غیر زبانوں کے جو لفظ کسی زبان میں پوری طرح کھپ جاتے ہیں، انھیں ’’دخیل‘‘ کہا جاتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ صرف اور نحو کے اعتبار سے دخیل لفظ اور غیر دخیل لفظ میں کوئی فرق نہیں۔ جب کوئی لفظ ہماری زبان میں آگیا تو وہ ہمارا ہوگیا اور ہم اس کے ساتھ وہی سلوک روا رکھیں گے جو اپنی زبان کے اصلی لفظوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔
غیر زبانوں کے جو لفظ
کسی زبان میں پوری طرح کھپ جاتے ہیں، انھیں ’’دخیل‘‘ کہا جاتا ہے۔ اصول یہ
ہے کہ صرف اور نحو کے اعتبار سے دخیل لفظ اور غیر دخیل لفظ میں کوئی فرق
نہیں۔جب کوئی لفظ ہماری زبان میں آگیا تو وہ ہمارا ہوگیا اور ہم اس کے
ساتھ وہی سلوک روا رکھیں گے جو اپنی زبان کے اصلی لفظوں کے ساتھ روا رکھتے
ہیں، یعنی اسے اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق اپنے رنگ میں ڈھال لیں گے اور
اس پر اپنے قواعد جاری کریں گے۔ لہٰذا یہ بالکل ممکن ہے کہ کسی دخیل لفظ کے
معنی، تلفظ، جنس یا املا ہماری زبان میں وہ نہ ہوں جو اس زبان میں تھے
جہاں سے وہ ہماری زبان میں آیا ہے۔ اردو میں عملاً اس اصول کی پابندی
تقریباً ہمیشہ ہوئی ہے۔ لیکن شاعری میں اکثر اس اصول کو نظر انداز کیا گیا
ہے۔ صرف و نحو کی کتابوں میں بھی بعض اوقات اس اصول کے خلاف قاعدے بیان کئے
گئے ہیں۔ یہ دونوں باتیں غلط اور افسوسناک ہیں۔ نحوی کا کام یہ ہے کہ وہ
رواج عام کی روشنی میں قاعدے مستنبط کرے، نہ کہ رواج عام پر اپنی ترجیحات
جاری کرنا چاہے۔ شاعر کا منصب یہ ہے کہ وہ حتی الامکان رواج عام کی پابندی
کرتے ہوئے زبان کی توسیع کرے، اس میں لچک پیدا کرے نہ کہ وہ رواج عام کے
خلاف جا کر خود کو غلط یا غیر ضروری اصولوں اور قاعدوں کا پابند بنائے۔اردو
میں دخیل الفاظ بہت ہیں اور دخیل الفاظ کے ذخیرے سے بھی بہت بڑا ذخیرہ
ایسے الفاظ کا ہے جو دخیل الفاظ پر تصرف کے ذریعہ بنائے گئے ہیں۔ یہ تصرف
کئی طرح کا ہو سکتا ہے:
غیر زبان کے لفظ پر کسی اور زبان کے قاعدے سے تصرف کر کے نیا لفظ بنانا۔ اس کی بعض مثالیں حسب ذیل ہیں:
فارسی لفظ ’’رنگ‘‘ پر عربی کی تاے صفت لگا کر ’’رنگت‘‘ بنا لیا گیا۔
فارسی ’’نازک‘‘ پر عربی قاعدے سے تاے مصدر لگا کر’’نزاکت‘‘ بنا لیا گیا۔
عربی لفظ’’طرفہ‘‘ پر فارسی کی علامت فاعلی لگا کر ’’طرفگی‘‘بنایا گیا۔
فارسی لفظ ’’دہ / دیہہ‘‘ پر عربی جمع لگا کر ’’دیہات‘‘ بنایا اور اسے واحد قرار دیا۔
عربی لفظ ’’شان‘‘ کے معنی بدل کر اس پر فارسی کا لاحقہ ٔ کیفیت لگایا اور ’’شاندار‘‘ بنا لیا۔
عربی
لفظ’’نقش‘‘ پر خلاف قاعدہ تاے وحدت لگا کر ’’نقشہ‘‘ بنا یا، اس کے معنی
بدل دیئے، اور اس پر فارسی لاحقے لگا کر ’’نقشہ کش/نقش کشی؛ نقشہ نویس/
نقشہ نویسی؛ نقشہ باز‘‘ وغیر بنا لئے۔
عربی لفظ ’’تابع‘‘ پر فارسی
لاحقہ ’’دار‘‘ لگا لیا اور لطف یہ ہے کہ معنی اب بھی وہی رکھے کیوں کہ
’’تابع‘‘ اور’’تابع دار‘‘ ہم معنی ہیں۔
غیر زبان کے لفظ پر اپنی زبان کے قاعدے سے تصرف کرنا۔ اس کی بعض مثالیں حسب ذیل ہیں
عربی لفظ حد پر اپنا لفظ ’’چو‘‘ بمعنی ’’چار‘‘ اضافہ کیا ، پھر اس پر یاے نسبتی لگا کر ’’چو حدی‘‘ بنا لیا۔
عربی
لفظ’’جعل‘‘کے معنی تھوڑا بدل کے اس پر اردو کی علامت فاعلی لگا کر
’’جعلیا‘‘ بنایا گیا۔ فارسی کی علامت فاعلی لگا کر’’جعل ساز‘‘ بھی بنا لیا
گیا۔
عربی لفظ’’دوا‘‘ کو ’’دوائی‘‘ میں تبدیل کر کے اس کی جمع اردو قاعدے سے’’دوائیاں‘‘ بنائی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں