ہفتہ، 25 مئی، 2013

Kuch Baten Tazmeen Wo Tashteer K Bare Me



کچھ باتیں تضمین و تشطیرکے بیان میں
ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی
تضمین کی کئی اقسا م ہیں :
(۱)  کسی مصرعے سے پہلے تین مصرعے لگائے جاتے ہیں :
مثلاً : امام احمد رضا کے شعر پر تضمین  :
شعر:
بہار ہے شادیاں مُبارک ، چمن کو آبادیاں مُبارک
مَلک فلک اپنی اپنی لَے میں ، یہ گھر عنادِل کا بولتے تھے
تضمین :
مُبارک اے باغباں مبارک ، خُدا کرے جاوداں مُبارک
بہارِ گل کا سماں مبارک ، عنادلِ نغمہ خواں مبارک
زمین سے تاآسماں مبارک، یہاں مبارک وہاں مبارک
"بہار ہے شادیاں مُبارک ، چمن کو آبادیاں مُبارک
مَلک فلک اپنی اپنی لَے میں ، یہ گھر عنادِل کا بولتے تھے"
اس قسم کی تضمین میں کسی شعر پر تین مصرعے شعر کے مصرعہ اولیٰ کے قافیے کے لحاظ سے لگائے جاتے ہیں۔

(۲)کسی شعر کے ایک مصرعے پر اپنا مصرعہ لگانا وہ بھی تضمین کی ایک شکل ہے ۔
مثلاً :امام احمد رضا کے ایک مصرعے :
"منزل نئی، عزیز جدا ، لوگ ناشناس"
پر میرا ایک تضمینی مصرعہ  جس سے شعر مکمل ہوا۔
"منزل نئی ، عزیز جدا ، لوگ ناشناس"
برزخ میں آکے آپ ہی ڈھارس بندھائیے

(۳)کسی ایک شعر پر پوری ، نظم ، نعت ، غزل وغیرہ لکھی جاتی ہے :
مثلاً : امام احمدرضا کے ایک شعر :
"بنت صدیق آرامِ جانِ نبی
اُس حریمِ براء ت پہ لاکھوں سلام"
پر محترم ڈاکٹر عزیز احسن (کراچی، یونی ورسٹی ) کی ایک مکمل نظم بھی تضمین کی ایک شکل ہی ہے:
ماہِ صدق و صفا کی حسیں روشنی
جس کے ماتھے کا جھومر صداقت بنی
رسمِ تصدیق جس کے پدر سے چلی
جس کو ورثے میں تسلیم کی خُو ملی
چاندنی جس کی رویت سے شرما گئی
میری ماں! عائشہ! علم کی منتہی
دیں میں جس کی امومت سے جاں پڑ گئی
راویوں میں ہمیشہ نمایاں رہی!
جس نے پھیلائی خوشبو احادیث کی
اور بخشی شبوں کو عجب روشنی
جس نے اوصافِ مہرِ رسالت سبھی
پیشِ اُمّت رکھے ، تھے خفی یا جلی
تاکہ ہو اُسوۂ پاک کی پیروی
اتباعِ نبی ہی کرے ہر گھڑی
کوئی نادار ہو اُمّتی یا غنی
ایسی ماں جس کی سیرت مثالی رہی
جس کی عفت کی رب نے گواہی بھی دی
ساری اُمّت کی ماؤں میں جو فرد تھی
جس کو نسواں پہ حاصل ہوئی برتری
اہلِ بیتِ مطہر میں ممتاز بھی
زوجۂ پاکِ مزّمِّل و ابطحی(ﷺ)
"بنتِ صدیق ، آرامِ جانِ نبی
اُس حریمِ برأت پہ لاکھوں سلام"

(۴)ایک قسم تضمین کی یہ بھی ہے جو کم ہی شعراکے یہاں ملتی ہے وہ یہ کہ پوری نظم کے ہر شعر کا پہلا مصرعہ شاعر کا خود کا ہو اور دوسرا کسی دیگر شاعر کا ۔۔۔۔۔۔۔ یا پہلامصرعہ کسی دیگر شاعر کا ہو اور دوسرا مصرعہ اپنا ہو۔
ذیل میں ملاحظہ کریں مفتی خلیل خاں برکاتی ، لاہور، کی کتاب "جمالِ خلیل " سے ایک نعت جس کے ہر شعر کا پہلا مصرعہ تو مفتی صاحب کا ہے لیکن دوسرا مصرعہ امام احمدرضا بریلوی کا ہے :
شام و سحر سلام کو حاضر ہیں السلام
"شمس و قمر سلام کو حاضر ہیں السلام"
سب تاجور سلام کو حاضر ہیں السلام
"جن و بشر سلام کو حاضر ہیں السلام"
بس اک نگاہِ لطف شہنشاہِ بحر وبر
"سب بحر و بر سلام کو حاضر ہیں السلام"
سر خم ہر ایک اوج کا ہے در پہ آپ کے
"سب کرّ و فر سلام کو حاضر ہیں السلام"
گل ہیں نثار قدموں پہ خم ہے جبیں پہ کوہ
"سنگ و شجر سلام کو حاضر ہیں السلام"
اے جانِ کائنات و مقصودِ کائنات
"سب خشک و تر سلام کو حاضر ہیں السلام"
راحت ملی ہے دامن عالم پناہ میں
"شوریدہ سر سلام کو حاضر ہیں السلام"
حاضر ہیں سب دعا و تمنّا کے ساتھ ساتھ
"عرض و اثر سلام کو حاضر ہیں السلام"
اٹھ جائے ہر نگاہ سے اب تو ہر اک حجاب
"اہلِ نظر سلام کو حاضر ہیں السلام"
چارہ گرِ خلیل و مسیحاے کائنات
"خستہ جگر سلام کو حاضر ہیں السلام"

تضمین میں ایک قسم تضمین مزدوج بھی ہے جس کو بعض علماے ادب نے صنعت میں شمار کیا ہے وہ یہ کہ کسی شعر میں کسی بھی مقام پر دو ہم وزن یا مقفا الفاظ استعمال کرنا :
مثلاً : اقبال کے دوشعر دیکھیں جس میں "چمک /جھلک" ۔۔۔۔۔"شجر /حجر"  :
چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں
جھلک تیری ہویدا چاند میں ، سورج میں تارے میں
خصوصیت نہیں کچھ اس میں اے کلیم تری
شجر حجر بھی خدا سے کلام کرتے ہیں
اب یہاں سے تشطیر کے بارے میں سنیں کہ :
تشطیر کے لغوی معنی چیرنا ہے اصطلاحِ ادب میں ’’جب شاعر کسی شعر کے دومصرعوں کے بیچ میں موضوع سے ہم آہنگ مزید دو تضمینی مصرعوں کا اضافہ کرتا ہے تو اُس صنعت کو ’’صنعتِ تشطیٖر‘‘ کہتے ہیں۔‘‘
تشطیر کا عمل تضمین سے خاصا مشکل ہے۔
 تشطیر میں دومصرعوں کے بیچ مزید دومصرعے نظم کرنا ہوتے ہیں ۔
            عام طور پر اس کے دو طریقے رائج ہیں ۔ پہلا طریقہ یوں ہے کہ کسی شعر کے پہلے مصرع پر ایسا مصرع لگادیا جائے جو اصل شعر کے دوسرے مصرع کے ہم قافیہ و ردیف ہو۔ اور دوسرے مصرعے پرردیف و قافیے کا لحاظ رکھے بغیر مصرع لگادیا جائے ۔ بالکل اس طرح کہ ایک جیسے ردیف و قافیے کے دو اشعار وجود میں آجائیں ۔ مثال کے طور پر مختارؔ یوسفی کی یہ تشطیر       ؎
                                                شعرازامیر الاسلام ہاشمی:
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہے
وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
                                                تشطیرِ مختارؔ:
"جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہے"
اس کو بھی بصد شوق سے نگل جاتا ہے مومن
دو نمبری دھندوں سے بھی مل جائے تو مختارؔ
"وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن"
            جناب مختارؔ یوسفی کی جملہ تشطیرات اسی فارم میں لکھی گئی ہیں۔ زیادہ تروہ شعرا جنھوں نے تشطیر قلم بند کی ہے اِسی طریقے پر عمل کرتے رہے ہیں ۔ جب کہ اِس کا دوسرا طریقہ بھی ہے جو بہ نسبت پہلے طریقے کے خاصا مشکل ہے وہ یہ کہ کسی شعر کے پہلے مصرعے پر دوسرامصرع لگا کر اُسے ایک مطلع کی شکل دے دی جائے اوردوسرے مصرعے پر پہلا مصرع بھی اس طرح لگایا جائے کہ وہ بھی مطلع بن جائے اس طرح کسی شعر کے دومصرعوں کے بیچ اس طرح دومصرعے رکھے جائیں کہ دو مطلعے وجود میں آجائیں۔ مثال کے طورپر ناچیز کی ایک تشطیر       ؎
                                                شعر از امام احمدرضا بریلوی:
غور سے سن تو رضاؔ کعبے سے آتی ہے صدا
میری آنکھوں سے مرے پیارے کا روضہ دیکھو
                                                تشطیرِ مشاہدؔ:
’’غور سے سن تو رضاؔ کعبے سے آتی ہے صدا‘‘
حجِّ مبرور کا اب ہوگیا ارماں پورا
جاؤ تسکیں دہِ دل گنبدِ خضرا دیکھو
’’میری آنکھوں سے مرے پیارے کا روضہ دیکھو‘‘
            اس قسم کی تشطیرات شاذ و نادر ہی دکھائی دیتی ہیں ۔ ناچیز کا مجموعہ ’’تشطیراتِ بخشش‘‘ اسی ہیئت پر لکھی ہوئی تشطیرات پر محیط ہے۔ جو کہ تقدیسی شاعری نعت و منقبت کے حوالے سے ہے۔
یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ تضمین ہو یا تشطیر جب بھی کسی دوسرے شاعر کے اشعار یا مصاریع کا استعمال کریں تو ان کو واوین میں لکھنا ضروری ہے تاکہ طاہر ہوجائے کہ یہ مالِ دیگر ہے۔

+91 9021761740 / +91 9420230235

1 تبصرہ:

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں