بسم اللہ الرحمن الرحیم
شاہ نیاز بریلوی کی شاعری’ نگاہِ عشق
و مستی‘ میں
افتخاررحمانی فاخرؔ
جب
عشق اور اس کا سوز دل میں پہلو بدلتا ہے تو پھر جذبات بھی لفظوں کا جامہ پہننے
لگتے ہیں اور احساسات بھی نیرنگیوں کاآئینہ اور ترجمان بن جایا کرتے ہیں ، جسے
دنیا شاعری کے نام سے جانتی ہے ۔ اس میں جہاں سوز بھی ہوتا ہے ، تووہیں ساز بھی
پنہاں ہوا کرتا ہے ،جو اشک باری پر آمادہ کرتا ہے تو وہیں اس کی مستی اور کیف
’رقص‘پر بھی مجبور کردیتی ہے ۔ لیکن جب عشق عشق الٰہی ہو تو پھر اس کی تمام
صداقتیں یک بہ یک جلوہ نماہوکر جاوداں بن جایا کرتی ہیں، جنہیں دنیا جنوں اور
ابلہی کہا کرتی ہے ، وہ ہوش و عقل اور ایمان و یقین بن جاتے ہیں۔ اہل دل کی ایک
بڑی تعداد ایسی ہے، جن کو شاعری کا ملکہ خصوصی طورپر بخشا گیا ، جن میں حافظؔ ،
رومی ؔ ، سعدی ؔ ، امیر خسروؔوغیرہم معروف شخصیات کی ایک طویل فہرست ہے ۔ جنہیں عشق
کے ساتھ اس کے سوز کو بیان کرنے کا ہنر بھی دیا گیا تھا ۔ اسی فہرست میں ایک نام
اور بھی آتا ہے، جنہیں یا تو ہم نے بھلا دیا یا پھر مرورِ زمانہ کے باعث عوام کی
نظروں سے اوجھل ہو گئے ۔ علاوہ ازیں یہ بھی کچھ تلخ حقیقت نہیں ہے کہ انہوں نے
کبھی شاعری کو ’’حرزِ جاں ‘‘ نہ بنایا ،اور نہ انہوں نے کبھی خود کواس کے قابل
سمجھا،بلکہ جو کچھ کہا اسے محبوب کے قدموں میں نثار کرنا ہی اولیٰ تصور کیا۔ان کا
نام’’ راز احمد‘‘ تھاجو شاہ نیاز احمد کے نام سے مشہور ہوئے ، البتہ ان کے معتقدین
’مدارِ اعظم‘، ’قطب ِ اعظم ‘اور’شاہِ نیازبے نیاز‘ وغیرہم کے نام سے پکارتے ہیں۔ان
کے معتقدین کی ایک بڑی تعدادہے ،جو برصغیر کے کونے کونے میں پھیلی ہے ۔جو
انہیں(نیاز بریلوی کو ) اور ان کے ارشادات و ملفوظات کو اپنے لئے نجات دہندہ تصور
کرتے ہوئے ہر ایک مذہبی، دنیوی اور سیاسی معاملات میں’ پیشوا ‘گردانتی ہے ۔ستم تو
یہ ہے کہ میرا ایک عزیز از جان’شناسا ‘بھی ان کے معتقدین میں سے ہے۔ (فالحمدللہ علیٰ
ذالک)
ولادت ، تعلیم ،سکونت اور وفات:
دیوان نیازؔ بریلوی مرتبہ ڈاکٹر انوارالحسن کے
مطابق:’نیازبریلوی کی ولادت بمقام سرہند ۱۱۷۳ھ میں،جب کہ وفات۶؍جمادی الثانی۱۲۵۰ھ ، بانس بریلی، بریلی ۷۷؍سال کی عمر میں ہوئی ،جب کہ کہیں
کہیں۹۵؍ سال عمر بھی لکھی ہے‘۔ان کی تعلیم و تربیت دہلی میں ہوئی۔ ان
کے اجدادشاہان بخارا میں سے تھے،جنہوں نے تاج و تخت سے کنارہ کشی اختیار کرکے سلوک
و تصوف کو اپنا مشن بنایا ۔ ان کے جداعلیٰ شاہ آیت اللہ علوی بخارا سے ملتان وارد
ہوئے تھے ۔ ملتان سے آیت اللہ علوی کے پوتے شاہ عظمت اللہ سرہند آئے ۔ سرہند میں
نیازؔ بریلوی کی پیدائش ہوئی پھر ان کے والد شاہ رحمت اللہ علوی مع اہل و عیال دہلی
فروکش ہوگئے۔ابتدائی تعلیم والد صاحب سے حاصل کی ،البتہ قیام دہلی کے دنوں شاہ
فخرالدین ؒ کی صحبت و معیت میں رہ کر علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کی ۔ پھر نیاز
ؔبریلوی اپنے مرشد حضرت شاہ فخرالدینؒ کے ایماء پر’بریلی ‘فروکش ہوگئے اور یہاں تزکیۂ نفس اور تعلیم و ارشادکا سلسلہ
شروع کیا۔ نیازؔ بریلوی علم و کمال میں بلند مقام رکھتے تھے،انہیں کئی علوم و فنون
پر دسترس حاصل تھی۔ فارسی و اردو شاعری میں یدطولیٰ کے حامل تھے ، اور یہ چند سطریں
اسی باب میں اہل علم و کمال کی نذر ہے ۔دیوان نیازؔ بریلوی مرتبہ ڈاکٹر انوارالحسن
کے مطابق:’پروفیسر خلیق نظامی نے نیازؔ بریلوی کی جن تصانیف کا ذکر کیا ہے ، ان کے
اسماء یوں ہیں (1)تحفۂ نیازیہ حضرت نیاز بے نیاز (۲) حاشیہ شرح چغمنی (۳)دیوان نیازؔ فارسی ،اردو (۴)رسالہ تسمیۃ المراتب (۵)رسالہ راز و نیاز (۶)شرح قصائد عربیہ (۷)شمس العین شریف (۸)مجموعہ قصائدعربیہ
۔ان کی شاعری کا اصل محور ’تصوف‘اور عشق الٰہی ہے ۔ان کی شاعری کا جوہرِ خالص
’’ہمہ اوست‘‘ہے ، جس کی وضاحت ان کے ہر شعر سے ہوتی ہے ، اور یہی یعنی ’ہمہ اوست
‘ان کی عاشقی کا مذہب بھی تھا۔ ڈاکٹرانوارالحسن نے نیاز ؔبریلوی کی شاعری کے باب
میں معلوماتی خاکہ پیش کیا ہے ، لکھتے ہیں :
’’تصوف کی طرح شاعری بھی بقول شبلی نعمانی ذوقی ارو
وجدانی چیز ہے ۔ اور شاہ نیازؔ کی طبیعت قدرت کی طرف سے سوز و گداز اور ذوق و
وجدان سے مالا مال تھی۔عشق حقیقی سے ان کا خمیر بنا تھا اور دردِ عشق ہی ان کا
سرمایۂ حیات تھا ۔ محبوب حقیقی کا یہ عاشق صادق بادۂ عرفان کا متوالا نیاز ؔ عشق
حقیقی کی آتش گرم و تیز میں خود بھی سلگتا اور اپنے آتشیں کلام کے ذریعہ اپنے دل
کی آگ کی حرارت دوسروں تک پہنچاتا تھا ۔ یہ بزرگ صوفی شاعر، شاعر سے زیادہ محبوب
حقیقی کا عاشق صادق اور جادہ صبرو رضا کاسالک تھا۔شاعری پیشہ نہ تھا اور نہ تفریح
کا مشغلہ ؛بلکہ جب جذبات کا طوفان امنڈتا تھا ، توشعر کے قالب میں ڈھل جاتا تھا ۔
کلام بہت کم ہے ؛ لیکن جو کچھ ہے ، انتخاب (منتخب شدہ) ہے اور ذوق و وجدان کا عکس ہے ۔ تاثیر کی شدت سب سے نمایاں اور
امتیازی خصوصیت ہے اور یہ ان کے جذبہ کی صداقت کا ثبوت ہے ۔ دل کی گہرائیوں سے
نکلا ہوا کلام دل پر اثر کرتا ہے ۔ ساتھ ہی جامعیت اور افادیت کی خوبیاں اپنی جگہ
اہم ہیں ۔ تصوف کے نکات ، معرفت کے رموز ، مشاہدۂ باطن کے اسرار اور قلبی واردات
کا بیان شاہ نیاز کے کلام میں بڑے دلکش اور دلنشیں انداز میں ملتا ہے ۔ آورد نام
کو نہیں ہے ، جو کچھ ہے آمد ہی آمد ہے ۔ ساتھ ہی زبان کی صفائی سلاست اور روانی
بھی کلام کے خاص جوہر ہیں ۔ وہ بلند خیالات کو بھی بڑی صفائی ، سادگی اور دل کشی
سے ادا کرتے ہیں ‘‘۔
دیوان نیاز :صفحہ ۱۸،مطبوعہ منشی نول کشور ، لکھنؤ
نیازؔ بریلوی کی شاعری ایسی نہیں کہ اسے میزان پر تول کر
’فنی حسن و قبح ‘کی تلاش کی جائے،بلکہ ان کی شاعری کو
پرکھنے اور تولنے کے لیے ’سوزِ دل‘ کی ضرورت
ہے۔اگرکوئی اس دولت بے بہا سے تہی دامن ہے ،تو پھرجستجوئے حسن و قبح کارِ لغوہے ۔
عافیت اسی میں ہے کہ وہ محض عشق کی کارفرمائیوں کے تماشے پر قناعت کرے۔نیازؔ
بریلوی چوں کہ استغراق و کیف کی حالت میں رہا کرتے ، کیف نیازیؔ کے مطابق وفات سے ۲۵-۲۶؍سال قبل کلام کہنا ہی ترک کردیا تھا‘ بنابریں ان کی
شاعری کا ضخیم دیوان تو نہیں ہے ؛لیکن جو کچھ بھی ہے ، آتشِ عشق میں خاکستر جگر و
دل کی تصویرزار زار ہے ۔ ان سے منسوب ایک دیوان ہے ، جو اردو فارسی دونوں زبان کے
کلام پر مشتمل ہے۔ان کی شاعری کا ایک ہی نقطۂ سرا اور ایک ہی محور تھا، جس کی
وضاحت ماقبل میں کی گئی ۔ نیازؔ بریلوی کی غزلیات اور ان کا کلام عشق الٰہی کا
آئینہ ہے ۔ان کے کئی اشعار برجستگی میں اس قدر رواں ہیں کہ وہ زبان زد خاص و عام
ہیں ، کہیں بھی ژولیدگی اور الجھاؤ نہیں؛بلکہ اعجازِ سخن کی اعلیٰ مثال ہے۔
برسبیل تذکرہ ایک غزل پیش ہے ؎
چادر سے موج کی نہ چھپے چہرۂ آب کا
برقع حباب کا نہ ہو ، برقع حباب کا
اپنا ہی کچھ تصرف اوہام ہے کہ ہم
چہرے پہ حق کے پاتے ہیں پردہ نقاب کا
آنکھیں موندی ہوئی ہوں تو پھر دن بھی رات ہے
اس میں قصور کیا ہے بھلا آفتاب کا
کس کام کی یہ ہستی موہومِ کائنات
سیراب کب کرے تجھے دھوکہ سراب کا
اپنا حجاب آپ ہے تو اے میاں نیازؔ
اٹھنے میں تیرے ہوتا ہے اٹھنے حجاب کا
دیوان نیاز بریلوی :ص، 105مرتبہ: ڈاکٹر انوارالحسن
اس غز ل کا یہ شعراردو زبان و ادب میں ضرب المثل بن گیا
ہے :’’ آنکھیں موندی ہوئی ہوں تو پھر دن بھی رات ہے/ اس میں قصور کیا ہے بھلا
آفتاب کا ‘‘۔ اس غزل کے پس منظر میں ان کے
جذبۂ عشق اور وارفتگی ٔ شوق کی مضمحل امیدیںجاگزیں ہیں ۔ عشق کا دستور یہ ہے کہ
عشق امید و ناامیدی کے تذبذب کی ملی جلی کیفیت پیدا کرتا ہے ۔ نیازؔ بریلوی نے اسی
امید وناامیدی کی کیفیت بیان کی ہے ۔ عشق کی کرامت کہہ لیں کہ وہ(معشوق ) ہر ایک
جلوہ میںانہیں نظر آتا ہے ۔اس غزل کے پہلے مصرعہ میں امید کا عنصر ملتا ہے تو
وہیں دوسرے مصرعہ میں ناامیدی بھی ملتی ہے۔موج کی چادر میں یہ امید ؛بلکہ یقین
پیدا ہوا کہ معشوق کا دیدار ہوگا ،لیکن جب اس یقین کے عنصر کو ٹٹولا تو یقین و عزم
میں پختگی کا فقدان نظر آیا ، ناگاہ یہ بھی کہنا پڑگیا کہ ؎
اپنا ہی کچھ تصرف اوہا م ہے کہ ہم چہرہ کے حق پہ پاتے
ہیں پردہ نقاب کا
جذبِ جنو ن میں اس دولت بے بہاکی سچائی کو واضح کیا گیا
کہ : ’عشق میں امید بھی پیدا ہوتی ہے اور کبھی ناامیدی بھی در آتی ہے ، آخر یہ
ناامیدی کیوں آتی ہے ، اس کا بھی جواب بھی انہوں نے بخوبی دیا ہے کہ :’عشق کی تپش
، عزم ، ارادہ ، نیت اور ایثار میں خلوص کی کمی تھی‘۔ اسی عنصر کی کمی کے باعث
روئے یار کے دیدار سے محرومی ہے۔ اس کا نتیجہ بھی بتایا کہ :’سارا قصور اور کمی
میری ہے ؛کیوں کہ چہرۂ یار جو کہ جانِ عالم ہے ، وہ آسمانِ عشق پراپتی تمام
ترجلوہ فروشیوں کے ساتھ طلوع ہوا ہے ، تاہم ہماری چشم بینا اس قابل نہیں ہے کہ
نورِ آفتاب کو دیکھ سکے،بنا ء بریں یہ کہنا پڑا کہ ع
اس میں قصور کیا ہے بھلا آفتاب کا
یہ تمام عشق کی سرگرانیاں اور شکوہ سرائی ہیں ، کبھی معشوق کی ستم
کاری کا شکوہ ہے تو کبھی خود اپنی ذات پر لعن و طن ہے ۔ وہ عشق ہی کیسا ؟ کہ جس
میں کوئی شکوہ نہ ہو ؟عشق کا اصل مزہ تو شکوہ اور ناز و ادا میں ہے ،اس غزل میں ان
ہی کیفیات کا بیان ہے ۔ اس حقیقت سے کسے انکار ہوسکتا ہے کہ عشق کی لو جب جل چکی
ہو تو پھر اس کا بجھنا محال ہے،یہ وہ آتش ہے جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے
۔ نیازؔ بریلوی کے عشق نے یہ پہلو ضرو ر تراشا ہے کہ ہرشی میں انہیں محبوب کا جلوہ
نظر آیا ہے ۔ اسے عشق کی معراج ہی تصور کرنا چاہیے ، کیوں کہ اس کا حصول بھی ’’من
حیث العشق‘‘ معراج ہی ہے ۔ ان کا مذہب ’’ہمہ اوست ‘‘ کا تھا ۔ ہمہ اوست کی واضح
مثال یہ غزل بھی پیش کرتی ہے ؎
یار کو ہم نے جا بجا دیکھا
کہیں ظاہر ، کہیں چھپا دیکھا
کہیں ممکن ، کہیں واجب
کہیں فانی کہیں بقا دیکھا
کہیں بولا ’’بلی‘‘وہ کہہ کے ’’الست‘‘
کہیں بندہ ، کہیں خدا دیکھا
کہیں بیگانہ وش نظر آیا
کہیں صورت سے آشنا دیکھا
کہیں ہے ، بادشاہ ِ تخت نشیں
کہیں کاسہ لئے ، گدا دیکھا
عشق کی کامجوئیوں اور اس کی لذتوں سے وہی واقف ہوسکتا ہے
، جس کے دل میں دست ِ فیاض نے از خود آتشِ عشق بھڑکائی ہو، گویا کہ عشق کی عظیم
دولت تحفہ میں ملی ہو۔نیازؔ بریلوی کو یہ تحفہ ’مئے خانہ چشتی‘ کے فیض میں ملا تھا۔
جب عشق نے انگڑائی لی ،نگاہ ِ عشق و مستی میں محبوب کے کئی جلوے نظروں کے سامنے
رقصاں ہوئے تو شوقِ دیدار نے بھی کئی جلوے یک بہ یک بے تابانہ دیکھ لئے ، جسے
عاشقی کی زبان میں یوں ادا کیا کہ وہ بیان ابد تک کے لئے جاوداں ہوگیا ۔ یہ عشق کی
نیرنگی نہیں تو اور پھر کیا ہے؟کہیں ان کا معشوق ’ممکن ‘ ہے تو کہیں ’واجب‘ نظر آتا ہے۔ پھر وارفتگی کی نیرنگی یہ بھی ہے کہ
معشوق تخت ِ سلطانی پر سریرآرا ہے ،تو کہیں کاسہ لئے کھڑا بھی ہے ۔ ان کا مذہب
’’ہمہ اوست ‘‘ کا تھا ، اس لئے بربط و ساز اور طاؤس و رباب میں بھی معشوق کا جلوہ
نظر آیا ۔ اور سچی بات تو یہی ہے کہ :’ سازِ ہستی میں اسی معشوق کے زمزمے گونج
رہے ہیں، ورنہ اس جہاں کاسارا حسن یکلخت میں تماشائے عبرت بن جائے ‘ ۔ ’ہمہ اوست ‘
کا مذہب سرمد شہید کا بھی تھا ، نیازؔ بریلوی اورصوفی سرمدؔ میں فرق ہوش و شعور کا
ہے (یہاں کسی طرح کا کوئی موازنہ مقصد نہیں ہے) ۔ سرمدؔ شہید کے سرمیں معشوق
کاسودا کچھ اس طرح سمایا کہ :’برہنہ پا ، نیم برہنہ جسم خلافِ شرع و عقل امور کا
مرتکب ہوکر’اناالحق ‘ کا نعرۂ سرمدی لگا بیٹھا تھا ، جب کہ نیازؔ بریلوی نے عشق کے
ایک دوسرے اصول صبر و ضبط ، ایثار ، قربانی ، ہجر و فراق اور آہ و اشک پر قناعت
کیا‘ ۔ اس پر قناعت کرنا ’میخانۂ چشتی‘کی ہی تعلیم تھی کہ عشق کی تمام سرگرانیوں
اور شورشوں کے باوجود صبر و ضبط کا دامن چھوٹنے نہ پائے ۔کمالِ عشق تو یہ ہے
کہ:’بے خودی میں بھی ہوش باقی رہے اور عشق کا یہی سبق بھی ہے کہ بیخودی میں بھی
ہوش و تمیز باقی رہے ‘ ۔ مذکورہ غزل کے بقیہ اشعار یوں ہیں ؎
کہیں عابد بنا ، کہیں زاہد
کہیں رندوں کا پیشوا دیکھا
کہیں رقاص اور کہیں مطرب
کہیں وہ ساز باجتا دیکھا
کہیں وہ در لباسِ معشوقاں
برسرِ ناز و ادا دیکھا
کہیں عاشق نیاز ؔ کی صورت
سینہ بریاں و دل جلا دیکھا
دیوان نیاز بریلوی :ص، 107مرتبہ: ڈاکٹر انوارالحسن
اس غزل کی شہرت کا یہ عالم ہے کہ خانقاہوں کے علاوہ
دوسری جگہوں پر بھی پڑھی ، گائی اور سنی جاتی ہے ۔ عشق کی شورش اور دل کے خاک و
خون میں غلطیدن و افتادن کا ایک نظارہ یہ بھی ہے ،دیکھیں ! نیازؔ بریلوی گویا ہیں ؎
اے دل کہیں نہ جائیو ، زنہار دیکھنا
اپنے ہی بیچ یار کا دیدار دیکھنا
خوباں کا اس جہاں کے تماشا جو تو کرے
آئینہ دار طلعت ِ دل دار دیکھنا
نیرنگیوں سے یار کی حیراں نہ ہوجیو
ہر رنگ میں اسی کو نمودار دیکھنا
اے دل قمارِ عشق میں ٹک دیکھیو سنبھل
بازی نہ دیجیو ہار، مرے یار دیکھنا
گر نقد جاں طلب کرے ، وہ شوخ دلربا
انکار واں نہ کیجیو زنہار دیکھنا
دیوان نیاز بریلوی :ص، 111مرتبہ: ڈاکٹر انوارالحسن
نیاز ؔبریلوی کا نظریہ ’’ہمہ اوست ‘‘ کا تھا ، لیکن اس
کے باوجود وہ بے خودہوکر بے خود نہ ہوئے ۔ اپنی گردن پائے یار پر نچھاور کردینا
عاشقی کا ایمان تصور تو کیا؛لیکن مقررہ دائرہ سے تجاوز اور اصول عاشقی سے سرمو ِانحراف
نہ کیا، گرچہ نیازؔ بریلوی نے ہجرو فراق کی شدتوں کو بیتابی سے محسوس کیا ۔ اسی
بیتابی و بے قراری کا عکس اس غزل میں بھی ہے ۔ یہاں بیتابی اور تیقین کی واضح
تصویر دیکھی جاسکتی ہے ۔’نحن اقرب الیہ من حبل الوریدالخ‘ کا اعلان ابد تک کے لیے
ہے ،اسی اعلان کا اعادہ اپنے الفاظ میں کیا ہے ۔ ’اپنے ہی بیچ یار کا دیدار دیکھنا
‘۔ یہ کوئی اعلان نہیں ہے ؛ بلکہ تعلیم ہے ۔ دیدار ِیار کی تعلیم میں اس کا بھی
ذکر کیاکہ:’ اگر محبوب جاں طلبی کرے تو بے دریغ پائے یار پر سررکھ کر جان کا
نذرانہ پیش کر دینا ہی عشق کا تقاضا ہے ‘۔عشق کا ایمان تو یہ ہے کہ نقش پائے یار
پر سرجھکا کر قلندرانہ یہ اعلان کیا جائے ؎
’بے خطر بے جھجک سرجھکایا وہاں
ثبت تیرا جہاں نقش پا ہے صنم‘
شاہ نیاز بریلوی کا عشق’ عشق لافانی‘ تھا، انہوں نے
معشوق سے صرف دل ہی نہیں لگایا تھا ؛بلکہ اس کے رخ و عارض کو چوما بھی ، اس کی
بلائیں بھی لی، اس کی مے گسار آنکھوں سے جام و سبوسے بہرہ ور بھی ہوئے اور اس کی
ذات کو محسوسات و مدرکات کے ذریعہ اپنے دل بریاں میں بسا بھی لیاتھا ۔ یہ سوال نہ ہونا
چاہیے کہ :’معشوق کے منھ ، عارض ا ور لب کیسے ہیں ، اوراس کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ
عشق کی وارفتگی اور معراج ؛بلکہ اپنی اپنی قسمت ہے کہ جلوہ ٔ صدہزاراں میںبھی یار
کی صورت نظرآجاتی ہے۔نیاز ؔ بریلوی کا بھی عشق وہی عشق تھا، جسے ہر آن و لحظہ
یار کی قربت کا احساس ہوتا تھا ۔جب محبوب کا دعویٰ:’نحن اقرب الیہ من حبل الورید‘
کاہے تو پھر دیدار کااستدلال لاحاصل ہے ۔نیازؔبریلوی نے بڑے ہی اعتماد اور ہوش و
حواس میں کہا کہ:’ معشوق کو دیکھا ہی نہیں ؛بلکہ اس کے دست ِ مے نواز سے لذت ِ مے
کشی سے بہرہ ور بھی ہوچکا ہوں ، میں ایک جرعہ کا طالب تھا ،لیکن معشوق کی بخشش و
نوازش یہ ہوئی کہ اس نے ادائے شوخ میںاپنے ہاتھوں میں صراحی لئے تشنہ لب کے سامنے
کھڑا ہوگیااور مسکرا کر گویا ہوا کہ ’لیجئے نوشِ جاں کیجئے‘ ۔ نیازؔ بریلوی کہتے ہیں
؎
جسے دیکھنا ہی محال تھا ، نہ تھا اس کا نام و نشاں کہیں
سو ہر ایک ذرے میں عشق نے ، ہمیں اس کا جلوہ دکھا دیا
کروں کیا بیاں میں ہم نشیں ، اثر اس کی لطف و نگاہ کی
کہ تعینات کی قید سے ، مجھے ایک دم میں چھڑا دیا
مرے چکھنے کے لیے ایک جرعہ بھی اس شراب کا تھا بہت
تو نے سیر چشمی سے ساقیا ، سرِخم ُ کو لے کے جھکادیا
دیوان نیاز بریلوی :ص، 109مرتبہ: ڈاکٹر انوارالحسن
عشق کے کئی رنگ اور کئی جلوے ہیں۔ ان جلووں اور رنگوں کا
ادراک اسے ہوسکتا ہے جو اپنے دعویٔ عشق میںسچابھی ہو ۔ نیازبریلوی کا عشق حقیقی تھا،اگر
انہوںنے دعویٰ کیا ہے کہ : ’ ہر ایک ذرے میں عشق نے ، ہمیں اپنا جلوہ دکھادیا ‘تو
اس میں حرج کیا ہے ۔ حرج اس وقت در پیش ہوتا جب آنکھیں جلوہ ٔ یار سے محروم اور
دعوے بے دلیل ہوں ۔اس ضمن میں نیاز بریلوی کا دعویٰ، بلکہ اعلان ان کے عشق کی
پختگی کو واضح کرتا ہے،دیدار کی سرشاری کاایک عالم یہ بھی ہے کہ معشوق کے سوا پوری
دنیا ہی ’’سراپاگماں ‘‘ نظر آتی ہے۔ نیازؔبریلوی کہتے ہیں ؎
اگرچہ میں سیر ِ بتاں دیکھتا ہوں
ولے جلوہ ٔ حق عیاں دیکھتا ہوں
بنے جس طرح حق پرستی ہوں کرتا
مگر خود پرستی زیاں دیکھتا ہوں
جو رب الحرم ہے ، صنم بھی وہی ہے
حرم دیر میں ایک ساں دیکھتا ہوں
اسے برہمن اور اُسے شیخ مانے
یہ آپس کا جھگڑا یہاں دیکھتا ہوں
ازل سے ابد تک جو کثرت ہے پیدا
سو ، وحدت کا دریا رواں دیکھتا ہوں
نیازؔ اب کہوں کس سے رازِ حقیقت
یہ عالم سراپا گماں دیکھتا ہوں
دیوان نیاز بریلوی :ص، 120مرتبہ: ڈاکٹر انوارالحسن
عشق صرف وصل کی لذت کامی کا نام نہیں ہے ، بلکہ جستجوئے
یار میں آبلہ پائی کا نام بھی ہے ۔ یار کی تلاش انسان کو دنیا و مافیہا سے بیزار
ہی نہیں کرتی؛بلکہ نیرنگیوں کی دنیا کا اسیر بھی بنادیتی ہے ، اس کا حاصل نتیجہ یہ
ہے کہ بے خودی اور چاک گریبانی عاشق کا مقدر بن جاتی ہے ۔ عشق نے قیس کو صحرا کا
اسیر بنایا ،تو فرہاد کو کوہ کنی کے تھکن و تعب نے سرشاری و مسرت کی نوید سنائی اورجب
سرمد ؔکے سر میں عشق کا سودا سمایا تو ’اناالحق ‘ کا دعویٰ کرکے بیقراری کو ہمیشہ
کے لئے رام کیا ۔ نیاز ؔ بریلوی بھی اسی راہ کے رہرو تھے ، اپنا مشرب انہوں نے
بیان کیا ہے ،لیکن بیخودی میں بھی ہوش و ضبط کو راہ دی ہے ، کہتے ہیں ؎
جس یار کی ہو یاد میں گھر بار فراموش
ہوتا ہے کوئی دل سے وہ دلدار فراموش
جو مست ہیں تجھ درس کے اے ساقی سرشار
ہو کیوں نہ انہیں خانۂ خمار فراموش
گر بادۂ توحید پئیں اہلِ مشارب
ہفتاد و دو ملت کی ہو تکرار فراموش
پردے کو ٹک اک منھ سے اگر یار اٹھادے
ہوجاویں زخود مردم ِ ہشیار فراموش
یہ چہرۂ زیبا جو برہمن کبھی دیکھے
ہوجائے اسے بت کی پرستار فراموش
دیوان نیاز بریلوی :ص، 116مرتبہ: ڈاکٹر انوارالحسن
عاشقی اور بیخود ی میں نیاز بریلوی ؔ نے فلسفۂ عشق کے
تین اہم نکات بیان کئے ہیں۔ اولاً: ذکرخدا، ثانیاً: اتحادِ ملت ، ثالثاً: کفر و
شرک سے بیزاری۔اس عشق کا تقاضا تو یہی ہے کہ معشوق کے تقاضوں اور اس کے فرمائشوں کو
ملحوظ رکھا جائے ، نیاز ؔ بریلوی نے عشق و بیخودی میںبھی معشوق کے مقتضیات کو
فراموش نہ کیا ۔ اہلِ دل اور صوفیاء کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ وہ بیخودی میں عقل و
ہوش کی باتیں کرتے ہیںاوریہی ان کا وصف ِ خاص ہے ۔ اگر پوری ملت ’’تعالوا الیٰ
کلمۃ سواء(الاٰیۃ) ‘‘ پر کاربند ہوجائے تو پھر زمانے بھرکی ’تکرار ‘اور ’مسلکی
نزاع‘اپنے انجام کو پہنچ جائیں۔ اہلِ دل نے پوری ملت کو ایک جان اور ایک جسم تصور
کیا ہے ،جیسا کہ شہنشاہِ کونین ﷺ کا فرمان ہے :’’ مثل المؤمنین فی توادھم
وتراحمہم وتعاطفہم کمثل الجسد الواحد اذا اشتکیٰ منہ عضو تداعی لہ سائر الاعضاء
بالحمی والسہر‘‘(متفق علیہ)صوفیا نے قوم کو متحدہونے کی تلقین و کوشش کی ہے۔ نیاز
ؔ بریلوی نے ملت میں اتحادکا پیغام د ے کر فروعی اختلافات کو بھلادینے کی اپیل کی ہے،اسی
میں قوم و ملت کی فلاح کا راز مضمر ہے ۔
’بادۂ توحید‘ کاذکر آن پڑا۔ بادۂ توحید کی سرشاری ،
خماری اور افتادگی کیا ہوتی ہے ، اس کیفیت کے بیان کیلئے الفاظ ناکافی ہیں ، سچ تو
یہ ہے کہ اس کی کیفیت محسوسات کے قبیل سے تعلق رکھتی ہے ۔بادۂ توحید کی سرشاری
اور خماری کس مقام کی ہوتی ہے ،اس کا کیف و کم ،’سوز و نم ‘ اور رنگ و ترنگ کیا ہے
، نیاز بریلوی کی زبانی ہی سنیں، مبتلابہ خود اسے بیان کررہا ہے ؎
آتی ہے جب کہ نشۂ توحید کی ترنگ
دکھلائے ہے تجلی ٔ طورے ہر ایک سنگ
آنکھوں میں اپنے جلوۂ نیرنگ چھاگیا
گہ لعل، گہ گہر کے ہیں رنگ ، اشک رنگِ رنگ
سینے میں میرے آہ دھواں سا اٹھے ہے کچھ
لگتا ہے دل میں جب نگہ گرم کا خدنگ
سب کرچکی ہے اپنی حریم تعلقات
مہر بتاں کی باقی ہے کچھ کچھ مگر امنگ
دریائے دل سے اٹھتی ہے موجِ الوہیت
رہتی ہے دل میں شورِ انااللہ کی امنگ
دیوان نیازؔ بریلوی :ص، 117مرتبہ: ڈاکٹر انوارالحسن
جام کا نشہ جب چڑ ھتا ہے تو اس کی ترنگ پیدا ہونا لازمی
ہے ۔ یہ اپنی معراج اور قسمت ہے کہ پیمانہ بھر کر دیا گیا ہے یا پھر دُردِ ساغر
پرہی بہلادیا گیاہے۔نیاز ؔبریلوی بادۂ حق کے میکش تھے ، اپنی مے کشی پر انہیں ناز
بھی تھا ، بلکہ اس کی سرشاری میں روزو شب بھی گزارتے ، جب جام کا نشہ جوش پر آتا
تو تصورات و کیفیت کا عالم بھی سوا ہوجاتا ،ہوش وعقل جسے بیخودی کا نام دیا جاسکتا
ہے ، نے ایسے ایسے پہلو تراش لئے کہ جس سے دنیا دنگ ہو کر رہ گئی۔ نشہ کی سرشاری
اور اس کی معراج یہ ہے کہ:’ہر ذرۂ خاک سنگ بن کر طور کے جلوے دکھاتا ہے، ہجرو
فراق کی اشکباری لعل و گہر پیدا کر تی ہے ، تونظربازی و خیرہ نگاہی کی ستم کوشی یہ
ہے کہ رہ رہ کرنگاہِ ناز خدنگ (چھوٹا تیر) بن کر
جگر کے آر پار ہوجاتا ہے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ :’دل کی دنیا ’شورِ انااللہ‘ سے
زیر و زبربھی ہے ۔ یہ افسانہ طرازی نہیں؛بلکہ حقیقت ِ حال ہے ۔اس ہنگامۂ عشق کو
سمجھنے کے لیے ’دلِ سوزاں‘ اور’ جگر بریاں‘ کی ضرورت ہے۔ یہ حالات و کیفیات ایک راز ہیں، جس کا انکشاف کسی پر زہے
قسمت ہوا کرتا ہے ۔نیاز ؔبریلوی خوش نصیبوں میں سے تھے ۔ ان کی قلندری بھی دیدنی
ہے کہ وہ اپنے عشق کا برملا اظہار شان بے نیازی سے کرتے ہیں ، کہتے ہیں ؎
ہم جرم محبت کے گنہ گار ہیں یارو
پکڑے ہیں کئے اپنے کو، لو! گردنیں مارو
مشکل ہیں جو چپ رہتے ہیں ، جی ہووے ہیں بیکل
وہ یار پرا مانے ہے ، گر رو رو پکارو
گرراحت و آرام کیا ، جانے دو اے دل
ثابت رہو ٹک عشق میں ، ہمت کو نہ ہارو
جز رخت بھلائی کے ، فلک سے نہیں بہتر
دوں ہمتو ! آکے نہ یہاں ہاتھ پسارو
نظروں میں تو ہے ساقی ٔ سرمست ، قدح نوش
کیوں آتے ہو جھک جھک مری آنکھوں میں خمارو!
دیوان نیاز بریلوی :ص، 125مرتبہ: ڈاکٹر انوارالحسن
عشق میں نیاز مندی بھی ہے تو بے نیازی بھی اس کی فطرت
ثانیہ ہے ۔یقین و اعتقاد بھی پیدا ہو تا ہے ،تووہم و شک بھی ناچار پیدا ہوجاتا ہے
۔ دل لگی کا شائبہ بھی اسی کا خاصہ ہے ۔ غم ِ عاشقی اوراس کے نامناسب لوازمات کوبے
نیازی اور قلندری میںیوں بے وقعت سمجھا کہ اس کی حقیقت ہی کالعد م ہوکر گئی ،صاف
اعلان کیاکہ ؎
عشق میں تیرے کوہِ غم سر پہ لیا ، جو ہو سو ہو
عیش و نشاطِ زندگی ، چھوڑدیا ، جو ہو ، سو ہو
پوچھو نہ مجھ خراب سے یارو ، صلاحِ کارِ غم
اپنے تو اب نہیں رہے ہوش بجا، جو ہو، سو ہو
مجھ سے مریض طبیب ہاتھ تو اپنا مت لگا
اس کو خدا پہ چھوڑ دو ، بہر خدا، جو ہو ، سو ہو
عقل کے مدرسے سے اٹھ ، عشق کے میکدے میں آ
جام ِ شراب بیخودی ، اب تو پیا ، جو ہو سو ہو
لاگ کی آگ لگتے ہی پنبہ نمط یہ جل گیا
رخت ِ وجودِ جان و تن ، کچھ نہ بچا ، جو ہو ، سو ہو
دیوان نیاز بریلوی :ص، 126 مرتبہ: ڈاکٹر انوارالحسن
عشق میں بے نیازی عشق کا خاصہ اور اس کی کرامت ہے ۔اسی
بے نیازی کوغم ِ عاشقی ، شدتوںاور ہجر کی کلفتوں کا ’تریاق ‘ سمجھاگیا ہے ۔
نیازؔبریلوی کی بے نیازی بھی قابلِ دید ہے کہ قلندرانہ و بیباکانہ اعلان کردیا کہ
:’ عاشقی میں غموں سے کیوں اعتراض ؟ غم ِ عاشقی تو اس کی معراج ہے ‘۔غم ِ عاشقی
میں اگر وجودِ خاکی گھل بھی جائے تو پھر اس کا کیاغم؟ غم ِ عاشقی اور آتش عشق میں
گھلنا اور جلناہی عشق کی معراج ہے اور یہ خوش نصیبی کی بات ہے ۔
نیاز بریلوی کی شاعری ’ہمہ اوست ‘ کا آئینہ ہے ، ان کے
کلام کی شیرینی اور عشق کی صداقت ایسی ہے کہ گویا لفظوں میں موتی پرودیئے گئے ہوں۔
اعجازِ سخن کی حلاوت ایسی ہے گویا جامِ شیریں ہو اور بے خطر حلق میں اتر ہور ہا ہو
۔ ان کی شاعری میں آج کی اردو کے مطابق ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو متروک
شدہ ہیں،جس زمانے میں نیازؔ بریلوی نے شاعری کو اپنا شغف بنایا تھا اس وقت تک اردو
کی اتنی ترقی نہیں ہوئی تھی ،اردو تواس وقت نوزائیدہ اور گھٹنے کے بل چل ر ہی
تھی۔ان ہی صوفیاء اور اہل دل کے باعث آج اردو عالمگیر زبان پائی ہے ،جس سے انکار
نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
ان کی شاعری میں آورد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے،اگر
آورد ڈھونڈا جائے تو پھر عشق کی جاں بلبی ، سوختہ جانی ؛بلکہ گریہ و اشک اوردعویٔ
عشق کو سرے سے باطل قرار دینا پڑے گا ۔اورپھر جب معاملہ اہل دل کے کلام کا ہو تو وہاں’آمدو
آورد‘ کی تلاش و تفحص نہیں کی جاتی ؛بلکہ گرمی ٔ کلام از خود اپنا پتہ بتادیتی
ہے۔ دو صدی گزرچکی ہے ؛لیکن ان کے کلام پر کہنگی کا کوئی اثر نہیں ہے ،ان کا کلام
کل کی طرح آج بھی جاوداں ہے اور آج بھی قاری کو تازگی اور سرشاری فراہم کرتا ہے
۔البتہ ان کے معتقدین اور پیروکاروں؛بلکہ’نیازی قبیلہ‘ سے ضرورمیری ذاتی اور’ محبت
بھری‘ یہ شکایت رہے گی(کیوں کہ میں ان کا ہوں اور وہ میرے ہیں ) کہ :’ان کے کلام
پرکماحقہ کام نہیںکیا گیا ہے جس کا تقاضا ان کی شاعری کرتی ہے۔تقریباً پچاس ساٹھ
سال قبل جو کچھ کام کیا گیا ،اس کے بعد سے کوئی قابلِ ذکرتحقیق و تدقیق نظر نہیں
آتی(سوائے کیف نیازی پاکستان کی تشریحات کے، جنہوں نے نیازؔ بریلوی کے فارسی کلام
کی مختصر تشریح اورثقیل الفاظ کے معانی درج کئے ہیں )گویاایک طرح سے سلسلہ اس ضمن
میں کام رک گیاہے۔ممکن ہے کہ کچھ لوگ اس کے فروغ، ترویج اور اشاعت میں اپنی شراکت
نبھا رہے ہوں ، جس کا مجھے علم نہیں۔تاہم ضرورت ہے کہ ان کے کلام کے فروغ و احیاء
میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے ،تاکہ آنے والی نسل ان کی ذات ،ان کے کلام ،کلام کے
سوزاورکلام میں بیان کردہ اسرار و معانی سے آشنا ہو نیز ان کا پیغام بلا تفریق
مشرب و ملت وہاں تک پہنچے ، جہاں اردو بولی ،سمجھی اور پڑھی جاتی ہے ۔
٭٭٭٭
نوٹ : یہ چند سطریں شوقِ محبت اور وارفتگی جنون نے لکھوا دیئے،ان کی نیرنگیوں نے کچھ ایسے کمالات کئے کہ نہ چاہ کر بھی یہ تحریر طویل ہوگئی جس کا مجھے افسوس ہے ۔جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ میں شاہ نیازؔ بریلوی سے کسی طرح کا عقیدت مند نہیں ؛لیکن پتہ نہیں کیوں جہاں عشق و محبت کی لو جلتی ہوئی نظر آتی ہے ، وہاں اپنا دامن پھیلاکر ناچار بیٹھ جاتا ہوں،اس سے قبل بھی میں نے صوفی سرمد شہید کے متعلق اپنے تأثرات قلم بند کئے تھے،صوفی سرمد شہید سے بھی میرا کسی طرح کی کوئی ارادت نہیں ہے ۔ ممکن ہے کہ اس تحریر میں کہیں پروف یا ٹائپنگ کی غلطی نظر آئے ، امید ہے کہ ان خامیوں کو بسوئے بشریت نظر انداز کریں گے ۔
بہت بہت شکریہ ، آج گوگل سرچ انجن کی وجہ سے یہ علم ہوا کہ شاہ نیاز بریلوی کی شاعری کے متلعق لکھی گئی ٹوٹی پھوٹی اور بے وقعت تحریر کو آپ نے اپنی ویب سائٹ پر جگہ دی ہے۔ بہت بہت شکریہ! (افتخاررحمانی فاخرؔ)
جواب دیںحذف کریںسلامت رہیں شاد و آباد رہیں ،
جواب دیںحذف کریں