منگل، 30 اکتوبر، 2012

مُشاہدؔ رضوی کی نعت گوئی اعلا مقصد کی طرف گامزن ہے



مُشاہدؔ رضوی کی نعت گوئی اعلا مقصد کی طرف گامزن ہے
سلطان سبحانی

       نعت شریف ادب کی ایک پاکیزہ ترین اورقابلِ احترام صنفِ سخن ہے ۔کیوں کہ اس میں حضور پاک  ﷺ کی ذاتِ عالیہ اپنی سیرت و صفائی کی تمام تابانیوں اور ازل سے ابد تک کی تمام جلوہ سامانیوں کے ساتھ قرطاس پر اُتر کر قلب و ذہن کو روشن کرتی ہے۔سرورِ کائنات  ﷺ اس مرتبہ پر فائز ہیں کہ ان کے زیرِ قدم کائنات ہے۔کاندھے پر اُمّت کا بوجھ،سر پر محسنِ انسانیت کا تاج اور دستِ مبارک میں ’نجات‘کی زنبیل ہے اور جن کے بارے میں کلامِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے :’’اور (ہم نے)تمہارا ذکر بلند کیا‘‘(سورۂ الم نشرح)اور یہ بھی ارشاد ہوا ہے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ نبیِ پاک(ﷺ) پر درود بھیجتے ہیں‘‘۔(سورۂ احزاب)۔
       درودِ پاک کے اس بحرِ بیکراں میں نعتِ پاک(ﷺ) یقیناابرِ گہر بار کے مصداق ہے۔یہ’’ ابرِ گہر بار ‘‘ذاتِ رسولِ پاک  ﷺ کا استعارہ ہے۔جو سراپا نُور سے عبارت ہے۔لہٰذا نعت شریف کی کائنات میں جب کوئی اعلا شعر ظہور میں آتا ہے تو (بے شک)خدا بھی جھوم اُٹھتا ہے۔
       عام نعتیہ شاعری سے ہٹ کر،نعت نگاری ایک مشکل ترین فن ہے۔کیوں کہ اس میںقدم قدم پر آزمائشوں کی صلیبیں ایستادہ رہتی ہیںاور سر پر شمشیٖرِ بے نیام یوں گردش کرتی ہے کہ ایک ذراسی غفلت شاعر کو تصنّع ،غلوٗ،کفر اور شرک کی کھائیوں میں گرا سکتی ہے ۔کسی اعلا ذات یا شخصیت کی محبت و عقیدت میں سرشار ہوجاناہر لحاظ سے قابلِ تحسیٖن ہے لیکن اس سرشاری میں ہوش اور عقل و خرد سے بیگانہ ہوجانا یقیناقابلِ مواخذہ ہے۔کیوں کہ فروگزاشت اسی کیفیت میں ہوتی ہے۔
       عام نعتیہ شاعری میں ذ ہنی سفر اسی فروگزاشت کے باعث لفّاظی اور غلو کے مقام سے بھی آگے بڑھ جاتاہے اور بعض مقام پر اُس ربِّ کائنات کے مرتبہ کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے جو کائنات میں حرفِ اوّل و آخر اور مختارِ کل کی حیثیت رکھتا ہے۔اس ذات کو غفلت میں یاکسی اور وجہ سے نظر انداز کرنا ایک ایسی لغزش ہے جس کے باعث غافل شاعر توہینِ رسالت کا مرتکب ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نعت نگاری کا فن اپنی مشکلات میں ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘کے بمصداق حد درجہ احتیاط کا متقاضی ہے۔
       کہا جاتا ہے کہ اکیسویں صدی نعت گوئی کی صدی ہے۔اگر یہ درست ہے تو اللہ کرے یہ صدی ہمیشہ قائم رہے۔دنیا کے بہت سارے شہروں کی طرح مالیگاوں میں بھی آئے دن نعتیہ مجموعے شائع ہوتے رہتے ہیں۔یہاں بزرگ شعرا کی طرح نوجوانوں کی نووارد نسل بھی نعت گوئی کی طرف متوجہ ہے اور کم و بیش ہر کوئی اس فن سے واقف ہے لیکن ان کے درمیان اتنا فرق ضرور ہے کہ کچھ شعرا روایتی نعتیں لکھ رہے ہیں اور کچھ نئی نعتیں لکھنے کی کوشش میں ہیں۔نئی نعت نگاری میں ایک نئی صورتِ حال یہ سامنے آگئی ہے کہ شاعر حضورِ پاک  ﷺ کے بارے میں یوں پہیلیاں بجھواتاہے یا سوال کرتا ہے جیسے اُن(ﷺ) کی ذات و صفات کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔(حالانکہ سب جانتا ہے)لہٰذا یہ اعتراض صرف اس کے اندازِ بیان پر ہے۔اور ویسے بھی یہ نکتہ اس لیے قائم رہتا ہے کہ زمین و آسمان کے سارے اسرار کھولنے والے کو یوں پردۂ اسرار میں پیش کرناکوئی فن کا ری ہے یا مجبوری؟
       گزشتہ کچھ برسوں میں نعتیہ کلام کے جو مجموعے سر زمینِ مالیگاوں میں طلوع ہوئے وہ یقینااپنی مثال آپ ہیں۔ان میں ایک مجموعہ ’’لمعاتِ بخشش‘‘ہے جس کے مصنف محمد حُسین مُشاہدؔ رضوی ہیں۔ان کے اس مجموعۂ نعت کو دیکھ کر کئی طرح سے حیرت ہوتی ہے۔اوّل یہ کہ اس کم عمری میں انھوں نے ایک گہرا دریا پار کرنے کی کوشش کر ڈالی ہے،دوسرے یہ کہ اس دریا کے بہت سے گوہرِ آب دار ان کی دست رَس سے قریب تر ہیں اور تیسرے یہ کہ انھوں نے ثابت کردیا کہ فکر و فن کا دریا عبور کرنے کے لیے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ان تمام نکات سے ان کی مستحکم خود اعتمادی کا چہرہ جھانکتا ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ شمشیٖرِ بے نیام کی گردش اور آزمائشوں کی صلیبیں ان کا راستہ اب روک نہیں سکتے کیوں کہ وہ ’’لمعاتِ بخشش‘‘ کی منزل پر پہنچ چکے ہیں۔
       دیکھنے میں آتا ہے کہ اِس عمر کے شعرا جب شاعری کی طرف رجوع ہوتے ہیں تو اُن کی نگاہیں کج ادا صنفِ سخن غزل پر مرکوز ہوتی ہیںلیکن مُشاہدؔ رضوی اسلام،سیدالانبیا  ﷺ اور بزرگانِ دین کے وسیع تناظر میں اپنی شاعری کا آغاز کرتے ہیں۔یہ ایک بڑی بات ہے اور ایسی مثالیں بہت کم نظر آتی ہیں۔اس مثال سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ’’لمعاتِ بخشش‘‘ کے شاعر میں حُسنِ اخلاق و کردار اور حُسنِ فکرو نظر کے ساتھ حُسنِ انتخاب کا بھی وصف موجود ہے۔
       ’’لمعاتَ بخشش‘‘ کے مطالعہ کے بعد اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ مُشاہدؔ رضوی، …اعلا حضرت امام احمد رضا بریلوی کے روحانی علوم و کلام سے کافی متاثر ہیں اور اس بات کا اعتراف انھوں نے اس صورت میں کیا ہے :’’انھیں کے در سے سیکھا ہے سلیٖقہ نعتِ سرور کا‘‘اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اعلیٰ حضرت کا شعری سرمایہ ان کے لیے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ’’بزرگوں کا سایہ بڑی چیز ہے‘‘لہٰذا ان کا یہ سفر ان کی کامیابی کی بشارت دے رہا ہے۔
       ’’لمعاتِ بخشش‘‘ کا دروازۂ سخن حمدِ باریِ تعالیٰ سے کھلتا ہے اور مشاہدۂ حق کا منظر نامہ یا نورِ الٰہی کا یہ نظارا سامنے آتا ہے کہ ساری مہربانیاں ،ساری قدرت،سارا اعجازاور سارا فیصلہ حق تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ان دو اشعار میں اس مضمون کو یوں پیش کیا گیا ہے     ؎
بغیر لغزشِ پا تُو ڈبو بھی سکتا ہے
پھسلنے والوں کو بے شک سنبھالتا ہے تُو ہی
جو لَوحِ ذہنِ مُشاہدؔ میں بھی نہیں یارب
وہ حرفِ تازہ قلم سے نکالتا ہے تُو ہی
       مُشاہدؔ رضوی کی نعت گوئی ایک اعلا مقصد کی طرف گامزن ہے۔ان نعتوں کی زیریں رَو میں دنیا کے تمام اندھیروں کو دُور کرکے چاروں طرف روشنی پھیلانے کی خواہش اور سرورِ کائنات  ﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے اور اُن کی ذاتِ باصفات وبا کمال سے محبت رکھنے کی خوش بُو موجود ہے۔ظاہر ہوتا ہے کہ مُشاہدؔ رضوی کی نعتیہ شاعری حضورِ پاک  ﷺ کے وسیلہ سے انسان کے روحانی سفر کا احاطہ کرنے کے علاوہ سیدالبشر ﷺ سے اپنی والہانہ اور ہوش مندانہ عقیدت کا چراغ بھی روشن کررہی ہے۔مندرجۂ ذیل اشعار میں ان تمام باتوں کی جھلکیاں ہیں جو یقینامتوجہ کریں گی      ؎
خدایا! چشمِ طلب کو جہاں نمائی دے
جہاں سے دیکھوں مدینہ مجھے دکھائی دے
صبیح آپ ، صباحت کی آبروٗ بھی آپ
ملیح آپ ، ملاحت کی آبروٗ بھی آپ
دشتِ طیبہ ہے ہمیں باغِ ارم کی صورت
یاخدا! اب تو دکھا دونوں حرم کی صورت
ہیں یوں تو اور بھی اصنافِ شاعری لیکن
کسی کا رُتبہ نہیں نعتِ مصطفی کی طرح
اُجالا جو پھیلا ہوا ہے جہاں میں
ہے منت کشِ خاکِ پائے محمد(ﷺ)
دیکھے تو ذرا کوئی مرے شیٖشۂ دل میں
تصویر شہِ دیں کی اُتر آئی ہے بے شک
عَرَقِ بدن گلاب میں ، آپ کا مہکے یانبی
خوش بُوے زلفِ مُشک بُو ، بادِ سحر کی آبروٗ
جس پہ ہو عارضِ تاباں کی صفت کا احوال
کردے نامہ کی سیاہی کو منوّر کاغذ
مرے نبی کی مثال کیا ہو؟
کسی کا اُن سا جمال کیا ہو؟
وہی ہیں رحمت جہان بھر کی
کسی میں ایسا کما ل کیا ہو؟
نہ جامِ جم کی خواہش ہے نہ چاہت مجھ کو کوثر کی
تمنّا ارضِ طیبہ میں ہے جامِ چشمِ سرور کی
       اس مجموعۂ نعت میں مُشاہدؔ رضوی نے غزلیہ نعت کے فارم سے ایک قدم آگے بڑھا کر آزاد نظمیہ نعتیں بھی پیش کی ہیں جو ہر لحاظ سے نئی اور تازہ ہیں۔انھیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مُشاہدؔ کے شعری سفر کا رُخ نئے جزیروں کی طرف بھی ہے۔ان کی یہ پیش قدمی قابلِ تعریف ہے۔
       اس مضمون میں پیچھے کسی صفحہ میں لکھا گیا ہے کہ ’’بہت سے گوہرِ آب دار ان کی دسترس سے قریب تر ہیں‘‘لیکن ان نظموں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ گوہرِ آب دار ان کی دسترس میں ہیں۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں