|
ناگپور میں جاری ریاستی اسمبلی کے
اجلاس کے دوران پیش کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ تین سالوں میں عصمت دری
کے تقریباً47؍ہزار واقعات ریکارڈ کئے گئے ہیں،جس
کا مطلب ہے کہ غیر ریکارڈ شدہ واقعات کی تعداد اس سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔اس وقت
16؍دسمبر بروز اتوارکی شب دہلی میں
واقع ہونے والے ایک23سالہ پیرامیڈیکل طالبہ کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کے واقعہ
سے پورا ملک سراپااحتجاج بناہواہے۔چلتی ہوئی پبلک ٹرانسپورٹ بس میں اس طرح
کاواقعہ رونما ہونا انتہائی مذت خیز اور تشویش کاباعث ہے۔یہ انتہائی درجہ کی صفت
مذمومہ،سفاکانہ ،غیر رحمدلانہ اور درندہ صفت عمل ہے۔جس کے خلاف یقیناً آواز
بلند ہوناچاہئے،مجرموں کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہئے مگر کیا صرف ایک مرتبہ کے
ٹھوس اقدام سے اس درندگی کوروکاجاسکتاہے۔ہندوستان میں کچھ جرموں کی سزا پھانسی
ہے مگر کیااتنی درد انگیز سزاہونے کے باوجود وہ جرائم ختم ہوگئے ہیں؟نہیں!!پھرایسا
کونسا لائحہ عمل تیارکیاجائے کہ جرائم پر قدغن لگایاجاسکے،کس نظام کونافذکیاجائے
کہ جس کے نفاذسے غیر اخلاقی،غیرانسانی اورحیوانیت وشیطانیت پر بند باندھاجاسکے؟
اس سلسلے میں ہمیں یہ غور کرناہوگاکہ جرائم ہوتے کیوں ہیں؟اسلام نے ہمیشہ علاج
سے زیادہ احتیاط پر زور دیاہے،اسلام زنا کے بعد سزایا معافی کاقانون نافذ کرنے
سے پہلے اس کے قریب بھی جانے سے منع کرتاہے۔ آج اگر ہم ہندکی تہذیب وثقافت
کاجائزہ لیں گے تو معلوم ہوگاکہ عورتوں کے جسموں کی نمائش ایک چلن بن کررہ گئی
ہے،فلموں کے ذریعے عورتوں کی بے حرمتی کابازار گرم ہے،فلموں میں غیر اخلاقی وغیر
شائستہ منظروں کی بھرمار ہے،ان مناظر کوانتہائی بے باکانہ اور غلیظ اندازمیں پیش
کیاجاتاہے،حکومت کاخزانے میں بھی انٹرٹینمیٹ ٹیکس(تفریحی محصول)کی وجہ سے کافی
اضافہ ہوتاہے اس لئے حکومت کی جانب سے بھی ان پر سخت قانون نافذ ہوتانظرنہیں آتا،شائقین
کا بھی عجیب حال ہے انھیں بھی انہی فلموں میں دلچسپی ہوتی ہے جن میں اخلاق کی
اعلیٰ قدروں سے بغاوت کی جاتی ہے۔اسلامی تعلیمات میں اس جیسی فحاشی وعریانیت کی
کوئی گنجائش نہیں۔عورتیں بھی آزادی کے نام پر خوداپنی عزت وعفت کوتارتار کررہی
ہیں،مردوں کے ساتھ خلط ملط،غیر شائستہ روابط،اور لباس کے نام پرجسم کے قابل شرم
حصوں کونمایاں کرنے کاکام لیاجانے لگا۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ان عوامل پر
روک لگائی جائے جو انسان کی نفسانی خواہشات کو حیوانیت کی طرف لے جاتی ہے،لباس
کا استعمال تن ڈھانپنے کے لئے ہو نہ کہ نمائش کے لئے،خوبصورتی کوبانقاب رکھے
ناکہ بے نقاب اورآزادی کے نام پر عریانیت وفحاشیت کی بڑھتی ہوئی سونامی کو
روکاجائے۔آج مغربی ممالک کی عورتیں پردے میں اپنے آپ کو زیادہ محفوظ محسوس
کررہی ہیںمگر نہ جانے ہند میں مغرب کی یہ کیسی اندھی تقلید ہے کہ ہمارے یہاں بے
پردگی کارواج عام ہورہاہے۔
احتیاطی تدابیر اگر آج علاج کی جگہ اسلامی احتیاطی تدابیر کونافذکیاجائے تو یقیناجرائم پر بڑی حد تک روک لگائی جا سکتی ہے،یہ مشورہ صرف ہمارانہیں ہے بلکہ ملک کی بڑی بڑی قدآور شخصیات بھی برملا اس کا اعتراف کررہی ہیں اگرچہ ڈھکے چھپے الفاظ میں ہی کیوں نہ ہو۔مگرآج دنیا کو یہ احساس ضرور ہورہاہے کہ اسلامی سزائیں نہ صرف بہتر ہے بلکہ مذہبی تعصب کوبالائے طاق رکھ کر قوم کی برتری،خوشحالی اور امن وسکون کے لئے اسے نافذ بھی کیاجاناچاہئے۔بارگاہ صمدیت میں ہم دعاگوہے کہ جلد از جلد اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سزائوں کانفاذ عمل میں آئے۔خیر نفاذ ہوگاتب ہوگا اس سے قبل اسلامی نقطۂ نظر سے اس عظیم فتنہ سے بچنے کی چند ترکیبیں بیان کر رہے ہیں۔ ٭جس طرح انسان نفس و شیطان کے فریب میں آکر زنا جیسے بدترین فعل کا مرتکب ہوتا ہے ایسے ہی اگر انسان خدا و رسول کا خوف رکھے اور اپنے اعضاپر اسلامی قوانین کا پہرہ بٹھا دے مثلاً آنکھ، دل، ہاتھ، پائوں وغیرہا پر اسلامی فکر کو غالب رکھے تو ایسا بندہ یقینا گناہوں سے بآسانی بچ سکتا ہے۔ ٭فتنۂ زنا سے بچنے کے لئے نظروں کو نیچی رکھیں۔ ٭عورتیں اجنبی مردوں سے نرم اور لچکدار گفتگو کرنے سے قطعاً پرہیز کریں۔ ٭غیر محرم کی آواز، زیوروں کی جھنکار، گانے بجانے کی عادت، ایسی محفلوں سے ہمیشہ پرہیز لازم کرلیں۔ ٭عورتیں ہرگز خوشبو نہ استعمال کریں کیوں کہ خوشبو بھی ہیجان پیدا کرتی ہے یعنی شہوت کو ابھارتی ہے۔ ٭عریانیت سے پرہیز کریںکیوںکہ اسلام میںلباس کی اہمیت وزینت سے زیادہ بدن کوچھپاناضروری ہے اوروہ عورت اورمرددونوںکواپنے اپنے جسم کے وہ حصے چھپانا ضروری ہے جن میں جنسی کشش پائی جاتی ہے نیز عورت کو غیر مردوں سے پورا جسم چھپانا ضروری ہے۔ ٭عریانیت سے پرہیز اس لئے بھی ضروری ہے کہ اسلامی قانون ایسی بے حیائی کو کسی حال میں برداشت نہیں کرتا۔ ٭ضروری ہے کہ میاں، بیوی خود بھی کسی کے سامنے ایسے حرکات و سکنات سے پرہیز کریں جو ان کی تنہائی کی حرکتیں ہیں۔ اسلام تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے سامنے بلا ضرورت برہنہ ہوں۔ |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں