پیر، 11 جولائی، 2022

Dr Mushahid Razvi Apne Tahqiqi Maqale Ki Raushni Me

ڈاکٹر مشاہدؔ رضوی اپنے تحقیقی مقالے کی روشنی میں
از : علامہ محمد قمرالحسن قادری قمرؔ بستوی
بانی بزم حسان انٹرنیشنل نعت اکیڈمی ہوسٹن،امریکہ
خطیب و امام جامع مسجد النور ، ہوسٹن ، ٹیکساس ، امریکہ




تحقیق و جستجو فکری جولانیت کا مظہر ہوتی ہیں ۔ دماغ کی انجلائی کیفیت جب کسی نئے عنوان کی تلاش میں پرواز کرتی ہے تو زاویۂ فکر کی وسعتوں میں ایک غیر محسوس دنیا سماتی چلی جاتی ہے۔ اگر فکر کو غیر متحرک رکھا جائے توارتقا کے سارے روزن ایک ایک کرکے بند ہونے لگتے ہیں اور ایک منزل وہ آتی ہے کہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت دم خوردہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ اشہبِ قلم کی رفتار اس وقت تیز تر ہوجاتی ہے جب فکر کو مسلسل مصروف رکھاجاتا ہے۔ پھر ایک منزل ایسی آتی ہے کہ ذہن کو ذرا تحریک دی اور مضامین کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ اہلِ ذوق اور صاحبانِ قلم جانتے ہیں کہ فکر ایک سیال چشمہ ہے۔ جب تک جاری رہتا ہے تو اس کی طراوت ، شیرینی اور ذائقہ باقی رہتا ہے اور جب وہ خشک ہوجاتا ہے تو اس کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے۔

حضور سید ی ، آقائی و مرشدی مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان پر غالباً Ph.D. کا یہ پہلا مقالہ ہے ۔ غالباًاس لیے لکھ رہا ہوں کہ میں جس دنیا میں رہتا ہوں وہ بالکل الگ تھلگ دنیا ہے ۔ وطن مالوف میں تحریکی سرگرمیوں سے واقفیت کم ہی ہوپاتی ہے۔ یہ تو جب سے الکٹرانک میڈیا میں مواصلات کے نئے ذرائع کی ایجاد ہوئی تو کچھ روابط ہونے لگے ورنہ تیرہ ہزار کلو میڑ کی دوری پر مشرق کی خبر مغرب میں پہنچتے پہنچتے ایک عرصہ لگ جایا کرتاتھا۔ مرشدی حضور مفتی اعظم علیہ الرحمہ پر ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی، مالیگاؤں ، مہاراشٹر نے تھیسس لکھ کر ایک نئی جہت کی طرح ڈال دی ہے۔ موصوف اس بار ے میں یقیناً مبارک بادی کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اپنے مقالے کا عنوان حضرت علیہ الرحمہ کی ذات کو بنایا اور تہنیت ہے اس ادارے کو جس نے اس موضوع کو قبول کرکے رجسٹریشن کیا اور وہ نگراں جن کی نگرانی میں یہ مقالہ لکھا گیا۔

ڈاکٹر مشاہدؔ سے میری کوئی ملاقات نہیں ہے۔ بلکہ جب ان کا پہلا میسیج موصول ہوا تو یہ پہلی مواصلت تھی ورنہ اس سے قبل کوئی رابطہ نہیں تھا۔ تاہم مرشد برحق کی شخصیت پر ان کا یہ کام مواصلت کے لیے کافی ہے۔ یہ مشیت کے لیے مخفی انتظامات تھے خضرِ راہ کی شکل میں حضرت سید ڈاکٹر امین میاں جیسی شخصیت سے ملاقات ہوئی اور انھوں نے سیدی مفتی اعظم کی شخصیت پر کام کرنے کا حکم دیا۔ ڈاکٹر مشاہدؔ صاحب نے اس کا ذکر خود کرکے حضرت امین میاں کا اعترافِ شکر کیا ہے، بیان کرتے ہیں:

’’اسی دوران مجھے حضرت علامہ پروفیسر ڈاکٹر سید محمد امین میاں قبلہ مارہروی ( سجادہ نشین خانقاہ عالیہ قادریہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ ، پروفیسر شعبۂ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) سے شہر جلگاؤں میں جناب اقبال بھائی برکاتی کے دولت کدہ پر ملاقات کا شرف حاصل ہوا ، ثناے گفتگو راقم نے آپ کی خدمت والا بابرکت میں پی۔ایچ۔ڈی۔ کرنے اور موضوع سے متعلق مؤدبانہ عریضہ پیش کیاتو آپ نے ’حضور مفتی اعظم علامہ شاہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی کی حیات و خدمات اور نعتیہ شاعری‘ کے حوالے سے تحقیقی کام کرنے کا مفید ترین مشورہ عنایت فرمایاساتھ ہی خصوصی دعاؤں سے بھی نوازا۔‘‘

(مفتی اعظم علامہ مصطفی رضا نور ؔی بریلوی کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ ، ص: 17)

خانوادۂ برکات سے امام اہل سنت کا جو روحانی تعلق تھا وہ اظہر من الشمس ہے اور حضرت سید امین میاں کی یہ خواہش کہ سیدی مفتی اعظم کی شاعری پر تحقیقی مقالہ سپردِ قلم کیا جائے یہ ایک الہامی امر تھا جو پردۂ خفا سے نکل کر وجود میں آیا اور یہ سعادت بھی ڈاکٹر محمد حسین مشاہدؔ رضوی صاحب کے حصے میں آئی ؎

خوشا نصیبی کہ آں ساعتِ ہمایوں بود
قرعۂ عشق بنامِ منِ دیوانہ زدند

ڈاکٹر مشاہدؔ صاحب وہ خوش نصیب ہیں کہ مشیت الٰہی نے یہ کام ان سے لیا ورنہ یہ قرعۂ فال کسی اور کے نام بھی نکل سکتاتھا۔ کتاب کا سرسری مطالعہ کرنے سے جہاں ڈاکٹر مشاہدؔ صاحب کے علمی طمطراق کا پتا چلتا ہے وہیں ان کی انتھک محنت بھی مترشح ہے کہ شب و روز کی محنت کرکے انھوں نے اپنی تھیسس کو پایۂ تکمیل تک پہنچایااور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

ڈاکٹر مشاہدؔ رضوی صاحب کا تحقیقی مقالہ آٹھ ابواب پر مشتمل ہے ۔ باب اول: نعت کے لغوی اور اصطلاحی مفہوم کی وضاحت ، باب دوم میں فنِ نعت گوئی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ باب سوم میں نعت گوئی کی تاریخ کا اجمالی جائزہ لیا گیاہے۔ باب چہارم: ہندستان میں اردو نعتیہ شاعری 1412ء سے لے کر حضرت نوریؔ بریلوی تک ،باب پنجم : پانچ ضمنی عنوانات، باب ششم : کلامِ نوری ؔ بریلوی کا بالتفصیل تحقیقی جائزہ لیتے ہوئے آپ کے کلام کے مختلف شعری و فنی محاسن کو تحقیق کی روشنی اجاگر کیا گیا ہے۔ باب ہفتم میں حضرت نوریؔ بریلوی کی شعری و فنی محاسن ، آپ کے نعتیہ رجحانات ، خیالات اور افکار پر اہل علم و دانش نیز شاعروں ، ادیبوں اور محققین و ناقدین کی گراں قدرآراجمع کی گئی ہیں، باب ہشتم: گذشتہ ابواب کی روشنی میں نوریؔ بریلوی کے اسلوب نگارش ، کلام کی خوبیوں ، آپ کے نعتیہ رجحانات ، خیالات اور افکار کی عالم گیر شہرت و مقبولیت کو واضح کرتے ہوئے یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ کی نعتوں میں تصوف و معرفت کی جوروح پنہاں ہے وہ ہماری قومی و ملی ،تہذیبی و تمدنی اور علمی و ادبی ورثہ ہیں۔

مگر رضا اکیڈمی ، ممبئی سے جو کتاب شائع ہوئی ہے اس میں صرف پانچ باب شامل کیے گئے ہے۔ اس سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ پوری تھیسس کی تلخیص کرکے عوام کے لیے جو ناگزیر سمجھا گیا اس کو شائع کیا گیا۔ جس پر خود ڈاکٹر مشاہدؔ رضوی نے اپنے پیش لفظ روشنی ڈالی ہے۔

ڈاکٹر مشاہدؔ صاحب نے کلامِ نوریؔ کا بھرپور جائزہ لیا ہے اور اپنی بساط کے مطابق اس کے فنی تجزیے کا آئینہ بھی سجایاہے۔ خاص طور سے کتابِ مذکور کا ’’باب سوم : مفتی اعظم کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی و ادبی مطالعہ‘‘ اپنے اندر بڑی جوہریت رکھتا ہے اورمیری ناقص راے میں یہ باب کتاب کا خلاصۂ ابواب ہے۔

چوں کہ نقشِ اول ڈاکٹر مشاہدؔ صاحب نے بنادیاہے اور اس کی طرح ڈال دی ہے اب اس پر دوسرے لوگ مزید اضافہ کرتے رہیں۔ دراصل امام اہل سنت کے خانوادے کی یہ خوبی ہے کہ جوبھی حضرات جیسے حضرت حسن ؔ بریلوی ، حضرت حجۃ الاسلام ، حضرت مفتی اعظم ،حضرت تاج الشریعہ ، حضرت ریحانِ ملت وغیرہم جو مشقِ سخن سے تعلق رکھتے تھے ان کے یہاں نعت اپنے پورے حُسن کے ساتھ موجود ہے۔ نعت کی اَساس شرعی حدود کی پابندی ہے جو اِن حضرات کے یہاں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ بقیہ بدائع و صنائع یہ شرعی حدود کے توابع ہوتے ہیں۔ کیوں کہ جب اَساس ہی خام ہوتو اس پر اٹھنے والی بنیاد بے معنیٰ ہے۔ کلام میں ندرتِ بیانی ان شرعی پاسداریوں کے ساتھ ہی زیب دیتی ہے اگر اس سے ہٹ کر ہوتو وہ بے جان لاشہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔

کتاب کے مطالعے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ڈاکٹر مشاہدؔ خود بھی صنف سخن کی پیچ داریوں سے واقف ہیں۔ کیوں کہ جب تک شعور کی راہ داریوں میں ذاتی جوہریت رہنمائی نہ کرے تو قدم اٹھانا مشکل ہوتا ہے ۔ ڈاکٹر مشاہدؔ صاحب کا شمار نہ صرف اچھے نثر نگار میں ہوتا ہے بلکہ وہ کافی مقبول خوش فکر نعت گو شاعر بھی ہیں ۔ انھوں نے فکرِ نوریؔ کی فنی تہہ داریوں کی پرتیں جس احسن اسلوب میں کھولی ہیں اور اس کے اسرارِ بستہ کو واشگاف کیا ہے ۔ اس داعیہ پر یہ کتاب خود ایک دلیل ہے کہ مشاہدؔ صاحب صنف نعت کے جوہر شناس ہیں ۔ یہ کتاب روشن آئینے کی طرح فکر و نظر کو جگمگارہی ہے۔ باب سوم کا ہر عنوان بذاتِ خود ایک دلیلِ واضح ہے۔

ڈاکٹرمشاہدؔ رضوی کی فکر نے خیابانِ مفتی اعظم سے جو رنگارنگ گل اخذ کیے ہیں وہ لائقِ مبارک باد ہیں۔موصوف کا طرزِ بیان سادہ، رواں اور غیر گنجلک ہے۔ نثری شہ پاروں میں پہلے قافیہ پیمائی ہوتی تھی مگر اب وہ دَور باقی نہیں رہا۔ جب فارسی کا چلن زیادہ تھا اس وقت ترصیعی عبارتوں کو اہمیت سے دیکھاجاتا تھا مگر اب سہل، رواں، مربوط اور زود فہم عبارتیں نثری اسلوب کا حصہ ہیں کیوں کہ کوئی بھی تحریر قاری کے مذاقِ طبع کو سامنے رکھ کر پیش کی جاتی ہے ۔ اگر مغلق عبارتیں، مشکل الفاظ، گنجلک مفہوم اور غیر مربوط تحریر ہوتو قاری اس سے استفادہ نہیں کرپائے گا۔ ایسے میں مقصود حاصل نہیں ہوپائے گا اور جو حاصل ہوگا وہ مقصود نہیں ہوگا۔ کوئی بھی تحریر اگر اس سے استفادہ ممکن نہ ہوتو وہ تحریر بے جان ہے۔ اس لیے ہر قلم کار کو چاہیے کہ وہ بہ غرضِ افادہ لکھے اور اس سے عوام کو مستفید ہونے کا موقع فراہم ہوسکے۔ ڈاکٹر مشاہدؔ رضوی نے اپنی تحریر میں اس کا خاص خیال رکھا ہے کہ میری تھیسس صرف میرے سپروائزر سے خراجِ تحسین حاصل نہ کرے بلکہ عوام سے بھی کلماتِ تحسین حاصل کرے۔ یہ اقتباس دیکھیے، عبارت واضح، مفہوم غیر مبہم اور رواں ہے:

’’حضرت نوریؔ بریلوی کی شاعری دراصل وہبی تھی کسبی نہیں۔حضرت نوریؔ بریلوی صرف شاعر ہی نہیں شارح ادب بھی تھے اور طلاقتِ لسانی ، برجستگی و شگفتہ کلامی کا پیکر بھی، آپ نے اپنے والد ماجد امام احمد رضا بریلوی کے چند اشعار کی شرح بھی فرمائی ہے جسے فتاویٰ مصطفویہ میں نشانِ خاطر کیاجاسکتا ہے۔ نیزتصنیفِ رضا ’الاستمداد علیٰ اجیال الارتداد‘ پر نوریؔ بریلوی نے حواشی بھی لکھے ہیں اور اشعار کی شرح بھی فرمائی ہے۔ ان امور سے بھی شعر و سخن سے آپ کے دلی لگاؤ اور شغف کاانداز ہوتا ہے نیز تخییلی رویے کاپتا چلتاہے۔‘‘ (ص : 203)

کلامِ نوریؔ کے جن گوشوں پر اس میں اجمالی نظر ڈالی گئی ہے ا ن کو تفصیل میں لانے کے لیے مزید اس طرح کے اور بھی مقالوں کی ضرورت ہے۔ مگر یہ کام سیدی مفتی اعظم کے علمی کارناموں میں اُس پر ہوا ہے جو ’اصلی‘ نہیں ’ضمنی‘ ہے۔ شاعری آپ نے اصالت کے طور پر نہیں بلکہ ضمنی طور پر کی ہے آپ کا اصل کام وہ فقہی جواہر پارے ہیں جو آپ کی تصنیفات میں یادگار ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کوئی اہل علم و دانش اٹھے اور حضور مفتی اعظم کی فقہی خدمات پر مقالہ لکھے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے۔ کیوں کہ آپ کا اصل کارنامہ فقہیات کی شکل میں بھی موجود ہے۔ اگر دست بردِ زمانہ سے وہ سارے فتاویٰ محفوظ رہ گئے ہوتے تو آپ کے مجموعہ فتاویٰ کی حیثیت ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ کی ثانویت کی شکل میں ہوتی۔ تاہم موجودہ ’’فتاویٰ مفتی اعظم‘‘ جو مولانا جمال احمد صاحب نے ازسرِ نوترتیب دے کر شائع کیا ہے وہ دراصل باقیات ہیں پھر بھی خذ ماصفیٰ ودع ماکدر کے مطابق جو ہے وہ بذاتِ خود ایک عظیم علمی سرمایہ ہے۔ اس پر پی۔ایچ۔ڈی۔ کرنا گویا فقہیات کے تناظر میں عصرِ جدید کے لیے ایک نئی سوغات ہوگی۔ کیوں کہ سیدی مفتی اعظم کے فتاویٰ میں جو گیرائی اور گہرائی اور استدلال کی قوت مخفی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ہر صاحب علم اس کو جانتا ہے، ہوسکتا ہے:

’’مردمی از غیب بروں آید و کاری بکند‘‘

ڈاکٹر مشاہدؔ رضوی صاحب کو ہدیۂ تبریک ہے، اللہ تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبولیت عطا فرمائے اور مستقبل میں حضرت علیہ الرحمہ پر کام کرنے والوں کے لیے سنگ میل بنادے، نیز المرء مع من احب کے مصداق ان کو بھی اور ہم سب کو بھی انھیں محبوبین کی جماعت میں اٹھائے ، آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم !

محمد قمرالحسن قادری قمرؔ بستوی غفرلہٗ القوی
چیئرمن رویت ہلال کمیٹی آف نارتھ امریکہ
بانی بزم حسان انٹرنیشنل نعت اکیڈمی ہوسٹن،امریکہ
خطیب و امام جامع مسجد النور ، ہوسٹن ، ٹیکساس ، امریکہ
25؍ جون 2022ء
25؍ ذی قعدہ 1443ھ ہفتہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں