اتوار، 25 اگست، 2013

Imam Ahmed Raza Ka Ijz o Inkesar

امام احمد رضا علیہ الرحمہ کا عجز و انکسار


اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی علیہ الرحمہ والرضوان بڑے عظیم المرتبت عالم دین تھے۔ ان کی علمی برتری کا اعتراف موافق دونوں نے کیا ہے۔ وہ جتنے بڑے عالم دین تھے ان کی زندگی اتنی ہی سادگی‘ عجزوانکساری اور حلم و برباری سے عبارت تھی۔ وہ علماء کا حد درجہ احترام کرتے‘ کسی کو کبھی تکلیف نہ پہنچاتے تھے۔ علم و فضل کے ساتھ سادگی سے متصف ان کی زندگی علماء اور عوام دونوں کے لئے یکساں مفید تھی۔ مندرجہ ذیل چند نمونے پیش کئے جارہے ہیں:
اعلیٰ حضرت لوگوں کے لئے مقررہ وقت ملاقات کے علاوہ گھر میں ہی رہتے تھے تاکہ لکھنے پڑھنے کا کام اطمینان سے ہوسکے۔ نماز پنچگانہ کے لئے مسجد میں آتے تھے۔ مقررہ وقت کے علاوہ بھی اگر کوئی شخص ملاقات کے لئے آتا تو اسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اطلاع ملتے ہی اعلیٰ حضرت تشریف باہر لے آتے تھے۔ بڑے خلوص اور سنجیدگی سے ملاقات کرتے تھے۔ ملک العلماء مولانا ظفر الدین قادری لکھتے ہیں کہ ہر شخص حتی کہ چھوٹی عمر والے سے بھی نہایت خلوص سے ملتے۔ آپ اور جناب سے مخاطب فرماتے اور حسب حیثیت ان کی تعظیم و توقیر فرماتے۔
ایک بار ایک صاحب جو بہت تعلیٰ پسند تھے‘ آپ کے یہاں آئے۔ آپ نے انہیں چارپائی پر بٹھایا۔ اتنے میں آپ کا حجام کریم بخش بھی آگیا اور سوچنے لگا کہاں بیٹھوں؟ اعلیٰ حضرت نے فرمایا: مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ تم بھی اس چارپائی پر بیٹھ جاؤ۔ ان صاحب کو اعلیٰ حضرت کا حجام کو ان کے مقابل بٹھانا ناگوار گزرا۔ چنانچہ وہ شخص بغیرملے چلے گئے۔
اعلیٰ حضرت فرمایا کرتے تھے۔ میں ایسے متکبر شخص سے ملنا نہیں چاہتا (حیات اعلیٰ حضرت مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)
یہ واقعہ معاشرہ میں انسانی احترام کی مخالفت کرنے والوں سے بے اعتنائی برتنے کا ایک قابل عمل نمونہ ہے اگر ہم اسے عملی زندگی میں لائیں۔
اعلیٰ حضرت دین کے معاملے میں کسی کی پرواہ نہ کرتے تھے۔ اپنے بیگانے سب سے سچی بات کہہ دیتے تھے۔ بہت سے لوگ جو اس حق گوئی کی زد میں آئے‘ وہ اپنا محاسبہ کرنے کے بجائے فرضی نام و پتہ سے آپ کو گندی گالیاں لکھ کر بھیج دیا کرتے تھے۔
ایسے خطوط کو آپ کے شاگرد رشید مولانا امجد علی قادری علیہ الرحمہ کھولا کرتے تھے اور ایک کا بھی جواب اعلیٰ حضرت نہ دیتے تھے۔ ایک نئے مرید نے ایسے ہی ایک خط کو پڑھ لیا۔ رنجیدہ خاطر ہوکر اعلیٰ حضرت سے کہا: اس طرح کی بدزبانی کرنے والوں پر مقدمہ دائر کرنا چاہئے تاکہ آئندہ کوئی اس طرح کی جرات نہ کرسکے۔ اعلیٰ حضرت نے انہیں اور دس پندرہ خطوط کا بنڈل تھما دیا اور فرمایا اسے پڑھیئے۔ وہ صاحب خط پڑھتے جاتے تھے اور چہرے پر مسرت کی لکیریں دوڑتی جاتی تھیں۔ تب اعلیٰ حضرت نے فرمایا: پہلے ان مداحوں کو زروجواہر سے مالا مال کیجئے‘ پھر دشنام طرازوں کی سرزنش کیجئے۔
انہوں نے معذرت کی تو اعلیٰ حضرت نے بڑا پیارا جملہ فرمایا۔
آپ مخلص کو نفع نہیں پہنچا سکتے تو مخالف کو نقصان بھی نہ پہنچایئے۔
تعمیری اور فلاحی کاموں کی راہ میں سختیاں جھیلنے والے اس سادگی اور بردباری کو پیش نظر رکھیں تو وہ بڑی آسانی سے طوفان مخالفت سے گزرتے ہوئے منزل کو پاسکتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت کو جب بھی کوئی دعوت دیتا آپ قبول کرلیتے اور وقت پر حاضر ہوجاتے۔ ایک بار ایک کمسن صاحبزادے نے کہا: میرے گھر آپ کی دعوت ہے۔ آپ نے قبول فرمالیا اور پوچھا کیا کھلایئے گا؟ اس نے دامن میں رکھی ماش کی دال دکھاتے ہوئے کہا: ماش کی دال اور روٹی۔ جب آپ پہنچے تو صاحبزادے نے باجرہ کی موٹی موٹی روٹی اور ماش کی دال لاکر رکھ دی۔ آپ نے سیر ہوکر کھانا کھایا اور فرمایا: ایسی خلوص کی دعوت روز ہو تو میں روز قبول کرلوں۔ اسی طرح ایک صاحب نے آپ کی دعوت کی‘ ملک العلماء مولانا ظفر الدین ہمراہ تھے۔ میزبان بڑا مفلس و کنگال تھا۔ ٹوٹی چٹائی بچھائی گئی۔ اعلیٰ حضرت اسی پر بیٹھ گئے۔ باجرہ کی روٹی بڑے گوشت کا قیمہ لاکر رکھا گیا۔ ملک العلماء سوچنے لگے اب کیا ہوگا۔ اعلیٰ حضرت تو بڑے کا گوشت نہیں کھاتے۔ اتنے میں اعلیٰ حضرت نے دعا پڑھی۔ بسم اﷲ الذی لایضر مع اسمہ شئی فی الارض ولا فی السمآء و ہوالسمیع العلیم مسلمان کچھ بھی کھلائے نقصان نہیں کرے گا۔
میزبان ملک العلماء کے جان پہچان کے تھے۔ آپ نے کہا: حالت مفلسی میں دعوت کی کیا ضرورت تھی۔ میزبان نے کہا اسی لئے تو اعلیٰ حضرت کی دعوت کی ہے تاکہ ان کی دعا اور ان کے قدموں کی برکت سے مفلسی دور ہوجائے۔
اعلیٰ حضرت کے اس عمل کو اگر ہم پیش نظر رکھیں تو انسان کی حیثیت کا اندازہ ہم دولت سے نہیں‘ دل سے کریں گے اور امراء کی دہلیز پر پائوں توڑ کر نہ بیٹھیں گے۔
حضرت شاہ برکت اﷲ قادری مارہروی علیہ الرحمہ کے عرس میں اعلیٰ حضرت کی حاضری ہوا کرتی تھی۔ جب آپ سے اراکین عرس و عظ و تقریر کے لئے کہتے تو آپ فرماتے: میں تو اپنے کو وعظ نہیں کہہ پایا ہوں‘ دوسروں کو کیا وعظ کہوں؟ ہاں مسائل شریعہ پوچھئے تو بتائوں گا کہ بتانے کا حکم شریعت نے دیا ہے۔
کیا عجز وانکساری ہے جسے دنیا اعلیٰ حضرت کہے وہ اپنے آپ کو اتناکمتر سمجھے۔
ہمیں اس جلیل القدر عالم دین کی سیرت کے باب‘ عجز وانکساری کو بار بار پڑھنا چاہئے تاکہ نفس سرکش نہ ہونے پائے۔ عوام ہم سے بدظن نہ ہوں۔ 

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں