ذکر الٰہی کی بہاریں
از:عرفان رضا برکاتی مصباحی مالیگاؤں
الحمد لله، والصلاه والسلام على رسول الله، صلى الله عليه وعلى آله وصحبه وسلم، وبعد:
ذکر رب العالمین نعمة كبرى اورعطائے عظمى ہے. اس کے ذریعے نعمتوں کا حصول ہوتا ہےاور بلاؤں وباؤں سے حفاظت کا سامان ہوتا ہے..ذکر الہی دلوں کی روحانی غذا، آنکھوں کی ٹھنڈک اور سرور نفس،روح حيات اورحيات الأرواح ہے، بندۂ مومن جس چیزکاسب سے زیادہ محتاج ہےاورجو اس کی سب سے بڑی ضرورت کہی جائےوہ یہی ذکر رب ہے، کیونکہ بندۂ مومن کسی بھی حال میں اس سے بے نیاز نہیں رہ سکتا، تو جب ذکر الہی کا یہ بلند وبالا مقام ہے تو ہمیں اس کی "فضلیت، اس کی قسموں اور فوائد سے واقفیت بہت ضروری ہےاس دورِ مادیت میں ہمارے احوالِ زندگی میں خواہ عامۃالناس ہوں یا بظاہر خواص ہر کوئی افراتفری کا شکار نظر آتے ہیں ۔ہماری روحیں بیمار اور دل زنگ آلود ہو چکے ہیں۔ہمارے باطن کی دنیا کو حرص و ہوس،بغض و عناد ،کینہ و حسد ،فخر و مباہات ،عیش و عشرت و سہل پسندی ،خود غرضی و مفاد پرستی اور انا پرستی و دنیا پر ستی کی آلائشوں نے آلودہ کر رکھا ہے، اس بگاڑ کو درست کرنے ،بیمار روحوں کو شفاء کامل،آئینہ دل کو شفاف کرنے ،قلب و باطن کو نور ایمان سے منور کرنے ،احوالِ حیات کو روحانی انقلاب کی مہک سے معمور کرنے اور محبو ب حقیقی سے ٹوٹے ہوئے تعلق کو دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت ناگزیر ہے اور اس کا واحد ذریعہ ذکر الہٰی ہے ۔ذكر رب جلاءبصائرونور السرائر ہے
ذکر رب سےرحمت الہی کا حصول اوربركات وانوار کا نزول ہوتا ہے،
(حديث قدسي) أَبُو عُبَيْدَةَ ، قَالَ : بَلَغَنِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " تَضَرَّعُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَادْعُوهُ فِي الرَّخَاءِ ، فَإِنَّ اللَّهَ قَالَ : مَنْ دَعَانِي فِي الرَّخَاءِ أَجَبْتُهُ فِي الشِّدَّةِ ، وَمَنْ سَأَلَنِي أَعْطَيْتُهُ ، وَمَنْ تَوَاضَعَ لِي رَفَعْتُهُ ، وَمَنْ تَضَرَّعَ إِلَيَّ رَحِمْتُهُ ، وَمَنِ اسْتَغْفَرَنِي غَفَرْتُ لَهُ "( مسند الربيع بن حبيب » بَابُ أَدَبِ الدُّعَاءِ وَفَضِيلَتِهِ، رقم الحديث: 482)
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ مجھ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث پہنچی،فرمایا:«اپنے مالک کی بارگاہ میں گریہ وزاری کرتے رہو اور آسانی وراحت میں اسے یاد کرتے رہو کیونکہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:جس نے راحت و آسانی میں مجھ سے دعا کی میں شدت وبلاء میں بھی اس کی پکار کاجواب دوں گا،اورجو مجھ سے مانگے گا اسے عطا کروں گاجو میری خاطر تواضع وانکساریاختیار کرے گا اسے سربلندی عطا کروں گا، اور ج میری بارگاہ میں گریہ وزاری کرے گااس پر رحم کروں گا، اورجو مجھ سے مغفرت چاہے گااس کی مغفرت کروں گا،
اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے سے دل ،چین واطمینان و سکون حاصل کرتا ہے۔ ۔ ﷲ تعالیٰ نے فرمادیا ہے کہ جب تم مجھے یاد کروگے میں تمھیں یاد کروں گا اور ﷲ تعالیٰ نے اپنے ذکرکو ہی مؤمنین کے دلوں کا اطمینان و سکون قرار دیا ہے۔ ذکر کرنے والوں کے لیےﷲ تعالیٰ نے مغفرت و بخشش اور اجرِ عظیم کا اعلان فرمایا ہے
قرآن مجید میں رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللَّهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ(الرعد، 28)
’’جو لوگ ایمان لائے، ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں، یاد رکھو! اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔‘‘
ذاکرین ،ذکر الہی کی لذت اس کے عشق ومحبت کی جلوہ نمائیوں سے شادکام رہتے ہیں وہ لوگ بہت ہی مبارک ہیں جو اس مقام فرحت اثر پر فائز ہیں کیونکہ ذکر متقیوں اور صاحب اتقان کےلیے باعث فرحت ومسرت ہے ،تمام روحانی او ر اخلاقی بیماریوں کا علاج جن کا تعلق دل سے ہے ذکر الہٰی میں مضمر ہے اسی لیے ذکر الہٰی کوبیمار دلوں کی شفا قرار دیا گیا ہے
قال أبو الدرداء رضي الله عنه: (إن لكل شيء جلاء, وإن جلاء القلوب ذكر الله عز وجل،(بيهقي،1/396)
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ” ہر چیز کو چمکانے کیلئے کوئی نہ کوئی چیز ہوتی ہے لیکن دلوں کو ذکر الٰہی سے ہی چمکایا جا سکتا ہے ۔ “
۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :ذِکرُ اللّٰہِ شِفَاءُ القُلُوبِ ۔”اللہ کا ذکر دلوں کی شفاءہے ۔“(مناوی ،فیض القدیر)
ذکرالٰہی کے متعلق ﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:
’’فَاذْکُرُوْنِیْ أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَ لَاْ تکْفُرُوْنَ‘‘(البقرہ: ۱۵۲)
ترجمہ: تم مجھے یاد کرو میں تمھارا چرچاکروں گا اور تم میرا شکر کرو ، میری ناشکری نہ کرو۔
ایک اور آیت میں ہے:
’’یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اذْکُرُوْا اللّٰہَ ذِکْراً کَثِیْراً‘‘ (الاحزاب: ۴۱)
ترجمہ: اے ایمان والو!ﷲ تعالیٰ کا بہت زیادہ ذکر کیا کرو۔
محبوب حقیقی رب تعالیٰ کا ذکر کرنا بہت فضیلت والا عمل ہے۔ ایک انسان کے لیے اس سے بڑھ کر فرحت و انبساط کا مقام کیا ہو گا کہ خود اس کاخالق ومالک اپنے ملائکہ میں اس کا چرچا کرےاور اس کی شان تو دیکھو جس مجلس میں بندہ ذکر کرتا ہے وہ کمتر ہے کیونکہ زمین پر یہ اجتماع ہم جیسے گنہگاروں کا ہے جبکہ عرش پر منعقد ہونے والا مجمع ذکر ملائکہ کاہوتا ہے اور وہ بلند تر ہوتا ہے۔اور یہ ذکر کبھی ختم نہیں ہوگا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی( حدیث قدسی )میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :
اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ وَ أنَا مَعَه إِذَا ذَکَرَنِيْ فَإِنْ ذَکَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَکَرْتُه فِی نَفْسِي، وَ إِنْ ذَکَرَنِی فِي مَلَاءٍ ذَکَرْتُهُ فِی مَلَاءٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَ إِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعاً، وَ إِنْ تَقَرَّبْ إِلَيَّ ذِرَاعًا تُقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا وَ إِنْ أتَانِيْ يَمْشِيْ أتَيْتُهُ هَرْوَلَةً.(بخاری،ح 6970.مسلم، ح2675)
’’میں اپنے بندے کےگمان کے مطابق اس سے معاملہ کرتا ہوں جب مجھے یاد کرتا(میرا ذکر کرتا) ہے میں علم کے لحاظ سے اس کے پاس ہوتا ہوں پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے اپنے دل (تنہائ میں) میں یاد کرتا ہوں اگر وہ مجھے کسی مجمع کے اندر یاد کرے تو میں اسے اس سے بہتر مجمع کے اندر یاد کرتا(اس کا چرچاکرتا)ہوں اور اگر وہ بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ کے برابر اس کے قریب ہوجاتا ہوں، اگر وہ ایک ہاتھ کے برابر میرے نزدیک آئے تو میں دونوں بازؤں(بانہوں)کے برابر اس کے نزدیک ہوجاتا ہوں، اگر وہ چل کر میری طرف آئے تو میں(رحمت الہی) دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔‘‘
عن عبد الله بن بسر (رضى الله عنه) أن رجلا قال: يا رسول الله إن شرائع الإسلام قد كثرت على فأخبرنى بشئ أتشبث به قال: ( لا يزال لسانك رطبا من ذكر الله ) [ ترمذى،5/ح3375،حاكم،1/495 ،ابن ماجہ ص277 مسند احمد ص188 ج4 )
حضرت عبداللہ بن بسر رضیﷲ عنہما سے روایت ہیکہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ اسلام کے احکام کی مجھ پر کثرت ہو چکی ہے ( یعنی اسلام کے شرعی احکامات بہت زیادہ ہیں)، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ( آسان سی ) عمل بتائیں، جسے میں انہماک سے کرتا رہوں۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :تمھاری زبان ذکرِ الٰہی سے ہمیشہ تر رہنی چاہئے۔
حضور غوث الاعظم سیدنا عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ نے وعظ کے مجمع میں لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ذکر کا مفہوم بیان فرماتے ہیں:”اے سننے والو! تم اپنے اور خدا کے درمیان ذکر سے دروازہ کھول لو ،مردانِ خدا ہمیشہ اللہ کا ذکر کرتے ہیں یہاں تک کہ ذکر الہٰی ان سے ان کے بوجھ کو دور کر دیتا ہے ۔“ (الفتح الربانی والفیض الرحمانی ص،41)
لہذا جو شخص ہر حال میں ذکر کرتا رہتاہے تو اللہ تعالی اسے دونوں جہانوں میں کامیاب فرمائے گا، اور جس قدر ذکر الہی میں کمی ہوگی اتنی ہی مقدار میں خیر سے محروم رہے گا۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
{وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِليِنَ[الأعراف : 205]
اپنے پروردگار کو صبح و شام دل ہی دل میں عاجزی، خوف کے ساتھ نیز زبان سے ہلکی آواز کیساتھ یاد کرو اور غافل لوگوں سے نہ ہو جاؤ ۔
ذکر الہٰی افضل ترین عبادت ہے کیونکہ یہ تمام عبادات کی اصل اور روح ہے ۔ورنہ تو عباداتیں بے کیف و سرور اور بے معنی و بے مقصد ہو کر رہ جائیں اسی لیےحدیث مبارکہ میں مروی ہیکہ انسان کے بہترین اعمال میں سے ذکر الہٰی سب سے افضل و اعلیٰ ہے
وعن أبى الدرداء (رضى الله عنه) قال: قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم): ( هل أنبئكم بخير أعمالكم وأزكاها عند مليككم وأرفعها فى درجاتكم وخير لكم من إنفاق الذهب والورق خير لكم من أن تلقوا عدوكم فتضربوا أعناقهم ويضربوا أعناقكم! قالوا: بلى. قال: ذكر الله تعالى(ترمذى،5/ح3377،حاكم،1/496ابن ماجة (2/ح3790،أحمد،5/195)
حضور اکرم ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا :”کیا میں تمہیں تمہارے بہترین اعمال (میں سب سے بہتر عمل) کی خبر نہ دوں جو تمہارے رب کے نزدیک مقبول تر ہو اور تمہارے درجات کو سب سے زیادہ بلند کرنے والا ہو اور وہ عمل تمہارے لئے سونا چاندی اللہ کی راہ میں خیرات کرنے سے بھی بہتر ہو ،اور تمہارے لئے اس سے بھی بہتر ہو کہ اپنے دشمنوں کے مقابلے میں جہاد کے لئے آﺅ پس تم ان کی گردنیں اتارو اور وہ تمہاری گردنیں ماریں۔صحابہ نے عرض کیا کیوں نہیں (یا رسول اللہ ﷺ ضرور ایسا عمل بتائیے) تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:ذِکرُ اللّٰہِ تَعَالیٰ (ایسا عظیم عمل) اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے ۔
اہل ایمان اہل محبت کی تو نشانی ہی ذکر الہی کی کثرت اورسب سے زیادہ محبت رب تعالٰی بتائی گئی ہےجس کو بھی محبت الہٰی کے اس بحر بیکراں سے کوئی قطرہ نصیب ہو جائے اس کی نظر میں پوری دنیا کی نعمتیں ہیچ ،بے اثر اور بے وقعت ہو جاتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ اپنے محبین کی بنیادی شرط بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے ۔وَالَّذِینَ اٰمَنُوا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ ۔(البقرہ ،165)
”اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر ) اللہ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں ۔“
اور یہ اعرف المعارف ہیکہ صرف اس ذات کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے جس سے شدید محبت ہو ۔ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:مَن اَحَبَّ شَیاً اَکثَرَ مِن ذِکرَہ۔“(کنز العمال جلد1صفحہ525)
”انسان کو جس چیز سے محبت ہوتی ہے وہ اس کا ذکر بڑی کثرت سے کرتا ہے ،
اسی لیے ہم نبی پاک کے معمول کو ملاحظہ کریں تو حضور رب تعالی کا ذکر ہر لمحہ کرتے نظر آتے ہیں
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:
"کَانَ النَّبِیُّ ﷺ یَذکُرُو اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ اَحیَانِہِ ۔(مسلم ج،1ص،282)
”حضور نبی اکرم ﷺ ہر وقت ذکرِ الہٰی میں مشغول رہتے تھے۔(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکرکرتے) “
اور محبت الہی کے دعوے داروں کو حضور پیغام عمل دیتے ہیں کہ ذکر الہی میں شمار وقطار کی منزلوں کو ترک کردو اوروجد و غلبہ کی راہوں کے مسافر بن جاؤ
حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"اَکثَرُوا ذِکرَ اللّٰہِ حَتّٰی یَقُولُو ا مَجنُون۔(احمد3/71،حاکم، ۱/۴۹۹)
”اللہ کا ذکر اتنی کثرت سے کیا کرو کہ لوگ تمہیں مجنون کہنے لگیں۔“
کثرت سے ذکر کرنے والے لوگ ثواب کے حاصل کرنے میں سب لوگوں پر سبقت لے جاتے ہیں۔
عن أبى هريرة (رضى الله عنه) قال: قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) : ( سبق المفردون قالوا : وما المفردون يا رسول الله؟ قال: الذاكرين الله كثيرا والذاكرات، [ مسلم، ح4/2062]
امام مسلم حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(مفرد) سبقت لے گئے۔ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! (مُفَرد) سے کیا مراد ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں۔‘‘
قران پاک میں بھی ان کےلیے مغفرت الہی اور اجر عظیم کا وعدہ ہے اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
{ وَالذَّاكِرِينَ اللہ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللہ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا}[الأحزاب : 35]
اور اللہ تعالی کا کثرت کیساتھ ذکر کرنے والے مرد اور خواتین کیلئے اللہ تعالی نے بخشش و عظیم اجر تیار کیا ہوا ہے
اہل ایمان کو اس عمل خیر کی طرف رغبت دلائی گئی ہے اور اس کےلیے انھیں مومن کے لقب سے پکارا گیا ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
’’یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اذْکُرُوْا اللّٰہَ ذِکْراً کَثِیْراً‘‘ (الاحزاب: ۴۱)
ترجمہ: اے ایمان والو!ﷲ تعالیٰ کا بہت زیادہ ذکر کیا کرو
اسی لیے جب بھی موقع ملے، فارغ اوقات میں ہمیں اللہ تعالی سے لو لگانی چاہئیے ۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا :
فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ°وَإِلَىٰ رَبِّكَ فَارْغَبْ (الشرح ، 7,8 )
پس جب تم فارغ ہو تو عبادت میں محنت کرواور اپنے پروردگار ہی کی طرف دل لگاو
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے محبوبین کو ذکر کرنے کے طریقے بھی سکھائے اور ذکر وشکر الہی پر اللہ سے مدد بھی مانگنے کا حکم دیا
عن معاذ بن جبل (رضى الله عنه) عن النبى (صلى الله عليه وسلم) أنه قال لى : ( يا معاذ: والله انى لأحبك أوصيك يا معاذ لا تدعن فى دبر كل صلاة أن تقول: اللهم أعنى على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك (أحمد وأبو داود نسائى وابن حبان ،حاكم )
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہیکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: بخدا میں تمھیں محبوب رکھتا ہوں اور تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ کسی بھی نماز کے بعد ( اللهم أعنى على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك (ترجمہ:الہی تیرے ذکر اور تیرے شکر اور تیری بہترین عبادت کرنے کےلیے میری مدد فرما)پڑھنا مت چھوڑنا،
ذکر الہی بندۂ مومن کےلیے مصائب سےچھٹکارےکاذریعہ ہےاور یہ تکالیف سے نجات دیتااور مصیبتوں میں راحت پہنچاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
{فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ ° لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ }(صافات،143/144)
اگر وہ [یونس علیہ السلام] تسبیحات بیان نہ کرتے، تو اس [مچھلی] کے پیٹ میں اس دن تک رہتے جب سب کو اٹھایا جاتا۔
ذکر الہی خزینۂ فردوس ہےاورکثیرمصیبتوں کو قبل از وقت ہی روک دیتا ہے
عن مكحول ، عن أبي هريرة ، قال : قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم : " أكثر من قول : لا حول ولا قوة إلا بالله ، فإنها من كنز الجنة "
- قال مكحول - : " فمن قال : لا حول ولا قوة إلا بالله ، ولا منجا من الله إلا إليه ، كشف عنه سبعين بابا من الضر أدناهن الفقر "
(ترمذي،2845، ابن ماجه،203/251،حاكم،1/ 517)
حضرت مکحول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ کثرت سے پڑھا کرو کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ہے، حضرت مکحول فرماتے ہیں: جس نے"لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ، لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنَ اللهِ إِلَّا إِلَيْهِ"(ترجمہ:نیکی کرنے کی طاقت، اور برائی سے بچنے کی ہمت اللہ بلند و برتر کے بغیر ممکن نہیں ہے، اور اللہ سے بچنے اور پناہ لینے کی جگہ اللہ کے سوا کہیں نہیں ہے) پڑھا، اس سےمصیبتوں کے ستر دروازے بند کر دیے جائیں گے، جس میں سب سے چھوٹا دروازہ پریشانی کا ہے)
اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت کے ساتھ کرنے سے انسان نفاق سے محفوظ رہتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت تھوڑا کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا(نساء، 142)
بے شک منافق اللہ سے چالبازیاں کر رہے ہیں اور وه انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے واﻻ ہےاور جب وہ (منافق) نماز کیلئے کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں، وہ صرف لوگوں کو (اپنی نماز) دکھاتے ہیں اور ذکر الٰہی تو یوں ہی سی برائے نام کرتے ہیں
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:(مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا لَمْ يَذْكُرُوا اللَّهَ فِيهِ وَلَمْ يُصَلُّوا عَلَى نَبِيِّهِمْ إِلَّا كَانَ عَلَيْهِمْ تِرَةً فَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُمْ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُمْ(ترمذي ح،3302، احمد ،246/2 )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
” جو لوگ اپنی مجلس میں اللہ کا ذکر نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے نبی ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) پر درود بھیجتے ہیں تو ایسی مجلس باعث حسرت اور نقصان دہ ہوتی ہیں ۔ اللہ اگر چاہے تو انہیں عذاب دے اور اگر چاہے تو معاف کر دے ۔
عن ابي هريرة رضي الله عنه قال، قال النبي صلي الله عليه وسلم(( ما مِنْ قَوْمٍ يَقُومُونَ مِنْ مَجْلسٍ لا يَذْكُرُونَ اللَّهَ تَعالى فِيهِ إِلاَّ قامُوا عَنْ مثْلِ جِيفَةِ حِمارٍ ( ابو داؤد ،۴۸۵۵، و احمد ،۳۸۹۲،حاکم،۴۹۲۱)
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فر مایا:جو لو گ کسی مجلس سے اللہ کا ذکر کیے بغیر اٹھ جاتے ہیں تو وہ ایسے ہیں جیسے کسی مردار گدھے کے پاس سے اٹھے ہوں .......
یہاں ایک نکتہ قابل غور آج کل ہمارے معاشرے میں چوک چوراہوں پر لوگ دوست واحباب کے ساتھ بیٹھتے ہیں اور نہ جانے کیا کچھ خرافات، غیبت، بد نگاہی کا صدور ہوتا ہے پھر یونہی اٹھ کر جس کی مرضی چل دیتا ہے زرا سوچیے یہ مجلسیں کس طرح ہمارے لیےعذاب کا باعث بن رہی ہیں لہذا حتی الامکان ایسی مجلسوں سے بچیں ورنہ ہر مجلس میں کچھ نہ کچھ ذکر الہی اور خیر وبھلائی کی باتیں ضرور کریں اس کی برکت سے رب تعالی مجلسوں کو خرافات سے بچا لے گا
عن أبی ہریر ۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : من جلس مجلسا کثر فیہ لغطۃ فقال قبل ان یقوم من مجلسہ ذلک ، سبحانک اللہم و بحمدک ، اشہد ان لا الہ الا انت ، استغفر ک و اتوب الیک ، الاغفرلہ ما کان فی مجلسہ ذلک ۔(ترمذی،سنن لا بی داؤد،۲/ ۱۸۱)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو کسی ایسی مجلس میں بیٹھا جس میں غلط سلط باتیں ہوتی رہیں تو مجلس ختم ہونے سے پہلے یہ دعا پڑ ھ لیا کرے ۔ سبحانک اللہم وبحمدک اشہد ان لا الہ الا انت،استغفرک و اتوب الیک ،تو اس مجلس کے سارے گناہ بخش دئے جائیں گے ۔
جبکہ وہ مجلسیں جہاں اللہ تعالی کا ذکر کیا جاتا وہ خیر وبھلائی ونعمتوں کے حصول اور رب تعالی کی رحمتوں کے نزول کا ذریعہ ثابت ہوتی ہیں
عن أبی ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : مامن قوم یذکرون اللہ الا حفت بہم الملائکۃ وغشیتہم الرحمۃو نزلت علیہم السکینۃ وذکر ہم اللہ فیمن عندہ(ترمذی،۲/۱۷۳ ،کنز العمال،۱/۴۲۴)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو لوگ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں انہیں ملائکہ گھیر لیتے ہیں اور رحمت الہی ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکینہ اور چین اترتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کی مجلس میں ان کا ذکرفرماتا ہے ۔
عن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم: اذا مررتم بریاض الجنۃ فارتعوا ، قالوا: یا رسول اللہ ! وما ریاض الجنۃ ؟
قال: حلق الزکر ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روا یت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب تم جنت کے باغات سے گزرو تو وہاں سے کچھ کھایا کرو ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے استفسار کیا جنت کے کونسے سے باغات ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:ذکرالٰہی کےحلقے ۔
اور اللہ تعالی نے تو ایسوں کی پیروی کرنے سے بھی بندوں کو منع کیا ہے جو ذکر سے غافل رہتے ہیں لہذا اپنے ہم نشین ذاکرین وشاکرین کی جماعت کو ہی اختیار کرناچاہیےقال تعالى:
وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُط [الكهف:28].
دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے
اللہ کے احکام اس کے ذکر کے غفلت اختیار کرنے والے لوگوں کا انجام تو کل قیامت میں بہت برا ہوگا اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
(وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى * قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرًا * قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَى) (طه/ 124-126).
اور (ہاں) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی، اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے، وه کہے گا کہ الٰہی! مجھے تو نے اندھا بنا کر کیوں اٹھایا؟ حاﻻنکہ میں تو دیکھتا بھالتا تھا(جواب ملے گا کہ) اسی طرح ہونا چاہئے تھا تو میری آئی ہوئی آیتوں کو بھول گیا تو آج تو بھی بھلا دیا جاتا ہے
اس تنگی سے بعض نے عذاب قبر اور بعض نے وہ قلق و اضطراب ، بے چینی اور بے کلی مراد لی ہے جس میں اللہ کی یاد سے غافل بڑے بڑے دولت مند مبتلا رہتے ہیں ۔ اس تنگ زندگی کی عذاب برزخ سے بھی تفسیر کی گئی ہے ۔ صحیح یہ ہے کہ دینوی معیشت کو بھی شامل ہے اور برزخی حالت کو بھی ۔ کیونکہ برزخی حالت میں انسان دنیا و برزخ دونوں جہان کی تکلیف برداشت کرتا ہے اور آخرت میں بھی عذاب میں ڈال کر فراموش کیا جائے گا،
اسے لیے دنیاوی تعلقات اتنے نہ بڑھا لیے جائیں کہ رب تعالی کی یاد میں ان کی سبب رکاوٹ آئے حتی کے آل اولاد کی محبت بھی تمھیں کہیں ذکر الہی سے غافل نہ کردے اس چیز کا بھی خیال اشد ضروری ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ(منافقون، 9)
اے مسلمانو! تمہارے مال اور تمہاری اوﻻد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں۔ اور جو ایسا کریں وه بڑے ہی زیاں کار لوگ ہیں
زندگی تو رب کی یاد کا نام ہے رب کی یاد سے غافل تو روح حیات سے خالی ہوتا ہے
وعن أبى موسى (رضى الله عنه) قال: قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) : ( مثل الذى يذكر ربه والذى لا يذكر به مثل الحى والميت،(بخارى،11/208 )
حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ذکر الہی میں مصروف اور بیزار شخص کی مثال زندہ اور مردہ شخص جیسی ہے،
رب کریم اپنے ذکر وفکر، کی دولت لازوال سے ہم جمیع مؤمنین کو نوازے اور ایسی ہی حیات کے ساتھ زندہ رکھے اور اسی پر خاتمہ بالخیر فرمائے.......آمين
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں