ہفتہ، 28 نومبر، 2015

Malfoozat E Raza Me Ma Badut Tabiati Nazariyat



ملفوظات رضا اور مابعد الطبیعیاتی نظریات
ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی، بریلی شریف
الفاظ ۔ امام احمد رضا کی زبان سے ادا ہوئے ہوں یا ان کے قلم سے نکلے ہوں ، ان کا ہر ہر لفظ معتبر ہے اور ایسا معتبر و مستند ہے کہ عطر بیز بھی ہے اور نور بار بھی ! ان کے ہر ہر لفظ سے حق و صداقت کی روشنی بھی منعکس ہوتی ہے اورعقیدہ و ایمان کی خوشبو بھی مچلتی ہے ۔ امام احمد رضا کے ہر ہر لفظ میں علم و حکمت اور معنی کا ایک جہان آباد ہے ۔
درجنوں نقلی اور عقلی علوم و فنون پر رقم کردہ ان کی تصانیف کا تو جواب ہی نہیں ۔ ہر ہر تصنیف کے لفظ لفظ اور سطر سطر سے ان کے علمی تبحر ، ان کی عبقریت ، تحقیقی آن بان ، تجدیدی شان اور مصطفوی عشق وعقیدت کے اَن گنت جلوے بہار دکھاتے نظر آتے ہیں ۔
امام احمد رضا کا کمال تویہ ہے کہ اُن کے ملفوظات بھی علم و تحقیق ، شان ادبیت اور جمال ایمانیات کے آئینہ دار اور شاہ کار ہیں ۔ امام احمد رضا کے ملفوظات ، فقہی و علمی نکات ، ادبی ، فنی ، ریاضیاتی اور سائنسی نظریات ، امور تصوف ، رسول کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و مناقب ، صحابہ و اولیا اور علما کے تذکرے ، سلاطین اور ممالک کے واقعات اور حالات ، بھانت بھانت کے مضامین وموضوعات ، بس یوں کہیے کہ معلومات کا خزانہ و گنجینہ ہے  اور لاریب ! یہ ’’ مسلمانانِ عالم کے لیے ایک اعلیٰ ترین دستور العمل ‘‘ ہے جب کہ عالم یہ ہے کہ یہ ملفوظات محض دو سال چندماہ ہی کے ہیں ۔ بقول پروفیسر ڈاکٹر مختار الدین صاحب مد ظلہ العالی ۔ سابق صدر شعبۂ عربی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ : ’’ اگر ۸۔۱۰؍ سال کے بھی ملفوظات مرتب کیے جاتے تو اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ اس کی جلدیں علوم و فنون کی مختصر سی دائرۃ المعارف بن جاتیں ‘‘       (ماہ نامہ جہانِ رضا لاہور، اگست ستمبر ۱۹۹۴ ء )
امام احمد رضا کے ملفوظات کے جامع ان کے خلف اصغر حضرت مفتی اعظم مولانا شاہ مصطفی رضا خاں علیہ الرحمۃ والرضوان ہیں ۔ امام احمد رضا جہان اسلام کے عظیم محسن تو ہیں ہی ، حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کا بھی یہ احسان کم نہیں ہے کہ انھوں نے ملفوظات رضا کو چار حصوں میں مرتب فرما کر جہان سنیّت کو ایک اعلیٰ وارفع دستور العمل عطا فرمایا ۔
امام احمد رضا کے یہ ملفوظات بہ نام ’’ الملفوظ‘‘ ۱۳۳۸ھ مطابق ۱۹۱۹ء مرتب ہو کر منظر عام پر آئے ۔ اس کا تاریخی نام ، زبرو بینہ میں خود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے ’’ الملفوظ ‘‘ رکھا ۔ زبرو بینہ کے حساب سے ’’الملفوظ ‘‘ کے اعداد ۱۳۳۸ بنتے ہیں ۔
امام احمد رضا کے ملفوظات کے جائزے پر لکھاتو گیا ہے مگر بہت ہی کم ۔ زیادہ تر تاثرات اور اظہار خیالات ہی کے طور پر لکھا گیا ہے ۔ راقم نے ملفوظات رضا کے نثری حسن پر بھی لکھا ہے جو کئی سال قبل ’’جہانِ رضا ‘‘ لاہور میں شائع ہو چکا ہے ۔ اور اس مضمون کی پسندیدگی پر عزت مآب پروفیسر ڈاکٹر مختار الدین احمد صاحب نے راقم کو خط بھی لکھا تھا ۔ راقم نے اپنے مقالہ ’’ امام احمد رضا اور علم طبیعیات ‘‘ ( جو کتابی شکل میں شائع ہو چکا ہے ) میں بھی ملفوظات میں پیش فرمودہ طبیعیاتی نظریات کے حوالے دیے ہیں ۔
راقم کا زیر نظر مضمون ملفوظات میں شامل ما بعد الطبیعیاتی نظریات سے متعلق ہے ۔ علم ’’ مابعدالطبیعیات ‘‘ سے مراد ہے ’’ الٰہیات ‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا علم !
اللہ رب العزت واجب الوجود ہے ، وحدہٗ لاشریک ہے ، جسم و جسمانیت ، جہت ، زمان و مکان اور ہر نقص و خطا سے منزہ و مبرا ہے ۔ اس کی صفات بھی قدیم ہیں وغیرہ وغیرہ۔یہ علم اسلامی عقائد کا اصل الاصول ہے اور ہر مسلمان مرد اور عورت کے لیے قرآن و حدیث سے ثابت اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے علم سے واقفیت اور ان پر اٹل عقیدہ لازم و واجب ہے ۔ملفوظات میں امام احمد رضا نے مسئلہ ’’ وحدۃ الوجود ‘‘ ،’’اللہ تعالیٰ کے لیے ظلم یا کسی بھی طرح کا نقص محال ہیں ‘‘ ،’’لفظ اللہ مرکب ہے یا مفرد‘‘، ’’ تنزیہ مع تشبیہ بلا تشبیہ‘‘ نیز انھیں سب کے تعلق سے ’’وقت و زمانہ ‘‘ اور ’’ جزء لا یتجزیٰ ‘‘ وغیرہ پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔
(۱)  وحدۃ الوجود کی تعریف :
 امام احمد رضا فرماتے ہیں : ’’ وجود ایک اور موجود ایک ہے باقی سب اس کے ظل ہیں ۔‘‘(الملفوظ ،حصہ اوّل ، ص۱۲۹) مزید ارشاد فرماتے ہیں : ’’ وجود ہستی بالذات واجب تعالیٰ کے لیے ہے ۔ اس کے سوا جتنی موجودات ہیں سب اسی کی ظل پَرتو ہیں توحقیقتاً وجود ایک ہی ٹھہرا ۔‘‘ ( حصہ اوّل ، ص۸۰ ) اس مسئلہ کی وضاحت میں امام احمد رضا نے کئی مثالیں بیان فرمائی ہیںجن میں سے ایک مثال اس طرح ہے:’’ روشنی بالذات آفتاب و چراغ نہیں ہے ، زمین و مکان اپنی ذات میں بے نور ہیں ، مگر بالعرض آفتاب کی وجہ سے تمام دُنیا منور اور چراغ سے سارا گھر روشن ہوتا ہے ۔ ان کی روشنی انھیں کی روشنی ہے ، ان کی روشنی ان سے اُٹھالی جائے وہ بھی تاریک محض رہ جائیں ۔‘‘ ( ایضاً ، ص ۸۰ )امام احمد رضا نے اس نازک اور پیچیدہ مسئلہ کو آفتاب اور چراغ کی روشنی کی مثال دے کر جس طرح مختصر مگر جامع انداز میں سمجھایا ہے وہ آپ کے نور بصیرت پر دال ہے ۔
(۲)  جزء لایتجزیٰ کا مسئلہ :
امام احمد رضا نے جزء لایتجزیٰ پر تفصیلی بحث ’’ الکلمۃ الملہمۃ‘‘ میں کی ہے نیز’’ فوز مبین در  رد حرکت زمین ‘‘ میں بھی اس پر روشنی ڈالی ہے ۔
امام احمدرضا سے اس کی بابت سوال کیا گیا کہ : ’’ فلاسفہ کہتے ہیں کہ جز ء لایتجزیٰ باطل ہے ۔ اگر باطل مانا جائے اور ہیولیٰ اور صورت کی قدامت باطل کردی جائے تو اسلام کے نزدیک اس میں کیا برائی ہے؟ ‘‘
جواب میں ارشاد فرمایا : ’’ اگر جزء لایتجزیٰ نہ مانا جائے تو ہیولیٰ اور صورت کے قِدم کا راستہ کھلے گا ۔ ان دلائل فلاسفہ کا اُٹھانا پھر طویل وعریض مباحث چاہے گا اِس لیے ہمارے علما نے اسے سرے ہی سے رد فرمادیا : گربہ کشتن روز اوّل باید ۔ دین اسلام میں ذات وصفات الٰہی کے سواکوئی شے قدیم نہیں ۔ رب العزت فرماتا ہے :  بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (الانعام:۱۰۱)، نیا پیدا فرمانے والا آسمانوں اور زمین کا، اور حدیث میں ہے : کان اللّٰہ ولم یکن معہ شیٔ  ۔ازل میں اللہ تھا اوراس کے ساتھ کچھ نہ تھا ۔ غیر خداکسی شے کو قدیم ماننا بالاجماع کفر ہے ۔ ‘‘                                                                (حصہ دوّم ، ص ۱۸۹)
’’ جزء لایتجزیٰ ‘‘ سے مراد نہ تقسیم ہونے والا جز  (Indivisible Part)  لیا گیا ہے ۔ اسے جو ہر یا ایٹم (Atom) کا بھی نام دیا جاتا ہے ۔ اگر’’فوزمبین ‘‘ اور’’ الکلمۃ الملہمۃ ‘‘ میں جزء لایتجزیٰ ‘‘کی بحث کا تفصیلی جائزہ موجود ہ ایٹمی تھیوری  (Atomic Theory)  کی روشنی میں لیا جائے تو امام احمد رضا کے اس نظریہ کو موجودہ جوہری نظریہ کے ماہرین پر فوقیت و اولیت دی جا سکتی ہے ۔ ضرورت ہے کہ جماعت کے اہل علم و قلم اس مسئلہ پر بھی لکھیں ۔
(۳)  زمانہ اور وقت کی بحث  :
بلا شبہہ اللہ رب تبارک و تعالیٰ اور اُس کی صفات ہی قدیم ہیں اورزمانہ حادث، امام احمد رضا زمانہ اور وقت کے تعلق سے کیسا مدلل اور ایمان افروز جواب عطا کرتے ہیں ، ملاحظہ کیجیے ۔
ارشاد ہوتا ہے :’’ وقت کس چیز کا نام ہے ، وقت ہے ہی نہیں ۔ اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو زمانے اور جہت میں گھیر دیا ۔ کسی چیز کو بغیر زمانے کے نہیں سمجھ سکتے ۔ رب العزت زمانے سے پاک ہے ۔ مگر بولتے ہیں وہ ازل میں بھی ایساہی تھا جیسا اب ہے اور ابد تک ایسا ہی رہے گا ۔ تھااور ہے اور رہے گا ، یہ سب زمانے پر دلالت کرتے ہیں اور وہ زمانے سے پاک اور حوادث جو ہیں فی الحقیقت وہ بھی زمانے سے جدا ہیں ۔ مگر ان کا زمانے سے جدا ہونا عقل بتائے گی اور کسی ذریعہ سے نہ معلوم ہو گا ۔ ‘‘               ( حصہ چہارم ،ص ۳۷۶)
(۴)  لفظ اللہ مرکب ہے یا مفرد  :
’’ لفظ اللہ مرکب ہے یا مفرد ‘‘ کی بحث میں امام احمد رضا کی صرف ونحو میں مہارت کا بھی اظہار ہوتا ہے نیز اس بحث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بارگاہ الٰہیہ کا وسیلۂ عظمیٰ بھی ثابت کردیا ہے نیز واضح کردیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی ’’ نور اِلٰہ‘‘ اور ’’ اصل تکوین عالم ‘‘ ہیں ۔
اس سوال : ’’ اللہ کا لفظ مرکب ہے یا مفرد ‘‘ کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں : ’’ مشہور یہ ہے کہ ال تعریف اور اِلہٰ سے مرکب ہے ، ہمزہ کی حرکت لام کو دے کر اِس کو حذف کردیا اور لام کو لام میں ادغام کردیا لفظ اللہ ہو گیا مگر مجھے دوسرا قول پسند ہے کہ لفظ اللہ مرکب نہیں بلکہ بہ ہیئت کذائیہ علم ہے ، ذات باری کا کہ جس طرح اس کی ذات غیر مرکب ہے اسی طرح اس کا نام بھی غیر مرکب ہونا چاہیے اور ان کا موید اس کا طرز استعمال بھی ہے کہ وقت ندا اس کا الف نہیں گرتا یا اللہ میں ایسا نہیں ہوتا کہ ہمزہ اور الف گر کر ’ی‘ لام میں مل جائے ۔ اگر لام تعریف ہوتا تو ضرور ایسا ہوتا کہ اِس کا ہمزہ وصلی ہوتا ہے اور منادی، بیا معرف باللام کے پہلے ایہازیادہ کرتے ہیں ، یہاں حرام ہے اور اگر معنی کا تصور کر کے ہو تو کفر ہے ۔ ایہا کے معنی ہوتے ہیں ایک مبہم ذات جس کا بیان آگے ہے،وہاں ابہام کیسا، وہ تو اعراف المعارف ہے ، ہر شے کو تعیین تو وہیں سے عطا ہوتا ہے ۔‘‘ (حصہ چہارم ، ص۳۸۰)
آگے پھر فرماتے ہیں :’’ وہ تو اس قدر ظاہر ہے کہ اس کا بے غایت ظہور وہی سبب ہو گیا اس کی بے نہایت بطون کا ۔ قاعدہ ہے کہ شے جب تک ایک حد متعاد تک ظاہر رہتی ہے مرئی ہوتی ہے اور جب اس حد سے گزرتی ہے نظر نہیںآتی ، آفتاب طلو ع کے بعد کچھ بخارات ، سحابات وغیرہ میں ہوتا ہے پوری طرح نظر آتا ہے ، خوب اچھی طرح اس پر نگاہ جم سکتی ہے اور جتنا بلند ہوتا جاتا ہے نگاہ میں خیر گی آتی جاتی ہے یہاں تک کہ جب بالکل نصف النہار پر آجاتا ہے نگاہ کی مجال نہیں کہ اس پر جم سکے ،مگر پھر بھی اس کا ظہور ایک حد ہی تک ہے اس لیے اگرچہ ہم اس کو دیکھ نہیں سکتے پھر بھی اس کی روشنی سے مستفید ہو سکتے ہیں ۔ چودھویں شب کو جب آفتاب ہم سے بالکل پوشیدہ ہوجاتا ہے کسی کی طاقت نہیں کہ آفتاب سے روشنی لے سکے ، اس وقت ماہتاب ، آفتاب اور اہل زمین کے درمیان متوسط ہو کر آفتاب سے نور لیتا ہے اور اہل زمین کو نور پہنچاتا ہے ۔ جو چاہے کہ اس ماہتاب سے نور نہ لوں گا بلکہ آفتاب ہی سے لوں گا ہرگز نہیں لے سکتا ۔‘‘                          (حصہ چہارم ، ص ۳۸۰ )
تبصرہ  : سبحان اللہ،الحمدللہ ! کس طرح دلیل عقلی ( ہیئت کی روشنی میں ) اور منطقانہ بحث سے حضرت امام احمد رضا ، آقا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بارگاہِ ایزدی کا وسیلہ عظمیٰ اور نورِ اِلٰہ ثابت کرتے ہیں اور اس طرح اصل تکوین عالم !
آگے دیکھیے ، اسی بحث میں امام احمد رضا، سرکار ابد قرار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو رب عظیم کی نعمتوں کا قاسم بھی ثابت کرتے ہیں ، ملاحظہ کیجیے ، فرماتے ہیں ـ: ’’ بلا تشبیہ ذات باری تعالیٰ بے حد ظاہر تھی اور اسی سبب سے بے حد باطن تھی ، تمام موجودات میں اس سے مستفید ہونے کی استعداد بھی نہ تھی ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک ماہتاب نبوت بنایا کہ آفتاب الوہیت سے منور ہو کر تمام مخلوقات کو منور کردے ۔   ؎
عرش تک پھیلی ہے تابِ عارض
یوں چمکتے ہیں چمکنے والے
جو چاہے کہ بغیروسیلے اس ماہتاب رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے کچھ حاصل کر لوں وہ خدا کے گھر میں نقب لگانا چاہتا ہے ۔ بغیر اس توسل کے کوئی نعمت ، کوئی دولت کسی کو کبھی نہیں مل سکتی ،کون ہے ، جس سے تمام عالم منور و موجود ہے  وہ نہ ہو تو تمام عالم پر تاریکی عدم چھا جائے ۔ وہ قمر برج رسالت سیّدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، علماے کرام فرماتے ہیں :
 ہو صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلم خزانۃ السرو موضع نفوذ الا مرجعل خزائن کرمہ وموائد نعمہ طوع ید یہ یعطی من یشاء و یمنع من یشاء لا ینفذامرالا منہ ولا ینقل خیرالا عنہ ، حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خزانۂ سر الٰہی اور جائے نفاذ حکم خد اہیں ۔ رب العزت جل جلالہ نے اپنے کرم کے خزانے ، اپنی نعمتوں کے خوان حضور کے قبضے میں کردیے ، جس کو چاہیں دیں اور جس کو چاہیں نہ دیں کوئی حکم نافذ نہیں ہوتا ، مگر حضور کے دربار سے ، کوئی نعمت ، کوئی دولت کسی کو کبھی نہیں ملتی مگر حضور کی سرکار سے، صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ، یہی معنی ہیں ، انما انا قاسم واللّٰہ یعطی ۔ جز ایں نیست کہ مَیں ہی بانٹنے والا ہوں اور اللہ دیتا ہے   ؎
وہ جو نہ تھا تو باغ میں کچھ نہ تھا وہ نہ ہو تو باغ ہو سب فنا
وہ ہے جان ، جان سے ہے بقا وہی بن ہے بن سے ہی بار ہے
(حصہ چہارم ، ص ۳۸۰۔۳۸۱)
(۵)  لیس کمثلہ شیٔ اور متشابہ کی بحث  :
قرآن کریم اور حدیث پاک میں اللہ جل مجدہ کے لیے ’’استوا‘‘ ،’ ’ید‘‘، ’’نزول‘ ‘ وغیرہ کے الفاظ آئے ہیں ، لیکن ان سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ اللہ سیدھا ہوتا ہے ، یا اترتا ہے یا اس کے ہاتھ ہیں جیسے کہ انسانوں کے وغیرہ !
اللہ دیکھتا ہے ، سنتا ہے ، لیکن بغیر کان اور آنکھ کے ۔ وہ جسم وجسمانیت اور جہت و مکان و زمان وغیرہ سے پاک ہے ۔ اب ملاحظہ کیجیے کہ ان سب کے تعلق سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کیسی نفیس و جلیل بحث فرماتے ہیں اور ایسے نازک اور پے چیدہ مسائل کی کیسی شان دار اور ایمان افروز تشریح و توضیح کرتے ہیں ۔ فرماتے ہیں :
’’ جس آیت کو اس کے ظاہری معنی پر حمل کرنے سے کوئی عقلی استحالہ لازم آتا ہو وہ متشابہ ہے ۔ یَدُ اﷲِ فَوْقَ اَیْدِیْہِمْ  ، کے معنی ظاہر اگرلیں تو اس کا ہاتھ مانا اور جب ہاتھ ہوا تو جسم بھی ہوا اور ہر جسم مرکب اور مرکب اپنے وجود میں اپنے ان اجزا کا محتاج ہے جن سے وہ مرکب ہے ، جب تک وہ موجود نہ ہو لیں ۔ یہ موجود نہیں ہو سکتا تو خدا کا محتاج ہونا لازم آیا اور ہر محتاج حادث اور کوئی حادث قدیم نہیں اور جو قدیم نہ ہو وہ خدا نہیں ہو سکتا تو سرے سے الوہیت کا ہی انکار ہو گیا ِاِس لیے ثابت ہوا کہ  یَدُ اﷲِ فَوْقَ اَیْدِیْہِمْ ، محکم نہیں متشابہ ہے اور لَیْسَ کَمِثْلِہٖ محکم ہے ۔ ‘‘                                                 (حصہ چہارم ، ص ۳۷۶۔ ۳۷۷ )
مزید ارشاد فرماتے ہیں ’’ تشبیہ محض کفر ہے اور تنزیہ محض گمراہی اور تنزیہ مع تشبیہ بلا تشبیہ عقیدۂ حقہ اہل سنّت ہے ۔ ‘‘                                                                   ( ایضاً، ص ۳۷۸ )
’’  لَیْسَ کَمِثْلِہٖ ‘‘ کی بابت امام احمد رضا فرماتے ہیں : ’’  لَیْسَ کَمِثْلِہ شَیْئٌ وَ ہُوَا لسَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ (الشوریٰ :۱۱)یہ تنزیہ مع تشبیہ بلا تشبیہ ہے ۔ تشبیہ تو یہ ہوئی کہ وہ ہماری طرح ایک جسم من الاجسام ہے ، اس کے کان ، آنکھ ہماری ہی طرح گوشت پوست سے مرکب ہیں، وہ انھیں سے دیکھتا سنتا ہے اور یہ کفر ہے اور تنزیہ محض یہ کہ دیکھنے سننے میں اس کو بندوں سے مشابہت ہوتی ہے ، لہٰذا اس سے بھی انکار کردیا جائے کہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ خدا دیکھتا سنتا ہے ، یہ کچھ اور صفات ہیں جن کو دیکھنے سننے سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہ گمراہی ہے ۔ اصل عقیدہ یہ ہے کہلَیْسَ کَمِثْلِہ شَیْ ء یہ تنزیہ ہوئی کہ اس کی مثل کوئی شے نہیں اور  وَ ہُوَا لسَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ یہ تشبیہ ہوئی اور جب دیکھنے سننے کو بیان کیا کہ اس کا دیکھنا ،سننا آنکھ ، کان کا محتاج نہیں وہ بے آلات کے دیکھتا سنتا ہے یہ نفی تشبیہ ہے کہ بندوں سے جو وہم مشابہت ہوتا اس کو مٹا دیتا تو ماحصل وہی نکلا تنزیہ مع تشبیہ بلا تشبیہ… ‘‘
 (حصہ چہارم ، ص ۳۷۸ )
تبصرہ  : ’’ المعتقدا لمنتقد ‘‘ سیف اللہ المسلول حضرت علامہ شاہ فضل رسول قادری بدایونی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف لطیف (بہ زبان عربی ) پر حضور امام احمد رضا نوراللہ مرقدہ نے جو عربی میں حاشیہ رقم کیا ہے اس کا نام ہے ’’المعتمد المستند ‘‘ ( المعتقد المنتقد اور المعتمد المستند دونوں کا اُردو ترجمہ حضرت تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خاں قبلہ ازہری بریلی نے کیا ہے ۔)’’ المعتقدا لمنتقد ‘‘ میں جہاں حضرت علامہ فضل رسول علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ’’ اور یوں ہی کتاب و سنّت کے متشابہات کا ان کے ظاہری معنی پرجاری ہونا اللہ تبارک و تعالیٰ کے حق میں محال ہے، جیسے کہ استوا ، انگلی، ہاتھ ، پیر ، داہنا ہاتھ اور نزول وغیرہا اور سلف و خلف اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے ظاہری معنی سے منزہ ہے ۔ ‘‘            ( ص ۱۱۳ ۔۱۱۴ )
وہیں حاشیہ میں امام احمد رضا فرماتے ہیں : ’’(اقول ) اور تمہارے اوپر یہاں ایک باریکی کی طرف متوجہ ہونا واجب ہے اور وہ یہ ہے کہ ظاہر پر جاری کرنا کبھی بولا جاتا ہے اور مراد اس سے وہ ظاہر ہوتا ہے جو ہمیں مفہوم ہوتا ہے ۔ ہمارے ذہنوںکی طرف اس کا تبادر اسی کے موافق ہوتا ہے ۔ جو ہم اپنے آپ میں اور اپنے جیسوں میں پاتے ہیں یعنی گوشت اور ہڈی کا ہاتھ اور انگلی لمبائی ،چوڑائی اور موٹائی والی اور تجزی اور ترکیب والی… ہم یہ ایمان لاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے جو اس کے لائق ہے جیسا کہ نص یہ معنی دیتی ہے اور ہم یہ نہیں کہتے کہ ’’ید‘‘ بمعنی قدرت ہے جیسے کہ یہ قول اہل تاویل نے اختیار کیا ہے لیکن ہم یہ ایمان لاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ید جسمیت اور ترکیب سے اور خلق کی مشابہت سے منزہ ہے اور اس سے ورا ہے کہ عقل یا وہم اس کا احاطہ کرے بلکہ وہ اس کی صفات قدیمہ قائمہ بالذات کریمہ سے ایک صفت ہے جس کے معنی کا ہم کو علم نہیں اور یہی ائمۂ متقدمین کا مسلک ہے اور یہی مختار معتمد واضح حق ہے اور یہی معنی ہے تشبیہ اور تنزیہ کو اکٹھا کرنے کا جس کا قول کیا جاتا ہے تو تنزیہ حقیقت اور تشبیہ لفظ میں ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا قول ،  لَیْسَ کَمِثْلِہ شَیْ ء (کوئی شے اس کے مثل نہیں۔ترجمۂ قرآن کنزالایمان) تو بے شک اس فرمان حقیقت کی تنزیہ فرمائی پھر  ہُوَا لسَّمِیْعُ الْبَصِیْرُاور (وہی سنتا دیکھتا ہے ۔) فرما کر لفظ میں تشبیہ کا فائدہ دیا اور یہ اس وجہ سے ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی صفات میں سے کسی صفت میں اور مخلوق کی صفات میں نام کی شرکت کے سوا کوئی شرکت نہیں اور اللہ ہی کے لیے بلند کہاوت ہے ۔ ‘‘                                   (ترجمہ : المعتقد المنتقدمع المعتمد المستند ، ص۱۱۴ )
 الملفوظ( ملفوظات رضا ؔ) لاریب ایک دائرۃ المعارف ہے ، علم کا خزانہ و گنجینہ اور مضامین و موضوعات کا نگار خانہ ہے ۔ ضرورت ہے کہ اس پر بھی تحقیق و جائزہ کے امور انجام دیے جائیں ۔
کتابیات
(ا)        الملفوظ (ملفوظات رضاؔ )  مرتبہ حضرت مفتی اعظم ہند مولانا شاہ مصطفی رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
ّ(۲)       المعتقد المنتقد ( عربی )  علامہ فضل رسول بدایونی علیہ الرحمہ
(۳ ) المعتقد المنتقد مع المعتمد المستند   (ترجمہ اُردو ،از حضرت تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خا ں ازہری قبلہ )

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں