جمعہ، 11 ستمبر، 2020

Ashrafulfuqaha k Aqwal E Zarreen

اشرف الفقہاء کے حکیمانہ اقوالِ زرّین

ترتیب و پیش کش : مصفّا میمونہ بنت ڈاکٹرمشاہدرضوی


اشرف الفقہاء کے حکیمانہ اقوالِ زرّین

ترتیب و پیش کش : مصفّا میمونہ بنت ڈاکٹرمشاہدرضوی

            حضوراشرف الفقہاء مفتی محمدمجیب اشرف رضوی برکاتی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات بڑی عظیم تھی آپ  ایک بافیض اورمخلص بزرگ تھے ،آپ اسلاف کے پیکر تھے آپ کی مجلس میں خواہ و ہ عام ہو یا خالص علمی گفتگو اور رشد و ہدایت کی باتیں ہی ہوا کرتی تھیں ،آپ کی باتیں ایسی دل پذیر ہوا کرتی تھیں کہ سننے والا براہ راست اپنے دل کی دنیا میں انقلاب برپا ہوتے محسوس کرتا تھا۔ آپ کی نصیحتوں سے نہ جانے کتنوں کی زندگیوں میں اصلاح ہوئی اور نہ جانے کتنے گمراہوں کو ہدایت کی روشنی ملی ۔اگران ملفوظاتِ حسنہ اور اقوالِ زرّین کوجمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے یہاں حضرت اشرف الفقہاء کے خطبات اور ان کی مختلف تصانیف کی مدد سے ان کے چند اقوال ِ زرّین پیش کیے جارہے ہیں ۔ انھیں بہ غور پڑھیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں ، اللہ کریم حضرت کے درجات کو بلند تر فرمائے،اور ہمیں ان کے فیضان سے مالامال فرمائے، آمین !

٭حسنِ اخلاق مومن کا زیور ہے اور حسنِ نیت اعمالِ حسنہ کی اساس ہے جس نے ان دونوں کو پالیا وہ کامیاب ہے۔

٭اچھے منتظم میں تین خوبیاں ضروری ہیں،تحمل ،تدبّر اور حسنِ تکلم۔

٭شریعت پر استقامت اور معصیت پر ندامت مومن کا اصلی جوہر ہے۔

٭خدمتِ خلق عقل مندی ہے،غفلت شرمندگی ہے۔

٭بزرگوں کا ادب زندگی کا سرور اور ایمان کا نور ہے۔

٭انسان کی اچھائی کا مدار مال و دولت اور عیش و عشرت پر نہیں بل کہ دل کی سچائی ،ذہن کی صفائی اور کردار کی اچھائی پر ہے۔

٭جس معاشرہ میں نیک نیتی،روشن خیالی اور حسنِ عمل کی توانائی کی نورانی فضا چھائی ہوئی ہوگی اسی کو اچھا معاشرہ کہا جائے گا۔

٭پیر ایسا ہو جو مریدوں کے حق میں ماں باپ سے زیادہ شفیق و مہربان ہو،بااخلاق وخوش گفتار ہو ،پابندِ شریعت اور متقی و پرہیزگار ہوتاکہ مریدوں میں پیر کی خوبیاں پیدا ہوجائیں اور مرید کی آخرت کامیاب ہوجائے ، اور پیری مریدی کا یہی اصل مقصد ہے کہ آخرت سنور جائے۔

٭خواتین اسلام کورٹ میں اپنے شرعی معاملات نہ لے جائیں۔ اپنے مسئلے سنی دارالافتاء میں لے جائیں ۔ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق فیصلہ ہوگا اور اسے قبول کیا جائے گا تو دنیا و آخرت میں نیکیاں ہیں۔

٭قرآن نے تعظیمِ نبی ﷺ کی تلقین کی ۔ قرآن کریم نے تین نکات کی تعلیم دی : ایمان و عقیدہ ، مصطفی ﷺ کی عزت ، صبح و شام خدا کی عبادت ۔ عقیدہ محفوظ ہوتو عملِ صالح عزت کا باعث بنے گا۔

٭جس طرح بدن کی بقا اور اس کی توانائی و طاقت کے لیے اس کو کھلا یا پلایاجاتا ہے،اس کے راحت و آرام کا بھر پور خیا ل رکھا جاتا ہے اور اس کے دکھ درد کو دور کرنے کی فکر کی جاتی ہے اسی طرح آپ کو اپنی روح کی بھی حفاظت کرنی ہے،طریقت کا سلسلہ دراصل روحانی تربیت اور روح کی طاقت و قوت کی حفاظت و بالیدگی کا ایک پاکیزہ و مقدس سلسلہ ہے۔

٭نفس کشی کے بغیر طریقت کے راستے پر ایک قدم چلنا ناممکن ہے کیوں کہ نفسِ امّارہ گھر کا بھیدی اور گھر کے اندر کا دشمن ہے ،نفسِ امّارہ شیطان کی سواری اور اس کا سب سے بڑا مددگار ہے شیطان جو باہر کا دشمن ہے اسی کے ذریعہ سے آدمی کے بدن میں داخل ہو کر وسوسے ڈالتا ہے نفسِ امّارہ کو اگر کچل دیا جائے تو شیطان کی آدھی طاقت ختم ہوجاتی ہے۔

٭علم انسان کا جوہرِ اوّل ہے ،اس لیے روٹی بوٹی کپڑا ،مکان سے پہلے علم کی دولت سے نوازا گیا، کیوں کہ فضیلت کا مدارِ اوّل علم اور صرف علم ہے خواہ اوّلین کا علم ہو یا آخرین کا علم ہو۔

٭سلام،باہمی اتحاد کی علامت ہے۔سلام آپسی عداوت و نفرت کو ختم کرنے کا مؤثر عمل ہے۔سلام مسلمان کا مسلمان پر اسلامی حق ہے۔سلام ،اللہ و رسول کی رضا کا مبارک سبب ہے،غرض کہ سلام خیر و برکت کا انمول خزانہ ہے۔

٭عقیدہ ، احترامِ رسول ﷺ اور عبادت یہ اسلام کے تین ایسے پوائنٹ ہیں کہ جنھیں اپنا لیا جائے تو زندگی کامیاب ہوجائے ۔ یہی اسلام کی بنیاد ہے ۔

٭اگر ایمان کی روشنی چاہتے ہوتو توحید و رسالت دونوں سے وابستگی ضروری ہے اور اس وابستگی اور تعلق میں بڑے احتیاط کی ضرورت ہے،ذرا سی بے احتیاطی ہوئی تو ایمان کا فیوز اڑ جائے گا،بجائے روشنی کے اندھیرا ہی اندھیرا پھیل جائے گا،نہ دونوں کو اس طرح ملاؤ کہ دونوں ہم سر اور برابر ہوجائیں،خالق کبھی مخلوق اور مخلوق کبھی خالق نہیں ہوسکتا،معبود کبھی عبد اور عبد کبھی معبود نہیں بن سکتا۔

٭اللہ اللہ ہے،نبی نبی ہیں،اللہ اور نبی کو ملا کر برابر کا درجہ دو گے تو ایمان کا فیوز اڑ جائے گا،اور دونوں میں سے ایک کو دوسرے سے ہٹاو گے ،صرف اللہ کو مانیں گے رسول کو ماننے کی ضرورت نہیں، صرف اللہ کی تعظیم بجا لائیں گے رسول کی عزت کرنے کی کوئی ضرورت نہیںتو ایسا کرنے والا شیطان بن جائے گا۔

٭پابندیِ وقت سے ہم کئی رخ سے کامیابی پاسکتے ہیں ۔ ہمارے جلسوں کا معیار بھی اِس سے بلند ہوگا ۔ زیادہ دیر تک جلسوں کے جاری رکھنے سے فجر میں بعض لوگ کوتاہی کرجاتے ہیں ۔ جلسے وقت پر شروع کردینے اور وقت پر ختم کردینے سے نماز اور کاروبار سبھی میں پابندی ہوتی ہے۔

٭عقائدکی حفاظت کیجیے اور اعمال و عبادات کو بچائیے ۔ نمازوں کی پابندی کیجیے اور مسلکِ امام احمد رضا جوعظمت و  ناموسِ رسالت ﷺ کے تحفظ کا نام ہے ، پر کاربند رہیے۔

٭ اکابرِ اہل سنت کی راہ ہی راہِ حق ہے ، اس سے رو گردانی اخروی بربادی کا پیش خیمہ ہوگی۔ اہل سنت وجماعت مسلک اعلیٰ حضرت کی روشنی میں اپنی زندگی گذاریں اور امام اہل سنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائیں۔

٭زرخیز زمین ہی برکت لاتی ہے اس لیے اپنی نسبت بنجر زمینوں سے نہیں بلکہ اولیاے کرام کی زرخیز بارگاہوں سے استوار کریں ،اسی میں آخرت کی فوز و فلاح اور کامیابی ہے ۔

٭اسلام پاکیزگی کا مذۃب ہے ۔ حدیث میں صفائی کو نصف ایمان قراردیا گیا ہے۔ اللہ کریم پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے ۔ پاکیزگی ظاہری بھی ہو اور باطنی بھی۔

٭ اسلام امن و شانتی کا پیغام دیتا ہے ۔ احترام و انصاف کا میسیج اسلام نے دیا۔ خطبۂ حجۃ الوداع میں آقا کریم ﷺ نے پیغام دیا کہ کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ۔ علم و تقویٰ سے سیرت و کردار سنورتے ہیں ۔ خواجہ غریب نواز نے دل کی صفائی کی اور تقویٰ کا مزاج دیا۔ اسلام آتنک واد نہیں سکھاتا ۔ دیانت و اخوت کا پیغام دیتاہے ۔ مدرسوں اور درس گاہوں میں اسی پیغا کو پڑھایا جاتا ہے ۔مدارس خیر کادرس دیتے اور شر سے انسانیت کی حفاطت کرتے ہیں ۔ داعش اور طالبان جیسے نظریات کو اسلام سختی سے مسترد کرتا ہے۔

٭دل نیکی،بدی اور اچھائی برائی کی آماج گاہ ہے،اچھے برے کام کے خیالات دل ہی میں پیدا ہوتے ہیں۔ برے خیالات سے دل کو پاک و صاف رکھو اور اچھے خیالات کو دل میں جماو،بٹھاو،جس نے اللہ کی اس ہدایت پر عمل کیا وہ بلا شبہہ کامیاب ہوگیا،فلاح پاگیا،اور جس نے اچھے خیالات کے بجائے برے خیالات اور باطل عقیدوں سے دل کو آلودہ کیا،وہ نامراد،خائب و خاسر ہوا۔

٭انسان کو پیدا کیے جانے کا اصلی مقصد کیا ہے؟جب آدمی اس کو اچھی طرح سمجھ لیتا ہے اور اس مقصد کو پورا کرنے میں اپنی مرضی اور خواہشات کو چھوڑ کر صرف اللہ جل مجدہٗ کی ہدایتوں پر جو قرآن میں دی گئی ہیں اس پر ایمان داری اور ثبات قدمی کے ساتھ عمل کرتا ہے اور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات پر محبت و احترام کے ساتھ کامل اعتماد کرکے آپ کی دی ہوئی گائیڈ لائن پر چل پڑتا ہے تو اسی مقام کو حدیث پاک میں من عرف نفسہٗ سے تعبیر کیا گیا ہے۔جب بندہ اس مقام پر پہونچ جاتا ہے تو اس کا ظاہر وباطن قانونِ خداوندی اور سنتِ محمدی کا مکمل پابند ہوجاتا ہے ،اس کے وجود پر شریعت کی مکمل حکمرانی ہوتی ہے ،اس کا دل معرفتِ الٰہی اور حبِ رسول کے نور سے معمور ہوتا ہے

٭مومن کی کامیابی کے لیے دو چیزیں اسلام نے عطا کی ہیں،ایمان اور عمل،ایمان و عقیدہ جو اندر ہوتا ہے نظر نہیں آتا ہے وہی اصل ہے،وہی مغز اور گودا ہے۔رہا عمل تو یہ چھلکے کی طرح نظر آنے والی چیز ہے جو ایمان و عقیدے کی نشو ونما اور حفاظت کے لیے ہے،مقصودِ اصلی نہیں،اگر عمل بہ ظاہر صاف ستھرا ،گناہوں کی آلودگی اور داغ دھبوں سے پاک ہے،مگر عقیدہ گندا اور سڑا ہوا ہے،گمراہی کے کیڑے پڑ گئے ہیں،جب ایسے عمل کو اس علیم بذات الصدور مولا کی بارگا ہ میں پیش کیا جائے گا جو دلوں کی تمام حرکات و سکنات سے باخبر ہے تو قبول نہ فرمائے گا ،انھیں جہنم میں اوندھا کرکے ڈال دے گا،خالی علم اور محنت و مشقت کام نہ آئے گی،عاملۃ ناصبۃ تصلیٰ ناراً حامیۃعمل کریں، مشقتیں جھیلیں،جائیں بھڑکتے انگارے میں۔

٭مسلمانوں سے خندہ پیشانی سے ملنا ،اچھی بات کرنا،سلام کرنا،مصافحہ کرنا،تحفہ تحائف بھیجنا،دعوت قبول کرنا،چھینک کر الحمد للہ کہنا،چھینکنے والے کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا،بیمار کی عیادت کرنا،جنازے میں شامل ہونا ،راستے سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹا دینا،یہ وہ چھوٹے چھوٹے کام ہیں جن پر بڑے بڑے ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔گناہوں سے مغفرت ،درجات کی بلندی،رحمتِ خداوندی کے حصول کا ذریعہ بتایا گیا ہے،یہ چھوٹے کام خیر و برکت کے خزانے ہیں قیامت میں اس کی حقیقت معلوم ہوگی ۔

٭ صوفیہ کی اصل تعلیمات کی تعبیری اصطلاح مسلک اعلیٰ حضرت ہے ۔ صوفی ازم وہی ہے جو عقیدے کی سلامتی کے ساتھ ہو۔ جہاں ملاوٹ نہ ہو بلکہ احکامِ شریعت کی بالادستی ہو۔ تصوف کی آڑ میں اگر حق و باطل ملایا جائے تو صوفیہ کی سچی تعلیمات کے منافی ہے۔

            حضرت اشرف الفقہاء کے ان حکیمانہ اقوالِ زریں میں تہذیب ِ اخلاق، تدبیرِ منزل ، سیاستِ مُدن، اصلاحِ فکر و اعتقاد،تزکیہ و طہارت ، پاکیزگیِ نفس ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، توحید و رسالت، محبت و الفتِ رسول، حسنِ معاشرت اور صحیح طرز پر زندگی گذارنے کی خوشبوئیں رچی بسی ہیں۔ ان اقوال پر عمل کرکے ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ اللہ کریم سے دعاہے کہ ہمیں ان باتوں کو عمل کرنے کی توفیق بخشے ، آمین !

 حاصل مطالعہ کتابیں:

 خطابتِ کولمبو: اشرف الفقہاء علیہ الرحمہ

 تحسین العیادۃ:اشرف الفقہاء علیہ الرحمہ

ارشاد المرشد:اشرف الفقہاء علیہ الرحمہ

 تذکرۂ مجیب:ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی

 پیغامِ فکر و عمل: غلام مصطفی رضوی



..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpg

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں