جمعرات، 20 اپریل، 2017

Rafeeque E Millat Awr Un K Inquilab Aafreen Aqwal

رفیقِ ملت سید نجیب حیدر میاں مارہروی اور ان کے انقلاب آفریں اقوال
٭ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی
22اپریل 2017ء کو مالیگاﺅں میں منعقد ہونے والے عظیم الشان جشنِ ساداتِ مارہرہ مطہرہ کے موقع پر ایک تحریر
خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ اتر پردیش کے ضلع ایٹہ میں واقع صوفیاے کرام کی مشہور و معروف بستی ہے جہاں بڑے بڑوں نے اپنے سرِ عقیدت فخر کے ساتھ جھکائے ہیں ۔سنی دنیا کا کوئی ذی علم شخص ایسا نہیں ہوگا جو اس خانقاہ سے وابستہ دینی و علمی خدمات کا معترف نہ ہو۔ ہندوستان ہی نہیں بر صغیر ہند و پاک میں یہ سب سے بڑی قادریہ سلسلے کی خانقاہ ہے ۔ جس کا سلسلۃ الذہب براہِ راست امام زید شہید مظلوم رضی اللہ عنہ سے ہوتا ہوا سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے ۔ نجیب الطرفین سادات کی اس بستی کو پورے عالم اسلام میں عقیدت و احترام سے روحانی مرکز کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔شاہِ جہاں کے دور کے مشہور بزرگ صوفی شاعر صاحب البرکات حضرت سید شاہ برکت اللہ عشقی پیمی بلگرامی ثم مارہروی قدس سرہٗ کی ذات سے مارہرہ مطہرہ کو شہرتِ دوام حاصل ہوئی۔ ہر دور میں یہاںسے منسلک اکابر اولیا و صلحا اورعلما نے ملت اسلامیہ کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ یہی وہ خانقاہ ہے جہاں سے مجدد اسلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری برکاتی اور ان کے والد ماجد مولانا نقی علی خاں قادری برکاتی مرید ہوکر سلسلۂ قادریہ میں داخل ہوئے ۔ نیز اسی خانقاہ سے بدایوں شریف جیسی علمی خانقاہ کے اکابر مشائخ نے بھی شرفِ بیعت حاصل کیا۔ اعلیٰ حضرت تاج الفحول بدایونی اور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں بھی خانقاہ برکاتیہ کے فیض یافتگان میں سے ہیں۔ اسی عظیم خانقاہ کے فردِ جلیل میں حضرت سید شاہ حقانی ابن سید شاہ آلِ محمد علیہ الرحمۃ الرضوان کا شمار ہوتا ہے ۔ جن کا ترجمۂ قرآن اور تفسیر قرآن ’’نعت رسول کی‘‘ اور ’’عنایت رسول کی ‘‘ اردو تراجم و تفاسیر میں اولیت کا درجہ رکھتی ہے۔ماضی قریب میں اسی خانقاہ کی ایک مہتم بالشان شخصیت ولی کامل شیخ المشائخ احسن العلماء حضرت علامہ مولانا مفتی سید شاہ مصطفی حیدر حسن میاں صاحب قدس سرہٗ گذری ہے جن کے والد گرامی سید شاہ آلِ عبا قادری برکاتی علیہ الرحمہ ہیں جنھیں اردو کی ادبی دنیا آوارہ مارہروی کے نام سے جانتی ہے۔ انھیں احسن العلماء قدس سرہٗ کے یہاں ہمارے ممدوح رفیق ملت سید نجیب حیدر میاں ۱۹۶۷ء میں تولد ہوئے ۔ قرآن عظیم اپنی پھوپھی سیدہ حافظہ زاہدہ خاتون سے اور کچھ حصہ اپنے والد ماجد احسن العلماء قد س سرہٗ سے پڑھا ۔ اردو کی تعلیم والدہ ماجدہ نے دی ۔ والدہ ماجدہ رابعۂ عصر سیدہ محبوب فاطمہ علیہاالرحمہ بھی نجیب الطرفین سادات گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ۔ اردو کے مشہور ادیب سید رئیس احمد جعفری ان کے ماموں تھے۔ سید نجیب حیدر میاں قبلہ کی تعلیم و تربیت ایسے عظیم افراد کے زیر سایہ ہوئی ۔گریجویشن کرنے کے بعد آپ خانقاہ میں ہی رہنے لگے آپ کو والدماجد احسن العلماء نے مفتی اعظم علیہ الرحمہ سے بیعت کروایا ۔ سید نجیب حیدرمیاں شریعت و طریقت میں یکتا، علم و فضل میں بے مثال، دینی و عصری علوم کے پیکر نہایت مخلص اور بڑے شفیق و خلیق ہیں۔ آپ خانقاہ برکاتیہ کے جملہ معاملات و انتظامات کی نگرانی میں ماہر ہیں۔ آپ کووالد گرامی سے خلافت و اجازت حاصل ہے نیز ان کے چچا وارث پنجتن حضرت سید یحییٰ حسن میاں قدس سرہٗ نے بہت کم عمری میں گود لے لیااور اپناوارث ، ولی عہد و سجادہ نشین اپنی حیات ظاہری میں نامز کیا۔ یہی وجہ ہے کہ سید یحییٰ حسن میاں علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد سید نجیب حیدر میاں کو سجادہ عالیہ نوریہ پر متمکن کیا گیا۔ سید نجیب حیدر میاںعلما ، عوام ، خواص،طلبہ ، مریدین اور قصبہ کے افراد میں بہت مقبول ہیں وہ بھی ہر ایک سے محبت رکھتے ہیں اور سبھی لوگ ان سے بھی محبت کرتے ہیں ۔ سید نجیب حیدر میاں دل درد مند کی دولت سے مالا مال ہیں وہ حتی الوسع بندگانِ خدا کی ہر جائز خدمت کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں ۔ مہمان نوازی میں بھی اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں ۔ سید نجیب حیدر میاں قبلہ کو ملت اسلامیہ کی تعلیم و تربیت کا بے پناہ درد ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کی تعلیم کے ایک نعرہ دیا ہے کہ : ’’ آدھی روٹی کھائیے بچوں کو پڑھائیے۔‘‘ اس نعرہ کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے کئی اہم تعلیمی ادارے البرکات ایجوکیشنل سوسائٹی علی گڑھ کے تحت پوری دنیا میں جاری کیے گئے جہاں ہزاروں طلبہ دینی و عصری تعلیم سے بہرہ ور ہورہے ہیں ۔سید نجیب حیدر میاں قبلہ کو اللہ تعالیٰ نے تقریر کاوہ جوہر عطا کیا ہے کہ وہ ہزاروں لاکھوں کے مجمع میں بے تکان تقریر کرتے ہیں اور جب تقریر کرتے ہیں تو ایک عجیب جذب کی کیفیت طاری رہتی ہے جو اپنے محیط میں سامعین کو بھی سمیٹ لیتے ہیں۔ آپ کی تقریروں میں صرف اور صرف اصلاح ہی اصلاح ہوتی ہے۔ آپ کی خطابت کا اہم نکتہ یہ ہے کہ بعض اہم خطبا ایسا کہا کرتے ہیں کہ رفیق ملت سید نجیب حیدر میاں کے ایک ایک جملے پر ہم چاہیں تو ایک ایک گھنٹہ تقریر کرسکتے ہیں ۔  ذیل میں سید نجیب حیدر میاں قبلہ کے چند اقوال پیش کیے جارہے ہیں :
٭سنیت ہماری جڑہے ، سلسلے ہماری شاخیں ہیں ، سلسلوں کا جھگڑا ختم ہونا چاہیے، اپنے پیر سے محبت کرو، دوسرے پیر کی عزت کرو ، اپنی خانقاہ سے محبت کرو، دوسری خانقاہ کی عزت کرو۔
٭کسی سنی کی مخالفت مت کرو ، کام کرو بس کام کرو جو کام کررہے ہیں اُن کا ساتھ دو۔
٭مسلکِ اعلیٰ حضرت کے فروغ کے لیے کام کرنے والی تمام سنی تنظیموں کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر کام کریں۔
٭ کسی سنی کی مخالفت نہ کرو، برکاتیت کے مشن کو فروغ دو ، ہر سنی ہمارا ہے۔
٭مذہب و مسلک کے معاملات میں کوئی سمجھوتہ نہ کل یہاں ہوا تھا نہ مستقبل میں ہوگا ، ہم اپنی چادر اور پاؤں دونوں نظر میں رکھتے ہیں اتنا ہی کام اور ذمہ داری لیتے ہیں جس کو نبھا سکیں ۔
٭جماعت کی شیرازہ بندی ہر فرد پر واجب ہے۔ یہ احساس قوم کے ہر فرد کے اندر کیسے پیداہو؟ یہ ذمہ داری قیادت کی ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ ہم اس پُر آشوب دور میں ملت اور بالخصوص جماعت کے شیرازے کو بکھرنے نہ دیں ۔ یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم کچھ سبق اپنے روشن ماضی سے حاصل کریں۔
٭ہماری کوشش رہتی ہے کہ ہم اپنے چاہنے والوں سے غلط فہمی اوردوریوں کو کم کریں۔ مارہرہ والوں کو اقتدار سے ہمیشہ بیزاری رہی ہے اور آج بھی ہمیں قیادے و سیادت کا شوق نہیں ۔ اگر کسی کو ہم اچھے لگیں ہمارے کام پسند آتے ہیں تو ہمارے قریب آئے۔ کسی بھی قسم کی خرید و فروخت سے ہمارا تعلق نہیں ہے۔ ہم کو کسی سیاست حاضرہ میں دلچسپی نہیں۔ مریدوں کی تعداد بڑھانے کا شوق نہیں ، اگر کسی میں کوئی کمی ہے تو ہماراماننا ہے کہ اسے قریب کرو اور اصلاح کرو، نہ کہ اسے تن سے الگ کرو اس سے جماعت کو ماضی میں بھی بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے اور مستقبل میں بھی شیرازہ بکھرنے کا اندیشہ ہے۔
٭ہمارا تو بس ایک ہی خواب ہے کہ جیسے ماضی میں سب سر جوڑ کر اور دل جوڑ کر دین کی خدمت میں کمر بستہ تھے پھر ایک ہوجائیں ، خانقاہیں اوران کے ذمہ داران ایک ہوکر سوادِ اعظم اہل سنت کے دفاع کے لیے آگے آئیں ۔ آج جماعت اہل سنت کو سب سے بڑا خطرہ غیر مقلدین کے فرقہ باطلہ سے ہے۔ یہ ایک منظم جماعت بن کر جھوٹے دلائل گڑھ کر ایمان والوںکو بالخصوص نوجوانوں کو گمراہ کرنے میں بڑی تیزی کے ساتھ کام کررہے ہیں ۔ہمارے نوجوان فاضل علماے کرام ان کا مقابلہ کرنے کے لیے آگے آئیں اور قلم اُٹھائیں ۔ اپنے مطالعے اور مشاہدے کو وسعت دیںاورجم کر تحریر و تقریر کے ذریعے باطل کو شکست دیں ۔ اللہ مدد کرنے والا ہے۔
٭یہ بڑا المیہ ہے کہ ہم سوادِ اعظم ہوکر بھی فکری اور نظریاتی طور پر کہیں کہیں بہت جدا نظر آتے ہیں۔ مسلک ایک ، مشرب ایک ،عقیدہ ایک ، مرکزِ عقیدت ایک، لیکن پھر بھی اتنی دوریاں ! نفس کا ایسا غلبہ کہ ایک لمحہ بھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے ہم تیار نہیں ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے جو تحریری اور تقریری جنگیں ہماری صفوں میں جاری ہیں وہ اس جماعت کے فروغ کے لیے کہیں سے صحت مند علامتیں نہیں ہیں۔افسوس! کہ ان تمام اختلافات کی وجوہات بھی ایسی ہیں جو ہمیشہ مذہب میں صحت مند تصور کی گئی ہیں۔ اور وہ بھی فقہی اور فروعی معاملات و اختلافات جو ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے تحقیقات جاری رہیں گی تو نئی چیزیں ضرور نکل کر آئیں گی۔
٭مسائل شرعیہ میں صحت مند اختلافات مذہب اور مسلک کو تشفی پہنچانے کے لیے ہوتے ہیں نہ کہ اس کے ماننے والوں کے دلوں میں دوریاں بڑھانے کے لیے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ائمۂ مجتہدین اور اکابر فقیہ میں بہت سے مسائل پر اختلاف تھے یہاں تک کہ استاد شاگرد بھی ایک ہی مسئلے پر الگ الگ موقف رکھا کرتے تھے لیکن کہیں بھی ایسی نظیر نہیں ملتی کہ خدا نخواستہ ہمارے اکابر نے ایک دوسرے کی اہانت کی ہو یا شرعی حکم کی نوبت آئی ہو۔ حضراتِ مشائخِ مارہرہ سے سے حضرت تاج الفحول اور اعلیٰ حضرت قدس سرہما کی عقیدت مندانہ اور نیاز مندانہ وابستگی سے سبھی واقف ہیں ۔ ان حضرات کا موقف لعن یزید اور ایمانِ ابوطالب کے حوالے سے جدا تھا۔ تو کیا معاذ اللہ! یہ حضرات اپنے پیر خانے کے مشائخ کے باغی تھے؟ یا انھوں نے اس بات کو ببانگ دہل ظاہر کرتے ہوئے مشائخِ کرام پر انگشت نمائی کی ۔  یا انہوں نے اس بات کو ببانگ دہل ظاہر کرتے ہوئے مشائخ کرام پر انگشت نمائی کی۔ کبھی نہیں ہر گز نہیں۔ ایسے ہی میرے مرشد حضرت مفتی اعظم کا موقف مسلم لیگ کے حوالے سے مجدد برکاتیت اور ان کے اخلاف کے موافق نہ تھا، تو کیا حضرت مفتی اعظم ان کے چہیتے اور وہ مفتی اعظم کے مرکز عقیدت نہ رہے۔ علماے بدایوں کا بہت سے فروعی مسائل میں موقف اپنے پیر زادوں سے جدا گانہ تھا لیکن کبھی ایسا نہ ہوا کہ صاحبزادگان کی کوئی دل شکنی اس جانب سے ہوئی ہو بلکہ ہمیشہ نیاز مندی میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔
٭ہم پر اکابر کی پیروی لازم ہے کہ ان کے نقش قدم پر چل کر ایک دفعہ پھر جماعت سازی کا کام کریں۔ الحمد للہ تمام خانقاہیں اور پیران عظام اپنا ایک وسیع حلقۂ ارادت رکھتے ہیں۔ کسی کو کسی سے کوئی دنیاوی حاجت درکار نہیں ہے۔ پھر کون سی چیز ہے جو اضطراب کا باعث ہے۔ آج پوری ملت اسلامیہ اور جماعت اہل سنت جن مسائل سے دو چار ہے وہ کوئی مخفی امر نہیں۔ ہم سب اپنے اپنے حلقۂ ارادت کے افراد کی ذہن سازی کریں، ان میں مثبت سوچ پیدا کریں، ان کو دوسرے مشائخ اور علما کی توقیر اور تعظیم کی رغبت دلائیں اس سے مشائخ بھی ایک دوسرے کے قریب ہوںگے اور متوسلین بھی اور اس کا مثبت اثر یہ ہوگا کہ سواد اعظم متحد ہوگا۔ ہماری آواز مضبوط ہوگی ، حکومت کے ایوانوں میں ہمارا وزن بڑھے گا اور جب جب بھی ملت کے مسائل پر کوئی بات کی جائے گی تو ہماری حصہ داری اور ہمارے موقف کو کلیدی حیثیت حاصل ہوگی۔
٭خانقاہ برکاتیہ تمام علما کرام اور مشائخ عظام سے یہ اپیل کرتی ہے کہ ہم سب ایک ایسا موقع نکالیں کہ سر جوڑ کر بیٹھ جائیں اور جو بھی فروعی ہلکے پھلکے اختلافات یا نظریاتی الجھنیں ہیں ان کو رفع کریں۔ ہم اس کام میں پہل کرنے کو کل بھی تیار تھے اور آج بھی۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب کے طفیل ہم سب کو اس بحران سے خود کو نکالنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
٭آزادی کے بعد سے ہندوستانی مسلمان ملک کی سیاست میں ہمیشہ مرکزی حیثیت کے حامل رہے ہیں۔ یہ بڑے غور کرنے کی بات ہے موجودہ دور میں مسلمانان ہند کو سیاست اور سیاسی معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں اور اس کے برعکس سیاست کو ہم میں بہت دلچسپی ہے۔ ہم بیچارے مسلمان قومی و صوبائی انتخابات کے نزدیک بہت ہی اہم تصور کئے جاتے ہیں۔ جب اور جہاں چاہیں سیاسی پارٹیاں ہمارا استحصال کرتی ہیں لیکن جب ہمارے سماجی ، تعلیمی، معاشی، معاشرتی، مفاد کی بات آتی ہے تب ہمیں نہ صرف نظر انداز کر دیا جاتا ہے بلکہ طرح طرح کی بے بنیاد باتیں ہم سے منسوب کر کے ہمیں متروک کردیا جاتا ہے۔ اور ان تمام چیزوں کی ذمہ داری ہمارے قائدین سے زیادہ ہمارے عوام کی ہے۔ ہم نے اپنا اچھا برا سوچنے کی ساری ذمہ داری دوسروں کو سونپ رکھی ہے۔ سیاسی لوگ جب چاہیں اور جہاں چاہیں ہمارا اور ہمارے ووٹ کا استعمال کرلیتے ہیں اور اپنا ذاتی مفاد بحال کر کے ہمیں کوڑے دان میں ڈال دیتے ہیں اور ہم ان سب کا الزام قوم کی قسمت پر رکھ دیتے ہیں اور پھر اگلی بار اس سانحے سے دو چار ہونے کی تیاری شروع کردیتے ہیں۔ خانقاہ برکاتیہ کی اپیل ہے  علما، مشائخ، اور بالخصوص ائمۂ مساجدسے کہ اس طرف سنجیدگی سے سوچیں، قوم کے خطیب لوگوں کے درمیان جاکر انہیں بیدار کریں کہ ابھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا ہے۔ خدارا خود کی اہمیت کو پہچان کر فیصلے لیں اور ایسے فیصلے لیں جو نہ صرف حال میں مفید ہوں بلکہ مستقبل میں آنے والی نسل کے لئے مشعل راہ ہوں۔ ہمیں اپنی حصے داری کے لئے جائز مطالبات کرنے کے لئے کسی سے دبنے اور ڈرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ ملک کے فلاح و بقا میں ہمارا کردار ہمیشہ مثبت رہا ہے۔ لہٰذا ملک کی ہر چیز پر ہمارا حق بھی برابر ہے۔ حکومت اور سیاست میں ہمیں اپنی حصہ داری کو طے کرنا لازمی ہے۔
٭اہل سنت و جماعت کے مسائل و امکانات ہی آج کے دور میں حساس ذہنوں کے لیے ایک اہم موضوع ہے ۔ اول الذکر کی تعداد تو بہت ہے۔ اور مؤخرالذکر کے بروے کار ہونے کی امیدیں بہت کم ۔ اور ان سے آگاہی ہوتے ہوئے بھی ہماری توجہ اس سے بھی کم ہے ۔ لیکن ہمیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ہی ہوگا۔
٭اخلاق لفظ دیکھنے میں بہت چھوٹا ہے ، لیکن اس کا’ الف‘ انکساری کا ہے، ’خ ‘خاطرداری کی ہے ، ’لام‘ لاچاروں کی مددکی ہے، دوسرا ’الف‘ انسانیت کا ہے اور ’ق‘ قناعت کی ہے ۔ انکساری ہو، خاطر داری ہو ، لاچاروں کی مدد ہو، انسانیت ہو اور قناعت ہو تو ہمارے اندر اخلاق ہے۔ اخلاق سے ہم بہت دور ہیں ، آپ بہت دور ہیں۔ اخلاق کی بنیاد نہ ہم پیروں کے پاس رہی نہ اوروں کے پاس رہی۔ ہم سلاسل کی لڑائی میں پڑ کر اخلاق سے دور ہوتے جارہے ہیں ۔ ایک دوسرے سے کٹتے جارہے ہیں۔
٭’’آدھی روٹی کھاؤ بچوں کو پڑھاؤ‘‘ کا نعرہ صرف لگانے کے لیے خانقاہ کی طرف سے نہ دیا گیا بلکہ ہم کوشش بھی کرتے ہیں ہماری قوم کے بچے پڑھیں لکھیں اور حلال رزق کھائیں۔
٭ ہمارا سیاسی شعور بھی بیدار رہے بلکہ صاف ستھری سیاست کے منظر نامے پر ہماری نظر بھی رہے۔٭خانقاہوں اور درگاہوںمیں اب کچھ ایسا نظام دیکھنے میں آنے لگا ہے جو نہ مشائخ کی تعلیمات سے میل کھاتا ہے اور نہ ہی تصوف سے اس کا کوئی بہت کچھ لینا دیناہے۔ حالاں کہ خانقاہیں تو سلوک و معرفت کی آماج گاہ تصور کی جاتی تھیں ، لوگ زنگ آلود دل لے کر آتے اور صیقل کرواکر لے جاتے۔ زیادہ تر تعلیم و تربیت شیخ کے اقوال و افعال اور ان کے طور طریقے ، طرزِ زندگی و بندگی ہوجایا کرتی تھی۔ لیکن جب خانقاہیت اور نام نہاد درگاہیت آپس میں ایک دوسرے سے خلط ملط ہوئیں تب سے دونوں کے تشخص پر سوالیہ نشان اغیار کے خیموں سے لگنے لگے…خانقاہوں کے معیار میں چار چاند لگاناخانقاہ والوں کی ذمہ داری ہے، خانقاہ میں آنے والوں کی نہیں۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ اہل خانقاہ اپنا محاسبہ کریں کہ ہم خانقاہوں سے تصوف کے پیغام کو کتنا عام کررہے ہیں۔
٭اکیسویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج ہمارے لیے تعلیم ہے۔ علما، مشائخ اور دانشوران اہل سنت تعلیم کی افادیت کو عام کرنے کے لیے امت مسلمہ میں تبلیغ کریں تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارے تمام مسائل بخوبی حل ہو جائیں گے، ہماری نئی نسل کار آمد ہو جائے گی۔ ہمارے وہ بچے جو ایک اچھا ذہن رکھتے ہیں وہ پڑھ لکھ کر برسر روز گار ہو کر ملت کا فخر بنیں گے۔ ہم اپنے متمول احباب سے گزارش کریں گے کہ کم از کم اپنے ایک بچے کو علوم دین کی تحصیل کے لئے وقف کریں۔ اچھے گھروں کے ذہین بچے جب عالم، مفتی اور فقیہ ہوں گے تو اس کا نتیجہ ہی دوسرا ہوگا۔ ہم اپنے صاحب ثروت احباب کو ترغیب دیں بلکہ متحرک کریں کہ وہ حضرات قوم کے نوجوانوں کے لیے Commuinity Collegeکھولیں۔ تاکہ وہاں سے وہ نوجوان روز گار کو جلد میسر کرانے والے پروفیشنل کورسز کرسکیں اور بیکاری سے نجات پا سکیں۔ ایسے ہی لڑکیوں کے لئے کچھ ایسے ادارے کھولیں جن سے وہ کچھ ہنر سیکھ کر اپنے مستقبل کو روشن کر سکیں۔
٭خانقاہ برکاتیہ کا جو مشن ہے تعلیم کو بڑھانا اس پر عمل پیرا رہیں ۔ صاحب استطاعت حضرات اپنے اپنے شہروں ، قصبوں میں اسکول اور مدارس کھولیں اور ۲۱؍ ویں صدی کے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں ۔ علم ہی فقط ایسا ہتھیار ہے جو اغیار کے خیموں میں تلاطم پیدا کرسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اورہماری نسلوں کو علم نافع عطا فرمائے ۔
٭وہ تمام طریقے مثبت انداز سے اپنائیں جن سے اطاعتِ خداوندی ، تعظیم و حبِ رسول اور محبت اولیا اللہ کا جذبہ پوری توانائی کے ساتھ بیدار رہیں۔
٭ اپنے بچے اوربچیوں کو وسعت بھر دینی اور عربی تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔ اپنے قرب و جوار میں چھوٹے بڑے تعلیمی ادارے قائم کریں اور حتی الوسع تعلیمی معاملات میں تعاون کریں۔
٭ مقامی طور پر روزگار کے وسائل حاصل کریں ۔ ضلع کی سطح پر پڑھے لکھے اصحاب کی ایسی جماعت بنائیں جو سرکاری ، نیم سرکاری اور غیر سرکاری روزگار، ملازمتوں کی اسامیوں / مواقع کے بارے میں جانکاری حاصل کرے عوامی سطرح پر واقف کراسکیں ۔ بچوں کو مقابلے کے امتحانات کے لیے تیار کریں۔
٭ اپنے بچوں بچیوں کو حتی الوسع اردو اتنی ضرور پڑھائیں کہ وہ صحیح اردو لکھ پرھ اور بول سکیں۔ اگر مقامی اسکولوں میں اردو تدریس کا انتظام نہیں ہے تو عوامی نمایندوں کے ذریعے ، وفود کے ذریعے اس کے لیے بھرپور کوشش کریں لیکن جب تک اسکول میں انتظام ہو تب تک بچوں کو اس نعمت سے محروم نہ رکھیں ۔ کوشش کرکے خود پڑھائیں یا ٹیوشن کے ذریعے اردو کی تعلیم جاری رکھیں۔
٭شادی بیاہ کے انعقاد میں بے جااسراف سے بچیں۔ جہیز ہرگز ہرگز نہ مانگیں۔ اپنے دو بازوؤں کی حلال کمائی اس بھیک سے ہزار درجہ بہتر ہے۔
٭حقوق اللہ کے ساتھ بندوں کے حقوق بھی پورے کریں۔ ماں باپ کی تعظیم اور خدمت کریں۔ طبقۂ اناث کو عمومًا اور ماؤں بہنوں ، بیویوں اور بیٹیوں کو خصوصًا بھرپور عزت اور ان کا حق دیں۔
٭وقت انسان کی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے اور رب العزت کی عظیم نعمت بھی اور پھر نعمت بھی ایسی عام ہے کہ شاہ و گدا، عالم و جاہل ، کمزور و طاقت ور اور چھوٹے بڑے سب کو عطا ہوئی ہے۔
٭ وقت بہت قیمتی چیز ہے اور وقت کو ضائع کرنا بہت بڑی بے وقوفی ہے اور اس کی پابندی اور صحیح استعمال دنیا میں ہر کامیابی کا پہلا زینہ ہے ۔
٭وقت بلاشبہ ایک ایسا عطیہ ہے جو انسان کو بنا بھی سکتا ہے اور بگاڑ بھی سکتا ہے۔ اس کی اہمیت کا جسے احساس ہوتا ہے خوش قسمتی اُس کا دروازہ ضرور کھٹ کھٹاتی ہے ۔
٭وقت ایک بہتا دریا ہے جس طرح دریا کی گذری ہوئی لہریں واپس نہیں ہوسکتیں اُسی طرح گیاہوا وقت بھی دوبارہ کبھی ہاتھ نہیں آسکتا۔
٭وقت کے ساتھ جو قومیں دوستی رچاتی ہیں اور اپنی زندگی کی شام و سحر کو وقت کا پابند کرلیتی ہیں۔ وہ ستاروں پر کمندیں ڈال سکتی ہیں ، صحراؤں کو گلشن میں تبدیل کرسکتی ہیںاور زمانہ کی قیادت سنبھال سکتی ہیں ۔
٭وقت کا بہتر اور صحیح استعمال کرنے والے ہی خسارے سے دور ہیں ۔ یہ لاکھ کوششوں سے بھی دوبارہ حاصل نہیں ہوسکتا ، جومل گیا سو مل گیا۔ آیندہ وقت ملنے کی امید رکھنا دھوکہ ہے ۔
٭ایک گھنٹہ روزانہ حصولِ علم کے لیے وقف کرلیں تو دس سال میں کافی معلومات حاصل ہوجائیں گی ۔
٭ ایک گھنٹہ روزانہ ایک کتاب کے دس صفحات کا مطالعہ کریں تو سال بھر میں3650صفحات پڑھ سکتے ہیں ۔
٭ ایک گھنٹہ ہر تعلیم یافتہ فرد اپنے سماج کے غیر تعلیم یافتہ افراد کے لیے وقت کرے تا کہ قوم و ملت کی صحیح خدمت ہوسکے ۔
٭ جادو سیکھنا اور اُس پر عمل کرنا کفر ہے ۔ بشرط یہ کہ اس جادو میں ایمان و اسلام کے خلاف کلمات اور افعال ہوں۔
٭ کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنے والوں کے لیے حدیث مبارکہ کافی ہے ۔ اگر وہ ہدایت چاہیں سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ جس نے ایک بالشت زمین ظلمًا لے لی تو قیامت کے دن ساتوں زمینوں سے اُسے اُتنا حصہ طوق بناکر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ مزید ایک جگہ ارشادِ آقا صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جو شخص دوسرے کا مال ناجائز طور پر لے لے گاقیامت کے دن کوڑھی ہوکر خدا سے ملے گا۔
مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق حضور رفیق ملت دام ظلہٗ العالی کے بے شمار انقلاب آفریں اقوال میں سے چند نمایاں اقوال ہی کو اس مختصر سے مضمون میں پیش کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں ان اقوال پر عمل کرنے کی توفیق بخشے ۔ آمین ! 22 اپریل کواسکول نمبر 14 گراؤنڈ میں منعقد ہونے والے عظیم الشان ’’جشن ساداتِ مارہرہ مطہرہ‘‘ میں آپ کی مالیگاؤں آمد پربزم قاسمی برکاتی مالیگاؤں ،محبان خاندان برکات اور اہلیان مالیگاؤں کی جانب سے شاندار استقبال کیا جاتا ہے۔

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg 

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpg

  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں