منگل، 23 اکتوبر، 2012

اے عشق ترے صدقے



اے عشق ترے صدقے
ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی، مالیگاؤں

       حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ جو اپنے وقت کے ایک ولی کامل گذرے ہیں ۔ایک کنیز کاحال لکھتے ہیں کہ ایک رات وہ بہت بے چین تھے ۔ اللہ والے عموماً راتیں اپنے رب کی یاد میں گذارتے اور سکون پاتے ہیں اور یہ عبادت صرف مصلے اور جا نماز پر ہی نہیں ہوتی ۔ یادِ الٰہی توہر رنگ میں ہوتی ہے ۔ رات کو گھر سے نکلے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر نظر کی ، پھولوں ، پودوں کا خیال کیا، سبزہ زاروں کا تصور ابھرا ، صحراکی طرف نکلے مگر کہیں چین نہ تھاقریب ہی ایک شفا خانہ تھا۔ سوچا چلو مریضوں کو دیکھو شاید سکونِ قلب حاصل ہوجائے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک نہایت خوب صورت اور حسین و جمیل لڑکی بہترین کپڑے پہنے اور زرو جواہر سے لدی پھندی ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، گلے میں طوق اور پیروں میں بیڑیاں ڈالے آہ و زاری میں مصروف و مشغول ہے۔ حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ یہ دیکھ کر بھونچکے رہ گئے کہ کیا معاملہ ہے ؟ آپ نے شفا خانے کے داروغہ سے پوچھا یہ کیا معاملہ ہے؟ اس نے ایک امیر کبیر سوداگر کا نام لیا کہ یہ اس کی کنیز ہے اور کچھ دنوں سے اس پر دورے پڑتے ہیں ۔ اس لیے اس کا مالک یہاں علاج کے لیے چھوڑ گیا ہے ۔
       جس وقت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ اور داروغہ بات چیت کررہے تھے۔ تو وہ مجنونہ ہوش میں آگئی اور پُر درد آواز میں شعر پڑھنے لگی۔ خوب صورت اور دل کش آواز اور اس کے ساتھ رقّت ! کرب اور درد! اشعار تھے کہ آگ کے شعلے ! سننے والوں کا دل بھی جلادیا۔ ان اشعار کا تقریباً مطلب یہ تھا کہ ’’ لوگو! مَیں پاگل نہیں ہوں مَیں تو اس کی محبت میں سرشار ہوں اور میر ادل فریاد کناں ہے ۔ تم لوگوں نے مجھے ہتھکڑیاں پہنارکھی ہیں حال آں کہ اس کے سوا مَیں نے کوئی گناہ نہیں کیا کہ اپنے محبوب کی محبت میں سرگرم و سرگفتہ ہوں تم جس میں میری بھلائی سمجھ رہے ہو ، اس میں میرے ساتھ دشمنی کررہے ہو ۔ جس کو تم برائی سمجھتے ہو دراصل وہ تو بھلائی ہے۔‘‘
       حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، جب یہ دردناک اور کرب ناک اشعار مَیں نے سنے تو میر ادل دھڑک اٹھا اور بے اختیار آنسو بہنے لگے۔ کنیز میری طرف متوجہ ہوئی اور بولی: ’’اے سری سقطی ! یہ رونا اس کی صفت پرہے اگر تم اس کی ذات کو پہچانتے تو کیا ہوتا؟‘‘
       حضرت سری سقطی نے عالمِ حیرت و استعجاب میں اس سے پوچھا :’’ اے لڑکی ! تو میرا نام کس طرح جانتی ہے؟‘‘
       لڑکی نے انگلی سے آسمان کی طرف اشارا کیااور کہا: ’’ جب میں اس سے واقف ہوگئی ہوں تو کسی سے ناواقف نہ رہی۔‘‘
       حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا:’’ تم کس کی محبت میں اپنے آپ کو فنا کررہی ہو؟‘‘
       کنیز نے ایک سرد آہ بھر کرجواب دیا:’’میری محبت صرف اس کے لیے ہے ، جس نے مجھے اپنی نعمتوں سے آگاہ کیا اور اپنی مہربانیوں سے شکر گزار بنایا ، جو دلوں میں بستا ہے ، جوسوال کرنے والوں کو خود جواب دیتا ہے ۔‘‘
       سری سقطی نے پوچھا:’’ یہاں تم کو کس نے قید کیا ہے؟‘‘ اس نے جواب میںکہا :’’ حسد کرنے والوں نے ۔‘‘ اور ایک پُردرد نعرہ مارا اور بے ہوش ہوگئی۔
       حضرت نے داروغہ سے کہا :’’ اسے رہا کردو۔‘‘ اس نے ہتھکڑیاں کھول دیں اور آزاد کردیا ۔
       حضرت سری سقطی نے فرمایا :’’ تم آزاد ہو جہاں چاہو ، چلی جاؤ۔‘‘
       کنیز نے جوب دیا:’’  مَیں کس طرح جا سکتی ہوں ؟ جو میرا محبوب ہے ، اس نے مجھے اپنے ایک غلام کی ملکیت بنایا ہوا ہے اس کی اجازت کے بغیر مَیں کوئی قدم نہیں اٹھا سکتی۔‘‘جب یہ باتیں ہورہی تھیں تواس کنیز کامالک بھی شفا خانے میں آگیا۔ اس نے جب حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا تو بے حد خوش ہوا اور خدمت میں حاضر ہوکر بہت تعظیم و احترام کا اظہار کیا ۔ حضرت سری سقطی نے فرمایا:’’ میرے معاملے میں تم خوامخواہ مبالغے سے کام لے رہے ہو۔ یہ لڑکی مجھ سے زیادہ عزت و احترام کی مستحق ہے ۔ تم نے اس کو کیوں پابہ زنجیر کر رکھا ہے؟‘‘
       مالک بہت شرمندہ ہوا اور کہا:’’ مَیں نے اسے اپنا بہت سارا سرمایہ خرچ کرکے خریدا ۔ یہ اپنے حُسن کے علاوہ بہترین خوش گلو گلو کارہ اور رقاصہ بھی ہے۔ میر ا خیال تھا ، مَیں اسے فروخت کرکے بہت زیادہ منافع کماؤں گا۔ مَیں نے اس پر بیس ہزار درہم خرچ کیے مگر اب تو مجھے بیس درہم بھی ملنے کی امید نہیں۔‘‘
       حضر ت سری سقطی نے پوچھا:’’ اس کی یہ حالت کب اور کیسے ہوئی؟‘‘ وہ بولا:’’ مَیں نے آپ کو پہلے بتایا کہ یہ بہت اچھا گاتی ہے ۔ تقریباً ایک سال کا عرصہ ہوا ایک دن یہ مستانہ وار عود بجاکر یہ اشعار گارہی تھی، جس کا مطلب ہے کہ۔’’ اے و ہ شخص! جس کے سوا میرا کوئی آقا نہیں ، تو نے مجھے لوگوں میں غلام بنا کررکھ دیا ہے۔‘‘ بس اسی شعر کی تکرار کرتے ہوئے بے خود ہوگئی ، عود توڑ کر دور پھینک دیا اور رونے لگی، ہم نے سمجھا شاید اسے کسی سے عشق ہوگیا ہے مگر یہ بات بھی غلط ثابت ہوئی آخر تنگ آ کر علاج کے لیے شفاخانے لانا پڑا اور اسی کی بہتری اور بھلائی کے لیے ہم نے اسے پابہ زنجیر کیا ہے۔‘‘
       حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اچھا تم اسے میر ے ہاتھ فروخت کردو ، مَیں اس کی قیمت کے ساتھ منافع بھی دوں گا۔‘‘
       اس شخص کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ بھلا ایک درویش کہاں سے اتنی رقم دے سکتا ہے ؟ حضرت نے اس کی حیرانگی بھانپ لی اور کہا:’’ تم میری زبان پر اعتبار کرو۔‘‘ یہ فرما کر حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ شفاخانے سے واپس چلے آئے ۔‘‘
       یہ حقیقت تھی کہ درویش کے پاس مال کہاں؟ ایک درہم بھی نہ تھا۔ تمام رات گریہ وزاری اور مناجات و دعا میں بسر کی ، صبح دم ابھی روشنی بھی نہیں پھوٹی تھی کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ آپ نے دروازہ کھولا تو ایک شخص کھڑا تھا، پوچھنے پر بتایا کہ میرا نام احمد مثنیٰ ہے۔ رات مجھے غیب سے آواز آئی کہ پانچ تھیلیاں سری سقطی کوپہنچادو! چناں چہ مَیں پَو پھٹتے ہی رقم لے کرحاضر ہوگیا ہوں ۔ آپ نے تھیلیاں لے لیں اور سجدۂ شکر بجالایا ۔ اور اسی وقت تھیلیاں لے کر شفاخانے پہنچے ۔ داروغہ نے دیکھ کر کہا:’’ مرحبا! مَیں نے غیب سے آواز سنی ، جس سے اس لونڈی کا حال ظاہر ہوا ۔ واقعی وہ صاحبِ عظمت ہے ۔‘‘
       اسی وقت کنیز کا مالک بھی آگیا ، اس کی آنکھوں سے آنسو رواں دواں تھے ۔ حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:’’ تم رنجیدہ نہ ہو ، مَیں پوری قیمت کے ساتھ منافع بھی لے کر آیا ہوں ۔ ‘‘
       مگر اس نے قیمت لینے سے انکار کردیا ۔حضر ت نے مزید رقم بڑھادی ۔ مگر اس نے کہا :’’ ساری دنیا اس کی قیمت کے بدلے میں مجھے ملے تو مَیں اسے بھی قبول نہ کروں گا۔ مَیں ہاتفِ غیبی سے اس کی عظمت ، اس کی رفعت ، اس کا مقام سن چکا ہوں ۔ مَیں خالص اللہ کے نام پر اسے آزاد کرتا ہوں ۔ ‘‘
       یہ منظر دیکھ کر احمد مثنیٰ جو سری سقطی کے ساتھ ہی شفاخانے آئے تھے ، اپنا مال راہِ حق میں لٹاکر فقیر ہوگئے ۔ اس لونڈی کا مالک بھی راہِ سلوک و معرفت کا راہی بن گیا۔ مختصر یہ کہ بہ ظاہر ایک رقاصہ جسے اللہ عزوجل کی سچی محبت مل گئی تھی اس دیوانی نے کئی دنیا داروں کو واصل حق کردیا ۔
(یکم شوال المکرم ۱۴۳۳ھ/۲۰؍ اگست ۲۰۱۲ء پیر)
ڈاکٹر محمدحسین مُشاہدؔ رضوی
Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi
Writer, Poet, Research Scholar, Author.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں