اتوار، 2 جولائی، 2017

Nasr E Raza K Adabi Jawahar Pare : A Book By : Dr. Muhammed Husain Mushahid Razvi



نثرِ رضا کے ادبی جواہر پارے

براے ایصالِ ثواب
بزرگانِ خاندانِ برکات، مارہرہ مطہرہ و

مرحومہ خاتون حجن، مرحوم حاجی احمد،مرحومہ حلیمہ بنت عبدالرشیدبرکاتی،

شاعرِ اسلام مدّاحِ رسول مرحوم الطاف انصاری سلطان پوری
ناشر : ادارۂ دوستی ، ۸۴۲؍ کمال پورہ ، مالیگاؤں (ناسک)
یونی کوڈ پیش کش   : بہ موقع عرسِ رضا1437ھ/2015ء


....................................  
 
انتساب
ہر اُس منصف مزاج ادیب وناقد ، مورخ ومحقق اور ادب پسند طالب علم کے نام
جس کا ادب کے تئیں یہ نظریہ ہے کہ  :
’’ادب میں تعصب کی عینک سے مطالعہ کرنا اور اپنے مخالف عقیدے و نظریے کے مقلد افراد کی اعلا ترین علمی وادبی کاوشات سے صرفِ نظر کرنا ؛ادب کو زندہ در گور کرنے کے مترادف ہے…‘‘
 ........................................
حرفے چند
            ناچیز کوہائی اسکول کے زمانۂ طالبِ علمی میں ہی کچھ تو اساتذہ کی مہربانیوں اور کچھ ادب پسند دوستوں کی رفاقت سے اردو شعر وادب سے شغف پیدا ہوگیا تھا۔اسباق و منظومات کے شروع میں شعرا و مصنفین کے کوائف میں ان کی کتابوں اور رسالوں کے بارے میں اجمالاً معلومات درج رہا کرتی تھیں۔ لائب ریری سے ان کتب و رسائل کوحاصل کرکے ان کے مطالعہ کا ذوق و شوق بھی اسی دوران پروان چڑھا، کتابیں پڑھنے کے بعدان پراچھا خاصا تبصرہ بھی ہوتا ۔ لڑکپن ہی سے اردو ادب کی اچھی خاصی کتابیں مطالعہ سے گذر چکیں۔جب شعور میں مزیدبالیدگی آئی تو اردو ادب کی تاریخ پر لکھی گئی کتابیں پڑھنے کے مواقع میسر آئے۔
            چوں کہ گھریلو ماحول کی وجہ سے امام احمد رضامحدث بریلوی جیسے عظیم اسلامی مفکر کی کتابیں بھی زیرِ مطالعہ رہیں ۔ جب تاریخِ اردو ادب پر لکھی گئی کتابوں کو پڑھنے کا اتفاق ہوا تو میں حیرت و استعجاب کے سمندر میںغوطہ زن ہوتا گیا کہ آخر ان کتابوں میں امام احمد رضا جیسے عظیم المرتبت ادیب و شاعر،محقق و مصنف کا ذکر کیوں نہیں؟یہ سوال بار بار کچوکے لگا تا رہا ۔ لہٰذا اسی دوران میرے دل میں پیشِ نظر مقالہ ’’نثرِ رضا کے ادبی جواہر پارے ‘‘قلم بند کرنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اس کی ترتیب و تہذیب راقم نے جولائی ۲۰۰۰ء میں کی تھی۔ ایک صاحب کے پاس بہ غرضِ مطالعہ دیا گیااُن سے یہ مقالہ نہ جانے کہاں رکھا گیا ؟صد شکر کہ۶ سال کے بعد یہ دوبارہ دست یاب ہوا ،اسی وقت اس کی طباعت کا خیال ہوا لیکن اشاعت کے لیے بعض دشواریاں مانع رہیں،بہ ہر کیف! یہ مقالہ آپ کے ہاتھوں میں اس کی ترتیب کے دس سال سے بھی زائد عرصہ کے بعد آرہا ہے ۔میں اس کی اشاعت میں دل چسپی کا مظاہرہ کرنے والے احباب کا ممنون ہوں۔
            رب عزوجل رسولِ کونین ﷺکے صدقہ و طفیل ہمیں دارین کی سعادتوں سے بہرہ مند فرمائے۔ (آمین بجاہ الحبیب الامین صلی اللہ علیہ وسلم)

                                                محمد حسین مُشاہدؔ رضوی ،مالیگاوں

                                                ۸؍ذوالحجہ۱۴۳۱ھ/۱۵؍ نومبر ۲۰۱۰ء ،بروزپیر



ابتدائیہ

اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان رحمت والا

مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام

            مولانا شاہد رضا نعیمی اشرفی لکھتے ہیں  :
                        ’’ادب میں تعصب کی عینک سے مطالعہ میرے نزدیک ناپسندیدہ عمل ہے اور میں اپنی ناپسندیدگی کودوسروں کی پسند گمان کرنے والوں میں بھی نہیں ہوں لیکن اردو ادب کا طالب علم جب ۱۸۵۷ء کے تاریخی انقلاب کے بعد ادب کی روشنی میںاپنا ذہنی سفر شروع کرتا ہے تو حیرت اُسے ضروٗر ہوتی ہے ؛ اگر نہیں ہوتی تو ہونی چاہیے اور اگر اس ’’چاہیے‘‘ کا بھی انکار ہے توحقیقتیں ہر دور میں اتنی بااختیار ضروٗر ہوتی ہیں اور رہیں گی جب حقائق کی اَن مِٹ طاقتوں نے محض تخیلاتی نظریات کے پہاڑ کو چکنا چوٗر کردیا ہے ’’ایٹم‘‘ کی سہ رُکنی حقیقت نے نیوٹن کا بھرم اگر توڑا ہے ،صورت و معنیٰ کی کشمکش میں اگر معنیٰ کو غلبہ حاصل ہوا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ فاضلِ بریلوی کی ادبی و لسانی خدمات کا اعتراف نہ کیا جائے ذہنی و علمی دنیا کی یہ وہی مایوس کن منزل ہے جہاں اپنوں سے شکوہ شکایت کو ’’شدید اپنائیت‘‘ کی خوب صورت تاویل کالبادہ پہنا دیا جاتا ہے۔میں بھی کرب و کسک کی اُس منزل پر ہوںجہاں مجھے اپنوں سے شکوہ ہے لیکن سوچتا ہوں کہ اپنا کون ہے؟اس لیے یہ کہہ دینا ہی عافیت بخش ہے کہ مجھے سب سے شکوہ ہے ،کاش! ہماری جماعت کے لوگ فاضلِ بریلوی کے اِس رُخ پر لکھتے تو آج حامد حسن قادری ،رام بابو سکسینہ ،نسیم قریشی،عبدالسلام ندوی کی تاریخِ ادب کی کتابیں ’’ذکرِ رضا‘‘ سے نا آشنا نہ ہوتیں۔‘‘
(مولانا شاہد رضا نعیمی اشرفی:امام احمد رضا اور اردو ادب،المیزان کا امام احمد رضا نمبر ۱۹۷۶ء،ص۵۰۷)
            اردو ادب کی تاریخ کے اس سب سے بڑے المیے کو فراموش نہیں کرنا چاہیے ،یہ ہماری بد قسمتی ہے اور ناقابلِ تردید حقیقت بھی…کہ ہمارے مورخین و ناقدین نے اردو ادب کی تاریخ مرتب کرتے وقت عصبیت کا شکار ہوکر اورعقیدے کی عینک چڑھا کر اردوادب کی تاریخ لکھی ہے؛چناں چہ یہی گروہی عصبیت اور جانب دارانہ رویّہ امام احمد رضامحدث بریلوی کی ادبی و لسانی خدمات کو تاریخِ ادب کی کتابوں سے دوٗر کیے ہوئے ہے۔اس ضمن میںممتاز ناقد و محقق ڈاکٹر وزیر آغاکی یہ تحریر پیش کرنا غیر مناسب نہ ہوگا:
                        ’’پچھلے دنوں ایک نجی محفل میں ایک بزرگ نقاد نے کسی تازہ کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا؛میرے لیے اس کتاب کا پسند کرنا ناممکن ہے اس لیے کہ یہ تو میرے عقائد ہی کے خلاف ہے؛اور میں سوچنے لگا کہ ادب کی پرکھ کے سلسلے میں اگر عقیدہ کسوٹی مان لیا جائے تو اس کے کیا نتائج بر آمد ہوں گے۔‘‘
            مضمون کے اختتام پر ڈاکٹر آغا صاحب نے یوں لکھا ہے کہ :
                        ’’اگر نقّاد اپنے کسی عقیدے کے تحت ادب کو پرکھنے کی کوشش کرے اور ہر اس ادب پارے کو گردن زنی قرار دے دے جو اس کے عقیدے کے مطابق نہیں تو پھر ادب کا خدا ہی حافظ ہے۔‘‘
(ڈاکٹر وزیر آغا:تنقید و احتساب )
            ڈاکٹر وزیر آغاکی محولہ بالا عبارت میں مولانا شاہد رضا نعیمی کے درد و کرب کا جواب موجود ہے؛شعراے اردو کے تذکرہ نگاروں اور اردوادب کی تاریخ مرتب کرنے والے مورخین و ناقدین نے مسلکی عصبیت کو بروے کار لاتے ہوئے امام احمد رضا جیسے عظیم المرتبت ادیب و شاعر بل کہ ’’شہنشاہِ اقلیمِ سخن‘‘ کے ذکرِ خیر سے اپنی کتابوں کو خالی رکھا ہے اور آپ کی علمی و ادبی ،لسانی و فکری اوردینی و ملّی خدمات کو یک سر نظر انداز کردیا ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ اس میں کچھ اپنوں کی بھی کوتاہیاں شامل ہیں۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جس قدر تعصب کا برتاو امام احمد رضامحدث بریلوی کے ساتھ ہوا ہے اتنا کسی دوسرے اسلامی مفکّر کے ساتھ نہیں ہوا ہوگا۔امام احمد رضامحدث بریلوی نے اردوزبان وادب کی جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اُسے آبِ زر سے لکھاجائے تو بھی کم ہے۔ ۱۳۳۹ھ/۱۹۲۱ء میں جب کہ اردو کا دامن اصولِ تحقیق اور لسانی مصطلحات سے مبرہ تھا۔آپ نے اپنی تصنیف’’حجب العوار عن مخدوم بہار‘‘ میں تحقیق کے مبادیات و مصطلحات، صحت ِ نسخ،صحتِ متون،اتصالِ سند،تواتر،تداول،احتیاطِ نقل و استدال پر علمی و تحقیقی بحث فرمائی ہے اور اس فن کے لیے اصول و ضابطہ وضع کیے ۔
            تحقیق و ریسرچ میں صحتِ نسخ اور صحتِ متون کو اساسی اہمیت حاصل ہے دیکھا گیا ہے کہ محققین بھی اس کی پروا نہیں کرتے اور ہر چھپی ہوئی کتاب سے استفادہ کرکے استدلال و استناد کرتے ہیں اور اس کے مندرجات کو بلا تامل مصنف سے منسوب کردیتے ہیں۔ امام احمدرضا نے تحقیق کے جو اصول پیش فرمائے ہیںان سے آپ کی احتیاط بھی عیاں ہوتی ہے اورآپ کے مرتب کردہ اصول اور جدید محققین کی مدوّن کردہ مصطلحات کے تقابلی مطالعہ سے آپ کا معیارِ تحقیق بہت ہی ممتاز نظر آتا ہے ۔امام احمد رضا کے ان اصولوں پر تحقیقی بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر غلام مصطفی نجم القادری (میسوٗر یونی ورسٹی،کرناٹک)کایہ تجزیہ قابلِ توجہ ہے،موصوف راقم ہیں :
                        ’’فخر و اعتماد کے ساتھ جس مستند محقق کو دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کے محققوں کی بزم میں پیش کیا جاسکتا ہے کم از کم انیسویںاور بیسویں صدی میں اس افتخار کا سہرا محققِ بریلوی کے فِرقِ اقدس پر سجتا ہے اور ہر اعتبار سے آپ ہی اس کے حق دار ہیں۔‘‘
(ڈاکٹر امجدرضا امجد:اردو میں مذہبی ادب کا تنقیدی مطالعہ،پیغامِ رضا،۱۹۹۶ء،ص۱۶۷)
            امام احمد رضامحدث بریلوی ایک طرف تو جدید تنقید وتحقیق کے اصولوں سے دنیاے اردوادب کو اس وقت متعارف کرارہے تھے جب کہ اردو تنقید و تحقیق کا دامن ان باریکیوں سے یک سر خالی تھا،تو دوسری طرف اس کے برعکس اردو ادب کے مورخین نے امام احمد رضامحدث بریلوی کی ادبی و لسانی خدمات و اثرات کے ساتھ ایسا سنگین برتاو کیا جو انتہائی درجہ قابلِ افسوس ہے ۔مذہبی ادب کے معروف ناقد ڈاکٹر امجد رضا امجدؔ (پٹنہ)کا یہ منصفانہ تجزیہ لائقِ مطالعہ ہے:
                        ’’مگر تاریخِ اردو کے مورخین نے اس نابغۂ روزگار شخصیت کے ساتھ جس بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا ہے وہ ایک سنگین جرم ہے اور اردو کے علمی ذخائر کے ساتھ خیانت بھی…اربابِ علم و دانش اس خلا کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے اور احساس بیدار ہوتے ہی وہ سراپا سوال بن جاتے ہیں۔چناںچہ دورِ جدید کے ایک مذہبی محقق و مفکر پروفیسرڈاکٹر محمد مسعود احمدمجددی مظہری کا ایک دل گداز بیان پڑھیے:
                        تاریخ و ادب کی کتابوں میں نہ جانے کیوں اس عظیم انسان کو نظر اندا زکیا گیا …اربابِ علم و دانش حیران ہیں…یکم ستمبر۹۲ء کو بریلی جانا ہوا…وہاں ایک ملاقات میں ڈاکٹر وسیم بریلوی (صدر شعبۂ اردو روہیل کھنڈ یونی ورسٹی) نے باتوں باتوں میں فرمایا…اردوادب کی کتابوں میں امام احمدرضا کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا ؟…یہ غفلت کیوں برتی گئی؟…وسیم بریلوی سراپا سوال بن گئے‘…‘‘(ایضاًص ۱۶۸)
            امام احمد رضامحدث بریلوی کی نثر نگاری اپنے عہد کے نام ور علما و ادبا کے مقابل خاصے کی چیز ہے۔ آپ کی نثرعمدہ اور اعلا ترین ہے۔آپ کے معاصر میں جن اشخاص کا مقابلہ آپ کی مہتم بالشان شخصیت سے کیا جاتا ہے اُن کی نثر نگاری آپ کے سامنے بالکل بچکانہ نظر آتی ہے اور و ہ افراد امام احمد رضامحدث بریلوی کے سامنے طفلِ مکتب نظر آتے ہیں ۔امام احمدرضا بریلوی اور ان کے ہم عصروں کی کتابوں کے مطالعہ کے بعدہمارے اس خیال کی تصدیق و توثیق کے لیے یقیناآپ بھی مجبور ہوجائیں گے ۔چناںچہ مشہور ادیب و شاعر اور ممتاز دانش ورپروفیسر ڈاکٹر صابر سنبھلی (وظیفہ یاب صدر و ریڈرایم ایچ ۔پی جی،کالج، مرادآباد)نے تحقیق و مطالعہ کے بعد اپنی حتمی راے کا اظہار ان لفظوں میں کیا ہے  :
                        ’’امام احمد رضا کے دور میں کچھ اور لوگ بھی نثر لکھ رہے تھے،  مولوی قاسم نانوتوی کی ایک کتاب ’تحذیر الناس‘راقم السطور کی نظر سے گزر رہی ہے۔فقیر کو علمیت میں کوئی دخل نہیںلیکن تھوڑی بہت فارسی سمجھ لیتا ہے اس کے باوجود ’تحذیرالناس‘ جو اردو کی کتاب بتائی جاتی ہے،سر سے گزر گئی…مولوی اشرفعلی تھانوی اور مولوی رشید احمد گنگوہی کی نثر کوئی پہچان نہیں بنا پائی یوں بھی ان دونوں کی نثر بچکانہ ہے۔اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جدید علمی نثر کے فروغ کا کام سرسید اورامام احمد رضا نے ہی کیا ہے۔‘‘
(ڈاکٹر صابر سنبھلی:اردو نثر نگاری میںامام احمد رضا کا حصہ ،مشمولہ :سہ ماہی افکارِ رضا ،ممبئی،ستمبر ۱۹۹۹ء،ص ۱۰)
            امام احمدرضا نے اپنی اردونثر میں موضو ع کی صحیح فہمایش پر زور دیا اور اپنے افکار و خیالات کی وضاحت و صراحت کے لیے گنجلک اسلوبِ نگارش کو نہیں اپنایااور نہ ہی آپ کی تحریروں میںتصنع اور بناوٹ کا کہیں شائبہ گزرتا ہے؛ جیسا کہ عہدِ رضا ہی کے ایک مشہور نثر نگار مولانا ابولکلام آزاد ؛کہ جنھوں نے اپنی اردو تحریروں میں عربی وفارسی کی تراکیب سے اپنے اسلوب کو سجانے کے لیے قاری کو الفاظ و معنی کی بھول بھلیوں میں گم کردیا ہے اور اپنے زورِ بیان کی نمایش و زیبایش کرنے کے لیے انھوں نے جو اسلوب اختیار کیا ہے اس میں بہ ظاہر تو لطف محسوس ہوتاہے لیکن یہ اہل نقد و نظر جانتے ہیں کہ ابولکلام آزاد کے اسلوب میں مصنوعی طرزِ بیان نمایاں طورپر نظر آتا ہے ۔بل کہ بعض ناقدین نے تو آزادؔ صاحب کی تحریروں کو انانیتی ادب سے بھی تعبیر کیاہے۔ جب کہ امام احمد رضا کی تحریریں ان معائب سے پاک و صاف اور فطری انداز لیے ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں امام احمد رضا کی نثر نگاری پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے پروفیسرڈاکٹر فاروق احمد صدیقی (صدر شعبۂ اردو بہار یونی ورسٹی ،مظفر پور ،بہار )کا یہ بیان اہمیت کا حامل ہے:
                        ’’انھوں نے موضوع ہی کو اصل و اساسِ سعیِ تحریر سمجھا؛اس لیے ان کا سارا زور ِبیان اپنے افکار و خیالات کے موثر ابلاغ کے لیے وقف ہے ان کی نظر اس حقیقت سے واقف تھی کہ حقائق کی زمین اس قدر سنگلاخ ہوتی ہے کہ باطل خیالات شیٖشے کے برتن کی طرح ٹوٹ جاتے ہیں اس لیے انھوں نے اپنے اسلوبِ نگارش کو مزیّن کرنے کی کوئی شعوری کوشش نہیں کی ۔اس کے باوجود ان کے جملوں کی ترتیب میں ایک مخصوص آہنگ ملتا ہے۔جو عربی و فارسی تراکیب سے مملو ہونے کے باوجود سماعت کو ناگوار نہیں معلوم ہوتا بل کہ کانوں میں رس گھولتا نظر آتا ہے۔
                        امام احمد رضا کے عہد میں اگر چہ علی گڑھ تحریک کے زیرِ اثر سلیس و بامحاورہ نثر نگاری کی روایت چل پڑی تھی ؛تاہم بہت سارے اہلِ قلم حضرات قدیم اسلوب ِ نگارش سے پیچھا نہیں چھڑا سکے تھے فارسی کے مخصوص طرز کے زیرِ اثر ایسے اہلِ قلم اپنی تحریروںمیں صنائع و بدائع کا استعمال کرتے تھے اور اپنی قادرالکلامی اور زورِ بیان کی نمایش کرنے کی غرض سے مقفّا عبارت آرائی کے بھی دل دادہ تھے …لیکن امام احمدرضا نے کبھی ایسی پُر تصنع عبارت آرائی کی کوشش نہیں کی ان کا مقصدِا عظم دین کی تجدید و تبلیغ تھا اور ایک مجدّد و مبلغ مصنوعی طرزِ بیان سے کام نہیں لیتا اس لیے انھوں نے ہر جگہ فطری اندازِ بیان اختیار کیاتاکہ ان کی زبان میں از دل خیزد بر دل ریزد کی شان باقی رہے۔‘‘
(ڈاکٹر فاروق احمد صدیقی:امام احمدرضا اور اردوادب ،مشمولہ: مسلم ٹائمز،جون ۲۰۰۰ء،ص۵)
            درج بالاتجزیے سے یہ بات آفتابِ نیم روز کی طرح روشن و نمایاں ہوجاتی ہے کہ   ؎
ملکِ سُخن کی شاہی تم کو رضاؔ مسلم
جس سمت آگئے ہو سکّے بٹھا دئیے ہیں
            امام احمد رضا اپنے معاصر نثر نگاروں میں سب سے ممتاز و منفرد ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آپ کی علمی و ادبی حیثیت کو منصف مزاج اربابِ علم و دانش نے خوب خوب سراہاہے۔شعراے اردو کے تذکرہ نگاروں اور اردو ادب کی تاریخ مرتب کرنے والے مورخین و ناقدین نے امام احمد رضا جیسے عظیم ادیب و شاعر کی علمی ،ادبی ،لسانی اور تعلیمی خدمات کا تذکرہ نہ کرکے اردو ادب کے ساتھ نہ صرف یہ کہ انصاف نہیں کیا ہے بل کہ آپ کی شخصیت کو ناقابلِ اعتنا سمجھ کر ایک سنگین جُرم اور بڑی ادبی خیانت بھی کی ہے…ویسے میری نظر میں اردو ادب کی تاریخ میں امام احمد رضا کا ذکر نہ ہونا ’’امام‘‘ کے لیے ’’باعثِ محرومی‘‘ نہیں بلکہ یہ تو ’’اردو ادب‘‘ کی’’ حرماں نصیبی ‘‘ہے کہ  و ہ امام احمدرضا جیسے عظیم المرتبت مردِ جلیل اور شہنشاہِ اقلیمِ سخن کے ذکرِ خیر سے خالی ہے۔
            بہ ہر کیف! حقیقتیں ہر دور میں اپنا لوہا منواتی اور حقائق کی ان مٹ طاقتوں سے بے بنیاد باتوں کے تارو پود بکھیر کر لوگوں کو صداقت آشنا کرتی رہی ہیں…یہی وجہ ہے کہ آج ساری دنیا میں امام احمدرضا پر مطالعہ و تحقیق کا جو سلسلہ دراز ہوا ہے وہ بے مثیل و بے نظیر نظر آتا ہے۔آج اکنافِ عالم میں امام احمد رضا کے افکار و خیالات اور نظریات کی دھومیں مچی ہوئی ہیں لوگ آپ کے بحرِ علم و عمل سے سیراب ہوکر اپنی تشنگی بجھا رہے ہیں ۔اما م احمدرضا بریلوی کا یہ مصرعہ آج خود ان پر صادق آتا ہے کہ  ع
گونج گونج اُٹھے ہیں نغماتِ رضاؔ سے بوستاں
            پیشِ نظر مقالہ میں امام احمدرضا کے ان نثری جواہر پاروں کو جمع کرنا مقصود ہے جنھیں اردوے معلا کا حسیٖن ترین گل دستہ اور اردوزبان و ادب کی شیرینی و حلاوت کا عظیم ترین شاہ کار قرار دیا جاسکتا ہے۔لہٰذا آپ کی ’’صرف چند کتب و رسائل‘‘ سے چیدہ چیدہ اقتباسات مع حوالہ جات نقل کیے جاتے ہیں یہ بات ذہن نشین رہ کہ اگر آپ کی تمام تر مطبوعہ تصانیف سے ایسے اقتباسات جمع کیے جائیں تو کئی ضخیم مجلدات تیار ہوجائیں ۔
            آئیے اب ورق اُلٹیے اور اروے معلا کے حسیٖن و جمیل گل بوٹوں کی چاشنی و لطافت سے محظوظ ہوتے ہوئے امام احمدرضا کی قادرالکلامی کا نظارا کیجیے۔   

...............................................................................................
            (۱)  سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم جانِ دین و ایمان ہے ۔آیتِ کریمہ  : ان ارسلنٰک شاہداً و ّ مبشّراً وّ نذیراً لِّتؤ منوا باللہ ورسولہٖ وتعزروہ وتوقِّروہ و تسبحوہ بکرہً وَّاصیلاً۔ (سورہ فتح پ ۲۶،ع ۹)
            کے تحت امام احمد رضا کا ادبی شہ پارہ خاطر نشین فرمائیں ۔عبار ت کی سلاست و روانی اور زبان کی عمدگی اور دل کشی قاری کوایک عجیب طرح کی لذت سے سرشار کرتی جاتی ہے   :
                        ’’مسلمانو! دیکھو دینِ اسلام بھیجنے،قرآن مجید اتارنے کا مقصود ہی تمہارا مولا تبارک و تعالیٰ تین باتیں بتاتا ہے اوّل یہ کہ لوگ اللہ و رسول پر ایمان لائیں … دوّم یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم کریں… سوّم یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عبادت کرتے رہیں۔
                        مسلمانو! ان تینوں جلیل باتوں کی جمیل ترتیب تو دیکھو!سب میں پہلے ایمان کو فرمایا اور سب میں پیچھے اپنی عبادت کو اور بیچ میں اپنے پیارے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم کو اس لیے کہ بغیر ایمان تعظیم کار آمد نہیں بہتیرے نصارا ہیں کہ نبیِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم اور حضور پر سے دفعِ اعتراضاتِ کافرانِ لئیم میں تصنیفیں کر چکے، لکچر دے چکے، مگر جب کہ ایمان نہ لائے کچھ مفید نہیںکہ یہ ظاہر ی تعظیم ہوئی، دل میں حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سچی عظمت ہوتی تو ضرو رایمان لاتے، پھر جب نبیِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سچی تعظیم نہ ہو عمر بھر عبادت ِ الٰہی میں گذارے ، سب بے کار و مردود ہے… بہتیرے جوگی اور راہب ترکِ دنیا کرکے اپنے طور پر ذکر و عبادتِ الٰہی میں عمر کاٹ دیتے ہیں بلکہ ان میں بہت وہ ہیں کہ لا الٰہ الا اللہ کا ذکر سیکھتے اور ضربیں لگاتے ہیں … مگر از انجا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم نہیں کیا فائدہ؟ اصلاً قابلِ قبولِ بارگاہِ الٰہی نہیں …‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:تمہیدِ ایمان بآیاتِ قرآن ۱۳۲۶ھ،رضا اکیڈمی ،مالیگاوں۱۹۹۲ء،ص ۲)
            (۲)  آریاوں کاعقیدہ ہے کہ ایشور ہر جگہ رما ہوا ہے اور وہ ہر شخص کے آگے دس انگلی کے فاصلے پر موجود ہے اس باطل خیال کی امام احمد رضا نے کس درجہ اچھوتے تنقیدی انداز سے دھجیاں بکھیری ہیں وہ قابلِ دید ہے۔منکرینِ توحید ورسالت پر طنز کا لطیف مگر کاٹ دار انداز قاری کو متاثر کرتا ہے  :
                        ’’دس انگلی کے فاصلے پر ہر آدمی کے بیٹھا ہے تو ہر جگہ کب ہوا پھر دو آدمی کے آمنے سامنے دس انگلی کے فاصلے پر ہوں تو ایشور آٹھ انگل ہر ایک کے پیٹ میں گھسا ہوا ٹھہرا…… جب ہر جگہ رما ہوا ہے فرض کرو ایک شخص نے دورسے اس کے جوتا مارا ،تو یہ فضا جس میں جوتاچل کر اس کے بدن تک گیا اس میں بھی ایشور تھا یا نہیں … نہ کیوں کر ہوگا کہ وہ سب جگہ ہے اور جب یہاں بھی تھا تو جوتا آتے دیکھ کر ہٹ گیا یا جوتا اس کے اندر سے ہوتا ہوا گزرا… ہٹ تو نہیں سکتا ورنہ ہر جگہ کب رہا؟یہ جگہ خالی ہوجائے گی ضرور جوتا اس میں ہوکر گزرا … عجیب ایشور ہے کہ جوتے سے پھٹ گیا … پھر اس شخص کے جس حصۂ بدن پر جوتا پڑا ، وہاں بھی ایشور تھا یا نہیں ؟ نہ کیسے ہوگا ورنہ ہر جگہ نہیںرہے گا، اور جب وہاں بھی نہ تھا تو اب بتاو کہ یہ جوتا کس پر پڑا؟… کاش! نِرا اُلٹا ہوتا تو پاوں پر لگتا، سیدھا بھی ہے تو سر پر پڑا… یہ ہیں آریہ اور اُن کے ایشور… کیا انھوں نے خدا کو جانا؟…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:العطایاانبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۴ء،ج۱،ص۷۳۹)
            (۳)   امام احمدرضا بریلوی نے حضور انورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی گستاخی جیسے بھیانک ترین جرم کے مرتکب طبقے کی سرکوبی میں سرگرمی سے حصہ لیا اور اہانتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے مملو مکتبۂ دیوبند کے علما کی عبارتوں پر حکمِ شرعی کے لیے علماے حرمین شریفین کی طرف رجوع کیا … ۱۳۲۴ھ میں علماے حرمین سے موصولہ فتاووں کو ’’حسام الحرمین ‘‘کے نام سے ایک کتاب تالیف فرماکر شائع کیا ۔جس میں علماے حرمین شریفین نے باطل عقائد و نظریات رکھنے والے حضرات کو ایمان و اسلام سے خارج بتایا ۔امام احمد رضا نے یہ فتوا خود نہیں لکھا بلکہ علماے حرمین شریفین کے فتاووں کو یک جا کرکے شائع کیا ۔بایں سبب آپ مختلف بے بنیاد الزامات کی زد میں آگئے اور آپ کے بارے میں یہ جھوٹا اور مکروہ پروپیگنڈہ مخالفین کی طرف سے پوری شد و مد کے ساتھ کیاجانے لگا کہ آپ بات بات میں مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں ۔امام احمدرضانے خود پر عائد کیے جانے والے بے بنیاد الزاما ت کے تاروپود بکھیرتے ہوئے صداقت کا برملااظہار کیا ہے، زبان وبیان اور اسلوب کے اعتبار سے یہ نثری شہ پارہ امام احمد رضا کی اعلا ترین ادبیت کو آشکار کرتا ہے ۔روزمرہ محاورات کے برجستہ استعمال سے قاری کیف آگیں جذبات سے آشنا ہوجاتا ہے۔ نشانِ خاطر فرمائیں گراں قدر ادبی جوہر پارہ  :
                        ’’ناچار عوامِ مسلمین کو بھڑکانے اور دن دہاڑے اُن پر اندھیری ڈالنے کو یہ چال چلتے ہیں کہ علما ے اہل سنت کے فتواے تکفیر کا کیا اعتبار؟یہ لوگ ذرّ ذرّہ سی بات پر کافر کہہ دیتے ہیں… ان کی مشین میں ہمیشہ کفر ہی کے فتوے چھپاکرتے ہیں… اسماعیل دہلوی کو کافر کہہ دیا… مولوی اسحاق کو کہہ دیا… مولوی عبد الحئی صاحب کو کہہ دیا… پھر جن کی حیا اور بڑھی ہوئی ہے وہ اتنا اور ملاتے ہیں کہ معاذاللہ! حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب کو کہہ دیا… حاجی امداداللہ صاحب کو کہہ دیا… شاہ ولی اللہ صاحب کوکہہ دیا… مولانا شاہ فضل الرحمن صاحب کو کہہ دیا… پھر جو پورے حدِّ حیا سے اونچے گذر گئے وہ یہاں تک بڑھتے ہیں کہ عیاذاًباللہ عیاذاً باللہ حضرت شیخ مجد د الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو کہہ دیا
                        غرض!جسے جس کا زیادہ معتقد پایا اس کے سامنے اسی کا نام لے کر انھوں نے اسے کافر کہہ دیا… یہاں تک کہ ان میں کے بعض بزرگوں نے مولانا مولوی شاہ محمد حسین صاحب الٰہ آبادی مرحوم و مغفور سے جاکر جڑدی کہ معاذ اللہ معاذ اللہ حضرت سیدنا شیخ اکبر محی الدین عربی قدس سرہٗ کو کافر کہہ دیا… مولانا کو اللہ تعالیٰ جنتِ عالیہ عطا فرمائے ،انھوں نے آیۂ کریمہ ان جآئَ کم فاسقُُ بنباٍ فتبینوا پر عمل فرمایا … خط لکھ کر دریافت کیا جس پر یہاں سے رسالہ ’’انجاء البری عن وسواس المفتری‘‘ لکھ کر ارسال ہوا اور مولانا نے مفتری کذاب پر لاحول شریف کا تحفہ بھیجا…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:تمہیدِ ایمان بآیاتِ قرآن ۱۳۲۶ھ،رضا اکیڈمی ،مالیگاوں۱۹۹۲ء،ص ۱۲)
            (۴)   امام احمدرضا کی حیاتِ طیبہ کا ایک ایک گوشہ کھلی کتاب کی طرح روش و تاب ناک ہے آپ نے ازخود کسی اہلِ قبلہ یا اہلِ کلمہ کی کبھی بھی تکفیر نہیں کی بل کہ جو حضرات اپنے کفریہ عقائد و نظریات کی بنیاد پر خود ہی دائرۂ اسلام و ایمان سے خارج ہوگئے تھے اور اپنے آپ کو دینِ اسلام کا رہِ بر ورہِ نما اور داعی و مبلغ کہہ رہے تھے ۔ایسے رہِ زنوں کے مکر و فریب سے امام احمد رضا نے باخبر کیا اور عامۃ المسلمین کی صحیح رہِ نمائی کا فریضۂ خیر انجام دیا نہ کہ بات بات میں کفر کے فتاوے دیے ۔ ایسے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کے بارے میں حضر ت امام راقم ہیں ۔اسلوب کی دل کشی ہمیں متوجہ کرتی ہے  :
                        ’’مسلمانو!مسلمانو! تمہیں اپنا دین و ایمان اورروزِ قیامت حضور بارگاہِ رحمن یاد دلا کر استفسار ہے کہ جس بندۂ خدا کی دربارۂ تکفیر یہ شدید احتیاط  … یہ جلیل تصریحات ہو … اس پر تکفیر تکفیر کا افترا کتنی بے حیائی… کیسا ظلم  … کتنی گھنونی ناپاک بات ہے… مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ اور وہ جو کچھ فرماتے ہیں قطعاً حق فرماتے ہیں … اذا لم تستحی فاصنع ماشئت …جب تجھے حیا نہ رہے تو جو چاہے کر … ع
بے حیا باش ہر چہ خواہی کن…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:تمہیدِ ایمان بآیاتِ قرآن ۱۳۲۶ھ،رضا اکیڈمی ،مالیگاوں۱۹۹۲ء،ص ۴۸)
            (۵)  سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینۂ طیبہ میں آمد پر وہاں کے کیف ونشاط میں ڈوبے ہوئے مناظر کو اس طرح الفاظ وتراکیب کا جامہ پہناکر بیان کیا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ مناظر نگاہوں کے سامنے موجود ہیں ۔تصویریت اور منظر کشی کا لطف تحریر کے حُسن کو دوبالا کررہا ہے  :
                        ’’اللہ اللہ ! ایک وہ دن تھا کہ مدینۂ طیبہ میں حضور پُرنور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی دھوم ہے… زمین و آسمان میں خیر مقدم کی صدائیں گونج رہی ہیں… خوشی و شادمانی ہے کہ درودیوار سے ٹپکی پڑتی  ہے… مدینے کے ایک ایک بچے کا دمکتا چہرہ انار دانہ ہورہا ہے… باچھیں کھِلی جاتی ہیں کہ دل سینوں میں نہیں سماتے … سینوں پر جامے تنگ… جاموں میں قباے گل کا رنگ… نور ہے کہ جھما جھم برس رہا ہے… فرش سے عرش تک نور کا بقعہ بنا ہوا ہے… پردہ نشیٖن کواریاں شوقِ دیدارِ محبوب ِ کردگار  میں گاتی ہوئی باہر آئی ہیں کہ    ؎
طلع البدر علینا من ثنیات الوداعٖ
وجبت شکر علینا مادعا للّٰہ داعٖ
            بنی نجار کی لڑکیاں کوچے کوچے محوِ نغمہ سرائی ہیںکہ     ؎
نحن جوارٍمن بنی النجار
یاحبذا محمد من جار‘‘
            (۶)  مدینہ طیبہ تشریف آوری کے اس دل کش و د ل نشین احوال کو بیان کرنے کے بعد حجۃ الوداع کے قیام کی منظر نگاری بھی دیدنی ہے،اب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی اس جہاں سے رُخصت ہے ۔ عبارت ِ رضا ؔبریلوی میں چاشنی ولطافت اورسلاست وروانی کے ساتھ ساتھ حزنیہ پہلو بھی موجود ہے جو ہمیں بھی کرب کے احساس سے آشنا کرتا ہے ۔یہ نثر ی شہ پارہ بھی اردوے معلا کا ایک شاہ کار ہے اس میں ہم قافیہ الفاظ کے استعمال میں نادرہ کاری بھی ہے  :
                        ’’ایک دن آج ہے کہ اس محبوب کی رخصت ہے… مجلسِ آخری وصیت ہے… مجمع تو آج بھی وہی ہے… بچوں سے بوڑھوں تک، مردوں سے پردہ نشینوں تک سب کا ہجوم ہے… نداے بلال سنتے ہی چھوٹے بڑے سینوں سے دل کی طرح بے تابانہ نکلے ہیں… شہر بھر نے مکانوں کے دروازے کھلے چھوڑ دیے ہیں… دل کمھلائے… چہرے مرجھائے… دن کی روشنی دھیمی پڑ گئی کہ آفتابِ جہاں تاب کی وداع نزدیک ہے … آسمان پژمردہ… زمین افسردہ… جدھر دیکھو سنّاٹے کا عالم… اتناازدحام اور ہوٗ کا مقام… آخری نگاہیں اُس محبوب کے روے حق نما تک کس حسرت و یاس کے ساتھ جاتی اور ضعفِ نومیدی سے ہلکان ہوکر بے خوٗدانہ قدموں پر گر جاتی ہیں… فرطِ ادب سے دل بند مگر دل سے صدا بلند      ؎
کنت السواد لناظری
فعمی علیک الناظر
من شآء بعدک ملیمت
فعلیک کنت احاذر
                        اللہ کا محبوب ، امت کا راعی، کس پیار کی نظر سے اپنی پالی ہوئی بکریوں کو دیکھتا اور محبت بھرے دل سے انہیں حافظِ حقیقی کے سپرد کررہا ہے… شانِ رحمت کو اُن کی جدائی کاغم بھی ہے… اور فوج فوج امنڈتے ہوئے آنے کی خوشی بھی کہ محنت ٹھکانے لگی… جس خدمت کو ملک العرش نے بھیجا تھا باحسن الوجوہ انجام کو پہونچی۔
                        نوح کی ساڑھے نوسو برس کی وہ سخت مشقت… اور صرف پچاس شخصوں کو ہدایت… بیس تیئس ہی سال میں بحمدللہ! یہ روز افزوں کثرت  … کنیز و غلام جوق درجوق آرہے ہیں… جگہ بار بار تنگ ہوتی جاتی ہے… دفعہ دفعہ ارشاد ہوتا ہے… آنے والوںکو جگہ دو… آنے والوں کو جگہ دو… اس عام دعوت پر جب مجمع ہولیا ہے … سلطانِ عالم نے منبر پر قیام کیا ہے  … بعدِ حمد وصلاۃ اپنے نسب و نام و قوم و مقام و فضائل کا بیان ارشاد ہوا ہے  … مسلمانو! خدارا پھر مجلسِ میلاد اور کیاہے؟… وہی دعوتِ عام وہی مجمعِ تام … وہی منبر وہی قیام… وہی فضائلِ سید الانام علیہ وعلیٰ آلہٖ الصلاۃ والسلام … مجلسِ میلاد اور کس شَے کانام… مگر نجدی صاحبوں کو مٹانے سے کام … وربنا الرحمن المستعان و بہٖ الاعتصام وعلیک التکلان…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:جزاء اللہ بابائہٖ ختم النبوت ۱۳۱۶ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص ۷۰/۷۲)
            (۷)  امام احمدرضا بریلوی اسلامی دنیا کے ایک ایسے مظلوم مفکر گذرے ہیں جن کی بے داغ شخصیت پر بے جاتنقیدات اس حد تک کی گئی ہیں جیسی کسی دوسری اسلامی شخصیت پر نہیں کی گئی ہوں گی۔ حضرت رضا بریلوی کے مخالفین و معاندین نے آپ کی ذاتِ والا صفات کو مجروح کرنے کی نیت سے نت نئے بے بنیاد الزامات واتہامات کا یہ سلسلہ اب بھی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ انھیٖں میںسے آپ پر ایک الزام یہ عائد کیا جاتا ہے کہ آپ انگریزوں کی حمایت کیا کرتے تھے… اس موقع پر عصرِ رواں کے معروف محقق پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مجددی نقش بندی(افسوس!ڈاکٹر موصوف     کو اس دارِ فانی سے رحلت فرما گئے، رب عزوجل ان کی مغفرت فرمائے،آمین) کی یہ تحریر بے اختیار نوکِ قلم پر آگئی ہے لہٰذا اُسے نذرِ قارئین کرنا غیر مناسب نہ ہوگا۔ڈاکٹر موصوف امام احمدرضا پر انگریز نوازی کے الزام کی سختی سے تردید کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
                        ’’ہاں! جس نے الزام لگایا اُس کا دامن داغ دار نظر آیا اور جس پر الزا م لگایا وہ بے داغ نظر آیا… یہ وہ مقام ہے جہاں حیرت کو حیرت ہے…‘‘
(پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مجددی:گناہِ بے گناہی،المجمع الاسلامی،مبارک پور،۱۹۹۳ء،ص۱۸)
            اما م احمدرضا کو انگریزوں اور ان کی مصنوعات،ادویہ،سیاہی ،کپڑے اور دیگر اشیاسے بے طرح نفرت تھی حتیٰ کہ آپ ڈاک ٹکٹ بھی اُلٹا چسپاں کیا کرتے تھے کیوں کہ اس پر انگریزی حکمراں کی تصویر چھپی رہتی تھی۔رشحاتِ رضا بریلوی سے چند عبارتیں ذیل میں نشانِ خاطر فرمائیںجن سے آپ کی انگریزوں کے تئیں شدید نفرت کا اظہار ہوتا ہے نیزیہ عبارتیں اردوادب کا شاہ کار بھی ہیں، مسجع و مقفا جملے ہمیں اپنی گرفت میں لیتے ہیں اور بے ساختہ داددینے کے لیے مجبور کرتے ہیں  :
                        ’’اللہ اللہ !یہ قوم … یہ قوم ، سراسر بوم… یہ لوگ، یہ لوگ جنہیں عقل سے لاگ… جنہیں جنون کا روگ … یہ اس قابل ہوئے کہ خدا پر اعتراض کریں اور مسلمان ان کی لغویات پر کان دھریں!… انا للہ وانا الیہٖ راجعون!…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:الصمصام علیٰ مشکک فی آیٰتہٖ علوم الارحام ۱۳۱۵ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص ۲۳)
            (۸)  انگریزی تہذیب و تمدن اور نصارا سے تشبہ کے بارے میں امام احمدرضا کا یہ تنقیدی انداز قابلِ ملاحظہ ہے   :
                        ’’نصار اکی یہ غلامی کہ پیرِ نیچر نے تھامی… لیڈر جس کے اب زبانی شاکی ہیں اور دل سے پرانے حامی… اس کے نتائج، تشبۂ وضع و تحقیرِ شرع… شیوعِ دہریت و فروغِ نیچریت مطابقی نہ تھے بلکہ التزامی…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:المحجۃ المؤتمنۃ فی آیٰۃ الممتحنۃ ۱۳۳۹ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص ۲۴)
            (۹)  امام احمدرضا کی خصوصیات میں سب سے نمایاں آپ کا عشقِ رسولِ مقبول صلی اللہ وسلم میں والہانہ وفداکارانہ سرشار رہنا ہے ۔علاوہ ازیں آپ کی حیاتِ طیبہ کے نصب العین میں یہ بھی ہے کہ حضور ختمیِ مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات کہنے اور لکھنے والوں کا تعاقب کرنا ۔ آپ کا قلم ایسے افراد کے لیے برہنہ شمشیر کا درجہ رکھتاتھا۔ نگارشات ِ رضا میں جہاں عشق ہی عشق کے جلوے بکھرے نظر آتے ہیں وہیں گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سرکوبی کا کاٹ دار لب و لہجہ بھی عیاںہوتا ہے۔ امام احمدرضا نے اپنے اس خاص مشغلہ کو بہ طورِ تحدیثِ نعمت اپنی نظم و نثر دونوں میں بیان کیا ہے ۔اندازِ بیان میں سلاست وصفائی ،اظہارِ صداقت میں بانکپن اور زبان کے استعمال میں ادیبانہ مہارت و ہنرمندی کے گل بوٹے لائقِ دید ہیں  :
                        ’’ حضراتِ نجدیہ خداراانصاف! کیاافعالِ عبادت سے بچناانبیا واولیا ہی کے معاملہ سے خاص ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ شرک کے کام جائز نہیں ۔ جو شرک ہے ہر غیر خدا کے ساتھ شرک ہے تو آپ حضرات جب اپنے کسی نذیر بشیر یا پیر فقیر یا مرید ِرشید یا دوست عزیز کے یہاں جایا کیجیے تو راستے میں لڑتے جھگڑتے، ایک دوسرے کا سر پھوڑتے، ماتھا رگڑتے چلا کیجیے ۔ ورنہ دیکھو کھلّمکھلّامشرک ہوجاوگے۔ہرگز مغفرت کی بوٗ نہ پاؤگے کہ تم نے غیرِ حج کی راہ میں ان باتوں سے بچ کر وہ کام کیا جو اللہ نے اپنی عبادت کے لیے اپنے بندوں کو بتایا تھا اور اس جوتی پیزار میںیہ نفع کیسا ہے کہ ایک کام میں تین مزے، جلال ہونا تو خود ظاہراورجب بلاوجہ ہے تو فسوق بھی حاضر اور رفث کے معنی نامعقول بات کے ٹھہرے تو وہ بھی حاصل ؛ایک ہی بات میں ایمانِ نجدیت کے تینوں رکنِ کامل ولاحول ولاقوۃ الاباللہ العظیم ۔الحمدللہ خامۂ برق بارِرضا خرمن سوزیِ نجدیت میں سب سے نرالا رنگ رکھتا ہے۔ والحمد للہ رب العالمین۔‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:منیۃ اللبیب ان التشریع بید الحبیب۱۳۱۱ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص ۲۰)
            (۱۰)  ندوۃ العلماء لکھنو کا جب قیام عمل میں لایا گیا تو اس کے آغاز میں ہوئی نشست میںامام احمدرضا بریلوی نے بھی شرکت کی لیکن بعد میں ندوۃالعلماء کی آزاد خیالی اور بڑھتی ہوئی گمراہیت سے امام احمدرضا نے علاحدگی اختیار کر لی اور امتِ مسلمہ کو اس کی ضلالت و گمرہی سے آگاہ فرماتے ہوئے تحریکِ ردِ ندوہ چلائی ۔ردِ ندہ پر لکھی گئی ایک کتاب کی عبارتِ ذیل اردوے معلا اور مقفا نثر کا اعلا نمونہ ہے ۔بے ساختگی ،برجستگی ،محاورات اور زورِ بیان کے اعتبار سے یہ عبارت قاری کو اپنی طرف کھینچتی ہے  :
                        ’’مسلمانو! بحمداللہ تعالیٰ اس فتوے نے حجتِ الٰہیہ قائم کردی ندوہ و ندویان و جملہ مبتدعان کی اندرونی و بیرونی ضلالتوں کی جڑ کاٹ دی… گردن کتردی … اب جو نہ دیکھے … کان نہ دھرے… حق سمجھنے کا قصد نہ کرے  … روزِ قیامت اس کے لیے کوئی عذر نہ ہوگا… دنیا چند روزہ ہے…  واحدِ قہار سے کام پڑتا ہے… للہ! ایک ذرا تعصب و سخن پروری سے جدا ہوکر تفکر کرو… تنہائیِ قبر وہنگامۂ محشرکاتصور کرو… اس دن نامۂ اعمال کھولے جائیں گے… اس بھڑکتی آگ کو سامنے لائیں گے… اہلِ سنت نجات پائیں گے… ان کے مخالف نارِ جہنم میں دھکّے کھائیںگے… مخالفوں کے ساتھی مخالفوں کے ساتھ ایک رسی میں باندھے جائیں گے… آنریری، مجسٹریٹی، ڈپٹی کلکٹری، ججی وغیرہ منصب کام نہ آئیں گے… صدارت، نظامت، رکنیت وغیرہا یہ سب بکھیڑے یہیں رہ جائیں گے… ہر ایک اپنی اکیلی جان سے، اپنے اعمال ، اپنے ایمان سے بارگاہِ عدالت میں حاضر ہوگا  … ہر دل کا راز ظاہر ہوگا… کوئی جھوٹا حیلہ ہرگز نہ چلے گا… بات بنانے کو راستہ نہ ملے گا… عالم الغیوب سوال کرے گا… داناے قلوب اظہار لے گا  … وہاں یہ کہتے نہ بنے گی ہم غافل تھے… کچھ مولویوں نے بہکادیا ، ہم جاہل تھے… آج کام اپنے اختیار میں ہے… رحمتِ الٰہی توبہ کے انتظار میں ہے … للہ! انصاف کی آنکھ کھولو… حق وباطل میزانِ عقل میں تولو… وہ کام کر چلو کہ بول بالا ہو… اللہ ورسول سے منہ اُجالا ہو… دیکھو دیکھو! آنکھ کھول کر دیکھو!…یہ مبارک تحقیقیں… یہ مقدس تصدیقیں… تمہارے معبودِ عظیم کے شہر سے آئیں… تمہارے نبیِ کریم کے شہرِ اطہر سے آئیں… سلیس اردو میں ترجمہ ہوگیا… حق کا آفتاب بے پردہ و بے حجاب جلوا نما ہوگیا  … اب اگر آنکھ اٹھا کر نظر نہ ڈالو… اپنی اندھیری کوٹھری سے سر باہر نہ نکالو … تو تمہیٖں کہو کہ کیاعذر کروگے… واحدِ قہار کو کیا جواب دو گے……… …گھنٹوںبلکہ مہینوں قانون کا نوٗن،دنیوی فنون یاناولوں افسانوں اخباروں دیوانوں کے مطالعہ میں گذارتے ہو… خداکو مان کر،  قیامت کو حق جان کر ایک نظر ادھر بھی… مگر اس کے ساتھ تعصب و نفسانیت سے قطعِ نظر بھی… خدا نے چاہا تویہ اوراق تمہیں بہت کام آئیں گے… بڑے ہول ناک صدموں کے دن سے بچائیں گے… پھر بھی اگر نازک مزاجی آڑے آئے … مرزا منشی اپنا رنگ جمائے کہ کون اتنے اجزا دیکھنے میں وقت گنوائے… تو جانے دو یہ تمہارابہی خواہ تمہارا خیرطلب ایک بہت آسان طریقے سے عارِضِ مطلب … مختصر خلاصہ حاضر کرتا ہے… اب اس کے دیکھنے میں کیا دن گذرتا ہے اسی کے ملاحظہ سے عقائد واعمال کی تصحیح کیجیے…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:فتاوی الحرمین برجف ندوۃ المین ۱۳۱۷ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی۱۹۹۸ء،ص ۲/۴)
            (۱۱)  قدیم نثر کی ایک قسم مقفا نگاری ہے۔اسے لکھنے کے لیے زیادہ علم اور مشق کی ضرورت ہوتی ہے ۔امام احمدرضا بریلوی کو مقفا نثر لکھنے میں مہارتِ تامہ حاصل تھی ۔لیکن اس کے لیے جتنا وقت چاہیے تھا وہ آپ کے پاس نہیں تھا ۔پھر بھی آپ کا اسلوب انتہائی نکھر اہوا ہے ، حیرت ہوتی ہے کہ یہ ایک عالم کی نگارشات ہیں یا ادیبِ کامل کی… مندرجۂ بالا عبارات میں مقفانثر کے نمونے موجود ہیں ذیل میں مزید چند مثالیں ہدیۂ ناظرین ہیں  :
            (الف): ’’وہی دعوتِ عام وہی مجمعِ تام… وہی منبر وہی قیام… وہی فضائلِ سید الانام علیہ وعلیٰ آلہٖ الصلاۃ والسلام … مجلسِ میلاد اور کس شَے کانام… مگر نجدی صاحبوں کو مٹانے سے کام … وربنا الرحمن المستعان و بہٖ الاعتصام وعلیک التکلان…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:جزاء اللہ بابائہٖ ختم النبوت ۱۳۱۶ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص ۷۲)
            (ب):   ’’نصوص کے دریا ہیں چھلکتے … اور حبِّ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے چاند چمکتے… اور تعظیم ِ حضور کے سورج دمکتے… اور ایمان کے تارے جھلکتے… اور حق کے باغ مہکتے… اور تحقیق کے پھول لہکتے… اورہدایت کے بلبل چہکتے… اور نجدیت کے کوّے سسکتے… اور وہابیت کے بوم بلکتے… اور مذبوح گستاخ پھڑکتے…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:خالص الاعتقاد۱۳۲۸ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص ۴۷)
            (ج):     ’’اس دارِ ناپائدار سے رخصت ہوتے… مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز پسر… بتولِ زہرا کے لختِ جگر… علیِ مرتضیٰ کے نورِ نظر… حسن و حسین کے قرۂ بصر … محیِ سنت ابی بکر و عمر…صلی اللہ تعالیٰ علیٰ الحبیب وعلیہم وسلم …‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:انہارالانوار من یم الصلاۃ الاسرار۱۳۲۸ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص ۴۷)
            (د):      ’’ ایک اور تین میں فرق نہ جانیں… ایک خدا کے تین مانیں… پھر ان تین کو ایک ہی جانیں… بے مثل بے کفو کے لیے بیٹا ٹھہرائیں……… وہ بندے جو اپنے ہی خدا کا خون چکھیں… اس کے گوشت پر دانت رکھیں…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:الصمصام علیٰ مشکک فی آیٰتہٖ علوم الارحام ۱۳۱۵ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص ۱۸)
            (ہ):      ’’ تحریرِ مذکور صواب سے بے گانہ… فقاہت سے برکرانہ… محض بے بنیاد کورانہ ہے۔‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:فتاویٰ رضویہ مترجم ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۴ء،ج ۳،ص۷۳۸)
            (و):      ’’نہ ایسی نقلِ مجہول کسی طرح قابلِ قبول… نہ ایسا ناقل التفات کے قابل… نہ اس پر شرع سے کوئی دلیل اور قولِ بے دلیل مردو و ذلیل… ‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:فتاویٰ رضویہ مترجم ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۴ء،ج ۳،ص۷۳۸)
            (ز):      ’’نہیں معلوم کیسی کتاب… کس کی کتاب… اُس کی کیا عبارت، کیامفاد… ناقل نے کیا سمجھا، کیامراد… خود ناقل کو جزم نہ اعتماد… کہ طرزِ بیان سے تبرّی عہدہ مستفاد…‘ ‘
(امام احمدرضا بریلوی:فتاویٰ رضویہ مترجم ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۴ء،ج ۳،ص۷۳۸)
            (ح):     ’’الحمدللہ آفتابِ عالم تاب… حق وصواب… بے نقاب و حجاب، شک وارتیاب جلوہ فرماے منظرِ احباب ہوا… اب کیا حاجت کہ حشویاتِ زائدہ و لغویاتِ بے فائدہ کے ردوابطال میں تضیعِ وقت کیجیے…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:وصاف الرجیح فی بسملۃ التراویح ۱۳۱۲ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص ۶۵)
            (ط):     ’’یہ کنچھیاں جو اَب پھوٹیں، جب کہاں تھیں؟… یہ پتّیاں جواَب نکلیں، پہلے کیوں نہاں تھیں؟… یہ پتلی پتلی ڈالیاں جواَب جھومتی ہیں ،  نَوپیدا ہیں… یہ ننھی کلیاں جو اَب مہکتی ہیں تازہ جلوا نما ہیں…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:اقامۃ القیامہ علیٰ طاعن القیام لنبی التہامہ۱۲۹۹ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص ۵۸)
            (ی):     ’’نصارا کی یہ غلامی کہ پیرِ نیچر نے تھامی… لیڈر جس کے اب زبانی شاکی ہیں اور دل سے پرانے حامی… اس کے نتائج،تشبۂ وضع و تحقیرِ شرع… شیوعِ دہریت و فروغِ نیچریت مطابقی نہ تھے بلکہ التزامی…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:المحجۃ المؤتمنۃ فی آیٰۃ الممتحنۃ ۱۳۳۹ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص ۲۳)
            (ک):   ’’مسلمان صحیح العقیدہ ان کی طرف التفات ہی کیوں کریں؟ ایسوں کا علاج حضور میں خاموشی… اور غیبت میں فراموشی… اوراُٹھتے بیٹھتے ہر وقت ہر حال اپنے محبوبِ بے مثال صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکرِ پاک کی زیادہ گر م جوشی…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:الامن والعلیٰ لناعتی المصطفیٰ بدافع البلا ۱۳۱۱ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص ۵/۶)
            (۱۲)  امام احمد رضامحدث بریلوی کو اردو ، عربی، فارسی زبانوں پریک ساں ملکہ حاصل تھا ۔آپ نے اپنی نثر میں عربی اور فارسی الفاظ و تراکیب کابڑی خوب صورتی سے استعمال کیاہے۔ عربی و فارسی تراکیب کے استعمال کے باوجود اردو کی یہ نثر قاری پر بوجھل محسوس نہیں ہوتی بل کہ وہ اس طرزِ اظہار سے مکمل طور پر لطف اندوز ہوتا ہے  :
                        ’’زیرِ نظر مسئلہ کے متعلق سراے سخن کے کناروں سے دو چمکتے ہوئے ستارے لائے ہیں … ایک کالشمس والضحہااور دوسراکالقمر اذا تلہٰا … جو شخص صحت مند آنکھ اور قابلِ نور علم رکھتا ہے اس کی بصارت و بصیرت کو ان ستاروں کی کاشفِ ظلمات وتجلیات سے اچھی طرح کامیابیاں مہیّا اور مبارک ہوں…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:مجموعۂ رسائل نور اورسایا،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص ۱۲۹)
            (۱۳)  امام احمد رضامحدث بریلوی کی نثر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ ابہام کے عیب سے پاک ہے۔انہوں نے ابوالکلام آزاد کی طرح الفاظ و تراکیب کی بھول بھلیاں بناکر اپنی نثر کو چیستاں نہیں بنایا ، جو بات ہے صاف ہے، جو مسئلہ ہے واضح ہے۔ ایک اچھی اور عمدہ نثر کی یہی سب سے بڑی خوبی ہے کہ قاری فہمِ معنی میں دقت نہ محسوس کرے۔نثرِ رضا کا عام رنگ یہ ہے   :
                        ’’آج کل بہت بے علم اس مضمضہ کے معنی کلّی کے سمجھتے ہیں۔ کچھ پانی منہ میں لے کر اُگل دیتے ہیں کہ زبان کی جڑ اور حلق کے کنارے تک نہیں پہنچتا ۔ یوں غسل نہیں اُترتا نہ اس غسل سے نماز ہوسکے ، نہ مسجدوںمیں جانا جائز ہو، بل کہ فرض ہے کہ داڑھوں کے پیچھے گالوں کی تہہ میں، دانتوں کی جڑ میں ، دانتوں کی کھڑکیوں میں، حلق کے کنارے تک ہر پُرزے پر پانی بہے ، یہاں تک کہ اگر کوئی سخت چیز پانی کے بہنے کو روکے گی دانتوں کی جڑ یا کھڑکیوں میں حائل ہے تو لازم ہے کہ اس کو جدا کرکے کلّی کرے؛ ورنہ غسل نہ ہوگا۔  ہاں! اگر اس کے جدا کرنے میں حرج و ضرر و اذیت ہو جس طرح پانوں کی کثرت سے جڑوں میں چونا جم کرمتحجر ہوجاتا ہے کہ جب تک زیادہ ہوکر آپ ہی جگہ نہ چھوڑے، چھڑانے کے قابل نہیں ہوتا۔ یاان عورتوں کے دانتوں میں مسّی کی ریخیں جم جاتی ہیں کہ ان کے چھیلنے میں دانتوں یامسوڑھوں کی مضرّت کااندیشہ ہے تو جب تک یہ حالت رہے گی معافی ہوگی۔‘‘
(امام احمدرضابریلوی :تبیان الوضوء ۱۳۱۴ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص۵ /۶)
            (۱۴)  امام احمدرضا بریلوی نے ایک ہزار کے لگ بھگ کتابیں تصنیف فرمائیں تو آپ یہ نہ سمجھیں کہ انہوں نے اپنی بات کو جگہ جگہ زبردستی طول دیا ہوگا یہ خیال صحیح نہیں ہے ۔یہ تو امام احمد رضامحدث بریلوی کی عادتِ کریمہ تھی کہ مسئلہ کا کوئی بھی پہلو تشنہ نہیں چھوڑتے تھے سائل کی ہر طرح سے تسلی وتشفی ہوجائے ؛یہ بات ہمیشہ ان کے پیشِ نظر رہاکرتی تھی۔ لیکن بات کو اختصار و جامعیت کے ساتھ ختم کرنے کا پہلے خیال رکھتے تھے۔ ایسی مثالیں تو بہ کثرت ہیں ۔ یہاں صرف ایک ہی مثال پر اکتفا کیا جارہاہے۔
            ایک استفتا آیا کہ زید کی ران میں پھوڑا یا کوئی اور بیماری ہے ڈاکٹر کہتا ہے پانی یہاں نقصان کرے گا۔ مگر صرف اسی جگہ پر مضر ہے اور بدن پر ڈال سکتا ہے۔ اس حالت میں وضو یا غسل کے لیے تیمم درست ہے یا نہیں؟……اس مسئلہ کے مختلف پہلووں پر بحث کرنے اور حسبِ عادت حوالوںکی کثرت سے جواب خاصا طویل ہوگیا ہے لیکن نفسِ مسئلہ کاجواب اس قدر ہے جو کہ قابلِ مطالعہ ہے جس سے امام احمدرضا کی فقہی بصیرت و بصارت کا پتہ چلتا ہے اور کم سے کم جملوں میں جامعیت کے ساتھ طول طویل مفہوم کو آسانی سے قلم بند کرنے کی صلاحیت کاادراک بھی ہوتا ہے ۔جو کہ آپ کی قادرالکلامی کی بین دلیل ہے  :
                        ’’الجواب: صورتِ مسئولہ میں غسل یا وضو کسی کے لیے تیمم جائز نہیں، وضو کے لیے تو نہ جائز ہونا ظاہر کہ ران کو وضو سے کوئی علاقہ نہیں اور غسل کے لیے یوں ناروا کہ اکثر بدن پر پانی ڈال سکتا ہے۔ لہٰذاوضو تو بلا شبہ تمام وکمال کرے اور غسل کی حاجت ہوتو مضرّت اگر صرف ٹھنڈا پانی کرتا ہے گرم نہ کرے اور اسے گرم پانی پر قدرت ہے تو بے شک پورا غسل کرے ۔ اتنی جگہ کو گرم پانی سے دھوئے ۔ باقی بدن گرم یا سرد جیسے سے چاہے اور اگر ہر طرح پانی مضر ہے، یا اگر مضر تو نہ ہوگا مگر اسے اس پر قدرت نہیں تو ضرر کی جگہ بچا کر باقی بدن دھوئے اور اس موضع پر مسح کرے، اور اگر وہاں مسح بھی نقصان دے ، مگر وہ دوا یا پٹی کے حائل سے پانی کی دھار بہا دینی مضر نہ ہوگی تو وہاں اس حائل پر ہی بہا دے ، باقی بدن بدستور دھوئے اور اگر حائل پر بھی پانی بہانا مضر ہو تو دوا یاپٹی پر مسح ہی کرلے ۔ اگر اس سے بھی مضرّت ہو تو اتنی جگہ خالی چھوڑ دے ۔ جب وہ ضرر دفع ہوتا جتنی بات پر قدرت ملتی جائے بجا لاتا جائے۔‘‘
(امام احمدرضابریلوی :فتاویٰ رضویہ مترجم ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۴ء،ج۱۔ص۴۶۱)
            (۱۵)  ۱۸۹۷ء میںایک عیسائی پادری نے اعتراض کیا کہ قرآن مجید میں تو ہے کہ زچّہ کے پیٹ کا حال کوئی نہیں جانتا کہ لڑکا ہے یا لڑکی۔ حال آںکہ ہم نے ایک آلہ ایجاد کیا ہے جس سے یہ راز ِ سربستہ معلوم ہوجاتاہے۔ پادری کی باتوں سے ایک مسلمان کے ایمان میں شک و شبہ پیدا ہوگیا اور اندیشہ تھا کہ وہ کہیں مرتد نہ ہوجائے ، چناں چہ خلیفۂ اعلا حضرت ؛ حضرت قاضی عبدالوحید فردوسی ، مدیرتحفۂ حنفیہ ، پٹنہ (والدِ گرامی محقق و ناقدقاضی عبدالودود صاحب) نے آپ کی بارگا ہ میںایک استفتا ارسا ل کیا جس کے جواب میں آپ نے ایک رسالہ تصنیف فرما کر مسئلے کے تمام پہلووں پر عالمانہ بحث فرمائی اور قاہرانہ دلائل پیش کیے اور آخر میں عیسائیوں کے بے سروپا عقائد پر زبردست فکری تنقید کی۔ ذیل کی عبارت میں سلاست وروانی اور فکری جولانی پر خاص توجہ دیجیے ۔ یہاںامام احمد رضا ایک مفتی کے ساتھ قادرالکلام ادیب و انشاپرداز نظر آتے ہیں :
                        ’’سبحان اللہ!اللہ کہاں… رب السمٰوٰت والارض… عالم الغیب والشہادۃ سبحٰنہٗ وتعالیٰ اور کہاں کوئی بے تمیز… لونگا… ہیولیٰ … ہبنّقہ… ناپاک… ناشایستہ… کھڑے ہوکر موتنے والا   ع
ببیں کہ از کہ بریدی و با کہ پیوستی
                        خدارا! انصاف وہ عقل کے دشمن… دین کے رہِ زن… جنم کے کودن… ایک اور تین میں فرق نہ جانیں… ایک خدا کے تین مانیں… پھر ان تین کو ایک ہی جانیں… بے مثل… بے کفو کے لیے جورو بتائیں … بیٹا ٹھہرائیں … اس کی پاک بندی، ستھری، کنواری، پاکیزہ، بتول مریم پر ایک بڑھئی کی جورو ہونے کی تہمت لگائیں… پھر خاوند کی حیات… خاوند کی موجودگی میں جو بچہ ہو اُسے دوسرے کا گائیں … خدا اور خدا کا بیٹا ٹھہرا کر … ادھر کافروں کے ہاتھ سے سولی دلوائیں… ادھر آپ اس کے خون کے پیاسے،بوٹیوں کے بھوکے… روٹی کو اس کا گوشت بنا کر دَردَر چبائیں… شرابِ ناپاک کو اس پاک معصوم کا خون ٹھہرا کر غٹ غٹ چڑھائیں … دنیا یوں گزری… ادھر موت کے بعد کفارے کو اسے بھین￿ٹ کا بکرا بناکر جہنم بھجوائیں… لعنتی کہیں ، ملعون بنائیں… اے سبحان اللہ !اچھا خدا جسے سولی دی جائے… عجب خدا جسے دوزخ جلائے… طرفہ خدا جس پر لعنت آئے  … جو بکرا بنا کر بھین￿ٹ دیا جائے… اے سبحان اللہ! باپ کی خدائی اور بیٹے کو سولی … باپ خدا؛ بیٹا کس کھیت کی مولی؟… باپ کے جہنم کو بیٹے ہی سے لاگ … سرکشوں کی چھٹی، بے گناہ پر آگ… امتی ناجی… رسول ملعون  … معبود پر لعنت… بندے مامون… تف تف!… وہ بندے جو اپنے ہی خدا کا خون چکھیں… اس کے گوشت پر دانت رکھیں… اُف اُف!… وہ گندے جو انبیا و رسل پر وہ الزام لگائیں کہ بھنگی چمار بھی جن سے گھن کھائیں… سخت فحش بے ہودہ کلام گڑھیں… اور کلامِ الٰہی ٹھہراکر پڑھیں… زہ زہ بندگی!… خہ خہ تعظیم!… پہ پہ تہذیب!… قہ قہ تعلیم!…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:الصمصام علیٰ مشکک فی آیٰتہٖ علوم الارحام ۱۳۱۵ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص ۱۸)
            (۱۶)  ایک فلسفی عالم مولوی محمد حسن سنبھلی نے ’’المنطق الجدید لناطق النالہٗ الحدید‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں غیراسلامی اورخالص فلسفیانہ نظریات پُرزور اندا زمیں بیان کیے۔فلسفیوں کا عقیدہ ہے کہ خالقِ کائنات واحد جل جلالہٗ کے علاوہ اور دس خالق ہیں۔   (معاذاللہ) … اس باطل عقیدے کی امام احمدرضا بریلوی نے دھجیاں بکھیرتے ہوئے فلاسفہ کے رد میں ایک جامع کتاب’’مقامع الحدید علیٰ خدِ لمنطق الجدید۱۴۰۴ھ‘‘ تحریر فرمائی ۔جس میںبڑی حسین و جمیل ترتیب کے ساتھ احسن الخالقین اللہ جل شانہٗ کی عظمتوں کا بیان کرتے ہوئے؛یہ بتایا ہے کہ اللہ عزوجل کس طرح ایک انسان کو بناتا ہے اور اس کے اندر اپنی قدرتِ کاملہ سے روح ڈالتا ہے ؟نیز نظامِ انہضام کس کی عطا سے ہوتا ہے؟ذیل کی عبارتِ رضا سے آپ کی اعلا سائنسی بصیرت کا بھی اندازہ ہوتاہے۔موضو ع بہ ظاہر خشک ہے لیکن امام احمد رضامحدث بریلوی جیسے قادرالکلام ادیب نے ادبی چاشنی ولطافت سے اسے پُر لطف بنادیا ہے۔ یہ بھی نگارشاتِ رضا کا ایک عمدہ ادب پارہ ہے  :
                        ’’ہر بدن میں اس کے کام؛کہ غذا پہنچاتا ہے… پھر اسے روکتا ہے … پھر ہضم بخشتا ہے… پھر سہولتِ دفع کو پیاس دیتا ہے… پھر پانی پہنچاتا ہے… پھر اس کے غلیظ کو رقیق،لَزِج کو مُنزَلِق کرتا ہے… پھر ثُفلِ کیلوس کو امعا کی طرف پھینکتاہے… پھر مائِ ساریقا کی را ہ سے، خالص کو جگر میں لے جاتا… وہاں کَیموٗس دیتا ہے… تلچھٹ کا سودا، جھاگوں صفرا، کچے کا بلغم، پکے کاخون بناتاہے… فضلہ کو مثانہ کی طرف پھینکتاہے… پھر انھیں باب الکبِد کے راستہ سے عروق میں بہاتا ہے… پھر وہاں سہ بارہ پکاتاہے… بے کار کو پسینہ بنا کر نکالتاہے… عِطر کو بڑی رگوں سے جَداوِل ،  جَداوِل سے سَواقی، سَواقی سے باریک عروق، پیچ در پیچ ، تنگ بر تنگ راہیں چلاتاہوا، رگوں کے دہانوں سے اعضا پر اونڈیلتا ہے… پھر یہ مجال نہیں کہ ایک عضو کی غذا دوسرے پر گرے… جو جس کے مناسب ہے اُسے پہنچاتا ہے  … پھر اعضا میں چوتھا طَبخ دیتا ہے کہ اس صورت کو چھوڑ کر صورتِ عضویہ لیں  … ان حکمتوںسے، بقاے شخص کو ،مایتحلّل کو عوض بھیجتا ہے… جو حاجت سے بچتا ہے اُس سے بالیدگی دیتا ہے… اور وہ ان طریقوں کو محتاج نہیں ، چاہے تو بے غذا ہزار برس جِلائے ، اور نَمَاے کامل پر پہنچائے… پھر جو فضلہ رہا اُسے منی بنا کر صُلب و تَرائب میں رکھتا ہے… عَقد و انعقاد کی قوت دیتا ہے  … زن و مرد میں تالیف کرتا ہے… عورت کو باوجودمشقتِ حمل وصعوبتِ وضع، شوق بخشتا ہے… حفظِ نوع کاسامان فرماتاہے… رحم کو اذنِ جذب دیتا ہے … پھر اُس کے امساک کاحکم کرتا ہے… پھر اسے پکا کر خون بناتا ہے  … طَبخ دے کر گوشت کا ٹکڑا کرتا ہے… پھر اُس میں کلیاں، کنچھیاں نکالتا ہے… قسم قسم کی ہڈیاں، ہڈیوں پر گوشت، گوشت پر پوست، سیکڑوں رگیں، ہزاروں عجائب… پھر جیسی چاہے تصویر بناتاہے… پھر اپنی قدرت سے رُوح ڈالتا ہے… بے دست و پا کو اِن ظلمتوں میں رزق پہنچاتا ہے… پھر قوت آنے کو،ایک مدت تک روکے رہتا ہے… پھر وقتِ معین پر حرکت و خروج کا حکم دیتا ہے… اُ س کے لیے راہ آسان فرماتا ہے… مٹی کی مُورت کو پیاری صورت، عقل کا پُتلا، چمکتا تارا، چاند کاٹکڑا دکھاتاہے… فَتَبٰرکَ اللہ احسَنُ الخَالقِین …اور وہ ان باتوں کا محتاج نہیں، چاہے تو کروروں انسان پتھر سے نکالے، آسمان سے برسالے
                        ہاں! بتاؤ وہ کون ہے جس کے یہ سب کام ہیں؟… قَسَیَقُولونَ اللہ … اب کہا چاہتے ہیں کہ اللہ … تو فرما پھر ڈرتے کیوں نہیں؟
                        آمنّا بِاللہ ِ وَحْدَہٗ …آہ آہ! !اے مُتَفَلسِف مِسکین! کیوں اب بھی یقین آیا یا نہیں کہ تدبیر و تصرف اسی حکیم علیم کے کام ہیں؟…جل جلالہٗ و عمّ نوالہٗ …فبایِّ حدیثٍ بعدہٗ یؤمنون…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:مقامع الحدید علیٰ خد لمنطق الجدید۱۳۰۴ھ،المجمع الاسلامی ،مبار کپور۱۹۸۶ء،ص ۱۶/۱۷)
            (۱۷)  مروجہ تعزیہ داری جیسی بدعت کی امام احمدرضا بریلوی نے زبردست مخالفت فرمائی اور آپ نے اپنی ایک کتاب میں اس کی خوب خبر لی ۔عبارتِ ذیل قابلِ مطالعہ اور اردو کا ایک بہترین شہ پارہ ہے اس میں آپ نے جابجا مقفا جملوں کو برجستہ استعمال کرکے اس عبارت کو اردو نثر کا حسیٖن ترین گل دستہ بنادیاہے  :
                        ’’ہر جگہ نئی تراش، نئی گڑھت … جسے اُس نقل سے کچھ علاقہ نہ نسبت … پھر کسی میں پریاں ہیں کسی میں بُراق… کسی میں اور بے ہودہ طمطراق … پھر کوچہ بہ کوچہ اشاعتِ غم کے لیے اُن کا گشت… اور ان کے گرد سینہ زنی و ماتم سازی کی شور افگنی… کوئی تصویروں کو جھک جھک کر سلام کررہاہے کوئی مشغولِ طواف … کوئی سجدے میں گرا ہے کوئی ان مایۂ بدعات کو معاذاللہ ! جلوہ گاہِ حضرت امام علیٰ جدہٖ وعلیہ الصلاۃ والسلام سمجھ کر اس ابرک پنّی سے مرادیں مانگتا، منتیں مانتا، حاجتِ روا جانتاہے… پھر باقی تماشے باجے تاشے مردوں عورتوں کاراتوں کو میل اور طرح طرح کے بے ہودہ کھیل اس پر طرہ ہیں…‘‘
            چند سطروں بعد مزید راقم ہیں   :
                        ’’اب بہارِ عشرہ کے پھول کھلے ، تاشے باجے، بجتے چلے طرح طرح کے کھیلوں کی دھوم… بازاری عورتوں کا ہر طرف ہجوم… شہوانی میلوں کی پوری رسوم… جشن یہ کچھ ، اور اس کے ساتھ خیال وہ کچھ کہ گویا یہ ساختہ تصویریں بعینہٖ حضراتِ شہداے کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے جنازے ہیں… کچھ نوچ اتار باقی توڑ تاڑ، باقی دفن کردیے ، یہ ہر سال اضاعتِ مال کے جرم و وبال جداگانہ ہیں…اللہ تعالیٰ صدقہ حضرات  شہداے کربلا علیہم الرضوان و الثنا کا ہمارے بھائیوں کو نیکیوں کی توفیق بخشے اور بری باتوں سے توبہ عطا فرمائے(آمین)…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:اعالی الافادۃ فی تعزیۃ الہند وبیان الشہادۃ ۱۳۲۱ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی۱۹۹۸ء،ص۴/۵)
            (۱۸)  امام احمد رضامحدث بریلوی بریلوی طبعاًعربی وفارسی پسند تھے ۔ آپ کے رشحاتِ خامہ میں اس کی جھلکیاں نظر آتی ہیں ۔علاوہ ازیں آپ عام ہندوستانی بول چال کے الفاظ کے استعمال پر بھی قدرت رکھتے تھے اور موقع محل کے اعتبار سے روزمرہ کی زبان میں بھی بلاتکلف گفتگو کر سکتے تھے ، شاعری کی طرح آ پ کے نثری اثاثے میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں، سلاست و روانی سے بھرپور عبارتِ ذیل نشانِ خاطر ہو  :
                        ’’ حا ل کے زمانہ میں بھی اکثر صنّاع ایسی ایسی چڑیاں بنالیتے ہیں کہ بولتی بھی ہیں ، ہِلتی بھی ہیں… دُم بھی ہلاتی ہیں … اور میں نے سُنا ہے بعض چڑیاں کَل کے ذریعہ سے پرواز بھی کرتی ہیں… بمبئی اور کلکتّے میں ایسے کھلونے بہت بنتے ہیں اور ہر سال نئے نئے آتے ہیں…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:اعالی الافادۃ فی تعزیۃ الہند وبیان الشہادۃ ۱۳۲۱ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی۱۹۹۸ء،ص۶۱)
            (۱۹)  امام احمدرضا جیسے دین کے داعی و مبلغ ، مفسر و محدث اور مجدّدِ دین کو اپنی گوناگوں مصروفیات کے ہوتے اتنی فرصت نہیں رہا کرتی تھی کہ وہ اپنے اسلوب ِ نگارش کو نکھارنے اور سنوارنے کی طرف توجہ فرماتے مگر آپ کی تصانیف کے مطالعہ کے بعد یہ خیال تقویت پاتاجاتا ہے کہ آپ نے بلند پایہ کی نثر نگاری کی ہے۔ اور یہ کہ آپ کا پیرایۂ زبان و بیان نکھرا اور ستھرا ہوا ہے۔ اسی طرح نثر میں شاعری کرنے پر امام احمدرضا کو عبورِ کامل حاصل تھا یہی وجہ ہے کہ آپ کی بیش ترکتب میںمتعدد ایسی عبارتیں ہیں جن میں شاعرانہ فضا موجود ہے ۔ جن میں پیکر تراشی اور جمالیاتی حُسن کے پُر کیف مناظر آپ نے سمودیے ہیں کہ قاری لطف اندوز ہوئے بغیرنہیں رہ سکتا  :
                        ’’تجلیِ جمال کے آثارسے لطف و نرمی… راحت و سکون و نشاط و انبساط ہے… جب یہ قلبِ عارف پر واقع ہوتی ہے… دل خود بہ خود ایسا کھل جاتا ہے… جیسے ٹھنڈی نسیم سے تازہ کلیاں یا بہارکے مینہہ سے درختوں کی کنچھیاںاور تجلیِ جلال کے آثار سے قہر و گرمی و خوف و تعب، جب اس کا وروٗد ہوتا ہے… قلب بے اختیار مُرجھا جاتا ہے…بلکہ بدن گھلنے لگتا ہے…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:کشفِ حقائق و اسرار و دقائق۱۳۰۸ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،ص۴)
            (۲۰)  اسی طرح یہ عبارت بھی قابل مطالعہ ہے  :
                        ’’وہی آن نور ہے جب قریبِ افق جانبِ مشرق سے طولانی شکل پر چمکتا ہے، اس کا صبحِ اوّل نام رکھتے ہیں … جب پھیلتا ہے ، وہی صبحِ صادق ہوتی ہے… پھر جب سُرخی لاتا ہے ، وہی شفق ہے… جب دن نکلتا ہے، وہی دھوپ ہے…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:کشفِ حقائق و اسرار و دقائق۱۳۰۸ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،ص۵)
            (۲۱)  ۱۹۲۱ء میں مسٹر موہن داس کرم چند گاندھی کی تحریکِ ترکِ موالات کو بعض مسلم نیتاوں نے دین و اسلام اور قرآن و سنت سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے گاندھی کو اپنا رہِ بر و پیشوا بنا کر اُس کے زیرِ سایہ کام کرتے رہے۔ اس دوران جب کچھ مسلم دشمن ہندووں کی گرفتاری عمل میں آئی تو بعض ناعاقبت اندیش مسلمانوں نے اُ ن کی حمایت کی اس پر آپ نے سخت تنقید کی اس سلسلے میں امام احمدرضا کا یہ ادبی جوہر پارہ قابلِ ملاحظہ ہے  :
                        ’’واے غربتِ اسلام و انصاف کیا کوئی ان سے اتنا کہنے والا نہیںکہ ہندووں کے بالفعل محاربین سے بھی تمہیں عداوت کا اقرار… ہاتھی کے دانت ہیں کھانے کے اور دکھانے کے اور؟… کیا تمہیٖں نہیں ہو کہ جب وہ محاربین قاتلین ظالمین کافرین گرفتار ہوئے اُن پر ثبوت اشد جرائم کے انبار ہوئے… تمہاری چھاتی دھڑکی؟ … تمہاری مامتا پھڑکی؟… گھبرائے؟ تلملائے؟سٹپٹائے؟ … جیسے اکلوتے کی پھانسی سُن کر ماں کو درد آئے؛ فوراً گرما گرم دھواں دھار ریزولیوشن پاس کیا ہے کہ ہَے ہَے یہ ہمارے پیارے ہیں … ہماری آنکھ کے تارے ہیں انہوں نے مسلمانوں کو ذبح کیا … جلایا، پھُنکا، مسجدیں ڈھائیٖں، قرآن پھاڑے، یہ ہماری ان کی خانگی شکر رنجی تھی…  ہمیںاس کی مطلق پروا نہیں ، یہ ہمارے سگّے ہیں ، کوئی سوتیا ڈاہ نہیں… ماں بیٹی کی لڑائی … دودھ کی ملائی … برتن ایک دوسرے سے کھڑک ہی جاتا ہے  … ان کے درد سے ہمیں غش پر غش آتا ہے… ان کا بال بیکا ہوا نہ ہماراکلیجہ پھٹا! … للہ! اُن کو معافی دی جائے… فوراًدر گزر کی جائے… یہ ہے آیۂ ممتحنہ پر تمہارا عمل!… یہ ہے الذین قاتلوکم فی الدین سے تمہاری جنگ و جدل!… یہ ہے واحدِ قہارکو تمہارا پیٹھ دینا!… یہ ہے کلامِ جبّار سے تمہارا مچیٹا لینا ! … ان تمہارے سگّوں نے قرآن مجید پھاڑے، تم نے اس کے احکام پاوں تلے مَل ڈالے… انہوں نے مسجدیں ڈھائیٖں ، تم نے رب المسجد کے ارشاد دولتیوں میں کچل ڈالے… قرآن چھوڑا… ایمان چھوڑا… مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے منہ موڑا، اور ان کے دشمنوں ان کے اعدا سے رشتہ جوڑایہ تمہیں اسلام کا بدلا مِلا!…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:المحجۃ المؤتمنۃ فی آیۃ الممتحنۃ۱۳۳۹ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص۶۶/۶۷)
            (۲۲)  اسی طرح مسلمانوں کے رہِ نما کہلانے والے کچھ سیاسی نیتاوں نے مسٹر گاندھی  کو اس درجہ بڑھاوادیا کہ جیسے وہ کوئی اللہ کا برگزیدہ بندہ ہے۔ مولوی عبدالباری فرنگی محلی نے گاندھی کے بارے میں اپنے خط میں لکھا کہ میرا حال تو سرِ دست اس شعر کے موافق ہے    ؎
عمرے کہ بآیات واحادیث گذشت
رفتی و بت پرستی نثار کردی
            نیز مسٹر ابوالکلام آزادؔ نے جمعہ کے روز نمازِ جمعہ سے قبل مسٹر گاندھی کے بارے میں بر سرِ منبر تعریفی و توصیفی کلمات کہے۔ امام احمد رضامحدث بریلوی نے مسٹرآزادؔ کے اس فعل کی اپنی کتاب ’’المحجۃ الممتحنہ‘‘میں خبر لیتے ہوئے فکری انداز میں تنقید کی ہے۔ امام احمدرضا کی طنز و نشتریت سے بھرپور تحریر خاطر نشین ہو  :
                        ’’دوسرا جمعہ کا خطبہ اردو میں پڑھتا ہے… نہیں نہیں ! خطبہ کی جگہ لکچر دیتا ہے… اور اس میں خلفاے راشدین و حسن و حسین رضی اللہ عنہم کے بدلے گاندھی کی مدح ، مقدس ذاتِ ستودہ صفات وغیرہا لفّاظیوں کے ساتھ گاتا ہے … اللہ تعالیٰ فرمائے انما المشرکون نجس-مشرک تو نہیں مگر ناپاک  … یہ کہیں مقدس ذات… اللہ فرمائے:اولٰئِک ہم شر البریہ-وہ تمام مخلوق سے بدتر ہیں… یہ کہیں ستودہ صفات…خطبۂ جمعہ کیا تھا، قرآنِ عظیم کا ردّ تھا… آج خطبۂ جمعہ میں یہ ہوا… کل نماز میں اھدناالصراط المستقیم کی جگہ اھدنا الصراط الگاندھی پڑھیں گے اور کیوں نہ پڑھیں گے؟… جسے جانیں کہ اس مقدس ذاتِ ستودہ صفات کو اللہ تعالیٰ نے مُذکِّر بنا کر مبعوث فرمایا ہے… اُس کی راہ آپ ہی طلب کِیا چاہیں اور اگر بالفرض یہ تبدیل نہ کریں تو صراط الذین انعمت علیہم میں تو گاندھی کو ضرور داخل مان چکے…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:المحجۃ المؤتمنۃ فی آیۃ الممتحنۃ۱۳۳۹ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص۱۱۵)
            (۲۳)  خالقِ کائنات جل شانہٗ نے اپنے محبوبِ مکرم، مصطفی جانِ رحمت، قاسمِ کنزِ نعمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کواپنے تمام تر خزانوں کی کنجیاں عطافرمائی ہیں ۔امام احمدرضا بریلوی نے آقاے دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے انہیں اختیارات و تصرفات کو بیان کرتے ہوئے اردوے معلا کے حسین و جمیل گل بوٹے کھلائے ہیں۔ طنز کے ساتھ ساتھ عشق ومحبت کا دل نواز اسلوب دیدنی اور شنیدنی ہے  :
                        ’’ملا جی! ذرا انصاف کی کنجی سے دیدۂ عقل کے کواڑ کھول کر یہ کنجیاں دیکھیے جو مالک الملک شہنشاہِ قدیر جل جلالہ نے اپنے نائبِ اکبر خلیفۂ اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو عطا فرمائی ہیں … خزانوں کی کنجیاں… زمین کی کنجیاں… دنیاکی کنجیاں… نصرت کی کنجیاں… نفع کی کنجیاں… جنت کی کنجیاں… نارکی کنجیاں… ہر شَے کی کنجیاں… اور اب اپنا وہ بلاے جان اقرار یاد کیجیے …’ ’جس کے ہاتھ میں کنجی ہوتی ہے قفل اسی کے اختیار میں ہوتا ہے جب چاہے نہ کھولے جب چاہے کھولے‘‘… دیکھ حجتِ الٰہی یوں قائم ہوتی ہے… والحمد للہ رب العالمین…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:الامن والعلیٰ لناعتی المصطفیٰ بدافع البلاء ۱۳۱۱ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص۵۹/۶۰)
            (۲۴)  سرورِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسمِ اطہر کا سایا نہیں تھا۔ بعض منکرینِ فضائلِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے آپ کے سایا نہ ہونے پر کتب و رسائل تک تصنیف کیے ، امام احمدرضا بریلوی نے اُن کے جوابات میں کئی کتب لکھیں ۔ ان میں سے ایک کتاب کی تمہیدی تحریر لائقِ مطالعہ اور ہر اعتبار سے قابلِ تحسین ہے  :
                        ’’عزیزانِ حق طلب ! اگر عقلِ سلیم کا دامن ہاتھ سے نہ دیں گے تو ان شآ ء اللہ تعالیٰ انہی شمعوں کی روشنی میں ٹھیک ٹھیک شاہ راہِ صواب پر ہولیں گے۔اور کلفتِ خارزار اور آفتِ یمین و یسار سے بچتے ہوئے ،تجلّاے ہدایت میں نور کے تڑکے ، ٹھنڈے ٹھنڈے منزلِ تحقیق پر خیمہ زن ہوں گے اور جو تعصب اور سخن پروری کا ساتھ لے تو ہم پر کیا الزام ہے، کہ جلتے ریت پر چلانا، بلا کے کانٹوں میں پھنسانا اندھے کو دن میں گرانا، ان دوآفتِ جان ، دشمنِ دین و ایمان کا قدیمی کام ہے وباللہ التوفیق و بہ الوصول الیٰ ذروۃ التحقیق…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی :مجموعۂ رسائل :نور اور سایا،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص۱۰۱/۱۰۲)
            (۲۵)  امام احمد رضامحدث بریلوی کی بارگاہ میں جناب ابو عبداللہ صاحب نے ریاست محمدآباد سے جب کہ امام احمدرضا اخیر عمر میں بھوالی ، نینی تال میں تشریف فرما تھے ، ایک استفتا روانہ کیا۔ اُس سوال کے تشفی بخش جواب کے لیے مسئلے کے تمام پہلووں پر حسبِ عادتِ کریمہ بحث کرکے حوالہ جات سے مزین کرکے جواب عنایت فرمایا۔ اس و قت امام احمد رضامحدث بریلوی کی طبیعت شدید ناساز تھی۔ باوجود اس کے آپ نے تحقیقی فتوا تحریر فرمایا۔ مذکورہ فتوا کی یہ سطورِ ذیل مطالعہ کرنے کے قابل ہیں ، ادبیت کے موتی سے آراستہ و مزین ، سلاست وروانی سے مملو  :
                        ’’یہ چند سطریں خدا نے جس طرح چاہا، غم و اندوہ کے اجتماع اور امراض و عوارض کے ازدحام کے باوجودد و جلسوں میں تحریر کی گئیں۔ دل چاہتا ہے کہ زُلفِ سخن دوسری کنگھی سے سنواروں مگر کیا کروں اس اندھی بستی میں وطن سے دور ہوں کتابیں پاس نہیں؟…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی :مجموعۂ رسائل :نور اور سایا،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص۱۴۰)
            (۲۶)  امام الانبیاء،دافع البلاء والوباء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بلاوں کا دافع کہنے پر شرک شرک کا راگ الاپنے والوں کے لیے امام احمد رضامحدث بریلوی کا یہ ادبی جوہر پارہ لائقِ مطالعہ ہے  :
                        ’’دیکھو بہ شہادت ِ خدا ورسول جل و علا و صلی اللہ تعالیٰ وسلم رزق پانا، مددمِلنا، مینہہ برسنا، بَلادور ہونا، دشمنوں کی مغلوبی، عذاب کی موقوفی، یہاں تک کہ زمین کا قیام ، زمین کی نگہبانی، خلق کی موت، خلق کی زندگی، دین کی عزت، اُمّت کی پناہ، بندوں کی حاجت روائی، راحت رسانی، سب اولیاکے وسیلے ، اولیاکی برکت، اولیا کے ہاتھوں اولیا کی وساطت سے ہے۔  مگر مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دفعِ بلا کا واسطہ مانا اور شرک پسندوں نے مشرک جانا… ان للہ وانا الیہٖ راجعون …‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:الامن والعلیٰ لناعتی المصطفیٰ بدافع البلاء ۱۳۱۱ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص۳۴)
            (۲۷)  امام الاولیا ء سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے تئیں امام احمدرضا نے اپنی دلی خواہش اور ایمانی آرزو کا اظہار کرتے ہوئے جگہ جگہ مقفّا جملوں کو اس سلیقہ مندی سے استعمال فرمایا ہے کہ طبیعت جھوم جھوم اُٹھتی ہے  :
                        ’’گداے بے نوا… فقیرِ ناسزا… اپنے تاج دار… عظیم الجود… عمیم العطاء کے لطفِ بے منّت و کرمِ بے علّت سے اس صِلے کا طالب کہ عفو و عافیت و حُسنِ عاقبت کے ساتھ اس دارِ ناپائدار سے رُخصت ہوتے ؛ مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز پسر… بتولِ زہرا کے لختِ جگر… علیِ مرتضیٰ کے نورِ نظر… حسن و حسین کے قرۂ بصر… محیِ سنّت ابی بکر و عمر صلی اللہ تعالیٰ علیٰ الحبیب و علیہم وسلم … یعنی حضور غوثِ صمدانی … قطبِ ربّانی… واھب الآمال و معطی الامانی… حضور پُرنور غوثِ اعظم قطبِ عالم محی الدین ابو محمد عبدالقادر حسنی حسینی جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وارضاہٗ وجعل حرزنا فی الدارین رضاہٗ کی محبت و عشق و عقیدت و اتباع وطاعت پر جائے اور جس دن یوم ندعوا کل اناس بامامھم… (جس دن ہر جماعت کو ہم اُس کے امام کے ساتھ بلائیں گے)… کا ظہور ہو ؛ یہ سراپا گناہ زیرِ لواے بے کس پناہ سرکارِ قادریت ظلِّ الٰہ جگہ پائے…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:انہارالانوار من یم الصلاۃ الاسرا ر۱۳۰۵ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص۶۲)
            (۲۸)  کھڑے ہو کر صلاۃ وسلام پڑھنے ، میلاد و قیام نیز بدعت پر بحث کرتے ہوئے امام احمدرضا نے تحقیق و تدقیق کے ذریعہ سے ان امور کے استحباب کو ثابت کیا ہے ۔ پوری کتاب اردوادب کا حسین گل دستہ ہے ۔ جس میں قلم برداشتہ مقفّا جملوں کی رنگارنگی و تازگی قاری کو دیر تک مسحور کیے رہتی ہے ۔ ذیل میں پیش کی جانے والی عبارتِ رضا آپ کے قادرالکلام ادیب اور شہنشاہِ اقلیمِ سخن ہونے کے ساتھ ساتھ سرورِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق ہونے پر بھی دلالت کرتی ہے۔پڑھتے جائیے۔ جھومتے جائیے اورامام احمدرضا کے حُسنِ تخیل کی داد دیجیے  :
                        ’’اب تو بے خلش صرصر و اندیشۂ سموم اور ہی آبیاریاں ہونے لگیں… فکرِ صائب نے زمین تدقیق میں نہریں کھودیں… ذہنِ رواں نے زُلالِ تحقیق کی ندّیاں بہائیں… علما ، اولیا کی آنکھیں ان پاک مبارک نہالوں کے لیے تھالے بنیں… خواہانِ دین و ملّت کی نسیم ِانفاسِ متبرکہ نے عطر بازیاں فرمائیں… یہاں تک کہ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کاباغ ہرا بھرا پھولا پھلا لہلہایا اور اس کے بھیٖنے پھولوں، سہانے پتّوں نے چشم وکام و دماغ پر عجب ناز سے احسان فرمایا … والحمد للہ رب العالمین … اب اگر کوئی جاہل یہ اعتراض کرے کہ یہ کنچھیاں جو اَب پھوٹیٖں ،جب کہاں تھیں؟… یہ پتّیاں جواَب نکلیں، پہلے کیوں نہاں تھیں؟… یہ پتلی پتلی ڈالیاں جو اَب جھومتی ہیں ، نوپیدا ہیں؟… یہ ننھی ننھی کلیاں جواَب مہکتی ہیں، تازہ جلوا نما ہیں… اگر ان میں کوئی خوبی پاتے تو اگلے کیوں چھوڑ جاتے… تو اس کی حماقت پر الٰہی باغ کاایک ایک پھول قہقہہ لگائے گا کہ او جاہل!اگلو ں کو جڑ جمانے کی فکر تھی ، وہ فرصت پاتے تو یہ سب کچھ کر دکھاتے … آخر اس سفاہت کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ وہ نادان اس باغ کے پھل پھول سے محروم رہے گا…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی: اقامۃ القیامۃ علیٰ طاعن القیام النبی التہامۃ ۱۲۹۹ھ، رضا اکیڈمی ،ممبئی ،۱۹۹۸ء،ص ۵۸)
            (۲۹)  رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے والدین کریمین کے ایمان کے تعلق سے مسلمانوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کرنے والے منکرینِ فضائلِ رسالت مآب (ﷺ) کا ردِّ بلیغ کرتے ہوئے آپ نے ایک کتاب تصنیف فرمائی ۔جس کی عبارتِ ذیل اردو ادب کا ایک بہترین جوہر پارہ اور والدینِ مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ تعالیٰ وسلم کے مومن و موحد ہونے کا بیان بھی ہے… پیرایۂ اظہار وبیان پر غور کیجیے  :
                        ’’اے چشمِ انصاف! کیا ہر تعلق ہر علاقہ میں ان پاک مبارک ناموں کا اجتماع محض اتفاقی بہ طور جزاف تھا؟… کلّا واللہ! بل کہ عنایتِ ازلی نے جان کر یہ نام رکھے… دیکھ دیکھ کر یہ لوگ چُنے… پھر محلِّ غور ہے جواس نورِ پاک کو بُرے نام والوں سے بچائے وہ اسے بُرے کام والوں میں رکھے گا؟… اور برا کام بھی کون سا ؟… معاذ اللہ ! شرک و کفر… حاشآء … اللہ اللہ !… دائیاں مسلمان… کھلائیاں مسلمان… مگر خاص جن مبارک پیٹوں میں محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پاوں پھیلائے ؛ جن طیّب مطیّب خونوں سے اِس نورانی جسم میں ٹکڑے آئے ، معاذاللہ ! چنیں و چناں حاش للہ کیوں کر گوارا ہو؟… ع
خدا دیکھا نہیں قدرت سے جانا‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:شمول الاسلام لاصول الرسول الکرام۱۳۱۵ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص۳۳)
            (۳۰)  حضرت سیدہ آمنہ خاتون رضی اللہ عنہا اپنے ابنِ کریم مصطفی پیارے صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کواس دارِ فانی سے کوچ کرتے وقت نصیحت فرماتی ہیں کہ :’’ہر زندے کو مرنا ہے، اور ہر نئے کو پُرانا ہونا اور کوئی کیسا ہی بڑا ہو ایک دن فنا ہونا ہے میں مرتی ہوں اور میرا ذکر ہمیشہ خیر سے رہے گا، میں کیسی خیرِ عظیم چھوڑ چلی ہوں اور کیسا ستھرا پاکیزہ مجھ سے پیدا ہوا صلی اللہ علیہ وسلم‘‘
            اس موضوع کے تحت امام احمد رضامحدث بریلوی کا یہ شگفتگی،شیفتگی اور وارفتگی سے پُر ادب پارہ نشانِ خاطر ہو  :
                        ’’یہ اُن کی فراستِ ایمانی… پیشن گوئیِ نورانی… قابلِ غور ہے کہ میں انتقال کرتی ہوں اور میرا ذکرِ خیر ہمیشہ رہے گا… عرب و عجم کی ہزاروں شاہ زادیاں… بڑی بڑی تاج والیاں خاک کا پیوند ہوئیں… جن کا نام تک کوئی نہیں جانتا… مگر اس پاک طیّبہ خاتون کے ذکرِ خیر سے مشارق و مغاربِ ارض میں محافل و مجالسِ اِنس و قدس میں زمین و آسمان گونج رہے ہیں اور ابدالآباد تک گونجیں گے… وللہ الحمد …‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:شمول الاسلام لاصول الرسول الکرام۱۳۱۵ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص۴۰)
            (۳۱)  سائنسی نظریات کے مطابق زمین حرکت کرتی ہے جب کہ قرآنی آیات کی روشنی میں زمین کا ساکن ہونا ثابت ہے ۔ آج کل اسکولوں میں سائنسی نظریات پڑھائے جاتے ہیں ۔ اور طلبہ جسے صحیح سمجھ کر اسلامی عقیدے کے مخالف نظریات کے حامی بن جاتے ہیں ۔ا س ضمن میں امام احمد رضامحدث بریلوی کا یہ ادب پارہ ملاحظہ ہو  :
                        ’’الحمد للہ !وہ نور کہ طورِ سینا سے آیا… اور جبلِ ساعیر سے چمکا… اور فارانِ مکۂ معظمہ کے پہاڑوں سے فائض الانوار وعالم آشکار ہوا… شمس و قمر کا چلنا… اور زمین کا سکون… روشن طور پر لایا… آج جس کا خلاف سکھایا جاتا ہے… اور مسلمان ناواقف نادان لڑکوں کے ذہن میں جگہ پاتا ہے… اور اُن کے ایمان واسلام پر حرف لاتا ہے… والعیاذباللہ تعالیٰ …‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:فوزِ مبین درردِ حرکتِ زمین۱۳۳۸ھ،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص۲۹/۳۰)
            (۳۲)  اللہ عزو جل ایذا سے پاک ومنزّہ ہے ، اُسے کون ایذا د ے سکتا ہے؟ مگر اس نے اپنے حبیبِ مکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات اور گستاخی کو اپنی ایذا فرمایا ہے۔ متعدد آیاتِ قرآنی سے گستاخِ رسول(ﷺ)اور اس سے محبت کا برتاو کرنے والے اشخاص کے لیے امام احمدرضا نے یہ سات باتیں ثابت کی ہیں (۱) وہ ظالم ہے(۲) گمراہ ہے(۳)کافر ہے(۴) اس کے لیے درد ناک عذاب ہے (۵)وہ آخرت میں ذلیل و خوار ہے(۶)اس نے اللہ واحد قہار کو ایذا دی(۷)اس پر دونوں جہاں میں خدا کی لعنت ہے…والعیاذباللہ تعالیٰ۔
            ا س کے بعد مسلمانوں کو امام احمدرضا نے جو درس دیا ہے وہ عبارت پند و نصائح کے ساتھ ساتھ حُسنِ لفظ و معنی کا خوب صورت گل دستہ بھی ہے   :
                        ’’اے مسلمان ! اے مسلمان! اے اُمّتیِ سید الانس والجان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ! خدارا ذرا انصاف کر! وہ سات بہتر ہیں جو ان لوگوں سے یک لخت ترکِ علاقہ کر دینے پر ملتے ہیں کہ دل میں ایمان جم جائے… اللہ مددگار ہو… جنت مقام ہو… اللہ والوں میں شمارہو… مرادیں ملیں، خدا تجھ سے راضی ہو تُو خدا سے راضی ہو یا سات بھلے ہیں جو ان لوگوں سے تعلق لگا رہنے پر پڑیں گے کہ ظالم،گمراہ، کافر، جہنمی ہو… آخرت میں خوار ہو… خداکو ایذا دے… خدا دونوں جہان میں لعنت کرے… ہیہات!  ہیہات!… کون کہہ سکتا ہے کہ یہ سات اچھے ہیں؟… کون کہہ سکتا کہ وہ سات چھوڑنے کے ہیں؟…… مگر جانِ برادر!خالی یہ کہہ دینا تو کام نہیں دیتا وہاں تو امتحان کی ٹھہری ہے…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:تمہیدِ ایمان بآیاتِ قرآن ۱۳۲۶ھ،رضا اکیڈمی ،مالیگاوں۱۹۹۲ء،ص ۹)
            (۳۳)  امام احمدرضا کی بارگاہ میں ایک استفتا آیا کہ’’کیا فرماتے ہیں علماے دین اس مسئلہ میں کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمِ اقدس کا سایا تھا یانہیں؟…اس کے جواب میں امام احمدرضا نے ایک کتاب ’’قمر التمام فی نفی الظل عن سید الانام صلی اللہ علیہ وسلم ۱۲۹۶ھ‘‘ کے نام سے تحریر فرمائی…اس کتاب کا تمہیدی خطبہ اردو ادب کا حسین ترین گل دستہ اور تمام تر نثری خوبیوں اور محاسن کا عطرمجموعہ ہے۔اس کی ایک ایک سطر سے اردوے معلا کی لطافت و حلاوت ٹپکتی ہے۔خامۂ رضا کی یہ عبارت پڑھ اور سُن کر قاری و سامع دونوں کی طبیعت پر وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔یہ عبارت جہاںامام احمد رضامحدث بریلوی کے قادرالکلام ادیب ہونے پر دلالت کرتی ہے وہیں یہ بھی واضح کرتی ہے کہ آپ کو سب سے زیادہ محبوب و پسندیدہ چیز سرورِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر، عقیدت و محبت ، اطاعت و فرماں برداری اور حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس ترین بارگاہ کی نیاز مندی تھی… اور سب سے مغضوب و ناپسندیدہ چیز سرورِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شانِ اطہر میں گستاخی وبے ادبی و دریدہ دہنی و بدگوئی اور آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی ارفع واعلا ذات ، کمالات وصفاتِ عالیہ اور فضائل و شمائل پر نکتہ چینی تھی… ذیل میں پوری تمہیدی عبارت بعینہٖ نقل کی جاتی ہے پڑھتے جائیے ، جھومتے جائیے اور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت سے پُر تحریر کا لطف و سروٗر اُٹھائیے اور امام احمدرضا کے حُسنِ تصور اور پاکیزہ تخیل کی دادا دیجیے  :
                        ’’حتیٰ کہ معجزۂ شق القمر جو بخاری ومسلم کی احادیث صحیحہ بل کہ خود قرآن عظیم و وحیِ حکیم کی شہادتِ حقّہ اور اہل سنت وجماعت کے اجماع سے ثابت … اِن صاحبوں میں سے بعض جری بہادروں نے اسے بھی غلط ٹھہرایا  … اور اسلام کی پیشانی پر کلف کا دھبّہ لگایا… فقیر کو حیرت ہے کہ ان بزرگوں نے اس میں اپنا کیا فائدہ دینی ودنیاوی سمجھا ہے؟
                        اے عزیز!ایمان… رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت سے مربوط ہے… اورآتشِ جان سوزِ جہنم سے نجات اُن کی الفت پر مَنوط… جو اُن سے محبت نہیں رکھتا واللہ !کہ ایمان کی بُو اُس کی مشام تک نہ آئی…‘‘
            چند سطروں بعد راقم ہیں کہ   :
                        ’’جانِ برادر!تو نے کبھی سُنا کہ جس شخص کو تجھ سے الفتِ صادق ہے وہ تیری اچھی بات سُن کر چیں بہ جبیں ہو اور اس کی محو کی فکر میں رہے… اور پھر محبوب بھی کیسا ؟جانِ ایمان و کانِ احسان… جس کے جمالِ جہاں آرا کا نظیر کہیں نہ ملے گا اور خامۂ قدرت نے اس کی تصویر بنا کر ہاتھ کھینچ لیا کہ پھر کبھی ایسا نہ لکھے گا… کیسا محبوب؟ جسے اُس کے مالک نے تمام جہان کے لیے رحمت بھیجا… کیسا محبوب؟جس نے اپنے تن پر ایک عالم کا بار اُٹھا لیا… کیسا محبوب؟ جس نے تمہارے غم میں دن کا کھانا، رات کاسونا ترک کردیا… تم رات دن اُس کی نافرمانیوں میں منہمک اور لہو و لعب میں مشغول ہواوروہ تمہاری بخشش کے لیے شب و روز گریاں و ملول
                        شب؛ کہ اللہ عزو جل نے آسایش کے لیے بنائی … اپنے تسکین بخش پردے چھوڑے ہوئے موقوف ہے… صبح قریب ہے… ٹھنڈی نسیموں کا پنکھا ہورہا ہے… ہر ایک کا جی اِس وقت آرام کی طرف جھکتا ہے… بادشاہ اپنے گرم بستروں، نرم تکیوں میں مستِ خوابِ ناز ہے اور جو محتاجِ بے نوا ہے اُس کے بھی پاوں دو گز کی کملی میں دراز… ایسے سُہانے وقت، ٹھنڈے زمانہ میں، وہ معصوم، بے گناہ، پاک داماں، عصمت پناہ اپنی راحت و آسایش کوچھوڑ… خواب و آرام سے منہ موڑ… جبینِ نیاز آستانۂ عزت پر رکھے ہے کہ الٰہی!میری اُمت سیاہ کار ہے… درگزر فرما ؛ اوراُن کے تمام جسموں کوآتشِ دوزخ سے بچا
                        جب وہ جانِ راحت کانِ رافت پیدا ہوا… بارگاہِ الٰہی میں سجدہ کیااور ربِّ ھب لی اُمّتی فرمایا… جب قبر شریف میںاُتاراگیا؛ لبِ جاں بخش کو جنبش تھی، بعض صحابہ نے کان لگا کر سُنا؛ آہستہ آہستہ اُمتی فرماتے تھے  … قیامت کے روز کہ عجب سختی کا دن ہے… تانبے کی زمین… ننگے پاؤں  … زبانیں پیاس سے باہر… آفتاب سروں پر… سایے کا پتا نہیں… حساب کا دغدغہ… مَلِکِ قہار کا سامنا… عالَم اپنی فکر میں گرفتار ہوگا… مجرمانِ بے یاردامِ آفت کے گرفتار… جدھر جائیں گے سوا نفسی نفسی اِذہبوا الیٰ غیری کچھ جواب نہ پائیں گے … اُس وقت یہی محبوبِ غم گسار کام آئے گا  … قفلِ شفاعت اس کے زورِ بازو سے کھل جائے گا… عمامہ سرِ اقدس سے اُتاریں گے اور سر بہ سجود ہوکر’’ اُمتی ‘‘ فرمائیں گے… واے بے انصافی!  ایسے غم خوار پیارے کے نام پر جاں نثار کرنا اور مدح و ستایش و نشرِ فضائل سے اپنی آنکھوں کو روشنی اور دل کو ٹھنڈک دینا واجب…یا یہ کہ حتی الوسع چاند پر خاک ڈالے اور اِن روشن خوبیوں میںانکار کی شاخیں نکالے
                        ماناکہ ہمیں احسان شناسی سے حصہ نہ مِلا… نہ قلب عشق آشنا ہے کہ حُسن پسند یا احسان دوست… مگر یہ تو وہاں چل سکے جس کااحسان اگر نا مانیے … اس کی مخالفت کیجیے تو کوئی مضرّت نہ پہنچے … اور یہ محبوب تو ایسا ہے کہ بے اس کی کفش بوسی کے جہنم سے نجات میسر… نہ دنیا میں کہیں ٹھکانہ متصور … پھر اس کے حُسن واحسان پر والہ وشیدا نہ ہو تو اپنے نفع و ضرر کے لحاظ سے عقیدت رکھو
                        اے عزیز! چشمِ خرد میں سرمۂ انصاف لگااور گوشِ قبول سے پنبۂ انکار نکال… پھر تمام اہلِ اسلام بل کہ ہر مذہب و ملّت کے عُقَلا سے پوچھتا پھر کہ عشاق کا اپنے محبوب کے ساتھ کیا طریقہ ہوتا ہے اور غلاموں کو مولا کے ساتھ کیا کرنا چاہیے؟… آیا؟ نشرِ فضائل و تکثیرِ مدائح اور ان کی خوبیِ حُسن سُن کر باغ باغ ہوجانا؟… پھولا نہ سمانا، یا ردِ محاسن ، نفیِ کمالات اور ان کے اوصافِ حمیدہ سے بہ انکار و تکذیب پیش آنا… اگر ایک عاقل منصف بھی تجھ سے کہہ دے کہ نہ وہ دوستی کا مقتضا، نہ یہ غلامی کے خلاف ہے، تو تجھے اختیار ہے ورنہ خدا و رسول سے شرما… اور اس حرکتِ بے جا سے باز آ… یقین جان لے کہ محمد ر سول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خوبیاں تیرے مٹائے نہ مٹیں گی
                        جانِ برادر!اپنے ایمان پر رحم کر… خداے قہار جبار جل جلالہٗ سے لڑائی نہ باندھ… وہ تیرے اور تمام جہان کی پیدایش سے پہلے ازل میں لکھ چکا ورفعنا لک ذکرک یعنی ارشاد ہوتا ہے: ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کیا کہ جہاں ہماری یاد ہوگی تمہار ابھی چرچا ہوگا… اور ایمان بے تمہاری یاد کے ہر گز پورا نہ ہوگا… آسمانوں کے طبقے اور زمینوں کے پردے تمہارے نامِ نامی سے گونجیں گے … موذن اذانوں میں اور خطیب خطبوں اور ذاکرین اپنی مجالس اور واعظین اپنے منابر پر ہمارے ذکر کے ساتھ تمہاری یاد کریں گے  … اشجار و احجار… آہو و سوسمار… ودیگر جان دار و اطفالِ شیر خوار… و معبودانِ کفّارجس طرح ہماری توحید بتائیں گے… ویسا ہی بہ زبانِ فصیح و بیانِ صحیح تمہار امنشورِ رسالت پڑھ کر سنائیں گے… چار اکنافِ عالم میں لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا غلغلہ ہوگا… جُز اشقیاے ازل ہر ذرّہ کلمۂ شہادت پڑھتا ہوگا … مُسبِّحان ملائِ اعلا کو اِدھر تسبیح و تقدیس میں مصروف کروں گا… اُدھر تمہارے محمود دروٗدِ مسعود کا حکم دوں گا… عرش و کرسی… ہفت اوراقِ سدرہ… قصورِ جناں… جہاں پر اللہ لکھوں گا، محمد رسول اللہ بھی تحریر فرماؤں گا  … اپنے پیغمبروں اور اولوالعزم رسولوں کو ارشاد کروں گا کہ ہر وقت تمہارا دم بھریں اور تمہاری یاد سے اپنی آنکھوں کو روشنی اور جگر کو ٹھنڈک اور قلب کو تسکین اور بزم کو تزئین دیں… جو کتاب نازل کروں گا اس میں تمہاری مدح و ستایش اور جمالِ صورت اور کمالِ سیرت ایسی تشریح و توضیح سے بیان کروں گا کہ سننے والوں کے دل بے اختیار تمہاری طرف جھک جائیں اور نادیدہ تمہارے عشق کی شمع ان کے کانوں، سینوں میں بھڑک اٹھے گی… ایک عالم اگر تمہارا دشمن ہوکر تمہاری تنقیصِ شان اور محوِ فضائل میں مشغول ہوتو میں قادرِ مطلق ہوں، میرے ساتھ کسی کا کیا بس چلے گا؟… آخر اسی وعدے کا اثر تھا کہ یہود صدہا برس سے اپنی کتابوں میں اُن کا ذکر نکالتے اور چاند پر خاک ڈالتے ہیں… تو اہلِ ایمان اس بلند آواز سے اُن کی نعت سناتے ہیں کہ سامع اگر انصاف کرے… بے ساختہ پکار اُٹھے … لاکھوں بے دینوں نے محوِ فضائل پر کمر باندھی… مگر مٹانے والے خود مٹ گئے اور ان کی خوبی روز بروز مترقی رہی  … پھر اپنے مقصود سے تو یاس و ناامیدی کرلینا مناسب ہے ورنہ بہ ربِّ کعبہ اُن کا کچھ نقصان نہیں … بالآخر ایک دن تُو نہیں ، تیرا ایمان نہیں…‘‘
(امام احمدرضا بریلوی:مجموعۂ رسائل نور اورسایا،رضا اکیڈمی ،ممبئی،۱۹۹۸ء،ص ۷۳/۷۷)
            مندرجۂ بالا تینتیس مثالیں امام احمدرضا کی چند ہی تصانیف سے پیش کی گئی ہیں ۔ ذیل میں رشحاتِ رضا کے مزید سات گراں قدر جوہر پارے بلاتبصرہ نقل کیے جاتے ہیں تاکہ چالیس کا عدد مکمل ہوجاے جو کہ اسلاف کے نزدیک اہمیت کا حامل رہاہے۔(یہ اضافہ حال میں کیا گیا ہے) ذہن نشین رہ کہ یہ سات عبارتیں امام احمدرضا کے مکاتیب سے درج کی جارہی ہیں ۔ مکتوب نگاری بھی ایک فن ہے اس میں بھی امام احمدرضا نے ادبیت کے دل کش گل بوٹے کھلائے ہیں، نثر میں شاعرانہ فضا پیدا کی ہے اور صنعتی موتی بکھیرے ہیں۔ آپ کی تصانیف کی طرح خطو ط میں بھی تازگی و طرفگی، شگفتگی و پختگی اور ایک اعلا نثر کی جملہ خصوصیات موج زن ہیں جو قاری کو ایک کیف آگیں شادابگی سے ہم کنار کرتی ہیں  :
            (۳۴)  عبدالباری کے توبہ نامہ کے بعد ۱۵؍ماہ مبارک سے ان سے سلسلۂ مکاتب جاری ہوا۔ مدتوں تو ان سے یہی پوچھا گیا کہ میری اس تحریر میں کون سا لفظ تکبر تھا، جس پر آپ نے پیکرِ تکبر ٹھہرالیا، اور مجھ سے خطاب کو معاذاللہ! حق کی بے غیرتی ٹھہرایا۔ بغلیں جھانکا کیے اور کچھ نہ بتا سکے۔ کچھ ہوتا ، تو بتاتے۔ آخر یوں ٹالا۔ بات شروع کیجیے بعد ختم مفاہمہ بتاؤں گا اورساتھ ہی یہ کہ میں سندھ کو جاتا ہوں۔ میں نے تار دیا کہ اصل بحث شروع کرتا ہوں، کہاں بھیجوں؟ آپ سندھ کب جائیں اور کب آئیں گے؟ اس کا جواب ان کے یہاں سے کسی نے تار میں دیا کہ وہ کراچی گئے۔ اب انتظار کرنا پڑا۔ میری و ہ تحریر جس پر انہوں نے وہ ناپاک احکامِ تکبر لگائے تھے۔ ان پر ردِ شدید تھی اور جواب ناممکن تھا۔ لہٰذا اس حیلۂ کاذبہ کی آڑ لی۔ مجھے تو اندیشہ ہوا کہ وہ تو قلیل ردّ تھے؛ اب کثیر وافر کروں گا۔ پھر کہہ دیں گے؛ پیکرِ تکبر سے مخاطبہ حق کی بے غیرتی سمجھتا ہوں ؛ بات ہاتھ سے جائے گی۔ ہدایت کی طرف جھکے ہیں ۔ پھر اس حیلۂ کاذبہ سے چراغ پا ہوجائیں گے۔
                        لہٰذا باربار بہ تکرار بہ اصرار نہایت تواضع و تذلل کے لہجہ میں دریافت کیا؛ کہ وہ طریقۂ تخاطب بتادیجیے ، جسے آپ تکبر نہ سمجھیں اور میں قابلِ خطاب اور میرا کلام لائقِ جواب رہے۔ مگر کسی طرح نہ بتایا، صرف اتنا کہا کہ جس شفقت و فراست سے جناب نے اب کلام فرمایا ہے ۔ میں نے گزارش کی کہ اس کے دو معنیٰ ہیں۔ ایک یہ کہ جس انتہاے تذلل کے ساتھ اب ہم سے کلام کیا ہے، ایسا ہی ہونا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ وہ خط رد تھا اور اس میں رد نہیں۔ لہٰذا یہ تکبر نہیں۔ پہلی مراد پر میرا نہیں، بل کہ آپ کا تکبر ثابت ہوگا کہ ہم سے یوں بات کرنا چاہیے۔ اور دوسری تقدیر پر بالکل درِ مفاہمہ بند کرتی ہے کہ آگے جو کچھ ہوگا ، آپ پر ہی رد ہی ہوگا۔ غرض ان سے لکھوا چھڑا کہ میں رد کو تکبر نہیں سمجھتا۔ اور اسی ضمن میںان سے چار عہدِ واثق لیے۔
            (۱)  جہاں حرجِ شرعی ثابت ہوگا قبول کیا جائے گا، مخاصمانہ مدافعت مقصود نہ رہے گی۔ (۲) رفعِ الزام کو کوئی حقیقتِ واقعہ چھاپی نہ جائے۔(۳) بعدِ صحت اصل مراد زوائد سے کام نہ ہوگا۔ (۴) بعدِ وضوحِ حق کسی خاطر رعایت ِ لحاظ کو اس پر ترجیح نہ ہوگی، بل کہ کونوا قوامین بالقسط شہداء للہ ولو علیٰ انفسکم۔
                        انہوں نے اگر مگر کے بعد لکھ دیا چاروں عہد قبول ؛ واللہ علیٰ مانقول وکیلمگر ایک آن کو بھی کسی عہد پر قائم نہ رہے۔ ہمیشہ اس پر تنبیہ کی، ملتفت نہ ہوئے۔‘‘
(ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی: کلیاتِ مکاتیبِ رضا، مطبوعہ، کلیر شریف، ۲۰۰۵ء،ج،۱، ص۷۵/۷۶)
            (۳۵)  ’’اگر آپ آفتاب اور دھوپ دیکھیں۔ تو فرقِ حقیقت و تجلی کی ایک ناقص مثال پیشِ نظر ہو۔ آفتاب گویا حقیقتِ شمس ہے اور دھوپ اس کا جلوا۔ حقیقت صفاتِ کثیرہ رکھتی ہے اور اپنے مجالی میں متفرق صفات سے تجلی کرتی ہے ۔ ان صفات کے لحاظ سے جو آثار، ان مجالی کے ہیں۔ وہ حقیقتاً حقیقت کے اور معاملات ان مجالی سے بہ حیثیتِ مجالی ہیں؛ وہ حقیقتاً حقیقت سے۔ جیسا صحابۂ کرام کی نسبت فرمایا: من احبہم فیحبنی احبہم ومن ابغضہم فیغضبنی ابغضہم ۔ حقیقتِ کعبہ مثلِ حقائقِ جملہ اکوان حقیقتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا افضل الصلاۃ والتحیۃ کی ایک تجلی ہے؛ کعبہ کی حقیقت وہ جلوا ہے۔ مگر وہ جلوا عین حقیقتِ محمدیہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نہیں۔ بل کہ اس کے غیر متناہی ظلال سے ایک ظِل۔ جیسا کہ اسی قصیدہ میں ہے۔    ؎
کعبہ بھی ہے انہیں کی تجلی کا ایک ظل
روشن انہیں کے عکس سے پُتلی حجر کی ہے
                        حقیقتِ کریمہ نے اپنی صفتِ مسجودیتِ الیہا سے اس ظل میں تجلی فرمائی ہے۔ لہٰذا کعبہ جس کی حقیقت یہی ظل وتجلی ہے۔ مسجود الیہا ہوا اور حقیقت وہ حقیقت علیہ مسجود الیہا ہے کہ اس کی صفت اس کے ساتھ اس پر تجلی نے اسے مسجود الیہا کیا۔ ‘‘
 (ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی: کلیاتِ مکاتیبِ رضا، مطبوعہ، کلیر شریف، ۲۰۰۵ء،ج،۱، ص۱۰۱/۱۰۲)
            (۳۶)  ’’یہ فقیر ذلیل بحمدہٖ تعالیٰ حضرات ساداتِ کرام کا ادنا غلام و خاک پا ہے۔ ان کی محبت و عظمت ذریعۂ نجات و شفاعت جانتا ہے۔ اپنی کتابوں میں چھاپ چکا ہے کہ سید اگر بدمذہب بھی ہوجائے ؛ اس کی تعظیم نہیں جاتی۔ جب تک بد مذہبی حدِ کفر تک نہ پہنچے۔ ہاں! بعدِ کفر سیادت ہی نہیں رہتی۔ پھر اس کی تعظیم حرام ہوجاتی ہے ۔ اور یہ بھی فقیر بارہا فتوا دے چکا ہے کہ کسی سید کو سید سمجھنے او ر اس کی تعظیم کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذاتی علم سے اسے سید جاننا ضروری نہیں۔ جو لوگ سید کہلاے جاتے ہیں۔ ہم ان کی تعظیم کریں گے۔ ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں۔ نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے اور خواہی نہ خواہی سند دکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائیں تو بُرا کہنا، مطعون کرنا ہر گز جائز نہیں۔ الناس امناء علیٰ انسابہم (لوگ اپنے نسب پر امیٖن ہیں)۔
                        ہاں! جس کی نسبت ہمیں خوب تحقیق معلوم ہو کہ یہ سید نہیں اور وہ سید بنے، اس کی ہم تعظیم نہ کریں گے۔ نہ اسے سید کہیں گے اور مناسب ہوگا کہ ناواقفوں کو اس کے فریب سے مطلع کردیا جائے۔ میرے خیال میں ایک حکایت ہے: جس پر میرا عمل ہے کہ ایک شخص کسی سید سے اُلجھا ؛ انہوں نے فرمایا : میں سید ہوں۔ کہا: کیا سند ہے تمہارے سید ہونے کی؟ رات کو زیارتِ اقدس سے مشرف ہوا کہ معرکۂ حشر ہے ، یہ شفاعت خواہ ہوا۔ اعراض فرمایا؛ اس نے عرض کی: میں بھی حضور کا اُمّتی ہوں۔ فرمایا: کیا سند ہے تیرے اُمّتی ہونے کی؟‘‘
(ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی: کلیاتِ مکاتیبِ رضا، مطبوعہ، کلیر شریف، ۲۰۰۵ء،ج،۱، ص۱۰۵/۱۰۶)
            (۳۷)  ’’یہ سگِ بارگاہِ بے کس پناہِ قادریت غفرلہٗ ایک ضروری دینی عرض کے لیے مکلّف اوقاتِ گرامی پرسوں روز سہ شنبہ کی ڈاک سے ایک رسالہ ’’القول الاظہر‘‘ مطبوعہ حیدرآباد سرکار اجمیر شریف سے بعض احبابِ گرامی کا مرسلہ آیا، جس کی لوح پر حسب الحکم عالی جناب لکھا ہے۔ یہ نسبت اگر صحیح نہیں، تو نیاز مند کو مطلع فرمائیںورنہ طالبِ حق کو اس سے بہتر تحقیقِ حق کا کیا موقع مِلے گا؟ کسی مسئلۂ دینیہ شرعیہ میںاستکشافِ حق کے لیے نفوسِ کریمہ جن جن صفات کے جامع درکار ہیں،بہ فضلہٖ عزوجل ذاتِ والا میں سب آشکار ہیں ۔ علم و فضل، انصاف وعدل، حق گوئی، حق جوئی، حق دوستی، حق پسندی، پھر بحمدہِ تعالیٰ غلامیِ خاص بارگاہِ بے کس پناہِ قادریت جناب کو حاصل اور فقیر کامنہ تو کیا قابل؟ ہاں!سرکار کا کرم شامل
                        اس اتحاد کے باعث حضرت کی جو محبت و وقعت قلبِ فقیر میں ہے۔ مولا عزوجل اور زائد کرے ۔ یہ اور زیادہ امید بخش ہے۔ اجازت عطا ہو کہ فقیر محض مخلصانہ شبہات پیش کرے ؛ اور خالص کریمانہ جواب لے۔ یہاں تک کہ حق کا مالک حق واضح کرے۔ فقیر بارہا لکھ چکا اور اب لکھتا ہے کہ اگر اپنی غلطی ظاہر ہوئی؛ بے تامل اعترافِ حق کرے گا۔ یہ امر جاہل متعصب کے نزدیک عار، مگر عندالعقلا اعزاز ووقار ہے اور حضرت تو ہر فضل کے خود اہل ہیں۔ للہ ِالحمد! امید کہ ایک غلامِ بارگاہِ قادری طالبِ حق کا یہ مامول حضور پُرنور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واسطے مقبول ہو۔اللہم آمین بالخیر یا ارحم الراحمین۔‘‘
(ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی: کلیاتِ مکاتیبِ رضا، مطبوعہ، کلیر شریف، ۲۰۰۵ء،ج،۱، ص۱۰۶/۱۰۷)
            (۳۸)  ’’شبِ برا ء ت قریب ہے ۔ اس رات تمام بندوں کے اعمال حضرت عزت میں پیش ہوتے ہیں۔ مولا عزوجل بہ طفیل حضور پُر نور شافع یوم النشور علیہ افضل الصلاۃ والسلام مسلمانوں کے ذنوب معاف فرماتا ہے۔ مگر چند ان میں وہ دو مسلمان ، جو باہم دنیوی وجہ سے رنجش رکھتے ہیں ۔ فرماتاہے : ان کو رہنے دو ، جب تک آپس میں صلح نہ کرلیں۔
                        لہٰذا اہل سنت کو چاہیے کہ حتیٰ الوسع قبلِ غروبِ آفتاب ۱۴؍ شعبان باہم ایک دوسرے سے صفائی کرلیں۔ ایک دوسرے کے حقوق ادا کردیں؛ یامعاف کرالیں کہ باذنہٖ تعالیٰ حقوق العباد سے صحائفِ اعمال خالی ہوکر بارگاہِ عزت میں پیش ہوں۔ حقوقِ مولا تعالیٰ کے لیے توبۂ صادقہ کافی ہے۔ التائب من الذنب کمن لاذنب لہٗ ۔ایسی حالت میں باذنہٖ تعالیٰ ضرور اس شب میں اُمیدِ مغفرتِ تامّہ ہے۔ بہ شرطِ صحتِ عقیدہ ؛ وہو الغفور الرحیم۔
                        یہ سب مصالحتِ اخوان و معافیِ حقوق بحمدہٖ تعالیٰ یہاں سال ہاے دراز سے جاری ہے۔ اُمید کہ آپ بھی وہاں مسلمانوں میں اس کا اجرا کرکے من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فلہٗ اجرہا واجر من عمل بہا الیٰ یوم القیامۃ لا یتفص من اجورہم شیاء ً۔ کے مصداق ہوں۔ یعنی جواسلام میں اچھی راہ نکالے؛ اس کے لیے اس کا ثواب ہے اور قیامت تک جو اس پر عمل کریں ان سب کاثواب ہمیشہ اس کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا بغیر اس کے کہ ان کے ثواب میں کچھ کمی آئے۔
                        اور اس فقیرِ ناکارہ کے لیے عفو و عافیتِ دارین کی دعا فرمائیں۔ فقیر آپ کے لیے دعا کرے گااور کرتا ہے؛ سب مسلمانوں کو سمجھا دیا جائے کہ وہاں نہ خالی زبان دیکھی جاتی ہے نہ نفاق پسند ہے؛ صلح و معافی سب سچے دل سے ہو۔ ‘‘
(ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی: کلیاتِ مکاتیبِ رضا، مطبوعہ، کلیر شریف، ۲۰۰۵ء،ج،۱، ص۳۵۶/۳۵۷)
            (۳۹)  ’’ جوابِ مسائل اجمالاً حاضر۔ تفصیل کا وقت کہاں؟ قرآن مجیدسن کر اس وقت آیاہوں ۔ بارہ بجا چاہتے ہیں۔ گیارہ بج کر باون منٹ آئے ہیں کہ یہ نیاز نامہ لکھ رہا ہوں اور اگر کسی میں تفصیل طلب فرمائیں گے تو امتثالِ امر کے لیے ہوں اور بارگاہِ عزت سے امید تو ایسی ہی ہے کہ آپ کا ذہنِ سلیم بحمد اللہ تعالیٰ اسی اجمال سے ہی بہت کچھ تفصیل پیدا فرمائے گا۔
                        مسئلہ زیارتِ القبور للنسآء… حبیبی اکرمکم اللہ تعالیٰ ! شَے کے لیے حکم دوقسم ہے۔ ذاتی کہ اس کے نفسِ ذات کے لحاظ سے ہو اور عرضی کہ بہ وجہِ عروض عوارضِ خارجیہ ہو۔ تمام احکام کہ بہ نظر سدِ ذرائع دیے جاتے ہیں۔ جو مذہبِ حنفی میں بالخصوص ایک اصلِ اصیل ہے۔ اسی قسمِ دوّم سے ہیں۔ یہ دونوں قسمیں بآں کہ نفی واثبات میں مختلف ہوتی ہیں۔ ہرگز متنافی نہیں کہ مناشی جداجدا ہے۔ اس کی مثال حضور نسآء فی المساجد ہے کہ نظر بذات ہرگز ممنوع نہیں۔ بل کہ ان کا روکنا ممنوع ہے ۔ صحیح حدیث میں ارشاد ہوا: لا تمنعوا ماء اللہ مساجد اللہ (اللہ کی باندیوں کو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں سے نہ روکو) اور نظر بہ حالِ زناں ممنوع کما صرح بہ الفقہا الکرام۔ وقد قالت ام المؤمنین الصدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا لو رائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما احدث النسآء لمنعہن المساجد کما منعت نسآء بنی اسرائیل۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عورتوں نے جو نئی باتیں پیدا کرلی ہیں؛ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھتے توان کو ایسا ہی مسجدوں سے روک دیتے، جیسے بنی اسرائیل کی عورتیں روکی گئیں۔
(ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی: کلیاتِ مکاتیبِ رضا، مطبوعہ، کلیر شریف، ۲۰۰۵ء،ج،۲، ص۴۵)
            (۴۰)  ’’جب حیا و غیرت ، دین ودیانت، عقل و انسانیت کی نوبت یہاں تک مشاہدہ ہوئی ۔ ہر ذی فہم نے جان کیا کہ بحث کا خاتمہ ہوگیا، حضرات سے مخاطبہ کسی عاقل کاکام نہ رہا، الحمد للہ! کتب ورسائلِ فقیر تو چھتیس سال سے لاجواب ہیں، اصحاب و احبابِ فقیر کے رسائل بھی بعونہٖ تعالیٰ عزوجل لاجواب ہی رہے۔ ادھر کے تازہ رسائل ظفرالدین الطیب، کین کش پنجۂ پیچ وبارشِ سنگی و پیکانِ جاں گداز، العذاب البئیس اور ضروری نوٹس و نیاز نامہ کشفِ راز واشتہار چہارم، اشتہار پنجم ، اشتہار ہفتم و ہشتم ہی ملاحظہ فرمائیے، کس سے جواب ہوسکا؟ ان کے یہاں اعتراضوں ، مواخذوںومطالبوں کا کس نے قرض اداکیا؟ بات بدل کر اِدھر اُدھر کی مہمل ، لچر اگر ایک آدھ پرچے میں کسی صاحب نے کچھ فرمائی ، اس کاجواب فوراً شائع ہوا کہ پھر اُدھر مُہرِ سکوت لگ گئی۔ والحمد للہ رب العالمین،
                        مگر اب کی یہ تدبیر حضرات کو ایسی سوجھی ، جس کا جواب ایک میں اور میرے اصحاب کیا ، تمام جہاں میں کسی عاقل سے نہ ہوسکے، غریب مسلمان اتنی حیا وغیرت ، ایسی بے تکان جرات ، اتنی بے باک طبیعت کہاں سے لائیں؟ کہ کتابیں دل سے گڑھ لیں، ان کے مطبع دل سے تراش لیں، ان کی عبارتیں ڈھال لیں اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سرِ بازار چھاپ دیں…‘‘
(ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی: کلیاتِ مکاتیبِ رضا، مطبوعہ، کلیر شریف، ۲۰۰۵ء،ج،۱، ص۱۷۲/۱۷۴)

..................................................................
  
اختتامیہ

            گذشتہ اوراق میں آپ نے امام احمدرضا محدّث ِبریلوی کی نثر کے بعض ادبی جواہر پاروں کو خاطر نشین فرمایا… ظاہر ہونا چاہیے کہ یہ تمام شہ پارے امام احمدرضاکی صرف چند ہی کتابوں سے بہ طورِ      ع
مُشتے نمونہ از خروارے
            کے مصداق اخذ کیے گئے ہیں… جیسا کہ ناچیز نے پہلے ہی یہ عرض کیا تھا کہ اگرامام احمدرضا کی تمام تر مطبوعہ تصانیف سے ایسے گراں قدر ادبی جواہر پاروں کو یک جا کیا جائے تو کئی ضخیم مجلدات تیارہوسکتے ہیں…یہ ایک وسیع موضوع ہے…جس پر تحقیقی کام ہوسکتا ہے
            بہ ہر کیف!ان ادبی جواہر پاروں کے مطالعہ و تجزیہ سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ امام احمدرضا بریلوی محض عالمِ دین، مجددِ وقت، فقیہِ بے مثال اور مشہور نعت گوشاعر ہی نہیں ؛بل کہ بلند پایہ ادیب،مایۂ ناز انشا پرداز اور قادرالکلام زوٗد گو نثر نگار بھی تھے… یہاں یہ بات ذہن نشین رہ کہ امام احمدرضا جیسے اپنے وقت کے انتہائی مصروف ترین عظیم عبقری فقیہ و مجدد، مفسر و محدث، مترجم و محقق، مدبر و مفکر، مصلح و مبلغ اور اسلامی سائنس داں کے پاس اپنے اسلوبِ نگارش کو نکھارنے اور سنوارنے کا قطعی وقت نہ تھا… لیکن ان بیش بہا شہ پاروں کا جائزہ لینے کے بعد یہ ماننا پڑتا ہے کہ جیسے امام احمدرضا بریلوی کا طرزِ تحریراور پیرایۂ بیان خود بہ خود نکھرا ہوا تھا
            امام احمدرضا نے اپنی نثر میں بات کو زیادہ طول نہ دیتے ہوئے اختصا ر کے ساتھ جامعیت کا خیال رکھا ہے… آپ نے مسئلے کی تشریح و توضیح میں غیر ضروری الفاظ و تراکیب سے گریز کیا ہے … وہ رموز ونکات جوعام مفتیانِ کرام کئی صفحات تحریر کرنے کے بعد بھی صحیح طور پر بیان نہیں کرپاتے؛ آپ نے چند سطروں میں بیان کرکے گویاسمندر کو کوزے میں سمو دیا ہے… یہی وجہ ہے کہ قاری کو نفسِ عبارت کے فہم میں دقّت محسوس نہیںہوتی…آپ نے اپنی نثر میں شاعرانہ فضا اس انداز سے پیدا فرمائی ہے کہ نثر میں نظم کا لطف و سرور طاری ہوجاتا ہے…صنعتی گل بوٹے…استعارات وتشبیہات…تراکیب و پیکرات …محاورات و ضرب الامثال…  جابجامقفا جملوں کاسلیقہ مندانہ استعمال …طنز و نشتریت…فکری اندازِ تنقید جیسے عناصر نے مل کر آپ کی نثر کو اردو ادب کا اعلا ترین شاہ کار بنا دیا ہے… جن کی حلاوت و گھلاوٹ سے قاری پر وجدانی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے…اردوے معلا کی لطافت و طراوت سے چشم و کام و دماغ میں ٹھنڈک و مٹھاس پیداہوجاتی ہے… اردو نثر میں عربی و فارسی الفاظ و تراکیب کا اِس درجہ احسن طرز سے استعمال فرمایا ہے کہ قاری کو بجاے ناگواری کے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی ذہن و قلب پر شیرینی برسارہا ہے… کہیں کہیں علاقائی بولیوں اور روزمرہ کے الفاظ تو بڑا لطف دے جاتے ہیں… جمالیاتی حُسن اور پُر کیف منظر کشی کا انداز انتہائی نکھراہوا ہے ؛ایسا لگتا ہے جیسے تحریر میں بیان کردہ مناظر نگاہوں کے سامنے گردش کررہے ہیں…تصویریت کا حُسن قاری کو شادابگی کا احساس دلاتا ہے
            مختصر یہ کہ امام احمدرضا کی نثری نگارشات کے مطالعہ و تجزیہ سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے الفاظ کی لہروں میں معانی کا سیلِ رواں لہراتے، بل کھاتے، اٹھلاتے، خوشبو لٹاتے، اور گنگناتے ہوئے وادیِ دل سے گذررہا ہے…کیف ونشاط اور مسرت و بصیرت کا جھونکا ہے کہ کوثر و تسنیم کا ساغر…جسے دیکھ کر…پڑھ کر…سُن کردل ہی نہیں روح تک مسکرا اُٹھتی ہے
            الغرض امام احمدرضا بریلوی نے اردو ادب کی جو وسیع تر اور گراں قدر خدمات انجام دی ہیں… اس کے پیشِ نظر تاریخِ اردوادب کی کتابوں میںنہ صرف یہ کہ آپ کاذکرِ خیر ہونا چاہیے تھا … بل کہ آپ کی خدماتِ جلیلہ کوآبِ زر سے جلی حرفوں میں تحریر کرنا چاہیے تھا … یہی امرکس قدر حیرت انگیزاور لائقِ تحسین ہے کہ امام احمدرضا کے دامن میں ہزار کے لگ بھگ کتابیں ہیں… مگر یہ دیکھ کر میرے دل میں دردو کرب موجیں لینے لگتا ہے کہ اردو ادب کی تاریخ میں اُن لوگوں کا ذکرتوملتا ہے جو امام احمدرضا کے ہم عصر تو تھے؛ مگر اُن کی حیثیتیں آپ کے سامنے طفلِ مکتب سے بھی کم تھیں… اور ہاں ! اگر کسی کا ذکر نہیں ملتا تو امام احمدرضا جیسے صاحبِ تصانیفِ کثیرہ ، شہنشاہِ اقلیمِ سخن اور عظیم المرتبت شاعر و ادیب کا…آخر کار آپ کا ذکر کیوںنہیں کیا گیا؟ … آپ کو ناقابلِ اعتنا کیوں سمجھا گیا؟ … یہ یک طرفہ تاریخ کیوں لکھی گئی؟… یہ جانب دارانہ رویہ کیوں اپنایا گیا؟… یہ غفلت کیوں برتی گئی؟… جو دیکھ رہے تھے ، جو سُن رہے تھے، ذکر کیوںنہیں کیا؟ عقل حیران ہے…دل پریشان ہے… یقین انگشت بدنداں ہے… انصاف فریادی ہے
            یادرہے کہ اردو ادب کی تاریخ میں امام احمدرضا کا ذکرِ خیر نہ کرکے مورخینِ ادب نے  اردو کے عظیم ترین سرمایے کے ساتھ سنگین ناانصافی کا مظاہرہ کیا ہے… یہی نہیں! بل کہ ایک عظیم ادبی جرم کا ارتکاب کیا ہے… جس کی معافی ناممکن ہے
آ پ ایسا نہ سمجھیں کہ یہ صرف میرے اپنے دل کا درد وکرب ہے …نہیں نہیں ! … یہ توہر اُس منصف مزاج، ادب پسند طالب علم کا درد ہے…جس کا ادب کے تئیں یہ نظریہ ہے کہ  :
                        ’’ادب میں تعصب کی عینک سے مطالعہ کرنا اور اپنے مخالف عقیدے و نظریے کے مقلد افراد کی اعلا ترین علمی وادبی کاوشات سے صرفِ نظر کرنا ؛ادب کو زندہ در گور کرنے کے مترادف ہے…‘‘
            بہر کیف ! جو ہُوا سو ہُوا… اب وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارے محققین و مورخین اور ناقدین کو اِدھر اُدھر دیکھنے کے بجاے خود کو دیکھنا ہوگا… اپنے آپ کو محدوٗد فکری بندشوں سے آزادکرانا ہوگا… اپنا اندازِ غور وفکر بدلنا ہوگا … تعصب کے عمق سے اوجِ انصاف پر آنا ہوگا… نظریاتی حصار کی قید و بندسے خود کو نکالنا ہوگا… جانب داریت کے ضرررساں دائرے کو مٹانا ہوگا… اپنی زبان کو اپنے دل کا رفیق بنا ناہوگا…اورامام احمدرضا کی تصانیف کا مطالعہ و تجزیہ کرتے ہوئے ؛ دنیاے علم وادب میں آپ کے مقام و منصب کو بیان کرنا ہوگا … تاکہ جہانِ فکر و فن کے متوالے امام احمدرضا کے افکار ونظریات سے مکمل طور پر استفادہ کرسکیں … اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ہمارے روشن مستقبل کا پیش خیمہ ثابت ہوگا … اوراگر اس کے برعکس ہوتا ہے تو تاریخ کبھی بھی ہمارے محققین، مورخین اور ناقدین کو معاف نہیں کرے گی…یاد رہے کہ امام احمدرضا کی جملہ تصانیف ہمارے تاب ناک کل کی ضمانت اور ہماری علمی وفکری ، دینی وسیاسی ، قومی وملّی ، اصلاحی ودعوتی، معاشی ومعاشرتی اور تہذیبی و تمدنی ترقیات کا زینہ ہیں
            دعا ہے کہ رب العزت جل و علا اپنے حبیبِ مکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقہ وطفیل ہمیں حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق بخشے (آمین)…
            اسی طرح یہ بھی دعا ہے کہ یا الٰہ العالمین      ؎
اس دور کی ظلمت میں ہر قلبِ پریشاں کو
وہ داغِ محبت دے جو چاند کو شرما دے
(آمین بجاہِ الحبیب الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)

    ۲۵؍ ربیع الثانی ۱۴۲۱ھ 
    ۲۸؍ جولائی ۲۰۰۰ء جمعۃ المبارک  سروے نمبر ۳۹؍پلاٹ نمبر ۱۴؍ نیااسلام پورہ،مالیگاوں (ناسک)9420230235

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں