ہفتہ، 3 جولائی، 2021

Dr. Mushahid Razvi Ka Azeemushshan Kaarnaama

 

ڈاکٹر مشاہد رضوی کا عظیم الشان تحقیقی کارنامہ

محمد اشرف رضا قادری

مدیر اعلیٰ سہ ماہی امین شریعت

کانکر ٹولہ ،بریلی شریف

 


 

 

ماہرِ علم و ادب ، نازشِ فکر و فن جناب ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی دام ظلہ العالی علم و ادب اور تحقیق و تنقید کا ایک معتبر نام ہے ۔ ان کی دینی ، علمی اور ادبی فتوحات کا دائرہ کافی وسیع ہے ۔ گذشتہ بیس سالوں سے ان کا قلم مسلسل حرکت میں ہے اور دینیات و ادبیات کے میدان میں فتح و نصرت کا علم لہراتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہا ہے ۔ ادب اور بالخصوص مذہبی ادب سے خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں ۔ نظم اور نثر دونوں صنفوں پر یکساں قدرت رکھتے ہیں ۔ ماہرِ تعلیم ، بلند پایہ محقق ، اعلیٰ نثر نگار ، کامیاب مصنف ، منفرد لب و لہجہ کے نعت گو شاعر اور جادۂ تنقید کے ایک تیز رو اور پُر عزم مسافر کی حیثیت سے ان کی ایک نمایاں شناخت ہے ۔ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں ، اپنی علمیت ، زورِ استدلال اور نکھرے ہوئے اسلوبِ بیان سے اس میں جان ڈال دیتے ہیں اور سچ پوچھیے تو عنوان کا حق ادا کر دیتے ہیں ۔ مذہبی ، تعلیمی ، اصلاحی ، سماجی اور ادبی موضوعات پر ان کے گراں قدر مضامین و مقالات ہند و پاک کے مشہور اخبار و جرائد میں شائع ہوا کرتے ہیں اور علمی و ادبی حلقوں میں پسندیدگی کی نگاہوں سے پڑھے جاتے ہیں ۔ آپ کے بعض اہم اور گراں قدر مضامین کے تراجم دوسری زبانوں میں بھی شائع ہو چکے ہیں ۔ ان کی تحریروں میں اسلوب کی چاشنی اور لہجے کی متانت و سنجیدگی قابلِ تعریف ہے ۔ ان کی رواں دواں ، سلیس و سادہ اور شائستہ و شگفتہ نثر ذہن و فکر کو اپیل کرتی ہے اور قارئین پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے ۔ اس وقت موصوف کا شمار جماعت اہل سنت کے نام ور محققین ، ماہرینِ تعلیم ، بلند پایہ مصنفین اور قادر الکلام نعت گو شعرا میں ہوتا ہے ۔ آپ صحیح معنوں میں ’’ عظیم شخصیت ‘‘کے مالک ہیں ۔ آپ کی شخصیت کی تعمیر و ارتقا میں خانقاہ برکاتیہ ، مارہرہ مطہرہ کے بزرگوں کی خاص عنایات شامل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ شخصِ واحد میں علم و ادب اور تحقیق و تنقید کی ایک انجمن آباد ہے ۔ مختلف موضوعات پر اب تک چھوٹی بڑی پچاس کتابیں لکھ چکے ہیں اور ابھی تصنیف و تالیف کے کئی محاذوں پر ثابت قدمی کے ساتھ اپنے فکر و قلم کے کارواں کو منزل سے ہمکنار کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔

اپنی گراں قدر علمی و ادبی و قلمی خدمات کے صلے میں درجنوں ایوارڈ ( وقارِ قلم ایوارڈ ، حجۃ الاسلام ایوارڈ ، فخرِ سنیت ایوارڈ ، فیضانِ رشید ایوارڈ، نشانِ احسن العلماء ایوارڈ ) اور اعزازات سے سرفراز ہو چکے ہیں ۔ علمی و ادبی لحاظ سے جتنے عظیم ہیں ، اخلاق و کردار کے اعتبار سے بھی اتنے ہی بڑے ہیں ۔ حسنِ اخلاق کے پیکر ، متواضع ، منکسر المزاج ، حلیم الطبع ، شریف النفس ، کم گو، بسیار جو ، خندہ رو ، شگفتہ مزاج ، بڑوں کے قدر داں اور چھوٹوں پر غایت درجہ شفیق و مہربان ہیں ۔ خیر خواہی اور قومی و ملی ہمدردی آپ کی تہہ دار فکر و شخصیت کا ایک نمایاں پہلو ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس قیمتی ہیرے کو سلامت رکھے اور اس کی چمک دمک باقی رکھے ۔ آمین !

تحقیق نہایت دشوار کام ہے اور خاص طور سے وہ تحقیق جو کسی موضوع پر پی ایچ ڈی کی غرض سے کی جائے ، حد درجہ دقت طلب اور صبر آزما عمل ہے ۔ تحقیق کے لیے غایت درجہ محنت ، عرق ریزی ، فکرِ صائب ، ذہنِ ثاقب ، تنقیدی صلاحیت ، مختلف علوم اور بالخصوص ادبی و لسانی علوم میں حذاقت و مہارت ضروری ہے ۔ ہر کس و ناکس کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہر ایراغیرااس میدان میں قدم رکھنے کا اہل ہوتا ہے ۔ تحقیق کے لیے عزمِ مصمم ، مضبوط قوتِ ارادی ، پر جوش جذبہ و ولولہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جو شخص تیشۂ فرہاد لے کر کوہ کنی کا آہنی عزم رکھتا ہو ، وہی اس میدان کو سر کر سکتا ہے۔ موضوع کے اعتبار سے تحقیق کی چار قسمیں ہیں :

( ١ ) صحتِ متن کی تحقیق و تدوین ۔

( ٢ ) مصنف یا شاعر کی سوانح اور حالاتِ زندگی کی تحقیق ۔

( ٣ ) لسانی حقیقتوں کی تلاش ، جس میں قدیم زبان ، محاورات ، عروض اور رسم الخط وغیرہ شامل ہے ۔

( ٤ ) معلوم شدہ حقائق یا اصولوں کی تجدید کرنا اور انہیں نئے انداز سے پیش کرنا ۔ تجزیاتی تحقیق ، اطلاقی تحقیق ، لسانی تحقیق ، ادبی تحقیق ، شعری تحقیق ، تنقیدی تحقیق ، متنی تحقیق ، سوانحی تحقیق ، تقابلی تحقیق ، نفسیاتی تحقیق ، تہذیبی تحقیق اور تاریخی تحقیق وغیرہ تحقیق کی مختلف قسمیں ہیں ۔

کسی بھی علمی و ادبی موضوع پر تحقیقی مقالے دو طریقے سے لکھے جاتے ہیں ۔ ایک ذاتی اور انفرادی سطح پر ، اس میں ریسرچ اسکالر کا کوئی نگراں نہیں ہوتا اور نہ حکومت سے منظور شدہ کسی یونیورسٹی میں اسے پیش کیا جاتا ہے ۔ تحقیقی مقالہ کی دوسری قسم پی ایچ ڈی [ ڈاکٹر آف فلاسفی ] کی ہوا کرتی ہے جسے ڈاکٹریٹ بھی کہتے ہیں ۔ حکومتی سطح پر کسی بھی شعبے یا مضمون میں حاصل کی جانے والی یہ سب سے اعلیٰ ڈگری ہوتی ہے ۔ مقامِ شکر و طمانیت ہے کہ ادب کے دیگر شعبوں کی طرح اب حمدیہ شاعری ، نعت گوئی اور منقبت نگاری پر بھی پی ایچ ڈی کے مقالات تحریر کیے جا رہے ہیں اور ادبی شخصیات کی طرح مذہبی شخصیات کے ادبی کارناموں پر بھی محققین توجہ دے رہے ہیں ۔ اس سلسلے میںڈاکٹر امجد رضا امجدؔ، ڈاکٹر غلام مصطفےٰ نجم القادری، ڈاکٹر حسن رضا پٹنہ، ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق ، ڈاکٹر ریاض مجید ، ڈاکٹر اسماعیل آزاد فتح پوری ، شاہ محمد تبریز ، جوہر قدوسی ، ڈاکٹر نگار سلطانہ ، ڈاکٹر شکیلہ خاتون ، افضال احمد انور اور ڈاکٹر مشاہد حسین رضوی وغیرہم کے اسما قابلِ ذکر ہیں ۔ زیرِ نظر کتاب ’’مفتیِ اعظم ہند کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ ‘‘ڈاکٹر مشاہد رضوی کی پی ایچ ڈی کا وہ تحقیقی مقالہ ہے جو انہوں نے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی ، اورنگ آباد ( مہاراشٹر ) سے محترمہ ڈاکٹر شرف النساء صاحبہ ( صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر رفیق زکریا کالج فار ویمن ، اورنگ آباد ) کی نگرانی میں لکھا ہے اور انہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض ہوئی ہے ۔

۴۸۴؍ صفحات پر پھیلا ہوا یہ تحقیقی مقالہ آٹھ ابواب پر مشتمل ہے ۔ بابِ اول میں نعت کے لغوی و اصطلاحی مفہوم کی وضاحت کی گئی ہے اور اس حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ہر وہ ادب پارہ جو نبیٔ کریم ﷺ کی تعریف و توصیف پر مشتمل ہو ، وہ نعت ہے ، چاہے وہ نظمی ہو یا نثری ۔ فاضل محقق نے بابِ دوم میں صنفِ نعت گوئی سے متعلق محققینِ ادب کے اقوال و ارشادات پیش کیے ہیں اور اس ضمن میں نعت گوئی کے حزم و احتیاط ، موضوع و من گھڑت روایات ، اصنافِ سخن ، نعت کی ہیئت ، ضمائر کا استعمال ، آدابِ نعت اور لوازماتِ نعت پر بڑے اہم اور گراں قدر علمی و تحقیقی مباحث سپردِ قلم کیے ہیں ۔ بابِ سوم میں نعت گوئی کی اجمالی تاریخ بیان گئی ہے ۔ بابِ چہارم کا عنوان ہے۔ ’’ ہندوستان میں اردو کی نعتیہ شاعری ۱۴۱۲ء سے حضرت مفتی اعظم ہند بریلوی تک‘‘۔ اس عنوان کے تحت ہندوستان میں اردو کے ارتقائی عمل کو بیان کرتے ہوئے اس امر کی تحقیق پیش کی گئی ہے کہ اردو زبان کے آغاز کے ساتھ ہی نعت گوئی کا مبارک آغاز ہو گیا تھا ۔ ہندوستان میں اردو کی نعتیہ شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے اس باب میں اردو کے ارتقائی سفر کی طرح اردو نعت کے لسانی و ارتقائی مراحل، زبان کی تہذیب و شائستگی اور پختگی کو سمجھنے کے لیے اردو نعت گوئی کو تین ادوار میں منقسم کیا گیا ہے۔

پہلا دور : ( ۸۱۵ھ / ۱۴۱۲ء سے ۱۱۵۴ھ / ۱۷۵۰ء تک )

دوسرا دور : ( ۱۱۵۴ ھ / ۱۷۵۰ء / سے ۱۳۰۸ھ / ۱۸۹۰ء تک )

تیسرا دور : ( ۱۳۰۸ھ / ۱۸۹۰ء سے حضور مفتی اعظم ہندبریلوی تک)

بابِ پنجم میں حضور مفتی اعظم ہند کی حیات و خدمات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے ۔ خصوصیت کے ساتھ آپ کی علمی ، تدریسی ، ادبی اور سیاسی خدمات کا محققانہ جائزہ لیا گیا ہے ۔ بابِ ششم ، کلامِ حضور مفتیٔ اعظم ہند کے تفصیلی جائزے پر مشتمل ہے ۔ اس باب میں آپ کے نعتیہ کلام کے مختلف شعری و فنی محاسن کو علم و درایت کی روشنی میں اجاگر کرنے کی سعیِ مشکور کی گئی ہے اور اس سلسلے میں آپ کے دور میں نعت گوئی کے معیار و روش ، آپ کی نعت گوئی کے آغاز و ارتقا ، ذہنی و تخلیقی رویے ، تصورِ عشق و فن ، عقیدۂ توحید ، خصائصِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، ترکیب سازی ، شاعرانہ پیکر تراشی ، لسانی و عروضی چاشنی ، اردو محاورات کا بر محل اور مناسب استعمال ، مشکل زمینوں میں آپ کی طبع آزمائی ، خیال آفرینی ، پیرایۂ زبان و بیان ، صنائع و بدائع ، رنگِ تغزل ، عربی و فارسی اور اردو کے ساتھ ہندی اور پوربی زبانوں کی آمیزش ، نیز قرآن و حدیث اور فقہ و تفسیر جیسے علوم و فنون کی رنگا رنگی کلامِ مفتیِ اعظم ہند سے اجاگر کر کے فاضل محقق نے اپنے مقالے کی تحقیقی معنویت میں اضافہ کیا ہے ۔ یہ باب خالص علمی و ادبی و تحقیقی نوعیت کا ہے ۔ اس کی سطر سطر سے مقالہ نگار کی تحقیقی عظمت ، تنقیدی بصیرت اور ادبی و لسانی مہارت مترشح ہوتی ہے ۔ بابِ ہفتم میں حضرت مفتیِ اعظم ہند کے شعری و ادبی محاسن اور آپ کے نعتیہ رجحانات و خیالات پر اہلِ علم و قلم کے وقیع تاثرات و آرا نقل کیے گئے ہیں ۔ جب کہ بابِ ہشتم میں خلاصۂ کلام کے طور پر ما قبل ابواب کی روشنی میں حضور مفتی اعظم ہند کے اسلوبِ نگارش ، طرزِ سخن اور آپ کے افکارِ عالیہ کی عالم گیر شہرت و مقبولیت کی توضیح و تشریح کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپ کی نعتوں میں تصوف و معرفت کی جو روح پوشیدہ ہے ، وہ ہماری قومی و ملی ، تہذیبی و تمدنی اور علمی و ادبی ورثہ ہیں ۔

شہزداۂ اعلیٰ حضرت ، سیدی سرکار مفتیِ اعظم ہند کی حیات و خدمات ، محاسن و کمالات اور آپ کے گراں قدر فکر و فن پر ایسی جامع ، پُر مغز اور تحقیقی کتاب غالباً پہلی بار منظرِ عام پر آئی ہے اور آپ کی بلند پایہ فکر و شخصیت کے حسین خد و خال کو جس انداز میں پیش کیا گیا ہے ، وہ دیکھنے اور پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ حضور مفتی اعظم ہند جس طرح فقہ و افتا اور تقویٰ و فتویٰ میں یگانۂ روزگار تھے ، اسی طرح ان کی نعتیہ شاعری بھی لاجواب و بے مثال تھی ، ڈاکٹر مشاہد رضوی نے آپ کی بلند پایہ شاعری کے معنوی ابعاد کو خالص علمی و تحقیقی نقطۂ نظر سے پرکھنے کی کوشش کی ہے اور اپنے مقصد میں کامیاب ٹھہرے ہیں۔ زیرِ مطالعہ کتاب ’’مفتیِ اعظم ہند کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی جائزہ‘‘ تحقیق کے اصول و شرائط پر کھری اترتی ہے اور فاضل مصنف کے تحقیق شعور ، اخاذ طبیعت ، وفورِ علم ، ادبی مہارت اور تنقیدی آگہی کو اجاگر کرتی ہے ۔ پوری کتاب تحقیق و استدلال ، علم و درایت اور دلائل و شواہد سے مزین ہے ۔ دعویٰ کے ساتھ پُر زور دلائل اور قائم کردہ موقف کی پشت پر مضبوط دلیل بھی رکھی گئی ہے ، جس سے کتاب کی استنادی حیثیت دو چند ہو گئی ہے اور اہلِ علم و ادب کے درمیان اس کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔ پوری کتاب کی تفصیل اور تعارف و تجزیہ پیش کرنے کے لیے مختصر مضمون کی نہیں بلکہ مبسوط تحقیقی مقالہ کی ضرورت ہے ۔ محترمہ شرف النساء صاحبہ ( جو اس تحقیقی مقالہ کی نگراں رہی ہیں ) کا یہ مبنی بر حقیقت تبصرہ ملاحظہ کریں :

’’ آٹھ ابواب پر مشتمل یہ مقالہ تقسیم و تنظیم ، تہذیب و تسوید ، تحقیق و تعلیم اور ندرتِ فکر و اساس سے مزین اپنے محقق ( ڈاکٹر مشاہد حسین رضوی ) کے پختہ شعور ، عمیق مطالعہ اور بالیدہ ذہن کا بین ثبوت پیش کرتا ہے ۔ در اصل جس کے شب و روز محبوبِ الہی ﷺکی یاد اور فکر و نظر ، صحیفۂ رسول ﷺکی ورق گردانی میں مصروف ہوں اور جس نے اپنے بزرگوں کی بزمِ طریقت اور روحانی ماحول سے علمی شمع روشن کی ہو تو وہاں وہاں جذبۂ شوق ، جنونِ عشق اور عشق کا دیوانگی کی کیفیت میں تبدیل ہو جانا کوئی تعجب خیز نہیں ۔ عزیزی محمد حسین مشاہد رضوی کی کوششِ پیہم ، جد و جہد ، کام کی رفتار اور جوش و جذبہ کی تمازت و حرارت کو دیکھ کر مجھے بے حد خوشی ہوتی ہے اور اقبال کا یہ شعریاد آتا ہے :

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے

سرّ ِ آدم ہے ، ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی

یہ مقالہ صالح اندازِ تحقیق ، حقیقی اساس اور فکری بصیرت کا وہ عطیہ ہے جس میں مصنف نے محض مطبوعہ کتابوں کے حوالوں کے مآخذ تک اپنی بات کو محدود نہیں رکھا ، بلکہ انگنت معتبر حوالوں سے استفادہ کرنے کے بعد ان نکات کو تلاش کیا ہے ، جن کی بدولت حضرت نوری بریلوی ( مفتیِ اعظم ہند حضرت علامہ محمد مصطفیٰ رضا خان علیہ الرحمہ ) کی نعتیہ شاعری اپنے معاصرین سے منفرد لب و لہجہ اور اسلوب کی ندرت کے ساتھ فضائے بسیط میں خوشبو بکھیرتے ہوئے عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اذہان کو معطر کر رہی ہے ۔ ‘‘

( مفتیِ اعظم ہند کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ ، ص : ۱۰/ ۱۱)

فاضل مقالہ نگار نے نعتیہ ہیئت و ساخت پر بڑی نفیس اور مدلل تحقیق پیش کی ہے اور مختلف اصنافِ سخن میں نعت کی مثالیں ذکر کرنے کے بعد آخر میں لکھا ہے :

’’گذشتہ خیالات و نظریات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جس طرح حمد ، غزل ، قصیدہ ، مرثیہ ، رباعی ، مستزاد ، مثنوی وغیرہ میں اصنافِ سخن کی ہیئت و ساخت کی واضح شکل نظر آتی ہے ۔ نعت کی کوئی خاص ہیئت و ساخت کا تعین اب تک نہیں ہو سکا ہے ۔ بہر حال اسے غزل ، مثنوی ، قصیدہ ، رباعی ، قطعہ ، مرثیہ ، مستزاد ، مسدس ، مخمس ، دوہا ، ماہیا ، سانیت ، ترائیلے ، ہائیکو ، ثلاثی وغیرہ میں لکھا جا سکتا ہے ۔ ‘‘

( مفتیِ اعظم ہند کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ ، ص : ۸۳)

خلاصۂ کلام یہ کہ تقریباً پانچ سو صفحات کو محیط اس تحقیقی مقالے میں جس قدر مرکزی و ذیلی عناوین قائم کیے گئے ہیں ، موضوع سے متعلق ہر ایک عنوان اور گوشوں پر معلومات اور بیش قیمت علمی افادات کے انبار لگا دئے گئے ہیں ۔ کلامِ نوری میں پیکر تراشی و معنیٰ آفرینی کی بحث ہو یا لسانی و عروضی چاشنی کا مسئلہ ، صنائع و بدائع کی تکنیکی بحث ہو یا فصاحت و بلاغت کا معاملہ ، ہر ایک پر محققانہ انداز میں گفتگو کی گئی ہے ۔ مصنف کے علمی و ادبی اور تحقیقی افادات قابلِ قدر اور لائقِ مطالعہ ہیں ۔ شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس کتاب کا ایک بار ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیبِ پاک صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ڈاکٹر مشاہد رضوی کے فکر و فن میں مزید توانائی و پختگی عطا فرمائے اور ان کے عمر و اقبال میں برکت عطا فرمائے آمین !

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں