کلی علم غیب اور یہ صرف اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا حصہ تھا کہ جب اعدائے دین نے شان نبوت ولایت پر ہاتھ ڈالا تو اعلٰی حضرت کا قلم ڈھال بنا اور مذہب مہذب اہل سنت کے جمیع مسائل کو قرآنی اصول کے مطابق ڈھالنے کی نہ صرف کوشش کی بلکہ حقیقت کو نصف النہار سے ذیادہ آشکارا فرمایا چنانچہ علم غیب کلی اہل سنت اور مخالفین کے مابین نزاع کا ایک اہم مسئلہ ہے اعلٰی حضرت قدس سرہ جب گویا ہوئے تو جلال الملت والدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالٰٰی علیہ کو بھی ساتھ لیا۔
چنا نچہ اعلٰی حضرت قدس سرہ نے علم غیب کلی کا دعوٰٰی یوں تحریر فرمایا
: بے شک حضرت عزت و عظمت نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام اوّلین وآخرین کا علم عطا فرمایا مشرق تا مغرب عرش تا فرش سب انہیں دکھایا ملکوت السموت والارض کا شاہد بنایا روز اوّل سے روز آخرت یعنٰی روز قیامت تک کے سب ماکان وما یکون انہیں بتائے اشائے مذکورہ سے کوئی ذرّہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم سے باہر نہ رہا، علم حبیب کریم علیہ افضل الصلواۃ التسلیم ان سب کو محیط ہوا نہ صرف اجمالاً بلکہ ہر صغیر و کبیر ہر رطب و یابس جو پتہ گرتا ہے زمین کی اندھیروں میں جو دانہ کہیں پڑا ہے سب کو جدا جدا تفصیلاً جان لیا الحمد للہ حمداً کثیرا بلکہ یہ جو کچھ بیان ہوا ہر گز ہر گز محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پورا علم نہیں صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وسلم و علٰی وآلہ واصحابہ اجمعین و بارک وکرم وسلم بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم سے ایک چھوٹا حصّہ ہے ہنوز اعاطہ علم محمدی میں وہ ہزار در ہزار بے حد و بے کنار سمندر لہرا رہے ہیں جن کی حقیقت وہ جانیں یا ان کا عطا کرنے والا مالک و مولا جل و علا ( و الحمد للہ العلٰی الاعلٰٰی ) کتب حدیث و تصانیف علمائے قدیم و حدیث میں اس کے دلائل کا بہت شافی و بیان وانی ہے اس کے بعد آپ علم غیب کے مسئلہ کو قرآنی آیات سے ثابت فرما کر آخر میں اصول قرآنی پو بحث فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ۔
عبارت اعلٰی حضرت قدس سرہ اور اصول میں مبرہن ہو چکا کہ نکرہ حیز نفی میں مفید عموم ہے اور لفظ کل تو ایسا عام ہے کہ کبھی خاص ہو کر مستعمل ہی نہیں ہوتا اور عام افادہ استغراق میں قطعی ہے اور نصوص ہمیشہ ظاہر پر محمول رہیں گے بے دلیل شرعی تخصیص و تاویل کی اجازت نہیں ورنہ شریعت سے مان اٹھ جائے نہ حدیث آحاد اگر چہ کیسی اعلٰی درجہ کی صحیح ہو عموم قرآن کی تخصیص تراخی نسخ ہے اور اخبار کا نسخ نا ممکن اور تخصیص عقلی عام کو قطعت سے نازل نہیں کرتی نہ اس کے اعتماد پر کسی ظنی سے تخصیص ہو سکے تو بحمدللہ کیسے نص صریح قطعی سے روشن ہوا کہ ہمارے حضور صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ عزوجل نے تمام موجودات جملہ ماکان ومایکون الٰی یوم القیامۃ جمیع مندرجات لوح محفوظ کا علم دیا اور شرق و غرب سماء وارض عرض فرش میں کوئی ذرّہ حضور صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم سے باہر نہ رہا ۔ جو کچھ اعلٰٰی حضرت قدس سرہ نے اصول تفسیر کے طور پو اپنا مسلک واضح فرمایا وہی اصول امام سیوطی سینکڑوں سال پہلے بیان فرماگئے چنانچہ حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں :- العالم یستغرق الصالح من غیر حصرو صیغۃ کل مبتداۃ وما والمعروف بال و اسم الجنس المضاف والنکرۃ فی سیاق العفی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ العالم الباقی فی عمومہ من خاص القرآن ما کان مخصصاً لعموم السنۃ و ھو عزیز قال این الحصار انما یرجع فی النسخ الٰٰی نقل صریح عن رسول اللہ صلی اللہ تعالٰٰٰٰٰی علیہ وآلہ وسلم وعن اصحابی یقول آیۃ کذا نسخت کذا قال و حکم بہ عند وجود التعارض المقطوع بہ سع علم التاریخ یعرف التقدم و المتاخر قال ولا یعتمد فی النسخ قول عوام المفسرین بل ولا اجتھاد المجتھدین من غیر نقل صحیح ولا معارضۃ بینۃ لان النسخ یتضمن دفع حکم و اثبات حکم۔۔۔ نقرر--- فی عھدہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم الصعتمد فیہ النقل والتاریخ دون الرای اوالاجتھاد قال والناس فی ھذا بین طرفی نقیض فمن قائل لا یقبل فی النسخ اخبار الاحاد العدول و من ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یکتفی فیہ بقول مفسر او مجتھد والصواب خلاف قولھما ۔ ۔ ۔ اذا سیق العام للمدح الذم فھل ھو باق علٰی عمومہ فیہ مذاھب احدھا نعم اذ لا صارف عنہ ولا تنافی بین العموم و بین المدح و الذم ۔۔ الخ تبحر فی فن التفسیر کے نمونے بالاستعیاب تو نہیں چند آیات کے نمونے تفسیری حیثیت سے فقیر یہاں عرض کرتا ہے۔
آ1۔ ۔ ۔ فتاوٰی افریقہ 17 میں ہے سائل نے عبد المصطفٰٰے نام رکھنے کے متعلق سوال لکھا تو اعلٰی حضرت قدس سرہ نے عبد المصطفٰے نام رکھنے کے جواز میں
آیۃ وانکحو الایمٰی منکم منکم والصالحین من عبادکم سے استدلال فرمایا اس کے بعد تفسیر القرآن بالحدیث کے قاعدہ پر آیات کی تفسیر اور اپنے موضوع کو احادیث مبارکہ کے چند حوالہ جات سے مزین فرمایا پھر اس کے بعد تفسیر القرآن بالقرآن جو تفسیر کا اعلٰی درجہ ہے آیت مذکورہ کیلئے یٰعبادی الذین اسرفوا سے استشہاد فرمایا ۔ آپ کے استدلال پر فخر الدین رازی کی تفسیر کبیر کو سامنے رکھئے تو یقین آئیگا کی اعلٰی حضرت قدس سرہ طرز استدلال میں امام رازی ہیں۔ 2۔ ۔ ۔ اسی فتاوٰی افریقہ 19 میں سائل نے سوال کیا کہ آپ نے اپنی بعض تصانیف میں اہل اسلام کو مخاطب فرمایا کیا آپ کا خدا تعالٰی سے کوئی تعلق نہیں جب کہ آپ دوسروں کو تمہارا خدا کے الفاظ سے یاد کرتے ہیں ۔ اعلٰی حضرت قدس سرہ نے صرف اسی ایک چھوٹے سوال پر اختصاراً دس آیات اور دس احادیث سے جواب مرحمت فرمایا جو آپ کی قرآن دانی کا بین ثبوت ہے ۔ 3۔ ۔ ۔ اسی فتاوٰی افریقہ میں بد مذاہب سے بیزاری کے متعلق درجنوں آیات سے استدلال کے بعد متعدد احادیث مبارکہ سے استشہاد فرمایا ۔ 4۔ ۔ ۔ اسی فتاوٰی افریقہ کے صفحہ 13 پر آیۃ وسیلہ کا بیان مفصّل مفسّر فرمایا کہ جس میں وسیلہ کی تمام شقوں کی تفصیل پھر اس پر اسلاف صالحین کے ارشادات کی تزنین کے بعد پیری مریدی کی تمام اقسام واضح فرمائیں جن میں سچے اور جھوٹے پیروں اور فقیروں کی پہچان آسان فرمادی جو اسلاف صالحین کی تصانیف میں یکجا کہیں اسی تحقیق کے ساتھ نہ ملے گی پھر کمال یہ ہے کہ صرف ایک جملہ کی تحقیق پر کتاب کے کئی صفحات ُپر فرمائے امام فخر الدین رازی قدس سرہ کو ناقدین نے معاف نہ فرمایا کہا امام موصوف آیت کے مضمون کو اتنا طول دیتے ہیں کہ فن تفسیر کا رنگ بکھر جاتا ہے لیکن ہمارے امام ممدوح کا مضمون اتنا پر بہار ہے کہ جتنا طویل ہوتا گیا اتنا فن تفسیر اجاگر ہوتا چلا گیا ہے ۔ اگر وہی ناقدین ہمارے امام ممدوح کے مضمون کو دیکھ لیتے تو قلم رضا کو چوم لیتے ۔ 5۔ ۔ ۔ اکثر مفسّرین صرف ناقل ہوتے ہیں استنباط کرنے والے گنتی کے چند ملیں گے لیکن اعلٰی حضرت قدس سرہ کو اللہ کی طرف سے تائید غیبی نصیب تھی کہ آیت کی تفسیر میں نقول معتبرہ کے ساتھ احادیث مبارکہ سے جب استنباط فرماتے تو دریا بہا دیتے چنانچہ آیت ان اشکر لی ولوالدیک کی تفسیر میں حقوق الاولاد علی الوالد اسّی حقوق گنائے جو سب کے سب آیت کی تفسیر سے متعلق اور احادیث مبارکہ سے مستنبط ہیں ۔ صرف اسی مضمون پر ایک رسالہ مشعلۃ الارشاد تیار ہو گیا ۔ اس کے علاوہ اور درجنوں بحثیں آیت کی تفسیر میں لائے جنہیں پڑھنے کے بعد تصدیق ہوتی ہے کہ اعلٰٰی حضرت کا تبحر فی فن التفسیر بے مثال ہے ۔ 6۔ ۔ ۔ اجمالی آیات کی تفسیر میں مفسرین کا ہمیشہ اختلاف چلا آرہا ہے لیکن مفسرین کی عادت رہی ہے کہ اپنے موقف کو دلائل سے ثابت کرتے وقت زیادہ سے زیادہ درجنوں دلائل قائم کئے لیکن اعلٰی حضرت قدس سرہ کا طرز نرالہ ہے کہ جب اپنے موقف کی توضیح فرماتے ہیں تو سنکڑوں دلائل و براہین حوالہ قلم فرماتے ہیں چنانچہ تجلی الیقین کی تصنیف آپ کے شہسوار قلم ہونے کی جیتی جاگتی دلیل ہے کہ منکرین نے جب آقائے کونین ماوائے ثقلین رحمت کل ہادی سبل سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی افضیلت کا انکار کیا تو درجنوں آیات قرآنیہ مع حوالہ جات تفاسیر مستندہ اور درجنوں احادیث صحیحہ اور اقوال اور اسلاف صالحین کی تصانیف سے استدلال فرمایا اس تصنیف اعلٰی حضرت قدس سرہ کو یوں انعام نصیب ہوا کہ حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیارت بشارت سے نوازا جس کا ذکر امام اہلسنّت نے تجلی الیقین کے آخر میں خود بیان فرمایا ہے ۔ 7۔ ۔ ۔ صرف ایک آیت پر سینکڑوں صفحات پر کتاب لکھ دی جو پوری کتاب تفاسیر کے حوالہ جات کے علاوہ اپنے استنباطات کے ساتھ اصول تفسیر سے موضوع کو مضبوط و موثوق فرمایا مثلاً آیت ممتحنہ کی تفسیر الحجۃ الموتمنہ قابل مطالعہ کتاب ہے ۔ 8۔ ۔ ۔ مختلف مسائل پر تفاسیر لکھنے بیٹھے تو تفاسیر کے حوالہ جات کے ڈھیر لگا دیئے چنانچہ ما اھل لغیر اللہ بہ کی توثیق میں تفاسیر معتبرہ کے حوالہ جات لکھوائے حیات اعلٰی میں 36 تفاسیر کی عبارت لکھوائیں پھر بھی فرمایا ان کے علاوہ اور بھی ہیں ۔ 9۔ ۔ ۔ تفسیر میں قرآنی نکات بیان فرمائے تو خود مفسرین حیرت میں آگئے ملفوظ شریف حصہ چہارم میں فرمایا کہ ساتویں آسمان سات زمینیں دنیا ہیں اور ان سے وراء سدرۃ المنتہٰی ہے عرش، کرسی اور آخرت ۔ دار دنیا شہادت ہے اور دار آخرت غیب، غیب کی کنجیوں کو مفاتیح اور شہادت کی کنجیوں کو مقالید کہتے ہیں ۔ قرآن عظیم میں ارشاد ہوتا ہے و عندہ مفاتیح الغیب لا یعلمھما الا ھو ، اور دوسری جگہ ارشاد ربّانی ہے لہ مقالید السموت والارض ،مفاتیح کا حرف اوّل میم م اور آخری حرف حا ح اور مقالید کا پہلا حرف اور آخری حرف ہ ہے مرکب کرنے سے نام اقدس ظاہر ہوتا ہے یعنٰٰی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی سے یا تو اس طرف اشارہ ہے کہ غیب و شہادت کی کنجیاں سب اسے دی گئی ہیں یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی شے ان کے حکم سے باہر نہیں ۔ دو جہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانی دل و جان نہیں
کہو کیا ہے وہ جو یہاں نہیں مگر اک نہیں کہ وہاں نہیں
یا اس طرف اشارہ ہو سکتا ہے کہ مفاتیح و مقالید غیب و شہادت سے حجرہ خفا یا عدم میں مقفل تھی ، مفاتیح مقلاد جس سے ان کا قفل کھولا گیا اور میدان ظہور میں لایا گیا۔ وہ ذات ۔ ۔ ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر یہ تشریف نہ لاتے تو سب اسی طرح مقفل حجرہ یا خفا میں رہتے ۔ وہ جو نہ تھے تو کچھ بھی نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ بھی نہ ہو
جان ہیں وہ جہاں کی ، جان ہے تو جہاں ہے
۔
10۔ ۔ ۔ اعلٰی حضرت قدس سرہ کا تبحر فی فن التفسیر سمجھئے یا کرامت کہ خلاف عادت قرآن کی آیات برجستہ مخالف کو جواب دیا ، چنانچہ ایک رافضی نے کہا کہ انا من المجرمین منتقمون کے عدد 1202 ہیں اور یہی عدد ابو بکر ، عمر ، عثمان کے ہیں (معاذ اللہ ) اعلٰی حضرت قدس سرہ یہ سن کر بے قرار ہو گئے فوراً بلا تاخیر برجستہ کئی جوابات بیان فرمائے وہ جوابات سنئے ! (رافضی لعنہم اللہ تعالٰی ) کی بناء مذہب ایسے اوہام بے سرو پا پر ہے ۔ اوّلا ۔ ۔ ۔ ۔ ہر آیت عذاب کے عدد اسماء اخیار سے مطابق کر سکتے ہیں اور ہر آیت ثواب کے اسماء کفار سے کہ اسماء میں وسعت وسیعہ ہے ۔ رافضی نے آیت کو ادھر پھیرا کوئی ناصبی ادھر پھیرے گا اور ( رافضی ناصبی) دونوں ملعون ہیں ۔ امیر المؤمنین عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نام پاک میں الف نہیں لکھا جاتا تو عدد بارہ سو ایک ہیں نہ کہ دو ۔
(1) ہاں رافضی ۔ ۔ ۔
بارہ سو دو ( 1202 ) عدد کا ہے کہ ابن سباد رافضہ
(2) ہاں رافضی ۔ ۔ ۔ ۔ بارہ سو عدد ان کے ہیں ، ابلیس، یزید، ابن زیاد، شیطان ، الطاق کلینی بابویہ قمی طوسی حلی ۔ (3)ہاں رافضی ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے : ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعاً لست منھم فی شئے ۔
بے شک جنہوں نے اپنا دین ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور شیعہ ہو گئے اے نبی تمہیں ان سے کچھ علاقہ نہیں ۔ ( سورۃ الانعام رکوع 2 )
اس آیۃ کریمہ کے عدد 2828 ہیں اور یہی عدد ہیں ، روافض اثناءعشریہ شیطانیہ اسماعیلیہ ، کے ۔ اور اگر اپنی طرح سے اسماعیلیہ میں الف چاھئے تو یہی عدد ہے روافض اثناء عشیریہ نصیریہ و اسماعیلیہ ، کے ۔
(4) ہاں اور رافضی ۔ ۔ ۔ ۔! اللہ تعالٰٰی فرماتا ہے لھم اللعنۃ و لھم سوء الدار ان کیلئے لعنت ہے اور ان کیلئے ہے برا گھر (سورۃ الرعد رکوع 2 ) اس کے عدد 644 ہیں اور یہی عدد ہیں شیطان الطاق طوسی حلی کے ۔ (5) نہیں اور رافضی !۔ ۔ ۔ ۔بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اولئک ھم الصدیقون والشھداء عند ربھم لھم اجرھم ،* ۔ (سورۃ الحدید رکوع 3 ) اس کے اعداد 1445 ہیں اور یہی عدد ہیں ابوبکر ، عمر ، عثمان، علی ، سعید کے ۔ (6)نہیں اور رافضی !۔ ۔ ۔ ۔بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اولئک ھم الصدیقون والشھداء عند ربھم لھم اجرھم و نورھم ، وہی اپنے رب کے حضور صدیق وشہید ہیں ان کیلئے ان کا ثواب اور ان کا نور (سورۃ الحدید رکوع 3 ) اس کے اعداد 1792 اور یہی عدد ہیں ابو بکر ، عمر ، عثمان ، طلحہ، زبیر ، سعید کے ۔ (7) نہیں اور رافضی !۔۔۔۔۔۔ بلکہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے والذین امنوا باللہ ورسلہ اولئک ھم الصدیقون والشھداء عند ربھم لھم اجرھم و نورھم ، جو لوگ ایمان لائے اللہ اور اس کے رسولوں پر وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق و شہید ہیں ان کیلئے ان کا ثواب اور ان کا نور (سورۃ الحدید رکوع 3 ) اور یہی عدد ہیں صدیق ، فاروق ، ذوانورین ، علی، طلحہ ،زبیر ، سعید، ابوعبیدہ، عبد الرحمٰن بن عوف کے ۔ آخر میں فرمایا ، الحمد للہ آیۃ کریمہ کا تمام کمال جملہ مدح بھی پورا ہو گیا اور حضرات عشرہ مبشرہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھم اجمعین کے اسماء طیبہ بھی سب آگئے جس میں اصلاً تکلف و تصنع کو دخل نہیں ۔ چند دنوں سے آنکھ دکھتی ہے ۔ یہ تمام آیات عذاب و اسماءاشرار و آیات مدح و اسماء اخیار کے عدد محض خیال میں مطابق کئے جس میں صرف چند منٹ صرف ہوئے اگر لکھ کر اعداد جوڑے جائے تو مطابقتوں کی بہار نظر آتی مگر بعونہ تعالٰٰی اس قدر بھی کافی ہے ۔ واللہ الحمد واللہ اعلم (فقیر احمد رضا قادری غفر لہ) اس فتوے کو نقل کر کے مستفتی نے لکھا ہے ، شیعہ رافضی کا ماشاء اللہ ولیہ نہیں بلکہ قیمہ ہو گیا ۔ اب مجال دم زون نہیں فقیر نے یہ کرامت اعلٰٰی حضرت عظیم البرکت مجدد دین و ملّت امام اہل سنّت و جماعت چشم خود ملاحظہ کی کہ چند لمحوں میں ان تمام آیات و اعداد کی مطابقت زبان فیض و الہام ترجمان سے فرمائی ۔ یہ رات کا وقت تھا قریب نصف گزر چکی تھی ۔ واللہ باللہ عدد اخیار و اشرار کے اسماء بلا سوچے اور بے تامل کئے فر ما دئیے کہ فقیر سوا اس کے اور کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کہ یہ اعلٰی حضرت کی کرامت کا اظہار بہ ذریعہ القائے ربّانی و الہام سبحانی تھا ۔ (حیات اعلٰٰی حضرت 149 ، 150 ) فصلی اللہ تعالٰٰی علٰٰی حبیبہ سیّد المر سلین و علٰٰی آلہ و اصحابہ اجمعین فاخر دعوانا ان الحمد للہ ربّ العالمین 19 صفر 1403ھ ، بہاولپور ، پاکستان
الفقیر القادری ابو الصالح محمد فیض احمد اویسی رضوی غفر لہ