|
میں اپنے بچپن سے ہی مفکرِاسلام
علامہ قمرالزماں اعظمی کااسم گرامی سنتا چلا آ رہاہوں مگر۱۵سال کی عمرتک کبھی بھی حضرت موصوف
کی تقریریں سننے کاشرف حاصل نہیں ہوالیکن جب سنہ ۲۰۰۰ء میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے
ملک کی عظیم دینی دانش گاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پورضلع اعظم گڑھ یوپی
حاضرہواتویہاں آٹھ سالہ قیام کے دوران تین یاچارمرتبہ ان کی تقریریں سن کرمحظوظ
ہوااوراپنی سماعتوں کوخوب خوب ہرابھراکیا۔ادھرمیں پانچ سال کے زائدعرصے سے ممبئی
میں مقیم ہوں اوریہاں ہر سال (وادیِ نور)آزادمیدان میں سنی دعوت اسلامی کے عالمی
اجتما ع میں ان کے خطاب سے اپنی فکرومعلومات کومنور کررہاہوں ۔
مفکرِاسلام کیاہیں اورکیانہیں ہیں مجھ جیساکوتاہ علم اورپست فکراس پر شاید مکمل طورپرروشنی نہ ڈال سکے تاہم میری سطحی فکراورپست شعوروادراک نے جو کچھ تجزیہ کیاہے اس کاخلاصہ یہ ہے کہ مفکرِاسلام بلاشبہہ نمونۂ اسلاف،اقلیمِ خطابت کے تاجدار،دین کے حقیقی داعی ومبلغ اورملتِ اسلامیہ کے سچے ہمدر دو بہی خواہ ہیں۔میں نے اپنے تواپنے غیروں سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگوں کوبھی ان کااسیرپایاہے۔جن لوگوں نے انہیں سناہے وہ بخوبی واقف ہیں کہ علامہ اعظمی کس درجے کے خطیب ہیں اوران کی خطابت کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔میں سمجھتاہوں کہ تقریروں کے اثرات اورنتائج کے اعتبارسے ہندوستان کے خطباومقررین میں علامہ اعظمی کااسم گرامی سب سے نمایاں اورسب سے ممتازہے۔ دوچارلوگوں کی استثنائی مثالیں مل سکتی ہیں مگریہ لوگ بھی علامہ اعظمی کے قدسے بہت نیچے ہیں۔اس کابنیادی سبب یہ ہے کہ علامہ کامعاملہ ازدل خیزد برد ل ریزدکاہے۔ ان کے دہن سے جوباتیں نکلتی ہیں وہ جذبے اوراخلاص کی تپش سے دہکتی ہوئی ہوتی ہیں۔ان کے دل کے سازپروہی نغمے تھرتھراتے ہیں جس سے سامعین کے دلوں کے تارجھنجھنااٹھتے ہیں۔ ضمیر اگر بیدارہوتوباطن کے جالے خودبخودکٹتے چلے جاتے ہیں اورانسان کی باطنی قوتیں عشق وعمل کے اسلحوں سے لیس ہوجاتی ہیں۔میرادعویٰ ہے کہ علامہ اعظمی کی مجلسوں اوران کے خطابات کی سماعت کرنے والاان کی ہرہرمجلس اور ہرہر خطاب سے فکرونظراورشعوروادراک کے موتی لے کر اٹھتا ہے اوراس کی ذہنی وفکری سطح کافی حدتک مرتفع ہوجاتی ہے۔میں دوسروں کے بارے میں توکچھ نہیں کہہ سکتاالبتہ اپنے بارے میں ضرورکہوں گاکہ میں نے مبارک پورسے ممبئی تک حضرت کی جتنی بھی تقریریں سنی ہیں میری معلومات میں اضافہ بھی ہواہے اور میر ے افکارکوتازہ ہواؤں نے صحت مندبھی کیاہے ۔ علامہ اعظمی خطابت کی دنیاکابڑااہم، معتبر،مستنداورممتازنام ہے او ریہ استناد یت ومعتبریت ان کو بر صغیر کے جلیل القدرعلماومشائخ اوردانشوروں نے عطاکی ہے۔وہ ان چندگنے چنے خطبامیں سے ہیں جوصحیح معنوں میں اسلام کے حقیقی داعی ومبلغ ہیں۔دعوت وتبلیغ کے جتنے بھی تقاضے ہیں وہ مکمل طورسے ان سے لیس ہیں اورایک مبلغ کی جتنی بھی خوبیاں ہوسکتی ہیں وہ عملی طورسے ان سے متصف ہیں۔میں نے یہاں ’’حقیقی داعی ومبلغ‘‘یوں ہی نہیں استعمال کیاہے بلکہ اس کے پیچھے مقصدیہ ہے کہ آ ج دعوت وتبلیغ کامفہوم کچھ اورسمجھ لیاگیاہے۔ ہم اپنوں میں تقریریں کرلیتے ہیں اوراپنوں(مسلمانوں)کارشتہ دین سے مضبوط سے مضبوط تر کرتے ہیں اورسمجھ لیتے ہیں کہ یہی دعوت وتبلیغ ہے حالانکہ دعوت وتبلیغ کامطلب اسلام کی طرف بلانااوراسلام کاپیغام پہنچاناہے۔ اس تناظرمیں دعوت وتبلیغ غیروں میں ہوتی ہے غیرمسلموں کواسلام کی طرف بلایاجاتاہے مگر اپنوں کو اسلام کی طرف نہیں بلایاجاتابلکہ ان کو تو انذار و تبشیرکی جاتی ہے اور ان کاتزکیہ کیاجاتاہے۔ انہیں تذکیریعنی یاددہانی کرائی جاتی ہے دعوت نہیں دی جاتی اورنہ تبلیغ کی جاتی ہے کیونکہ دعوت وتبلیغ غیروں میں ہوتی ہے اور تذکیرو تزکیہ اپنوں میں۔ ہمارے یہاں بیشترخطباومقررین تذکیروتذکیہ کاکام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم دعوت وتبلیغ کافریضہ انجام دے رہے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ یہ تذکیر و تذکیہ بھی صحیح خطوط پرنہیں کی جارہی ہے الاماشاء اﷲ۔ دعوت وتبلیغ اورتذکیروتزکیہ کرنے والے بیشترلوگوں کو آج صحیح رہنمائی اورتربیت کی ضرورت ہے (یہ جملۂ معترضہ ہم نے صرف دعوت وتبلیغ اوراصلاح وتزکیہ میں فرق کرنے کے لیے لکھاہے کسی پرلعن طعن مقصودنہیں ہے )۔اس سیاق میں ہمارایہ کہنا بالکل درست ہے کہ علامہ موصوف ہردوپہلومیں ممتازہیں دعوت وتبلیغ میں بھی اوراصلاح وتزکیہ میں بھی ۔ وہ صرف اپنوں کواسلام سے قریب نہیں کرتے بلکہ غیروں کو اوراسلام سے برگشتہ لوگوں کوبھی اسلام کے دھاگے سے باندھتے ہیں۔وہ لوگوں کو اسلام کی طرف پہنچانے کے لیے عقل ونقل کاسہارالینے کے بجائے اس کے قائل ہیں کہ لوگوں کا دل جیتاجائے، لوگوں کے سامنے اسلام کاپیغام اس طرح سے پیش کیاجائے کہ براہِ راست ان کے دل پراثر انداز ہو اور اس کی عصری معنویت ا س اسلوب میں ہوکہ ان کے دل کے تارجھنجھنااٹھیں اوروہ بے ساختہ اسلام کے سائے میں سکون و اطمینان محسوس کریں ۔ ظاہرہے جوشخص اس طرزِابلاغ کاقائل ہواورنہ صرف یہ کہ قائل خودعملی طورپراس اسلوب کوبرتتا بھی ہووہ کتناوسیع المطالعہ،عمیق النظر اور گہرے شعورو فکر کا حامل ہوگا۔علامہ اعظمی کے پاس پختہ علم بھی ہے ،اصابتِ فکر بھی ، تجربا ت کاسرمایہ بھی اورمشاہدات کی انتہائی قیمتی اورعظیم الشان دولت بھی ۔ ان اجزاے ترکیبی سے علامہ موصوف کاخمیرتیارہواہے۔ ہمیں فخرہے کہ ہمارے پاس علامہ قمرالزماں جیساخطیب ہے جس کی آوازدوردورتک سنی جاتی ہے ، لوگوں کی کتابِ دل کاعنوان بنتی ہے ٰاوردلوں میں زندگی کی رمق چھوڑجاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ علامہ کے ہاتھوں اب تک ایک نہیں پچاسیوں غیرمسلموں نے اسلام قبول کیاہے اورقبول اسلام کے یہ مبارک سلسلے تاحال برابرجاری ہیں۔برطانیہ کی جس مسجدمیں آپ امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں وہاں کوئی ہفتہ ایسانہیں گزرتاجہاں کوئی غیرمسلم اسلام کی دولت سے مالامال نہ ہوتا ہو۔ علامہ اعظمی ہمارے ان بزرگوں اور اساتذہ میں سے ہیں کہ بے اختیاردل ان کاگرویدہ ہوتاچلاجاتاہے ۔ہم نے محسوس کیاہے اور شاید ہمارے جیسے بہت سارے لوگوں نے بھی محسوس کیاہوکہ بعض نام کے بڑے جودرحقیقت بڑے نہیں ہو تے ان کی دست بوسی کرنے میں بڑی کرا ہیت محسو س ہوتی ہے مگرمجبوراً کسی وجہ سے دست بوسی کرناہی پڑتی ہے۔ اس طرح کے لوگوں کی دست بوسی کرنے میں ضمیرکچوکے لگاتاہے ا وردل اِبا کر تا ہے مگرعلامہ موصوف میرے نزدیک ان حضرات میں ہیں کہ ان کی غیرمعمولی خوبیوں کے آگے دل خود بخود بچھتا چلاجاتاہے ۔ لوگ کہتے ہیں اوریہ کہناصحیح بھی ہے کہ خالص تقریروخطابت سے وابستہ رہنے والے افرادلمبے عرصے تک اپنانا م زندہ نہیں رکھ پاتے اوران کی تقریرو ں کی لفظیات فضاؤں میں ڈوب جاتی ہیں۔ ایسانہیں ہوپاتاکہ ان کی ِشخصیت اورخدمات پکی روشنائی میں تبدیل ہوکرتاریخ کاحصہ بن جائیں کیونکہ تقریریں ماضی کے افسانوں میں دب کررہ جاتی ہیں جبکہ اس کی اچھی تحریریں ہمیشہ بولتی ہیں اورمصنف کاقلم اسے ہمیشہ زندہ رکھتاہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ علامہ موصوف پریہ کلیہ صحیح بھی ہے اورنہیں بھی ۔ صحیح ا س لیے کہ ان کازیادہ ترتعلق تقریروخطابت سے ہے وہ خطابت کے ہوکررہ گئے ہیں اور خطا بت ان کرہوکررہ گئی ہے نہ انہیں خطابت چھوڑے گی اورنہ وہ خطابت کو خیر آ با د کہیں گے ۔ نہیں اس لیے کہ اب ان تقریروں کوپکی روشنائی میں ڈھالا جا رہا ہے اورا ن کے الفاظ کوتحریروقلم سے ہم رشتہ کیاجارہاہے ۔ ان کی تقریروں کے دوحصے شائع ہوکرمنظرعام پرآچکے ہیں بقیہ لبِ بام منتظرِطباعت ہیں۔ایک مجموعہ پاکستان سے بھی شائع ہو چکا ہے ۔خطباتِ مفکراسلام کے نا م سے شائع ہونے والے دونوں حصے بہت مقبول ہوئے ہیں ۔ ذوق اگرعمدہ ہوتوان خطبات کونظراندازکرناممکن نہیں۔ ان کے علاوہ ایشیااوریورپ کے متعددممالک میں کیے گئے ہزاروں خطابات کی سیڈیزموجودہیں وہ بھی ان شاء اﷲ بہت جلدمستقبل قریب میں کتابی شکل میں قارئین کے سامنے ہوں گی۔ تقریروخطابت کے حوالے سے ایک نہیں درجنوں کتابیں مارکیٹ میں موجود ہیں۔ میں تونہیں سمجھتاکہ وہ سب کی سب عوام کے دینی وعصری رجحانات کوسامنے رکھ کرلکھی گئی ہیں ۔ ان میں سے اکثروبیشترکتب میں ادعائی رنگ غالب ہے، اسلام کی حقانیت و صداقت پردعوے پردعوے کیے جاتے ہیں،قرآن وحدیث کاحوالہ دیاجاتاہے اورسمجھ لیاجاتاہے کہ تقریرکاحق اداہوگیا۔کوئی مانے یانہ مانے مگرحقیقت یہی ہے کہ اس ادعائی پہلو نے ہماری تقریروتحریرسے اثرپذیری چھین لی ہے ۔ہمارے بعض مقررین عصری رجحانات وزمانی مسائل پرگفتگو کواسلام سے الگ ہٹ کرکوئی دوسری چیزسمجھتے ہیں اگرکرتے بھی ہیں تووہ بھی بہت سطحی۔کتابیں دیکھ کراورتقریریں سن کراندازہ لگتاہے کہ زمانے کی آب وہواقبول کرنے کے لیے انہوں نے اب تک اپنے دماغ واحساس کی کھڑکیاں بندکی ہوئی ہیں الاماشاء اﷲ۔ فکرومزاج میں اگر اعتدال نہ ہوتواصلاح و تذکیہ کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں اورنہ ہی دعوت وتبلیغ کے۔ایسی صورت میں ظاہرہے کہ آج کاقاری اورسامع اس طرح کی کتابوں اورتقریروں سے کیوں کر مستفید ہوسکتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ اب اس طرح کے مقررین کی صفِ بساط سمٹتی جارہی ہے ۔ اب وہی مقررین و خطبا محاذ پرآرہے ہیں جودین ودنیادونوں کوصحیح ڈھنگ سے سمجھ رہے ہیں اوراسی کے مطابق عوام الناس کی رہنمائی کافریضہ انجام دے رہے ہیں۔ اس منظرنامے میں ہمیں علامہ اعظمی کی شخصی انفرادیت نظرآتی ہے۔ان کے خطبات ایک الگ شان رکھتے ہیں،ان میں عصری حسیت بھی ملے گی اورجدیدرنگ وآہنگ بھی ملے گا۔ان کے خطبات کے مجموعے عام مقررین کے خطبات کے مجموعو ں کی طرح نہیں ہیں۔ ان کی تقریروں میں ان کے جذباتِ دینیہ کی لہریں بہتی ہیں اوراس میں اسلامی فکرومزاج کی حقیقی نمائندگی محسوس ہوتی ہے۔ دیگر بعض مقررین کی طرح بھی نہیں کہ وقتی طورپرنعرے بازی ہوگئی اورسامعین خوش ہو گئے لیکن جب جلسہ گاہ سے باہرنکلے توان کے الفاظ صرف الفاظ ہی رہے معنیٰ کالباس زیب تن نہ کرسکے۔ہم نے محسوس کیا ہے کہ ان کی باتیں براہِ راست دل کواپیل کرتی ہیں۔ان کے لہجے میں خطابت ہے جو سا معین کوباندھے رکھتی ہے۔ زبا ن ادبی ہے کہ جس سے پڑھے لکھے آدمی کی بھی دل بستگی برقراررہتی ہے۔ جوبات کہتے ہیں ٹھوس حوالو ں اور مستند بنیا دو ں پرکہتے ہیں۔اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ بلاشبہ علامہ اعظمی برصغیرپاک وہندمیں جماعتِ اہلِ سنت کے زبر د ست ترجمان اوردنیابھرکے سنی مسلما نو ں کے نمائندے اورموجودہ دورمیں اسلام کی طاقت ورترین آوازہیں۔اﷲ کرے یہ آوازہمیشہ ہمارے کانوں میں رس گھولتی رہے اوراسلام کی آواز دوردورتک پہنچاتی رہے۔ علامہ اعظمی نے اگرچہ کوئی کتاب نہیں لکھی لیکن ان کی پوری شخصیت ایک کتاب کی مانند ہے ۔ہم بجاطورپرانہیں نمونۂ اسلاف کہہ سکتے ہیں۔ان کی ایک ایک تقریرکئیوں تقریروں اورکتابوں پربھاری ہے۔ان کی فکرسے نہ جانے کتنوں نے اپنے ذہنی سفرکاتعین کیااوران کی رہنمائی سے ہزاروں لوگ ہدایت کی مسافت طے کرچکے ہیں۔ان کی خدمات کادائرہ بہت وسیع ہے۔ یہ بات رسماً نہیں کہی جارہی ہے بلکہ یہاں سے لے کریورپ وامریکہ کے ممالک تک ا س کے بے شمارشواہدموجودہیں۔ بہت کم لوگوں کومعلوم ہے کہ حضرت علامہ عالمی خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک زبردست شاعربھی ہیں۔وہ ان روایتی شعراکی طرح نہیں ہیں کہ جن کے آئینۂ اشعار میں دوسروں کے خیالات کاعکس نظرآتاہے بلکہ ا ن کی شاعری زبان وبیان ،رفعتِ خیال،پاکیزگیِ فکر،سلیقۂ اظہاراورفنی نقطۂ نظرسے بھی دوسرے باکمال شعراسے کسی طرح کم نہیں ہے ۔ان کی شعری کائنات میں ان کے واردات ، احساسات اورکیفیات کے ایسے حسین لیل ونہارہیں کہ ان میں ایک مرتبہ داخل ہوجانے کے بعددوبارہ نکلنے کاجی نہیں چاہتا۔انہوں نے بہت کم کہاہے لیکن بہت اچھاکہاہے۔ ان کی یہ شعری کیفیت بہت سے شعراکی شعری کمیتوں پربھاری ہے۔اس کاثبوت ان کاتازہ نعتیہ دیوان ’’خیابانِ مدحت ‘‘ ہے جوتقریباً تین سال قبل سنی دعوت اسلامی کے زیراہتمام مکتبہ طیبہ ،ممبئی سے شائع ہواہے ۔مسموع ہواہے کہ دوسرادیوان بھی منتظرطباعت ہے۔اﷲ عزوجل کی بارگاہ میں دعاہے کہ علامہ اعظمی یوں ہی تادیرصحت وسلامتی کے ساتھ ہماری سرپرستی فرماتے رہیں اوران کی طاقت ورترین آوازیوں ہی توانا،درخشندہ ، تابندہ اور تا بنا ک رہے۔ |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں