اردو
ادب کے فروغ میں تصانیف رضا کا حصہ
محمد
شہاب الدین مصباحی مہراج گنجوی، المجمع الاسلامی ، ملت نگر ، مبارک پور
اردو
بر صغیر کی ایک متمول اور شیریں زبان ہے جو تقریباً ہر خطہ میں بولی اور سمجھی جاتی
ہے اِس زبان کی ابتدا اس وقت ہوئی جب حضرت سلطان محمود غزنوی علیہ الرحمہ نے پنجاب
کو فتح کر کے غزنی حکومت میں شامل کر لیا اور مختلف وسائل سے رفتہ رفتہ اِس کا فروغ
ہوتا گیا یہاں تک کہ یہ دُنیا کی ترقی یافتہ زبانوں میں شمار کی جانے لگی اس کی ترقی
اور شہرت کو دیکھتے ہوئے ماہرین نے اس کے بولنے اورسمجھنے کے لیے کچھ اُصول اور قواعد
وضع کردیے ،اب اردو صرف اردو نہیں رہ گئی بلکہ ان قواعد و ضوابط کی رعایت کے ساتھ اس
کا استعمال رائج ہوا تو اس کی شیرینی اور لطافت میں مزید اضافہ ہوگیا اور ایک مستقل
فن کی حیثیت سے اس کو لوگ جاننے لگے اور کچھ عرصہ بعد معاندین اس کو مسلمانوں کی شناخت
بنا کر اس کے ساتھ سوتیلا برتائو کرنے لگے ، اردو ادب کے فروغ میں بہت سے ذرائع نے
حصہ لیا مگر علماے کرام اور مدارس اسلامیہ کا اس میں کلیدی رول رہا ہے ۔ خاص کر ان
کی اردو تصانیف سے اردو کو بہت فروغ ملا علماے کرام اردو زبان میں لٹریچر اور کتابیں
تصنیف کرتے رہے اور اردو کا فروغ ہوتا رہا ۔
۱۲۷۲ھ مطابق ۱۸۵۶ ء میں میدان تصنیف
و تالیف کے شہ سوار امام احمد رضا مجدد اسلام بن کر اس خاک دان گیتی پر جلوہ افروز
ہوئے ۱۴؍ سال میں علوم دینیہ کی تکمیل کے بعد عربی و اردو زبان میں اپنے قلم کو حرکت
دی اور ۱۳۴۰ ھ تک تقریباً ایک ہزار رسائل جواباتی اور کتابیں تصنیف کر ڈالیں ان کی
اردو تصانیف سے مقصود زبان کا فروغ ہرگز نہیں تھا بلکہ ان کا مطمح نظر تبلیغ دین، احقاق
حق اور ابطال باطل تھا مگر یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ ان کی تصانیف سے اردو کو جتنا
فروغ ہوا اس کے لیے ایک لمبا عرصہ درکار ہے آپ نے کتابیں لکھ لکھ کر جہاں عقائد اہل
سنّت و جماعت کو عام کیا وہیں پر اردو کو بھی رائج کیا، آپ کے لٹریچر ہند و پاک کے
خطوں میں شائع ہورہے ہیں اور فروغ دیں کے ساتھ رواج اردو کا کام بھی انجام دے رہے ہیں
، تصانیف اعلیٰ حضرت کو لوگوں میں وہ قبولیت عام حاصل ہوئی جو کسی مصنف کو حاصل نہ
ہو سکی کیوں کہ ان کی تحریروں میں جہاں شگفتگی و چاشنی پائی جاتی ہے وہیں پر دینی جذبہ
ملّی ہم دردی کا عنصر بھی وافر مقدار میں رہتا ہے ، امام احمد رضا کو زبان و بیان پر
بے پناہ قدرت تھی اس لیے ان کا پیرایہ بیان مختلف کتابوں میں مختلف ہے آپ نے کبھی
ادب کی تخلیق کا قصد نہیں کیا بلکہ اپنے افکار کو عوام الناس میں عام کرنے کی کوشش
کی ہے مگر ان کی خدا داد صلاحیت کو داد دینی ہوگی کہ آپ نے اپنی تصنیفات سے ادبی اسلوب
کا ایک نیا باب کھول دیا ۔ تحریر کی روانی کا حال یہ ہے کہ جیسے سیل رواں ، سرعت ورفتار
کا عالم یہ ہے کہ جس موضوع پر قلم اُٹھایا لکھتے چلے گئے، ادبی چاشنی اور زور بیاں
سطر سطر سے عیاں ہوتا ہے ،ان کی تصانیف میں جا بجا وہ الفاظ مستعمل ہیں جن کو اگر ان
میں استعمال نہیں کیاگیا ہوتا تو وہ کب کے متروک ہو گئے ہوتے ،یہی حال محاورات کا بھی
ہے انھوں نے اردو زبان میں ہزاروں محاورات استعمال کیے ان کا شاہ کار فقہی انسائیکلو
پیڈیا’’العطایا النبویۃ فی الفتاویٰ الرضویۃ ‘‘ہے جو بارہ جلدوں کو محیط ہے ان میں
اردو کے وہ قابل قدر شہ پارے ہیں جن کو اردو کی خدمت کے لیے استعمال کیا جاسکتاہے
۔ اب وہ کتابچوں کی شکل میں شائع ہو چکے ہیں جن سے ہر کس و ناکس استفادہ کر سکتا ہے۔
اعلیٰ حضرت نے اپنے افکار کی ترویج کے لیے اردو زبان کو استعمال کر کے اردو پر بہت
بڑا احسان کیا ہے لہٰذا جس طرح ان کے نظریے اور فکر نے فروغ پایا اسی طرح ان کی تصانیف
سے بھی اردو نے ترقی کی ۔ انھوں نے اردو نثر نگاری کو ایک نیا بانک پن عطا کیا اور
اپنے متنوع انداز بیاں سے اس کو پر کیف اور دل نشیں بنا دیا چند مثالیں پیش خدمت ہیں
جن سے واضح ہوجائے گا کہ اعلیٰ حضرت کی تحریروں نے اردو ادب میں کیا مقام پایا ہے
۔
(۱) اہل اسلام انبیا علیہم
الصلوٰۃ و السلام و اولیاسے یہی استعانت کرتے ہیں ، جو اللہ عزو جل سے کیجیے تو اللہ
اور اس کا رسول غضب فرمائیں اور اسے اللہ عزو جل کی شان میں بے ادبی ٹھہرائیں اور حق
تو یہ ہے کہ اس استعانت کے معنی اعتقاد کر کے جناب الٰہی عزو علا سے کرے تو کافر ہوجائے
مگر وہابیہ کی بد عقلی کو کیاکہیے نہ اللہ کا ادب نہ رسول سے خوف نہ ایمان کا پاس خواہی
نخواہی اس استعانت کو ’’ایاک نستعین ‘‘ میں داخل کر کے جو اللہ عزو جل کے حق میں محال
قطعی ہے اسے اللہ تعالیٰ سے خاص کیے دیتے ہیں ۔
ایک
وہابی بے وقوف نے کہا تھا: وہ کیا ہے جو
ملتا نہیں خدا سے تم مانگتے
ہو اولیا سے
فقیر
غفراللہ تعالیٰ نے کہا : توسل کرنہیں
سکتے خدا سے ا سے ہم مانگتے ہیں اولیا
سے
(برکات الامداد لاہل الاستمداد ، ص ۴ ،
برکاتی پبلشرز کراچی )
(۲) جب وہ یہ دعا فرماتے
اور ان کے سننے والے نے انھیں ضیاے تابندہ ومہر درخشندہ و نور الٰہی کہا پھر اس جناب
کے نور ہونے میں مسلمان کو کیا شبہہ رہا ؟ حدیث ابن عباس میں ہے کہ ان کا نور چراغ
و خورشید پر غالب آتا اب خدا جانے غالب آنے سے یہ مراد ہے کہ ان کی روشنیاں اس کے
حضور پھیکی پڑجاتیں جیسے چراغ پیش ماہتاب یا یکسر ناپید وکالعدم ہوجائیں جیسے ستارے
حضور آفتاب ۔
(
نفی الفیٔ عمن بنورہ انارکل شیٔ ، ص ۱۴ ،
ادارہ افکار حق ،بائسی پورنیہ )
یوں
تو آپ کی بہت سی تصانیف نے اردو کے فروغ کا کا م کیا لیکن ان میں آپ کا اردو ترجمۂ
قرآن خاص اہمیت کا حامل ہے انداز بیان اختصار و جامعیت اور شگفتہ بیانی کے لحاظ سے
قرآن پاک کے اردو تراجم میں سب سے بڑھ کے ہے آپ کا یہ ترجمۂ قرآن اگرچہ محض ترجمہ
ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ قرآن فہمی کے لیے عصر حاضر کی بڑی بڑی ضخیم تفاسیر سے زیادہ
مفید اور مؤثر ہے ، آپ کے ترجمہ سے قرآن کی مراد اور اس کا مقصود واضح ہوجاتا ہے
سلاست اور روانی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ گویا یہ ایک ترجمہ نہیں بلکہ مستقل کتاب ہے،
جو حسن نظم قرآن میں ہے ترجمہ اس کا آئینہ دار ہے بیان کا جو زیرو بم قرآنی آیت
میں ہے اس کی جھلک ترجمہ میں بدرجۂ اتم موجود ہے، اس ترجمہ سے بھی اردو کا کافی فروغ
ہوا آپ نے مختصر لفظوں میں اس طرح ترجمہ کیا ہے کہ کہیں کہیں ترجمہ آیت سے مختصر
لفظوں میں پورا ہو گیا ہے اور کسی لفظ کا معنی بھی نہیں چھوٹا ہے جیسے ۔
’’
اذاالشمس کوّرت واذاالنجوم انکدرت واذاالجبال سیرت واذاالعشار
عطلت و اذاالوحوش حشرت واذاالبحار سجرت واذاالنفوس زوجت واذاالموء دۃ سئلت بای ذنب قتلت
‘‘
ترجمہ
: جب دھوپ لپیٹی جائے اور جب تارے جھڑپڑیں اور جب پہاڑ چلائے جائیں اورجب تھلکی اونٹنیاں
چھوٹی پھریں اور جب وحشی جانور جمع کیے جائیں اور جب سمندر سلگائے جائیں اور جب جانوں
کے جوڑ بنیں اور جب زندہ دبائی ہوئی سے پوچھا جائے کس خطا پر ماری گئی ۔
کتنے
اختصار جامعیت اور سلاست کے ساتھ ترجمہ کیا ہے اس میں کمال یہ ہے کہ مفہوم کی وضاحت
میں کوئی فرق نہیں آیا خلاصہ یہ کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا ترجمۂ قرآن اردو ادب
کے محاسن سے لبریز اور حشو و زائد سے منزہ ہے ۔
امام
احمد رضا ایک دقاق عالم اور بلند پایہ مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم شاعر بھی تھے
، ہر بحر پر آسانی سے شعر نظم کرنے والے امام احمد رضا نے اپنی تمام تر شاعرانہ صلاحیت
عشق رسول پر نچھاور کردی تھی اور کبھی کسی دنیوی منفعت یا امیر و رئیس کو خوش کرنے
کی خاطر شعر رقم نہیں کیا ،زبان و بیان پر بے پناہ قدرت رکھنے والے اس عظیم شاعر نے
کبھی اپنی شاعری پر فخر نہیں کیا ۔ ؎
رہا
نہ شوق کبھی مجھ کو سیر دیواں سے
ہمیشہ
صحبت ارباب شعر سے ہوں نفور
نہ
اپنے کاموں سے تضییع وقت کی فرصت
نہ
اپنی وضع کے قابل کہ اس میں ہوں مشہور
آپ
کا نعتیہ دیوان حدائق بخشش بہت مشہور ہے بہت شوق سے پڑھا جاتا ہے ،خاص کر آپ کاسلام
، قصیدۂ معراجیہ اور مناجات ان کی شہرت و مقبولیت عام ہو چکی ہے ۔امام احمد رضا کی
نعتوں کی دل کشی حسن اور سوزیگانہ ہے انھوں نے اس صنف سخن کو ایک نیا طریقہ عطا کیا
ہے کہ نعت گوئی صرف نعت گوئی کی حیثیت سے مت کرو بلکہ حب نبی میںسرشارہو کر مدح خوانی
کرو،انھوں نے اسی راہ پر چل کر نعت گوئی کی، انھوں نے ایسی ایسی نعتیں لکھیں جو فکر
و فن، اظہار وابلاغ، جذب و شوق اور تاثیر و تاثر کے اعتبار سے اردو ادب کے لیے بے مثال
سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی نعتوں میں علوم و فنون کا بے بہا ذخیرہ اور اس پر
عشق رسول کی دولت نے ان کی نعتوں کی مقبولیت کو اوج ثریا پر پہنچایا ہے، اگر ان کے
نعتیہ دیوان کے الفاظ اکٹھا کیے جائیں تو ایک لغت کی کتاب تیار ہو سکتی ہے ۔ ان کا
نعتیہ کلام ادبی محاسن کے ساتھ ساتھ عشق کی دولت سے اس قدر مالا مال ہے کہ جس محفل
میں گن گنایا جاتا ہے تو سننے والا وجد میں آئے بغیر نہیں رہتا ان کا یہ دیوان اتنا
مقبول ہوا کہ اس کا عربی اڈیشن بھی ’’ صفوۃ المدیح ‘‘ اور ’’بساتین الغفران ‘‘ کے نام
سے شائع ہو چکا ہے۔ اردو ادب کے فروغ میں ان کے نعتیہ دیوان کا کلیدی رول ہے، جس کو
اردو ادب کی تاریخ میں فراموش نہیں کیا جا سکتا چند اشعار ملاحظہ ہوں جن سے انداز بیان
،شکوہ الفاظ، حسن ادب ،سلاست و روانی کا بہ خوبی اندازہ ہوجائے گا ۔ ؎
ظاہر
و باطن اوّل و آخر زیب فروع و زین اصول
باغ
رسالت میں ہے تو ہی گل غنچہ، جڑ، پتی ، شاخ
اے
خار طیبہ دیکھ کہ دامن نہ بھیگ جائے
یوں
دل میں آکہ دیدۂ تر کو خبر نہ ہو
مالک
کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں
دو
جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں
مَیں
نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیں
و
ہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں
انگلیاں
ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر
ندیاں
پنجاب رحمت کی ہیں جاری واہ واہ
اردو
ادب کے فروغ میں تصانیف رضا کا ایک وافر حصہ رہا ہے انھوں نے ابلاغ و ترسیل کے لیے
اردو زبان کا انتخاب کیا اور اس میں کتابیں اور اشعارلکھ کر اردو کے لیے بہت عظیم کارنامہ
انجام دیا ہے، تصانیف رضا کی بدولت ملک کے بیش تر حصوں میں اردو کوفروغ ملا ہے ،آپ
کی غزلیں ادب کے لیے گرا ں مایہ ہیں خصوصاً اس تناظر میں کہ یہ اس وقت کی شاہ کار ہیں
جب اردو زبان تجرباتی حدوں سے گزر رہی تھی ان کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے ۔ رضا بریلوی
کی شاعری زبان کی شگفتگی اور بیان کی دل نشینی کے لحاظ سے اردو شعرا کی تثلیث سے کسی
طرح کم نہیں الفاظ کا بیش بہا خزانہ ان کے پاس موجود تھا ،زبان و بیان اور روز مرہ
محاورات کے استعمال پر حضرت امام احمد رضا کو جو کامل دسترس حاصل ہے اس کا اندازہ اردو
شعر و ادب سے دل چسپی رکھنے والے حضرات ہی بہ خوبی لگا سکتے ہیں ،
ان
تمام کے باوجود بھی حضرت امام احمد رضا کو وہ ادبی مقام نہیں دیا جاسکا جس کے وہ مستحق
ہیں آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟ ہمارے ادبی معاشرہ میں مولانا اور ٹوپی ، داڑھی والا ہونا
شاید جرم ہے اور اتنا بڑا جرم ہے کہ سارے ادبی محاسن اس میں دب کر رہ جاتے ہیں، امام
احمد رضا کے ساتھ بھی یہ تعصبانہ رویہ اختیار کیا گیا ورنہ اس میں کوئی شک نہیں کہ
ملک سخن کے شاہی کا تاج امام احمد رضا ہی کو جچتا ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں