پیر، 19 نومبر، 2012

مُشاہدؔ کے شعروں میں زندگی کا پیغام پوشیدہ ہے‘‘


’’ مُشاہدؔ کے شعروں میں زندگی کا پیغام پوشیدہ ہے‘‘
از:شہزادۂ رسول حسان العصر سید آلِ رسول حسنین میاں نظمی دام ظلہ العالی

       زبانِ اردو کی یہ جہاں گیر دھوم اس کے شعری سرمایہ کی بدولت ہے۔ دلّی کے لال قلعے کی ناقابلِ عبور دیواروں کے بیچ یہ زبان جس ماحول میں پروان چڑھی اسے دیکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ یہ زبان مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے فوجیوںکی لسانی کھچڑی سے اوپر اُبھر کر جہانِ ادب میں ایک ایسی مرغّن بریانی کا روپ اختیار کرلے گی جس کے چٹخارے مشرق سے مغرب ، شمال سے جنوب ہر زبان داں کی زبان پر ہوں گے۔آج اردو اپنی لسانی خصوصیات اور ادبی انفرادیت کے لحاظ سے ایک بھرپور زبان ہے۔اپنے ارتقاء کے حساب سے یہ بھلے ہی جدید زبانوں کے زُمرے میں آتی ہو مگر اپنے بھاری بھرکم ادبی سرمائے کے لحاظ سے یہ دنیا کی دوسری کلاسیکی اور نیم کلاسیکی زبانوں کے شانہ بشانہ چلنے کی بھرپور صلاحیت کی حامل ہے۔دوسری زبانوں کا ارتقائی سفر ختم ہو چکا ہے لیکن اردو کا کارواں ہنوز رواں دواں ہے، خوب سے خوب تر کی تلاش آج بھی جاری ہے۔اور اس سفر میں ہر موڑ پر نئے نئے لوگ قافلے میں جڑ رہے ہیں    ع
                     لوگ ساتھ آتے گئے اور کاررواں بنتا گیا
       اسی کاررواں کے ایک ذمہ دار فردہیں محمد حسین مُشاہدؔ رضوی۔۔۔۔۔۔
       جن دنوں میں ناسک کے تبلیغی دورے پر تھا، تبھی میری ملاقات مُشاہدؔ سے ہوئی۔ صورت سے مولوی نظر آنے والے مُشاہدؔ سیرت سے بھی مولوی ہیں۔پیشہ سے استاد ہیں اس لیے سماج کی تعلیم و تربیت ان کی عادت بنی ہوئی ہے۔ ایک اسلامی تحریک سے وابستہ ہونے کے سبب نیکیاں بانٹنے کا جذبہ ان میں بدرجۂ اتم پایا جاتا ہے۔ پڑھے لکھے آدمی ہیں ۔اچھے لوگوں کی صحبت اٹھائی ہے ۔اس پر طرّہ یہ کہ نعتیہ شاعری کا بھی شوق ہے۔شعر کہتے ہیں اور خوب کہتے ہیں ۔
       اس وقت میرے سامنے مُشاہدؔ رضوی کی نعتوں کا ایک مسودہ ہے اور ان کا اصرار ہے کہ میں ان کی شاعری کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کروں۔
       شاعری ایک وجدانی کیفیت کا نام ہے۔یہ ایک فرد کا خالصتاً ذاتی معاملہ ہے۔ یہ اور بات کہ وہ اپنے وارداتِ قلبی کو دوسروں پر کھول دے اور اپنے نفسیاتی تجربوں میں اوروں کو بھی حصہ دار بنائے۔مُشاہدؔ رضوی اردو ادب میں ایم ۔ اے۔ کے بعدپی۔ ایچ۔ ڈی۔ کر رہے ہیں جو اُن کے علمی و ادبی سفر کا یقیناً ایک اہم پڑاؤ ہے۔یہاں مجھے علامہ کوکب نورانی کے یہ الفاظ یاد آتے ہیں  :  ’’ہر عالم شاعر نہیں ، اور ہر شاعر عالم نہیں ہوتا۔‘‘ میں خود ایسے کئی اردو داں حضرات کو جانتا ہوں جو اردو میں پی ۔ ایچ ۔ ڈی۔ ہیں مگر ایک مصرع موزوں کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اسی لَیے میں نے کہا ہے کہ شاعری ایک وجدانی کیفیت کا نام ہے۔مُشاہدؔ رضوی ان مستثنیات سے ہیں جہاں ایک شخص عالم بھی ہوتا ہے اور شاعر بھی۔ شاید اسی کو علم اور فضل کا امتزاج کہا جاتا ہے۔
       مُشاہدؔ رضوی نے اپنے نعتیہ دیوان کا نام ’’نغمات بخشش ‘‘ تجویز کیا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدّثِ بریلوی کے ۷۵؍ویں عرس کے آس پاس سُنی دعوتِ اسلامی نے ہندی میں نعت و منقبت کا ایک مجموعہ شائع کیا تھا جسے نغمات بخشش کے نام سے سید عبد الجلیل صاحب رضوی ، خطیب و امام، عبد السلام مسجد، عبد الرحمٰن اسٹریٹ، ممبئی نے ترتیب دیا تھا۔ میری ناقص رائے ہے کہ مُشاہد ؔصاحب اس مجموعہ کا نام بدل کر’’ مشاہدۂ حبیب‘‘ رکھ دیں تو مناسب ہوگا۔(۱)
       دیوان کی ابتدا حسبِ روایتِ قدیم حمدِ باریِ تعالی سے ہوتی ہے۔مُشاہدؔ رضوی فرماتے ہیں :
بُطونِ سنگ میں کیڑوں کو پالتا ہے تُو ہی
صدف میں گوہرِ نایاب ڈھالتا ہے تُو ہی
       اس کے بعد چھوٹی بحروں میںکئی اور محامد نظم کیے ہیں۔ مُشاہدؔ کے شعروں میں زندگی کا پیغام پوشیدہ ہے۔ ایک مناجات میں وہ اپنے رب سے التجا کرتے ہیں:
نگاہِ باطل میں تیغِ بُرّاں ہوں اپنوں میں نرم و معتدل ہم
جلال دے اُنس و پیار بھی دے، شعورِ فہمِ رقیب دیدے
       ایک نعت جس کا مطلع ہے :
شہ مدینہ بلالو در پر کہ میں بھی پیارا دیار دیکھوں
سنہری جالی وہ سبز گنبد وہ نور والے منار دیکھوں
       اس کے ایک شعر کا پہلا مصرع : 
جگا دو شاہا مری بھی قسمت سفر ہو میرا بھی سوئے طیبہ
       اگر اس طرح ہو: 
جگا دو شاہا مرا مقدر، سفر ہو میرا بھی سوئے طیبہ
       تو بہتر ہے۔
       ایک اور نعت کا مقطع: 
لب پہ مُشاہدؔ کے ہے دعا یہ حج کی سعادت کردو عطا اب
دیکھیں ہم دربار محمد صلے اللہ علیہ وسلم
       یوں ہوتا تو اچھا ہوتا:
لب پہ مُشاہدؔ کے ہے دعا یہ ، یارب حج کی سعادت دیدے
دیکھیں ہم دربار محمد صلے اللہ علیہ وسلم
       یہ شعر بڑا عجیب سا لگتا ہے:
الگ یہ بات چشم دوستاں میں ہم کھٹکتے ہیں
مگر مدح و ثنا آقا کی بزم دشمناں تک ہے
       مُشاہدؔ کی یہ نعت بہت خوب ہے، آپ بھی لطف لیں:
نطق فدا ، قلم فدا ، ذہن فدا ، زباں فدا
طیبہ پہ شاعری فدا، سارے سخن وراں فدا
رنگ کا رنگ ان سے ہے ان سے ہے نکہتِ شمیم
گل نہیں غنچہ ہی نہیں ان پر ہے گلستاں فدا
انگشت سے ہوا رواں چشمۂ آب بے گماں
آقا کی انگلیوں پہ ہیں دنیا کی ندّیاں فدا
       الحاصل مُشاہدؔ رضوی کے اندر ایک اچھے نعت گو کی ساری صلاحتیں موجود ہیں بس ایک ذری مشق کی ضرورت ہے۔ آں سلمہ کو میرا مشورہ یہ ہے کہ موجودہ دیوان چھپوانے سے پہلے مندرجہ ذیل اشعار پر نظر ثانی ضرور فرما لیں۔
نقل آقا کی کرنے سے فرصت نہیں
غیر کا ڈھنگ پھر کیسے اپنائیں گے
لب پہ ہوں آپ کے اوصاف کے نغمے جاری
مجھ کو بھی بلبلِ رخ پرنور بنا دیں آقا
نا صرف کہکشاں شمس و قمر ہوا روشن
تجلی شہ دیں سے ہر این و آں ہوا روشن
چل کر اے زباں سید ابرار کا چرچا
محبوبِ خدا مونس و غم خوار کا چرچا
       اگر اور زیادہ باریکی سے دیکھا جاتا تو کچھ اور فنی اسقام نکل آتے۔ مگر میرا مقصد تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح ہے۔
       امید کرتا ہوں کہ سرزمینِ مالیگاؤں کا یہ ہونہار جواں سال شاعرآنے والے وقت میں فن کی پختگی اور پائیداری کے نئے پائیدان عبور کرے گا۔ اللہ تعالیٰ سے میری یہی دعا ہے کہ او تبارک وتعالیٰ مُشاہدؔ رضوی کو ان کے دادا مرشد حضور مفتیِ اعظم ہند کی شاعری پر پی ۔ایچ۔ ڈی۔ مکمل کرنے میںکامیابی عطا فرمائے اور خاندانِ رضا کا فیض ان پر اور ان کے خاندان پر جاری و ساری رکھے۔ آمین۔
       سید آل رسول حسنین میاں نظمی مارہروی،ممبئی،  ۸؍ رمضان المبارک ۱۴۲۸ھ   




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں