حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا دل و جان
سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صدقے اور واری جاتی تھیں۔آپ ﷺ کو اگر
کوئی ایذا پہنچانے کی کوشش کرتا تو آپ اس کا جواب دیتیں ۔ اسلام کی تبلیغ
و اشاعت کو دیکھ کر دشمنانِ اسلام کے دلوں پر سانپ رینگنے لگے تھے۔ اسلام
سے دشمنی اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش ابتدا ہی سے یہودیوں کی
عادت بل کہ فطرت رہی ہے۔
اسی فطرت کے مطابق ایک دفعہ چند یہودی نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں آئے اور اپنی ازلی خباثت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ :’’ السام
علیک‘‘ یعنی تم پر موت ہو۔ اتفاق سے اس موقع پر نبیِ کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کی جاں نثار اورو فا شعارہم مسلمانوں کی مقد س ماں حضرت عائشہ صدیقہ
رضی اللہ عنہابھی موجود تھیں اور وہ اُن یہودیوں کی بات سُن رہی تھیں وہ
سمجھ گئیں کہ ’’السام علیک‘‘ سے اُن یہودیوں کی کیا مراد ہے ؟ اور اس کے
کیا معنی ہیں ؟ چناں چہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکو سخت طیش آگیا
انھوں نے ان کے جواب میں کہا کہ ’’ اَلسَّامُ عَلَیْکُم لَعْنَکُمُ اللّٰہُ
وَ غَضِبَ عَلَیْکُم‘‘ یعنی تم پر موت ہو اورتم پر خدا کی لعنت ہو اور خدا
کا غضب ٹوٹے۔‘‘
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سُن کر فرمایا:’’ اے عائشہ سخت کلامی
نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ نرمی کو پسند فرماتا ہے۔ ‘‘اور فرمایا :’’کیا تم نے
سنانہیں مَیں نے کیا جواب دیا ؟، ’’وعلیکم‘‘ کہہ کر مَیں نے ان کی بات ان
پر ہی لوٹا دی ہے ۔ اب اللہ تعالیٰ میری بددعا اُن کے حق میں قبول فرمالے
گا اور ان کی یہ بددعا میرے حق میں قبول نہ ہوگی۔ ( بخاری و مسلم شریف)
|
|
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں