گنبدِ خضریٰ میں موجود روشن دان کیا ہے ؟
دراصل گنبد شریف کے اوپر نظر آنے والی یہ چیز کوئی قبر نہیں بلکہ ایک روشن دان ہے جو اُم المؤمنین حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے کہنے پر بنوایا گیا تھا ۔اُس وقت باقاعدہ گنبد شریف نہیں تھا جیسے موجودہ شکل میں ہے بلکہ چھت تھی جس سے روشن دان نکالا گیا پھر بعد میں گنبد بنایا گیا اور مختلف ادوار میں گنبد شریف میں تغیر وتبدل ہوتا رہا اور اس پر مختلف رنگ بھی کیے جاتے رہے لیکن سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر روشن دان بنانے کی روایت کو ہمیشہ برقرار رکھا گیا ۔ یہ گنبد کیوں بنایا گیا؟
اس کا جائزہ لینے کے لیے یہ روایت ملاحظہ کیجیے :
قُحِطَ أهل الْمَدِيْنَةِ قَحْطًا شَدِيْدًا فَشَکَوْا إِلَي عائشۃ ، فَقَالَتْ : انْظُرُوْا قَبْرَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَاجْعَلُوْا مِنْهُ کِوًي إلَي السَّمَاءِ، حَتَّي لَا يَکُوْنَ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ، قَالَ : فَفَعَلُوْا فَمُطِرْنَا مَطَرًا حَتَّي نَبَتَ الْعُشْبُ، وَسَمِنَتِ الْاِبِلُ حَتَّي تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ، فَسُمِّيَ ’’عَامَ الْفَتْقِ“۔
ایک مرتبہ مدینہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا سے (اپنی دِگرگوں حالت کی) شکایت کی۔ آپ رضی ﷲ عنہا نے فرمایا :
"حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ مبارک کے پاس جاؤ اور اس سے ایک روشن دان آسمان کی طرف کھولو تاکہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔
راوی کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کی دیر تھی کہ اتنی زور دار بارش ہوئی جس کی وجہ سے خوب سبزہ اُگ آیا اور اُونٹ موٹے ہوگئے ۔ پس اُس سال کا نام ہی ’عامُ الفتق (سبزہ و کشادگی کا سال)‘ رکھ دیا گیا۔"
1. سنن دارمی، 1 : 56، رقم : 92
2. الوفا باحوالِ دار المصطفیٰ:ابن جوزی : 817، رقم : 1534
3. شفاء السقام فی زيارة خير الأنام : 128
مشہور مدنی محدّث و مؤرخ امام علی بن احمد سمہودی’’وفاء الوفاء (2 : 560)‘‘ میں لکھتے ہیں:
" زین المراغی نے کہا : جان لیجئے کہ مدینہ کے لوگوں کی آج کے دن تک یہ سنت ہے کہ وہ قحط کے زمانہ میں روضۂ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے گنبد کی تہہ میں قبلہ رُخ ایک کھڑکی کھولتے اگرچہ قبر مبارک اور آسمان کے درمیان چھت حائل رہتی۔"
(تاریخ وفاء الوفا باخبار دار المصطفیٰ : نور الدین علی بن احمد السمھودی
المتوفی ۹۱۱ ھ ج۲ص ۵۶۰)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روشن دان اُم المؤمنین نے قحط کے زمانے میں حضورِ انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے بارش لانے کے لیے بنوایا تھا ۔ جب قحط سے لوگ اور جانور بھوکے مررہے ہوتے ، بارش نہ ہونے سے زمین پر سبزہ ختم ہوجاتا اور سورج آگ برسارہا ہوتا ایسے میں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کے اوپر سے اس کھڑکی کو کھول دیا جاتا اور دیکھتے ہی دیکھتے رحمۃ للعالمین کے وسیلے سے بارانِ رحمت چھماچھم برسنے لگتی ۔
مدینہ شریف کے لوگوں کا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ۔
چناں چہ ترکوں کے دور کا احوال ملاحظہ کیجیے :
"حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کے پاس جا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسُّل سے دعا کرنے کا معمول عثمانی ترکوں کے زمانے یعنی بیسویں صدی کے اوائل دور تک رائج رہا، وہ یوں کہ کہ جب قحط ہوتا اور بارش نہ ہوتی تو اہلِ مدینہ کسی کم عمر سید زادہ کو وضو کروا کر اوپر چڑھاتے اور وہ بچہ اس رسی کو کھینچتا جوقبرِ انور کے اوپر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا کے فرمان کے مطابق سوراخ کے ڈھکنے کو بند کرنے کے لیے لٹکائی ہوئی تھی۔ اس طرح جب قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ نہ رہتا تو بارانِ رحمت کا نزول ہوتا۔"
آج جب کہ پوری ملت اسلامیہ بلکہ عالم انسانیت بڑی ہی سخت بیماری کی زد میں ہے لہٰذا ایسی ناگفتہ بہ حالت میں رحمۃ للعالمین صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر کی طرف لَو لگاکر آقا کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کے توسل سے رب العزت جل جلالہٗ سے دعا مانگنی چاہیے بلکہ ممکن ہو تو روشن دان کھول کر یہ عرض گزار ہونا چاہیے کہ :
کھول دیں اپنا بابِ رحمت
آقا ہم سے بھول ہوئی
...مشاہد رضوی بلاگر ٹیم
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں