ڈاکٹر مُشاہدؔ رضوی کی چھ کتابیں مطالعہ کی میز پر
مبصر: توفیق احسن ؔ
برکاتی مصباحی ، نوی ممبئی۔
(۱) خواجہ معین الدین چشتی :صفحات ۴۸،
ناشر: رحمانی پبلی کیشنز، مالیگاؤں (۲)رہنماے نظامت:صفحات ۶۴،
ناشر: رحمانی پبلی کیشنز، مالیگاؤں
(۳)گلشن اقوال:صفحات ۶۴،
ناشر: رحمانی پبلی کیشنز، مالیگاؤں (۴)عملی قواعدِ اردو:صفحات ۳۲،
ناشر: رحمانی پبلی کیشنز، مالیگاؤں
(۵)پھنس گیا کنجوس:صفحات ۳۲،
ناشر: رحمانی پبلی کیشنز، مالیگاؤں (۶)سید نظمی مارہروی:صفحات ۳۲،
ناشر:ادارۂ دوستی، مالیگاؤں
۳۲؍ سالہ ڈاکٹر محمد حسین
مُشاہد رضوی علم و ادب اور صنعت و حرفت کی سر زمین مالیگاؤںکی مٹی میں جنما ایک
ایسا منفرد المثال خوش نما پودا ہے جس نے قلیل عرصے میں ہی ایسے رنگا رنگ برگ و
بار اپنے تن پر سجا لیے ہیں جن کی نکہتیں دامنِ فکر و فن کو معطر کرتی نظر آتی ہیں۔
باقاعدہ قلمی زندگی کی شاید ایک دہائی آپ نے مکمل کی ہو لیکن نثر و نظم ہر دو
میدانوں میں آپ کا اشہبِ قلم بڑی سرعت کے ساتھ اپنی فتوحات کے سلسلے کو دراز
کررہا ہے اور تازہ بہ تازہ فکری و فنی جھونکوں سے اپنے گرد و پیش کو فیض یاب کررہا
ہے،ڈاکٹر مُشاہدؔ رضوی کی ہمہ جہت ذات کی کئی ممتاز دِشائیں متعین کی جاسکتی
ہیںاور یہ تعین بلادلیل نہیں ہوگا آپ حقائق کے اُجالے میں ایک متین اور سنجیدہ
اسلوبِ تحریر کے مالک ادیب، ’’یقیں محکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم ‘‘ جیسے عظیم
فلسفے پر یقین رکھنے والے زندہ دل اور بے حد حساس محقق اور دانش ورانہ طرزِ فکر پر
اپنی فکری و فنی لیاقت کو اجالنے والے مشّاق تنقید نگار اور تقدیسی شاعری کے سلسلۃ
الذہب کی ایک نمایندہ کڑی بن کر دنیاے شعر و ادب میں شاداں و فرحاں دکھائی دیتے
ہیں، یہ کوئی مدلل مداحی نہیں، ایک زمینی حقیقت کا اعتراف ہے اور بس۔ ابھی چند ماہ
قبل انھوں نے تحقیق و تدقیق میں ایک سنگ میل پار کیا ہے،’’ مصطفی رضا نوریؔبریلوی
کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ ‘‘ جیسے موضوع پر انھیں مراٹھواڑہ یونیورسٹی،
اورنگ آباد سے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی ہے۔ جو اپنے موضوع پر پہلی پی ایچ
ڈی ہے۔ کئی سالوں پہلے انھوں نے ’’چہل حدیث مع گلدستۂ حدیث‘‘ کے نام سے ایک
کتابچہ اپنے قارئین کو دیا تھا، اس کے بعد’’ اردو کی دلچسپ اور غیر معروف صنعتیں‘‘
نامی کتاب لکھی پھر یکے بعد دیگرے ’’لمعاتِ بخشش‘‘ (نعتیہ دیوان) -’’ نثر رضا کے
ادبی جواہر پارے‘‘- ’’ تذکرۂ مجیب‘‘- ’’سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش
طبعی‘‘- ’’ شادی کااسلامی تصور‘‘- ’’ علامہ فضل حق خیرآبادی‘‘ اور ’’ تشطیراتِ
بخشش‘‘ نامی مفید علمی و ادبی کتابیں تحریر کیں، یہ ساری کتابیں شائع ہوکر پذیرائی
حاصل کرچکی ہیں ۔ اس وقت راقم کے مطالعہ کی میز پر ایک ساتھ موصوف کی چھ کتابیں
سجی ہوئی ہیںاور سب نادر اور مفید موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں ۔ ڈاکٹرمُشاہدؔ نے
تاریخ ، تذکرہ، اسلامیات، ادب اور شاعری وغیرہ اہم موضوعات پر مشتمل چھوٹے چھوٹے
کتابچے مرتب کرکے شائع کیے اور انھیں بے طرح مقبولیت ملی، درج بالا کتابوں کے نام
ہی سے ان کے موضوعات کا پتا چلتا ہے، مالیگاؤں میںادبِ اطفال، تاریخی شخصیات
سیریزاور عام معلوما ت وغیرہ سے متعلق سیکڑوں کتابیں شائع کرنے کا شرف رحمانی پبلی
کیشنز کو حاصل رہا ہے۔ خواجۂ ہندوستان سید معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ
کی مختصر سوانح حیات پر مشتمل یہ کتابچہ رحمانی پبلی کیشنز کی تاریخی شخصیات سیریز
کی ایک کڑی ہے جس میں ایجاز و اختصار کے ساتھ خواجۂ ہندوستان کی حیات کے چیدہ
چیدہ پہلووں پر حوالوں کی روشنی میں بحث کی گئی ہے اگر چہ یہ کتاب آپ کی سیرت و
سوانح کے باب میں کوئی خاص اضافہ نہ قرار دی جائے پھر بھی اپنے اندازِ پیش کش اور
چند نادر جہات کی موجودگی نے اسے ایک دستاویزی مرقع بنادیا ہے، آسان زبان، اچھوتا
اندازِ بیان لیے غیر ضروری مبالغہ آرائی سے پاک اس کتاب کا ضرور خیر مقدم کیا
جائے گا۔
مختلف محافل اور
دینی و ادبی مجالس میں نظامت ایک بنیادی کردار کا حامل کام ہوتا ہے۔ لیکن اس فن نے
بھی مبالغہ آرائی کی تمام سرحدوں کو پار کرلیا ہے۔ فضول اور غیر ضروری باتوں میں
کافی وقت برباد کرنا ایک ناظم اپنی کامیابی تصور کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے بسا اوقات
اس کی نظامت خطابت بن جاتی ہے ۔ لیکن سنجیدہ سامعین نے کبھی بھی اس طرزِ عمل کو
اچھا نہیں گردانا، مُشاہدؔ رضوی کی زیرِ تبصرہ دوسری کتاب ’’رہنماے نظامت‘‘- نظامت
کا فن سکھانے والی ایک بہترین اور مفیدکتاب ہے جس میں نظامت سے متعلق ضروری ہدایات
، ناظمِ اجلاس کے لیے اہم پابندیوں کی وضاحت کے ساتھ پروگرام کی ترتیب بھی بیان کی
گئی ہے اور مثالوں کے ساتھ ان کا مختصر خاکہ بھی پیش کر دیا گیا ہے۔ سال کے مختلف
دنوں میں منعقد ہونے والے پروگرام کے لحاظ سے مختصر تمہید، انمول اندازِ بیان ،
مخصوص ترکیب اور متعین موضوع سے متعلق جملوں کی ایک کہکشاں سجادی گئی ہے، مثلاً :
یومِ اطفال ، یومِ ماں ، یومِ مہاراشٹر، یومِ اساتذہ اور ان کے علاوہ یہ کتاب دینی
و تقریری و مقابلہ جاتی پروگراموں کی تفصیل اور نمونوں کی روشنی میں بڑی دلچسپ
معلومات کا خزانہ معلوم دیتی ہے، اخیر کے تیرہ صفحات میں اشعار کا گل دان بھی
سجادیا گیا ہے، ساتھ ہی چار صفحات میں مفرد اور مرکب ترکیبوں کا اک خوش نما باغ
بھی چن دیا گیا ہے تاکہ ناظم کے ذخیرۂ الفاظ میں کبھی کمی کا احساس نہ پیدا ہو،
بہ ہرحال! یہ ایک مفید کتاب ہے جو اپنے موضوع کا حق ادا کرتی ہے اور سنجیدہ علمی
طبقہ جس کے استقبال کے لیے تیار رہے گا۔
ڈاکٹر مُشاہدؔ
رضوی نے دورانِ مطالعہ اپنی نوٹ بک میں اقوالِ زریں کا ایک خزانہ مرتب کرکے جمع
کرلیا تھا جو تاریخی ، تعلیمی ، تہذیبی ، تمدنی ، معاشرتی اور اَخلاقی اقدار کو
بڑے سلیقے سے نمایاں کرتے ہیں ، قریب ایک ہزار زریں اقوال کی کہکشاوں سے جگمگاتی
یہ کتاب ہر میدان کے فرد کے لیے انتہائی کار آمد اور دور رس نتائج کی حامل قرار
دی جاسکتی ہے۔’’ گلشن اقوال ‘‘ نامی کتاب اسم بامسمیٰ ہے جسے ہر طرح کے قارئین پڑھ
سکتے ہیں۔
’’ عملی قواعدِ
اردو‘‘ کی دوسری اشاعت اس کی مقبولیت کا پتا دے رہی ہے مزید اصطلاحات کے ساتھ یہ
کتاب ڈیڑھ سال بعد دوبارہ طبع ہوکر منظرعام پر آئی ہے جس کے متعلق معروف نقاد اور
مشہور ماہر جمالیات پروفیسر شکیل الرحمان باباسائیں نے یہ وکالت کی ہے کہ یہ
کتابچہ مدرسوں اور اسکولوں کے نصاب میں شامل ہونا چاہیے۔ یہ کتاب اہل علم اور
خصوصاًاساتذہ و طلبہ کے لیے نہایت مفید ہے جس میں تمام اصطلاحات کو نہایت مختصر
اور جامع طور پر ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔
ڈاکٹر مُشاہدؔ
رضوی پیشۂ تدریس سے منسلک ہیں اس لیے بچوں کی نفسیات سے آگاہ ہیں طلبہ کی
اصلاحات سے متعلق غور و خوض ایک اخلاص پیشہ استاد کے لیے بے حد ضروری ہے ، اردو کے
ساتھ مراٹھی اور ہندی ادب بھی مُشاہدؔ صاحب کے مطالعہ میں رہتے ہیں ، زیرِ نظر
کتاب’’ پھنس گیا کنجوس‘‘ مراٹھی کی مختلف کتابوں سے چودہ کہانیوں کا اردو ترجمہ
ہے، یقینی طور پر اس کتاب کے ذریعہ ایک مترجم کی حیثیت سے ڈاکٹر مُشاہدؔ رضوی کا
نیا چہرہ سامنے آیا ہے۔ جس کے بارے میں خود ترجمہ نگار نے لکھا ہے کہ ’’ ان
کہانیوں کے ذریعہ طلبہ میں اقدار کا فروغ ممکن بنایا جاسکتا ہے۔‘‘ اللہ عزوجل
انھیں اپنے مقصد میں کامیاب کرے، آمین۔
خانوادۂ برکاتیہ
کئی صدیوں سے علم و فضل ، زہد و اتقا ، سیادت و بزرگی اور شعر وادب میں اپنی عظیم
خدمات پیش کررہا ہے۔ تصوف و روحانیت اور اَخلاقی اقدار و جمالیات کے فروغ میں جس
کے کارنامے تاریخ کا حصہ ہیں، شعر وسخن میں بھی اسے امتیازی نشان حاصل ہے۔ میر
عبدالواحد شاہدیؔ بلگرامی سے شاہ برکت اللہ پیمیؔ تک اور وہاں سے عینیؔ مارہروی،
نوریؔ مارہروی، فقیرؔ مارہروی،احسن ؔ مارہروی ، آل عبا مارہروی، سید ؔمارہروی اور
حسنؔ مارہروی کا سلسلہ سید محمد اشرفؔ اور سید نظمی مارہروی تک دراز نظر آتا ہے۔
سید آلِ مصطفی
سیدمیاں مارہروی قدس سرہٗ کے فرزندوجانشین سید آلِ رسول حسنین میاں نظمی مارہروی
کے فکر و فن اور حیات و خدماتِ علمیہ بالخصوص نعتیہ ادب میں ان کے کارہاے نمایاں
کو اختصار کے ساتھ پیش کرنے والی کتاب’’ اقلیم نعت کا معتبر سفیر ، سید نظمی
مارہروی‘‘ ڈاکٹر مُشاہدؔ رضوی کی سخن فہمی اور شعری و ادبی مہارت کی عمدہ مثال کہی
جاسکتی ہے۔ جس میں انھوں نے اپنے ادیبانہ رنگ اور محققانہ اسلوب و طرز کا خاص خیال
کیا ہے اور نظمی مارہروی کی علمی و قلمی خدمات کے ساتھ ان کی شاعرانہ عظمت، فکری
تنوع ، موضوعاتی رنگا رنگی اور فنی و شعری محاسن پر اختصار کے ساتھ گفتگو کی ہے
اور موضوع کا حق نبھانے میں مخلصانہ کوشش کی ہے، میرا اپنا ذاتی تاثر یہ ہے کہ وہ
اپنی اس کوشش میں بے طرح کامیاب ہیں۔
اللہ عزوجل ان کی
تمام علمی و قلمی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کتابوں کو مقبولِ خاص و عام کرے،
آمین۔ علم و ادب کے سنجیدہ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ان کتابوں کو اپنے خوانِ
مطالعہ پر سجائیں اور گوہر نایاب حاصل کریں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں