مصائب اردو
اہل سنت کی آواز جلد 24 صفرالمظفر 1439ھ/ نومبر 2017ء سے شرف ملت سید محمد اشرف کی تحریر:: معاملاتِ اردو:: سے چنداقتباس
"مصائبِ اردو " اردو والوں کے خوانِ مطالعہ پر پیش ہے۔خود پڑھیے اور دوستوں کو شئیر کیجیے :
انتخاب و پیش کش : مُشاہد رضوی ڈاٹ اِن ٹیم
-------------------------------
'حضرات ! مجالس میں پہلے فضائل بیان ہوتے ہیں ۔ پھر مصائب کا ذکر آتا ہے ۔ فضائل ہوچکے …اب مصائب سن لیجیے :
آج ہم اپنی پریشانیِ حالت اُن سے
کہنے جاتے تو ہیں اب دیکھیے کیا کہتے ہیں
… اور اس سے بھی پہلے یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اردو کو لشکر کی زبان نہ سمجھا جائے۔ اس سے بہت خلط مبحث پیداہوتا ہے ۔ چلتی ہوئی تلواریں ، گرتی ہوئی لاشیں ، تاراج ہوتی ہوئی عمارتیں ، جلتی ہوئی فصلیں ، بے آبرو ہوتی ہوئی عورتیں ، غلام بنتے ہوئے مرد… بھلا اردو کاان باتوں سے کوئی تعلق ہوسکتا ہے ؟ یہ تو اس تہذیب کی زبان ہے جس کے لیے میر انیس نے کہاتھا ؎
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
آج سے ڈھائی سو سال پہلے کا میر امن شہادت دیتا ہے کہ یہ زبان کس طرح مقرر ہوئی :
’’جب اکبر بادشاہ تخت پر بیٹھے تو چاروں طرف کے ملکوں سے سب قوم قدردانی اور فیض رسانی اس خاندانِ لاثانی کی سن کر حضور میں آکر جمع ہوئے لیکن ہر ایک کی گویائی اور بولی جدی جدی تھی۔ اکھٹے ہونے سے آپس میں لین دین ، سودا سلف ، سوال و جواب کرتے اور ایک زبان اردو مقرر ہوئی … جب حضرت شاہجہاں صاحب قراں نے قلعہ مبارک اور جامع مسجد اور شہر پناہ تعمیر کرایا اور شہر کو اپنا دارالخلافہ بنایا تو یہ شاہجہاں آباد کے نام سے مشہور ہوا… پھر اس کے بازار کو اردوے معلی کا خطاب دیا۔‘‘
ملاحظہ فرمائیے کہ میر امن شہر کے بازار کو اردو ے معلی کہہ رہے ہیں ۔ شہر پناہ کے باہر بسے ہوئی لشکری کیمپوں کو اردو ے معلی نہیں کہا جارہا ہے اوریہی بازار تھا جس کی ایک راہ دربارِ شہنشاہ تک جاتی تھی اور دوسری راہ صوفی کی خانقاہ تک … اردو زبان شاہی دربار، خانقاہ اور بازار میں بولی جانے والی زبان تھی ۔ نواحِ دہلی اور دہلی میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والی زبانِ اردو ان ہی تین اداروں کی مرہونِ منت تھی ۔ ہندو اور مسلمان سب کو ان تینوں اداروں میں یکساں رسائی حاصل تھی۔
آج کی تاریخ میں اردو کا مسئلہ بے حد پیچیدہ ہے ۔ میرے ذہن میں جس طرح اس کی پیچیدگی کی وجہیں صاف ہیں اسی طرح اس کی روشن مستقبل کا لائحۂ عمل بھی واضح ہے ۔ غالباً کہنے کی ضرورت نہیں کہ اردو کا روشن مستقبل ان تسامحات کے تدارک میں مضمر ہے جو خود اردو والوں سے سرزد ہوئے …اپنا احتساب اکثر بگڑے کام بنادیتا ہے ۔ دوسروں کو الزام دیتے رہنا کسی مسئلے کا حل نہیں ۔ اردو کے پیچیدہ مسئلے کو سمجھنے کے لیے ایک تمثیل شاید کارگر ہو۔ اس طرح ممکن ہوگا کہ ہم اردو کے پیچیدہ معاملے اور اردو کے مختلف مظاہر کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور صحیح پس منظر اور تناسب میں دیکھ سکیں۔
اردو ایک چھتنار ، مضبوط تنے والے درخت کی طرح ہے جس میں پھل اور پھول بھی ہیں اور پتّے بھی۔ اس کی جڑ بھی ہے لیکن جڑ نگاہوں سے پوشیدہ رہتی ہے ۔ اس درخت کی جٹ تعلیم و تدریس ہے … اس کا مضبوط تنا اردو تہذیب ہے جسے ہم گنگا جمنی تہذیب کہتے ہیں۔ اس کے خوش رنگ پھول اور پتّے دراصل ادب اور دیگر فنونِ لطیفہ ہیں ۔ اس کا پھل اردو سے وابستہ روزگار کے مسائل ہیں ۔ اس کی کھاد خود اردو والوں کی اردوسے محبت اور اردو کی ترقی و ترویج کی کوشش ہے ۔ جڑوں کو پانی دیا جانے والا پانی حکومت کی اردو سے رغبت اور سرپرستی ہے۔ اس درخت کے پھل ، پھول اور پتّے تبھی بہار دیں گے اور اس کا تنا تبھی استادہ رہ سکے گا جب اس کی جڑ میں مناسب مقدار میں کھاد اور پانی مستقل لگتا رہے۔ ادب اور فنونِ لطیفہ … یہ غزل کی شامیں، یہ مشاعروں کی راتیں ، یہ داستان سرائیاں ، یہ نقد و نظر کے بازار … اور گنگا جمنی تہذیب تبھی تک موجود ہے جب تک اردو کی تعلیم اور تدریس میں اردو والے اور حکومت کھاد اور پانی لگاتے رہیں ۔ مضبوط سلطنتیں ، بڑی تہذیبیں اور زندہ زبانیں آناً فاناً ختم نہیں ہوتیں ، مغلیہ سلطنت کو عروج پانے میں دیڑھ سو برس کا وقت لگا۔ اردو پر نظر ڈالیے تو بڑا دل خوش کن منظر نظر آتا ہے ۔ مشاعروں کے جلسے ، کہانیوں کی شامیں غزلوں کی راتیں ، سیمینار ، سمپوزیم ، فلموں اور سیریلوں اور فلمی گانوں میں اس کے الفاظ محاورے کا استعمال اور جانے کیا کیا …پھول ، پتّے اپنی اپنی بہار دے رہے ہیں اور پھل بھی نظر آرہے ہیں ۔ لیکن جڑوں کی طرف دیکھیے تو سوکھ کر تارِ عنکبوت بن گئی ہیں ۔ ساری طاقت ، تہذیب و ثقافت کے تنے میں جمع شدہ غذا اور نمی کو چوس کر حاصل کی جارہی ہے۔ مگر تابکے۔ یہ چراغِ سحری کی وہ بھڑک ہے جس کے بعد چراغ خاموش ہونے والا ہوتا ہے… مایوسی کفر ہے اس لیے عرض کرتا ہوں کہ یہ مناسب ترین موقع ہے کہ جڑوں کی طرف نگاہ کی جائے ۔ اردو کی صحیح اور وافر تعلیم و تدریس پر مکمل خلوص، منصوبہ بندی ، مفید مطلب اور بامعنی انداز سے توجہ دے کر جڑوں کو مضبوط کیا جائے۔ "
( اہل سنت کی آواز ،مارہرہ مطہرہ، جلد 24، صفر المظفر 1439ھ/نومبر 2017ء ، ص 83/85)
"مصائبِ اردو " اردو والوں کے خوانِ مطالعہ پر پیش ہے۔خود پڑھیے اور دوستوں کو شئیر کیجیے :
انتخاب و پیش کش : مُشاہد رضوی ڈاٹ اِن ٹیم
-------------------------------
'حضرات ! مجالس میں پہلے فضائل بیان ہوتے ہیں ۔ پھر مصائب کا ذکر آتا ہے ۔ فضائل ہوچکے …اب مصائب سن لیجیے :
آج ہم اپنی پریشانیِ حالت اُن سے
کہنے جاتے تو ہیں اب دیکھیے کیا کہتے ہیں
… اور اس سے بھی پہلے یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اردو کو لشکر کی زبان نہ سمجھا جائے۔ اس سے بہت خلط مبحث پیداہوتا ہے ۔ چلتی ہوئی تلواریں ، گرتی ہوئی لاشیں ، تاراج ہوتی ہوئی عمارتیں ، جلتی ہوئی فصلیں ، بے آبرو ہوتی ہوئی عورتیں ، غلام بنتے ہوئے مرد… بھلا اردو کاان باتوں سے کوئی تعلق ہوسکتا ہے ؟ یہ تو اس تہذیب کی زبان ہے جس کے لیے میر انیس نے کہاتھا ؎
خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
آج سے ڈھائی سو سال پہلے کا میر امن شہادت دیتا ہے کہ یہ زبان کس طرح مقرر ہوئی :
’’جب اکبر بادشاہ تخت پر بیٹھے تو چاروں طرف کے ملکوں سے سب قوم قدردانی اور فیض رسانی اس خاندانِ لاثانی کی سن کر حضور میں آکر جمع ہوئے لیکن ہر ایک کی گویائی اور بولی جدی جدی تھی۔ اکھٹے ہونے سے آپس میں لین دین ، سودا سلف ، سوال و جواب کرتے اور ایک زبان اردو مقرر ہوئی … جب حضرت شاہجہاں صاحب قراں نے قلعہ مبارک اور جامع مسجد اور شہر پناہ تعمیر کرایا اور شہر کو اپنا دارالخلافہ بنایا تو یہ شاہجہاں آباد کے نام سے مشہور ہوا… پھر اس کے بازار کو اردوے معلی کا خطاب دیا۔‘‘
ملاحظہ فرمائیے کہ میر امن شہر کے بازار کو اردو ے معلی کہہ رہے ہیں ۔ شہر پناہ کے باہر بسے ہوئی لشکری کیمپوں کو اردو ے معلی نہیں کہا جارہا ہے اوریہی بازار تھا جس کی ایک راہ دربارِ شہنشاہ تک جاتی تھی اور دوسری راہ صوفی کی خانقاہ تک … اردو زبان شاہی دربار، خانقاہ اور بازار میں بولی جانے والی زبان تھی ۔ نواحِ دہلی اور دہلی میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والی زبانِ اردو ان ہی تین اداروں کی مرہونِ منت تھی ۔ ہندو اور مسلمان سب کو ان تینوں اداروں میں یکساں رسائی حاصل تھی۔
آج کی تاریخ میں اردو کا مسئلہ بے حد پیچیدہ ہے ۔ میرے ذہن میں جس طرح اس کی پیچیدگی کی وجہیں صاف ہیں اسی طرح اس کی روشن مستقبل کا لائحۂ عمل بھی واضح ہے ۔ غالباً کہنے کی ضرورت نہیں کہ اردو کا روشن مستقبل ان تسامحات کے تدارک میں مضمر ہے جو خود اردو والوں سے سرزد ہوئے …اپنا احتساب اکثر بگڑے کام بنادیتا ہے ۔ دوسروں کو الزام دیتے رہنا کسی مسئلے کا حل نہیں ۔ اردو کے پیچیدہ مسئلے کو سمجھنے کے لیے ایک تمثیل شاید کارگر ہو۔ اس طرح ممکن ہوگا کہ ہم اردو کے پیچیدہ معاملے اور اردو کے مختلف مظاہر کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور صحیح پس منظر اور تناسب میں دیکھ سکیں۔
اردو ایک چھتنار ، مضبوط تنے والے درخت کی طرح ہے جس میں پھل اور پھول بھی ہیں اور پتّے بھی۔ اس کی جڑ بھی ہے لیکن جڑ نگاہوں سے پوشیدہ رہتی ہے ۔ اس درخت کی جٹ تعلیم و تدریس ہے … اس کا مضبوط تنا اردو تہذیب ہے جسے ہم گنگا جمنی تہذیب کہتے ہیں۔ اس کے خوش رنگ پھول اور پتّے دراصل ادب اور دیگر فنونِ لطیفہ ہیں ۔ اس کا پھل اردو سے وابستہ روزگار کے مسائل ہیں ۔ اس کی کھاد خود اردو والوں کی اردوسے محبت اور اردو کی ترقی و ترویج کی کوشش ہے ۔ جڑوں کو پانی دیا جانے والا پانی حکومت کی اردو سے رغبت اور سرپرستی ہے۔ اس درخت کے پھل ، پھول اور پتّے تبھی بہار دیں گے اور اس کا تنا تبھی استادہ رہ سکے گا جب اس کی جڑ میں مناسب مقدار میں کھاد اور پانی مستقل لگتا رہے۔ ادب اور فنونِ لطیفہ … یہ غزل کی شامیں، یہ مشاعروں کی راتیں ، یہ داستان سرائیاں ، یہ نقد و نظر کے بازار … اور گنگا جمنی تہذیب تبھی تک موجود ہے جب تک اردو کی تعلیم اور تدریس میں اردو والے اور حکومت کھاد اور پانی لگاتے رہیں ۔ مضبوط سلطنتیں ، بڑی تہذیبیں اور زندہ زبانیں آناً فاناً ختم نہیں ہوتیں ، مغلیہ سلطنت کو عروج پانے میں دیڑھ سو برس کا وقت لگا۔ اردو پر نظر ڈالیے تو بڑا دل خوش کن منظر نظر آتا ہے ۔ مشاعروں کے جلسے ، کہانیوں کی شامیں غزلوں کی راتیں ، سیمینار ، سمپوزیم ، فلموں اور سیریلوں اور فلمی گانوں میں اس کے الفاظ محاورے کا استعمال اور جانے کیا کیا …پھول ، پتّے اپنی اپنی بہار دے رہے ہیں اور پھل بھی نظر آرہے ہیں ۔ لیکن جڑوں کی طرف دیکھیے تو سوکھ کر تارِ عنکبوت بن گئی ہیں ۔ ساری طاقت ، تہذیب و ثقافت کے تنے میں جمع شدہ غذا اور نمی کو چوس کر حاصل کی جارہی ہے۔ مگر تابکے۔ یہ چراغِ سحری کی وہ بھڑک ہے جس کے بعد چراغ خاموش ہونے والا ہوتا ہے… مایوسی کفر ہے اس لیے عرض کرتا ہوں کہ یہ مناسب ترین موقع ہے کہ جڑوں کی طرف نگاہ کی جائے ۔ اردو کی صحیح اور وافر تعلیم و تدریس پر مکمل خلوص، منصوبہ بندی ، مفید مطلب اور بامعنی انداز سے توجہ دے کر جڑوں کو مضبوط کیا جائے۔ "
( اہل سنت کی آواز ،مارہرہ مطہرہ، جلد 24، صفر المظفر 1439ھ/نومبر 2017ء ، ص 83/85)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں