد ۲۴، ص ۲۳۲)

            پھر چند سطور کے بعد یہ حدیث نقل فرماتے ہیں:  من اکل من ھذہ الشجرۃ الخبیثۃ فلا یقر بن مصلانا  جو اس گندے پیڑ میں سے کھالے یعنی کچا پیاز یاکچا لہسن وہ ہماری مسجد کے پاس نہ آئے۔پھر یہ حدیث نقل فرمایا:فان الملائکۃ تتأذی ممایتأ ذی منہ بنو آدم یعنی یہ خیال نہ کرو کہ اگر مسجد خالی ہے تو اس میں کسی بو کاداخل کرنا اس وقت جائز ہوکہ کوئی آدمی نہیں جو اس سے ایذا پائے گا۔ ایسا نہیں بلکہ ملائکہ بھی ایذا پاتے ہیں اس سے جس سے ایذا پاتاہے انسان۔ مسجد کو نجاست سے بچا نا فرض ہے۔                                                       (فتاویٰ رضویہ مترجم، جلد۲۴ ،ص۲۳۳) 

            مسجد کی فضا کوخوش گوار اورپاکیزہ رکھنے کے تعلق سے ایک اور مقام پہ تحریر کرتے ہیں :  بعض لوگوں کی ریح میں خلقی بوئے شدید ہوتی ہے بعض کو بہ وجہ سوئے ہضم وغیرہاعارضی طورپر یہ بات ہوجاتی ہے ۔ ایسوں کو ایسے وقت میں مسجد میں بیٹھنا ہی جائز نہیں کہ بوئے بد سے مسجد کابچانا واجب ہے، وان الملائکۃ یتاذی منک بنوآدم (صحیح مسلم کتاب المساجد) یعنی جس بات سے آدمیوں کو اذیت پہنچتی ہے اس سے فرشتے بھی اذیت پاتے ہیں۔              (فتاویٰ رضویہ مترجم، جلد ۲۴، ص۲۸۸)

مسجد میں دنیاوی باتوں کاحکم:

            جہاں بہت ساری خرابیاں مسلم معاشرہ میں در آئی ہیں وہیں ایک بڑی آفت یہ ہے کہ مسجدوں میں لوگ باہم جمع ہوکر دنیاوی باتیں کرتے ہیں بلکہ چغلی، غیبت اورگالی گلوچ سے بھی پرہیز نہیں کرتے ۔ اس سلسلے میں اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں: مسجد میں دنیا کی مباح باتیں کرنے کوبیٹھنا نیکیوں کوکھاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔ فتح القدیر میں ہے: الکلام المباح فیہ مکروہ یاکل الحسنات مسجد میں کلام مباح بھی مکروہ ہے اوروہ نیکیوں کوکھاجاتاہے۔

            پھراشبا ہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں: انہ یاکل الحسنات کما تاکل النار الحطب ، بے شک وہ نیکیوں کو کھاجاتاہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھاجاتی ہے۔غمزالعیون میںخزانۃ الفقہ سے ہیمن تکلم فی المساجد بکلام الدنیا احبط اللّٰہ تعالٰی عنہ اربعین سنۃ   جو مسجد میں دنیا کی بات کرے اللہ تعالیٰ اس کے چالیس برس کے عمل اکارت فرمادے۔

            پھر چند سطروں کے بعد تحریر فرماتے ہیں:  سبحان اللہ ! جب مباح وجائز بات بلا ضرورت شرعیہ کرنے کومسجد میں بیٹھنے پر یہ آفتیں ہیں تو حرام وناجائز کام کرنے کاکیاحال ہوگا۔

(فتاویٰ رضویہ مترجم، جلد ۲۴، ص۳۱۲)

            ان مسائل کے علاوہ بھی آپ نے متعلقات مساجد کی اصلاح کے تعلق سے بہت کچھ تحریر فرمایا ہے ۔ جنھیں تفصیل درکار ہو وہ فتاویٰ رضویہ مترجم جلد ۲۴ کا مطالعہ ضرور کریں۔وما علینا الاالبلاغ

٭٭٭



..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں