منگل، 27 نومبر، 2012

لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور ماؤں کی ذمہ داریاں



لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور ماؤں کی ذمہ داریاں
       اسلام ایک مکمل دین ہے ۔ اس نے زندگی کے ایک ایک گوشے کے بارے میں ہماری رہنمائی کی ہے۔ اگراسلام ہمیں عبادات و ریاضات کے طریقے سکھاتا ہے تو ہمارے معاملات اور معمولات پر بھی بھرپور روشنی ڈالتاہے کہ اسلام کے ماننے والے کسی دوسرے مذہب کےمحتاج نہ رہیں ۔قرآن و حدیث اور سرورِکائنات ﷺ کی مقدس سیرت سے ہم اگر صحیح طورپر درس لیں تو ہماری زندگی نکھری اور ستھری ہوئی بسر ہوگی۔ اسلام نے جہاں مردوں کے حقوق مقرر کیے ہیں وہیں عورتوں کے حقوق کی بھی تاکید کی ہے ۔ اگر یتیموں کے ساتھ حُسن سلوک کاحکم دیا ہے تو غریبوں کی ہمدردی کا بھی سبق دیاہے ۔ اگر بڑوں کے ادب واحترام کاسلیقہ بتایا ہے تو بچوں پر شفقت و محبت کی تلقین بھی کی ہے۔غرض یہ کہ اسلام نے ہر فردِ بشر کے حقوق کی ایسی حفاظت کی ہے کہ کسی کو بھی اپنی حق تلفی کا احساس نہیں ہوتا۔
       اسلام سے پہلے جہاںاور لوگوں کے حقوق پامال ہوتے تھے وہیں عورتوں کی حق تلفی سب سے زیادہ ہوتی تھی ۔ عورت معاشرے میں سب سے کم تر تصور کی جاتی تھی ۔ ماں کے روپ میں بھی عورت کی کوئی عزت و وقعت نہ تھی۔ بیٹی کے روپ میں تو الامان والحفیظ !! اُسے زندہ درگور کردیا جاتا تھا ۔ یہ احسان ہے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ آپ نے عورت کی عزت و حرمت کی حفاظت کی اور اس کو ذلت و پستی کی تاریکیوں سے نکا ل کرعظمت ورفعت کے منصب پرلاکھڑا کیا ۔
کس نے دنیا کو یہ بتا یا ہے
ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے
بنت حوا کو کس نے دی عزت
یہ مرے مصطفیٰ کی برکت ہے
(مشاہدؔ رضوی)
       ماں کا مقام و منصب اپنے اندر عظمت و رفعت سے معمور ہے۔ اولاد کی تعلیم و تربیت کے لیے ماں کی گود کواولین درس گاہِ حیات کا درجہ حاصل ہے۔ اس لیے ماں کو چاہیے کہ اپنی بیٹیوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دے کیوں کہ اگر بچی نیک ، سلجھی ہوئی ، اچھے اوصاف کی حامل اور سلیقہ شعار ہوگی تو سب ماں کی ہی تعریف کریں گے۔ کیوں کہ عموماً دیکھا یہ گیا ہے کہ اگر لڑکی سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی ہے تو سب فوراً یہی کہتے ہیں کہ تمہاری ماں نے تمھیں یہی سکھایا ہے ۔
       لڑکی کو شروع سے ہی نمازکی پابندی کا درس دیا جائے کہ اگر بچپن ہی سے نمازکی پابندی سکھادی جائے تو ان شآء اللہ بڑی ہوکر بھی وہ نمازکی پابندی کیا کرے گی۔ نیزاس کو جلدی اٹھنے کی عادت ڈلوائیں اور امورِ خانہ داری سے متعلق چیزیں اس کو ضرور سکھائیں ۔ ان کے اندر صبر وضبط اورتحمل پیداکیاجائے کہ اگر بیٹی کی زبان دراز ہوگی تو وہ اگلے گھر جاکر ایسے ہی تیز زبانی کا مظاہرہ کرے گی اوراس طرح ہمیشہ دُکھی اور پریشان رہے گی۔
       اسی طرح مائیں بعض اوقات بیٹی کو یوں بھی خراب عادتوں میں مبتلاکردیتے ہیں کہ اگر گھرمیں بہو ہو تو بیٹی کوکام کرنے نہیں دیا جاتا اور پھر جب وہ اپنے سسرال جاتی ہے اوراسے اچانک کام کرناپڑتا ہے تو وہ پریشان ہو اٹھتی ہے۔ پھر اس طرح ماں کا غلط رویہ اور بے جالاڈ پیاراس کے لیے سوہانِ روح بن جاتا ہے ۔کام میں مہارت نہ ہونے کی وجہ سے اسے بے حدپریشانی اٹھانا پڑتی ہے ۔ لڑکی کے اندردوسروں کی خدمت کرنے کاجذبہ پیداکیاجائے۔  لڑکی کوعشقیہ ناول ، افسانے ، فکشن اورکہانیوں سےدور رکھا جائے کہ ایسا مطالعہ اس کی ہلاکت کا باعث بنتا ہے ۔ اسی طرح ٹی وی سیریلوں سے بچانا تو بے حد ضروری ہے کیوں کہ ان کے ذریعے بری عادتیں بہت جلد پروان چڑھتی ہیں ۔
       لڑکی جب بالغ ہوجائے تو اس کو پردے کی تلقین کی جائے تانک جھانک سے بچایا جائے ، میک اپ وغیرہ سے روکا جائے۔ اس کے اندر شرم و حیا کامادہ پیدا کیاجائے۔ چھوٹے بہن بھائیوں سے حُسن سلوک کی ترغیب دی جائے اور بڑوں کا ادب سکھایاجائے ۔ بھابھی اوردیگر رشتے داروں سے حُسن سلوک سکھایا جائے ۔ بہت سی مائیں اپنی بیٹیوں کے ساتھ نندوں اور دیورانیوں وغیرہ کی برائی کرتی رہتی ہیں جس سے ان کے نازک ذہن میں ان رشتوں کے غلط اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔وہ اپنی ماں کی نندوں اور دیورانی وغیرہ کوتو ظالم تصورکرتی ہی ہے اور جب وہ شادی ہوکر اپنے گھر جاتی ہے تو غیر محسوس طور پراپنےاِن رشتوںسےنباہ اُس کی مشکل ہوجاتی ہے۔ اور وہ اپنی دیورانی، جٹھانی اور نندوں وغیرہ سے ترش کلامی سے ہی پیش آتی ہے ۔
       بیٹی کو گھر صاف ستھرارکھنے کا سلیقہ بھی سکھاناضروری ہے کہ اگر اس کو یہ کام نہ سکھایا گیا تو بعد میں اس کے لیے مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں شادی کے بعد اس کو صفائی ستھرائی اور گندگی و غلاظت کااحساس بھی نہیں ہوگااورلوگ اس کی بدسیلقگی کو بھی ماں کی غلط تربیت سے ہی تعبیرکریں گے۔
       جب لڑکی شادی کی عمر کوپہنچ جائے تو اس کے لیے دین دار لڑکا تلاش کیا جائے کہ حُسن و دولت اور حسب و نسب سے بہتر دین داری ہے۔اور جب اس کی شادی ہوجائے تو اس کو تلقین کریں کہ و ہ سسرال والوں کے ساتھ حُسن سلوک کرے ۔ ساس ،سسر ، نندوں دیوارنی، جٹھانی وغیرہ کے ساتھ ادب ، محبت اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرے گی تو بدلے میں اس کو بھی پیار ملے گا کیوں کہ محبت کے بدلے محبت ملتی ہے اور نفرت کے بدلے نفرت۔بالفرض اگر کوئی غلط بات ہوبھی جائے توشوہر سے اس کی شکایت نہ کی جائے کیوں کہ چغلی لگانا ایک بری عادت ہے اوراس سے ایک بیٹے یابھائی کے دل میں نفرت پیداہونے کا غالب اندیشہ ہے۔ جس کاانھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ۔ بیوی کی طرف داری کرنا یہ نفسیاتی امر ہے لیکن اس سے خاندان میں نفرتیں پیداہوتی ہیں اوربسااوقات ایسا بھی ہوسکتاہے کہ شوہر الٹا بھڑک اٹھےاور اُسی کے خلاف ہوجائے ۔
       خصوصاً اپنی سسرال میں جو بھی معاملات ہوں ، بات چیت ہو ، تلخ کلامی ہو یا کسی بھی قسم کی کوئی بھی تکلیف ہو اُس کو اپنے ماں باپ اور گھروالوں کو ہرگز نہ بتائیں کہ اس طرح سے "اولاد کی محبت جوش " مارنے لگتی ہے اور اکثر ایساہوتا ہے کہ گھر بگڑ نے لگتاہے نتیجتاً دونوں خاندانوں کا امن و سکون غارت ہوجاتا ہے ۔
       مجدداسلام اعلیٰ حضرت امام احمدرضا بریلوی قد س سرہٗ بیٹی کے حقوق کے بارے میں فرماتے ہیں  :
       اس کے پیدا ہونے پر ناخوشی نہ کرے بل کہ نعمتِ الٰہیہ جانے ۔(۱)
       اسے سینا ،پرونا ، کاٹنا، کھانا پکانا سکھائے۔(۲)
       بیٹیوں سے زیادہ دل جوئی و خاطر داری رکھے کہ ان کا دل بہت تھوڑا ہوتا ہے۔(۳)
       دینے میں انھیں اور بیٹوں کوکانٹے کی تول کے برابر رکھے۔(۴)
       جو چیز دے پہلے انھیں دے کر بیٹوں کو دے۔(۵)
      
(۶)نو برس کی عمر سے نہ اپنے پاس سلائے ، نہ بھائی وغیرہ کے ساتھ سونے دے اس عمر سے خاص نگہداشت شروع کرے ۔
       (۷)شادی برات میں جہاں گانا، ناچ ہو ، ہرگز نہ جانے دےاگرچہ خاص اپنے بھائی کے یہاں ہو کہ گانا سخت سنگین جادو ہے اور ان نازک شیشوں کو تھوڑی ٹھیس بہت ہے بل کہ ہنگاموں میں جانے کی مطلق بندش کرے ۔ گھر کو ان پر زنداں کردے۔ بالاخانوں پر نہ رہنے دے ، گھر میں لباس و زیور سے آراستہ کرے کہ پیام رغبت کے ساتھ آئیں۔
       جب کفو ملے نکاح میں دیر نہ کرے ۔(۸)
       خبردار خبردار!! کسی فاسق و فاجر خصوصاً بدمذہب کے نکاح میںنہ دے۔(۹)
       اسی طرح مائیں اپنی بچی کے اندر خوفِ خدا کاجذبہ پیدا کریں کہ ان شآء اللہ آنے والی نسلیں بہترین ہوں گی جو دین و دنیا دونوں کے لیے سعادت کا سبب بنیں گی۔ لڑکیوں کی تعلیم و تربیت میں ماؤں کو اپنے ذمے داری سےذرہ بھر بھی غفلت نہیں برتنی چاہیے کہ آخرت میں ان سے اس بارےمیں بھی سوال ہوگا۔اللہ عزوجل اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمیں اسلامی طرز معاشرت کواپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم ) 
              ( حاصل مطالعہ کتاب: کامیاب ماں)
ڈاکٹر محمدحسین مُشاہدؔ رضوی
Dr.Muhammed Husain Mushahid Razvi
Writer, Poet, Research Scholar, Author.



      

1 تبصرہ:

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں