پیر، 19 نومبر، 2012

حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کےارشادات



حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کےارشادات
ڈاکٹر محمدحسین مُشاہدؔ رضوی
       سرتاجِ صوفیہ حضرت خواجہ امام حسن بصری رضی اللہ عنہ ایک عظیم باعمل عالم بھی تھے اور زاہد ومتقی بھی، نبیِ کونین ﷺ کی سنت پر سختی سے عمل کرتے اور ہمیشہ خشیت الٰہی میں غرق رہتے ۔ آپ کی والدۂ ماجدہ ، حضرت ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی کنیز تھیں اورجب بچپن میں آپ کی والدہ کسی کام میں مصروف ہوتیں اورآپ رونے لگتے تو ام المؤمنین رضی اللہ عنہا آپ کو گود میںاٹھا کر پستانِ مبارک آپ کے منہ میں دے دیتیں ۔ حضرت فریدالدین عطار بیان لکھتے ہیں کہ وفورِ شوق میں آپ کے پستان سے دودھ بھی نکلنے لگتا ۔ اندازہ فرمائیے کہ جس نے ام المؤمنین کا دودھ پیا ہو اس کے مراتب کس قدر بلند و بالاہوں گے؟
       بچپن میں آپ نے ایک دن نبی کریم ﷺ کے پیالے کاپانی پی لیااورجب نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ میرے پیالے کا پانی کس نے پیا؟ توحضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ:" حسن نے "۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا کہ:" اس نے جس قدر میرے پیالے میںسے پانی پیا ہے اسی قدر میرا علم اس میں نفوذکرگیا ہے ۔ "
       اسی طرح ایک دن نبی کریم ﷺ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر تشریف لائے تو انھوں نے حضرت خواجہ حسن بصری کو آپ ﷺکی آغوشِ مبارک میں ڈال دیا ۔ اس وقت حضور ﷺ نے آپ کے لیے بھلائی کی دعا فرمائی ۔ اور اس دعا کی برکت سے آپ کو بے پناہ مراتب حاصل ہوئے۔
       حضرت فریدالدین عطار "تذکرۃ الالیاء" میں لکھتے ہیں کہ :"جب حضرت خواجہ حسن بصری کی ولادت ہوئی تو گھر والوں نے آپ کو مرادِ رسول حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے فرمایاکہ :" اس کا نام حسن رکھو کیوں کہ یہ بہت ہی حسین اور خوبرو ہے۔" حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی تربیت فرمائی اور ہمیشہ یہی دعا کیا کرتی تھیں کہ:" اے اللہ ! حسن کو مخلوق کارہنما بنادے ۔" چناں چہ دنیا نے دیکھا کہ آپ یکتاے روزگار بزرگوں میں سے ہوئے اورایک سو بیس صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے شرفِ نیاز حاصل ہوا، جن میں ستر شہَداے بدر بھی شامل ہیں۔ آپ کو حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہماسے شرفِ بیعت حاصل تھا۔ اور انھیں سے تعلیم بھی پائی ۔ "(صفحہ۱۷)
       آپ کومکتب کی کرامت نہیں بل کہ فیضانِ نبوت حاصل تھا۔آپ نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اکتساب علم بھی کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ علم و فضل اور زہد وتقویٰ میں اپنے عہد کے ممتاز ترین بزرگوں میں شمار کیے جاتے تھے ۔ آپ کی وعظ و نصیحت کی محفلوں میں کثیر لوگوں کا اجتماع ہوتا تھا۔ آپ کے ارشادت و اقوال بڑے ہی دل پذیر اور شیریں ہیں جو براہ راست دل پر اثر ڈالتے ہیں ۔ جو تزکیۂ نفس اور طہارتِ قلبی کا بہترین سامان ہیں ۔ پیش نظر مضمون میں آپ کے ارشاداتِ عالیہ میں سے چند ایک جواہر پارے درج کیے جاتے ہیں ۔
(۱) انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نافع علم ، اکمل علم ، اخلاص و قناعت اور صبر جمیل حاصل کرتا رہے۔ اور جب یہ چیزیں حاصل ہوجائیں تو اس کے اُخروی مراتب کا اندازہ نہیں کیاجاسکتا۔
(۲)بھیڑ بکریاں انسانوں سے زیادہ باخبر ہوتی ہیں کیوں کہ چرواہے کی ایک آواز پر چرنا چھوڑدیتی ہیں اور انسان اپنی خواہشات کی خاطر احکامِ الٰہی کی بھی پروا نہیں کرتا ۔
(۳) بُروں کی صحبت سے بچو ، کیوں کہ صحبت بد نیک لوگوں سے دور کردیتی ہے ۔
(۴)اگر کوئی مجھے شراب نوشی کے لیے طلب کرے تو میں طلبِ دنیا سے وہاں جانے کو بہتر تصور کرتا ہوں ۔( یعنی دنیا کی طلب شراب نوشی سے بھی بری ہے۔)
(۵)فکر ایک ایسا آئینہ ہے جس میں نیک و بد کا مشاہد ہ کیا جاسکتا ہے۔
(۶)جو قول کسی کی اصلاح نہ کرے اس میں شر پنہاں ہوتا ہے اور جوخموشی خالی از فکر ہو اس کو لہو و لعب اور غفلت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
(۷)قانع شخص مخلوق سے بے نیاز ہوجاتا ہے اور جس نے گوشہ نشینی اختیار کرلی سلامت رہا۔ اور جس نے نفسانی خواہشات کو ترک کردیا وہ آزاد ہوگیا ۔جس نے حسد سے اجتناب کیا اس نے محبت حاصل کرلی ۔
(۸)سلطان کی صحبت سے پرہیز کرو، کسی عورت کے ساتھ تنہا نہ رہو، راگ رنگ میں کبھی شرکت نہ کرو کیوں کہ یہ چیزیں برائی کی طرف لے جانے کا پیش خیمہ ہیں۔
(۹)تقوے کے تین مدارج ہیں اول : غیض و غضب کے عالم میں سچی بات کہنا، دوم : ان اشیا سے احتراز کرنا جن سے اللہ تعالیٰ نے اجتناب کا حکم دیا ہے ، سوم : احکامِ الٰہی پر راضی برضا ہونا۔
(۱۰)تین افراد کی غیبت درست ہے ۔ اول : لالچی کی ، دوم : فاسق کی ، سوم : ظالم بادشاہ کی ۔
(۱۱) غیبت انتہائی بُرا فعل ہے ، اگر چہ اس کا کفارہ صرف استغفار ہی ہے لیکن جس کی غیبت کی ہے اس سے معافی بھی طلب کرنا ضروری ہے۔
(۱۲) انسان کو ایسے مکان میں بھیجا گیا ہے جہاں کے تمام حلال و حرام کا محاسبہ کیاجائے گا۔
(۱۳) ہر فرد دنیا سے تین تمنائیں لیے ہوئے چلاجاتا ہے ۔اول: جمع کرنے کی حرص، دوم : جو کچھ حاصل کرنا چاہا وہ نہ ہوسکا، سوم : توشۂ آخرت جمع نہ کرسکا۔
(۱۴) جو دنیا کو محبوب تصور نہیں کرتے نجات انھیں کا حصہ ہے ۔ اور اسیرِ دنیا خود کو ہلاکت میں ڈال لیتا ہے ۔
(۱۵) جو دنیا کی نعمتوں پر نازاں نہیں ہوتے مغفرت انھیں کاحصہ ہے۔ کیوں کہ دانش مند وہی ہے جو دنیا کو خیرباد کہہ کرآخرت کی فکر میں لگارہے ۔
(۱۶) نفس سے زیادہ دنیا میں کوئی شَے سرکش نہیں ۔اور اگر تم دیکھنا چاہتے ہوکہ تمہارےبعد دنیاکی کیا کیفیت ہوگی تو یہ دیکھ لو کہ دوسرے لوگوں کے جانے کے بعد کیا نوعیت رہی۔
(۱۷) تم سے پہلے آسمانی کتابوں کی ایسی وقعت تھی کہ لوگ اپنی راتیں ان کے معانی پر غور وفکر کرنے میں گذار دیتے تھےاور دن میںاس پر عمل پیرا ہوجاتے تھے۔ لیکن تم نے اپنی کتاب پر زیر زبر تو لگالیے مگر عمل ترک کرکے دنیا کی آسایش میں گرفتار ہوگئے۔
(۱۸) جو شخص سیم و زر سے محبت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو رسوائی عطا کرتا ہے۔
(۱۹) جس کے پیروکار بے وقوف لوگ ہوں اس کی قلبی حالت درست نہیں ۔
(۲۰) جس چیز کی تم دوسروں کو نصیحت کرتے ہو پہلے خود اس پر عمل پیرا ہوجاؤ،جب ہی سچے کہلاؤ گے۔
(۲۱)جو شخص تم سے دوسروں کے عیوب بیان کرتا ہے وہ یقیناً دوسروں سے تمہاری بُرائی بھی کرتا ہوگا۔
(۲۲)دینی بھائیوں کو اپنے اہل و عیال سے بھی زیادہ عزیز رکھو کیوںکہ وہ دینی معاملات میں تمہارے معاون ہوتے ہیں۔
(۲۳)دوستوںاورمہمانوںپر اخراجات کاحساب اللہ تعالیٰ نہیں لیتا لیکن جو اپنے ماں باپ پر خرچ کیاجائے اس کاحساب ہوگا۔
(۲۴) جس نماز میں دل جمعی نہ ہو وہ وجہِ عذاب بن جاتی ہے ۔
(۲۵) کسی شخص نے آپ سے خشوع کا مفہوم پوچھا تو فرمایا: انسان کے قلبی خوف کا نام خشوع ہے ۔
..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg
 




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں