حصول علم اور اسلاف کاطریقہۂ کار
اسلام'علم ومعرفت،شعوروآگہی کا دین ہے،جس نے جہالت وناخواندگی کا خاتمہ کیا،دین اسلام میں تحصیل علم کی حددرجہ تاکیدکی گئ ہے،انسان'علم و معرفت کی بلندیوں پرپہنچنے کے بعدبھی اپنے علم کوکافی نہ سمجھے؛بلکہ وقت اخیرتک اپنے سفرعلم کوجاری رکھے۔
اللہ تعالی نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کومعلم کتاب وحکمت بنایا،علم وفضل کے بحربے کراں آپ سے جاری فرمائے،اولین وآخرین کاعلم آپ کوودیعت کئے جانے کے باوجوداللہ تعالی نے آپ کوحکم فرمایا کہ آپ اس کی بارگاہ میں اس طرح معروضہ کریں:وقل رب زدنی علما۔
ترجمہ:اور(اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)آپ عرض کیجئے!اے میرے پروردگار!میرے علم میں اضافہ فرما۔(سورۃ طہ،آیت:114)
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے فرامین عالیہ کے ذریعہ علم کی عظمت ورفعت بیان فرمائی،آپ نے علمی مجالس کوجنت کے باغات قراردیا۔
علمی مجالس میں شرکت کا شوق اورتحصیل علم کاجذبہ حضرات صحابۂ کرام رضي اللہ عنہم میں اس قدرتھا کہ وہ علم حاصل کرنے کا کوئی موقع جانے نہ دیتے۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی علمی جلالت کاآفاق میں شہرہ ہے،حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زبان فیض ترجمان سے یہ اعلان فرمایا کہ اگرمیرے بعدکوئی نبی ہوتے توعمر(رضي اللہ عنہ)ہوتے۔
آپ کی اس فضیلت اورعلمی رفعت کے باوجودآپ میں تحصیل علم کااس قدرشوق تھا کہ آپ نے اپنے ایک رفیق کے ساتھ معاہدہ کرلیا کہ ایک دن وہ باغ میں کام کریں اور میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضررہوں گااورجوکچھ آپ سے سنوں گاوہ انہیں بیان کروں گااورایک دن میں باغ میں کام کروں گااورآپ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوجائیں اورجوکچھ آپ نے فرمایامجھے بتلادیں،تاکہ کسی مجلس کے ارشادات چھوٹنے نہ پائیں۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضي اللہ عنہما جلیل القدرصحابی ہیں؛جوتفسیرقرآن میں امتیازی مقام رکھتے ہیں،حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے وقت آپ کی عمردس(10) برس تھی،آپ کے اندریہ جذبہ تھاکہ صحابہ کرام رضي اللہ عنہم سے ان احادیث کریمہ کوسنوں جس کوانہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سناہے۔
علم مصطفی کے حصول کے شوق نے آپ کواس قدربے چین کردیا کہ آپ سخت گرما کے موسم میں عین دوپہرکے وقت ایک صحابی کے مکان پرتشریف لے گئے،مگرادب نے اجازت نہ دی کہ دروازہ پردستک دیں،شدیددھوپ میں آپ ان کا انتظارکرتے رہے،جب وہ خودباہرآئے تب ان سے ملاقات کی اوراحادیث سنیں۔
حضرات اہل بیت کرام،صحابہ عظام اورصالحین امت نے بڑی محنت وجانفشانی سے اسلامی سرمایہ ہم تک منتقل کیا،علم کی خاطرتکالیف اٹھائے ،سفرکی صعوبتوں اورفاقوں کوبرداشت کیا۔
حضرت ابوہریرہ رضي اللہ عنہ اپنا سب کچھ قربان کرکے صحبت رسول اورتحصیل علم کی خاطرصفہ پرفروکش ہوگئے،فاقہ کی وجہ سے آپ پرغشی طاری ہوتی،لوگ اسے مرگی کادورہ سمجھتے ؛لیکن آپ کسی کے سامنے اپنی بھوک کاتذکرہ نہ کرتے اورعلم کے حصول میں مشغول رہتے۔
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرات صحابۂ کرام کی تعلیم وتربیت کے لئے باضابطہ مسجد نبوی شریف میں اہتمام فرمایا تھا۔
حضرت جابررضی اللہ علہ ایک جلیل القدر صحابی ہیں،آپ کو جب یہ معلوم ہوا کہ ملک شام میں ایک صحابی حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ ہیں جنہوں نے براہ راست حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث سنی ہے،آپ نے ایک اونٹ خریدا، تقریبا دیڑھ ہزارکیلومیٹر کا سفر طے کیا، اور ملک شام جاکر ان سے حدیث شریف حاصل کی اوراس کے فوراًبعدمدینہ منورہ واپس ہوگئے حالانکہ وہی حدیث شریف ایک واسطہ کے ساتھ آپ کے پاس موجود تھی۔
انہی برگزیدہ شخصیات کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ احادیث کریمہ کاعظیم ذخیرہ ہم تک پہنچا،انہوں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال وافعال،فرمودات وارشادات،حرکات وسکنات غرض آپ کے شب وروزاورہر ادا کومحفوظ کیا۔
قرآنی آیات کے نہ صرف معانی ومفاہیم کونقل کیا بلکہ ان کے نزول کے مواقع واحوال،موسم ومقام اورکیفیت کوبھی بیان فرمایا۔
امیرالمؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو علم کی طلب وشوق نے اس طرح مشغول کردیا کہ آپ نے چالیس(40) سال تک سالن نہ کھایا۔
ہمارے اسلاف کرام میں نہ صرف علم کی تحصیل کاجذبہ تھابلکہ وہ اس کی تبلیغ کے لئے بھی انتھک کوششیں کیا کرتے،حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے غریب طلبہ کی کفالت کرتے اوران کے گھرکاخرچ برداشت کرتے اورطلبہ کوعلم دین سے آراستہ کرتے،چنانچہ آپ کے تلامذہ میں وہ ائمۂ مجتہدین پیداہوئے کہ دنیا کے شرق وغرب میں ان کی امامت مسلم ہے۔
بہ شکریہ: ابوالحسنات
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں