منگل، 30 اکتوبر، 2012

مُشاہدؔ رضوی اور تقدیسی شاعری



مُشاہدؔ رضوی اور تقدیسی شاعری
ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط
رُکن مجلسِ ادارت ،بال بھارتی(اردو)،پونے)

       ’’رَفَعنَا لَکَ ذِکرَک‘‘ کی آیت لوحِ محفوظ میں نہ جانے کب سے لکھی گئی ہوگی مگربہر زماں و بہر زباں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ مبارک متواتر و مسلسل جاری ہے۔کبھی اذانوں میں کبھی تلاوتوں میں…ذکر و اذکار کی مجلسوں میں کہیں ،تو کہیں محافلِ میلاد و وعظ کے بیانوں میں…غرض کہ ہر جگہ وہر پل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہوتا ہی ہے اور مذکورۂ بالا آیت اس کی سند ہے۔اللہ اور اس کے رسول کے ذکر سے اپنی زبان کو تر وتازہ رکھنا بڑی سعادت ہے۔یہ ذکر زبانی ہو تو اس کا فائدہ بہ ظاہر اپنی ذات تک محدود ہوتا ہے،لیکن یہی ذکر اگر تحریری شکل میں ہوتو عوام الناس تک اس سے مستفیض ہوسکتے ہیں ۔ذکرِ رسول علامتِ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے،اس لیے اس میں مداومت و استخلاص ضروری ہے۔اُمتی اگر چاہے کہ حبِّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حبُّ اللہ بھی اسے حاصل ہوجائے تو خود اللہ رب العزت نے یہ شرط لگادی ہے کہ ہمیں اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کرنی ہوگی، تبھی اللہ ہم سے محبت کرے گا۔گویا اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے اتباعِ رسول ضروری ہے۔ہمیں عشقِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی عملاً پیروی کرکے پیش کرنا ہوگا۔
       بیسویں صدی کا ربعِ آخر تقدیسی شاعری کی طرف مراجعت کا زمانہ رہا۔برِ صغیر میں تب سے بے شمار حمد و نعت و منقبت کے دواوین ،کلیات اور مجامع منظرِ عام پر آنے لگے ہیں۔حضرت احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جس وتیرے کو اپنایا تھا،نعت گو شعرا کی اکثریت اب انھیں کوا پناا مام تصور کرتی ہے اور یہ نہایت خوش آئند بات ہے کہ اس تقلیدی عمل سے بعض نہایت اہم نعتیہ مجموعے سامنے آئے ہیں۔’’لمعاتِ بخشش‘‘ کا شاعر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی نو عمر و نوجوان ہے۔بچپن سے ان کا قلم عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار کے لیے صفحۂ قرطاس پر نعتوں کے موتی بکھیر رہا ہے۔انھوں نے تقدیسی شاعری کی ہر صنف پر طبع آزمائی کی ہے اور بعض عمدہ اشعار ان اصناف کے تخلیق کیے ہیں۔بطورِ نمونہ چند اشعار نقل کیے جاتے ہیں۔
حمد
بطونِ سنگ میں کیڑوں کو پالتا ہے توہی
صدف میں گوہرِ نایاب ڈھالتاہے توہی
       صفیؔ اورنگ آبادی کے یہاں بھی یہ خیال ان کی ایک حمد میں موجود ہے ۔مُشاہدؔ کے یہاں اسی کا اثر ہے۔
گلوں کی نکہت ہے تیری نکہت
نواے بلبل بیاں ہے تیرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سمن و سوسن و یاسمن ، یہ بنفشہ سنبل و نسترن
ہوئے مشک بو جو یہ برملا ترے فضل سے تجھے حمد ہے
مناجات/دُعا
       مُشاہدؔ نے اپنی بیشتر مناجاتوں میں خدائے برتر سے ’’عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ بڑے والہانہ و انکسارانہ انداز میں مانگا ہے۔اسی طرح مسلمانوں کی زبوں حالی اور شکستہ خوردگی سے نجات کے طالب بھی وہ(شاعر) دکھائی دیتے ہیں۔انھوں نے امداد و استعانت کے لیے بارگاہِ الٰہی کو مرکزِ توجہ بنایا ہے۔لیکن مُشاہدؔ کبھی کبھی امداد کے لیے اللہ کے غیر کی طرف رجوع ہونے کی بھی دعوت دیتے ہیں     ؎
بیٹھتے اُٹھتے مدد کے واسطے
اے مُشاہدؔ رب کے پیاروں کو پکار
       ایک نعت بہ عنوان ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ میں تو مُشاہدؔ نے صرف نبیِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی امداد و استعانت کے لیے پکارا ہے۔البتہ نعت کی چند عمدہ مثالیں اُن کے یہاں مل جاتی ہیں       ؎
سعادتوں نے سعادت ہے آپ سے پائی
سعید آپ سعادت کی آبروٗ بھی آپ
جاں فزا ہے باغِ جنت سے ہواے کوے دوست
ہے مُشامِ ذہن و دل میں ہر گھڑی خوشبوے دوست
زندگی کی زندگی ہے عشق و الفت آپ کی
حبِ احمد گر نہ ہو خاشاک ہوجائے حیات
       مُشاہدؔ کا دیوانِ نعت اسی طرح عقیدت سے بھر پور شعری مجموعہ ہے۔انھوں نے اپنی عقیدت کا اظہار مختلف انداز میں کیا ہے۔عقیدت و عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ اگر شعریت پر بھی توجہ دیں تو ان کی نعتوں کی اثر آفرینی میں گراں قدر اضافہ ہوگا۔خیالات کی ندرت،جذبے کی پاکیزگی،صنعتوں کاا ستعمال ،افکار کی بلندی بھی نعتیہ شاعری کے لوازمات میں سے ہیں۔بہرحال! مُشاہدؔ کا یہ دیوانِ نعت ،خزینۂ نعت میں ایک اچھا سا اضافہ ہے۔
یحییٰ نشیط ،کل گاوں ،ایوت محل۔۱۷؍مئی ۲۰۱۰، (مطبوعہ اردو ٹائمز 10۔7۔18بروز اتوار

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں