وسیلہ سے متعلق ایک حدیث شریف کی تخریج
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وسیلہ لینا کتاب وسنت سے ثابت ہے،یہاں بطور نمونہ ایک روایت ذکر کی جاتی ہے:
"سنن ابن ماجہ،جامع ترمذی،مستدرک علی الصحیحین،مسند امام احمد-سنن کبری نسائی،جامع الاحادیث،صحیح ابن خزیمہ،دلائل النبوۃ ،کنز العمال،تاریخ کبیر للبخاری،الخصائص الکبری،شفاشریف،سبل الہدی والرشاد اور البدایہ والنہایہ "میں حدیث شریف ہے:
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ أَنَّ رَجُلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ادْعُ اللَّهَ لِي أَنْ يُعَافِيَنِي فَقَالَ إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَكَ وَهُوَ خَيْرٌ وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ فَقَالَ ادْعُهْ فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ وَيُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى اللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ-قَالَ أَبُو إِسْحَقَ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ-
ترجمہ:حضرت عثمان بن حنیف رضي اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،ایک نابینہ صحابی 'حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئےاور عرض کئےکہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم !آپ اللہ تعالی کے دربار میں دعاء فرمائيں کہ وہ مجھے عافیت عطافرمائے،آپ نے ارشاد فرمایا:اگر تم چاہو تو میں اس کو مؤخر کرتا ہوں اور یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر تم چاہو تو میں دعاء کرتا ہوں،تو انہوں نے عرض کیا:آپ میرے حق میں دعاءفرمائیں!تو آپ نے انہیں بہتر طریقہ سے وضو کرنے اور دو رکعات ادا کرنے کا حکم فرمایااور نماز کے بعد یہ دعاء کرنے کے لئے فرمایا:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى اللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ "
اے اللہ!میں تجھ سے سوال کرتاہوں اور تیری بارگاہ میں نبی رحمت حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وسیلہ پیش کرتا ہوں-اے پیکر حمد وثنا صلی اللہ علیہ والہ وسلم !بیشک میں اس ضرورت میں آپ کے وسیلہ سے اپنے پروردگار کے دربار میں معروضہ کررہاہوں تاکہ میری ضرورت پوری ہوجائے-اے اللہ!میرے حق میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شفاعت قبول فرما!-
(سنن ابن ماجہ،باب ما جاء في صلاة الحاجة، حدیث نمبر: 1375-
جامع ترمذی ،ابواب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب في دعاء الضيف، حدیث نمبر:3502 –
مستدرک على الصحيحين ، من كتاب صلاة التطوع ، حدیث نمبر:1128/1865/1884/1885-
مسند امام احمد، مسند الشاميين،، حدیث نمبر:16604/16605-
السنن الكبرى للنسائي،ج6،ص168/169-
جامع الأحاديث للإمام السيوطى، حدیث نمبر:4989-
صحيح ابن خزيمة، جماع أبواب ذكر الوتر وما فيه من السنن، حدیث نمبر:1152-مسند عبد بن حميد، حدیث نمبر:382-
دلائل النبوة للبيهقي، جماع أبواب دعوات نبينا صلى الله عليه وسلم، حدیث نمبر:2415/2416-
كنز العمال، الباب الثامن الدعاء، الفصل السادس: جوامع الأدعية، حدیث نمبر:3640/16816-
التاریخ الکبیر للبخاری-
الخصائص الكبرى، باب اختصاصه صلى الله عليه وسلم بجواز أن يقسم على الله به-
الشفابتعريف حقوق المصطفى، الباب الرابع ففيما أظهره الله تعالى على يديه من المعجزات وشرفه به من الخصائص والكرامات، فصل في إبراء المرضى وذوى العاهات-ج1،ص321-
سبل الهدى والرشاد، جماع أبواب التوسل به - صلى الله عليه وسلم، الباب الثالث في ذكر من توسل به - صلى الله عليه وسلم - في حياته من الإنس ،ج12،ص404-
البداية والنهاية لابن كثير،ج 6،ص178/179-)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وسیلہ لینا کتاب وسنت سے ثابت ہے،یہاں بطور نمونہ ایک روایت ذکر کی جاتی ہے:
"سنن ابن ماجہ،جامع ترمذی،مستدرک علی الصحیحین،مسند امام احمد-سنن کبری نسائی،جامع الاحادیث،صحیح ابن خزیمہ،دلائل النبوۃ ،کنز العمال،تاریخ کبیر للبخاری،الخصائص الکبری،شفاشریف،سبل الہدی والرشاد اور البدایہ والنہایہ "میں حدیث شریف ہے:
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ أَنَّ رَجُلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ادْعُ اللَّهَ لِي أَنْ يُعَافِيَنِي فَقَالَ إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَكَ وَهُوَ خَيْرٌ وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ فَقَالَ ادْعُهْ فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ وَيُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى اللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ-قَالَ أَبُو إِسْحَقَ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ-
ترجمہ:حضرت عثمان بن حنیف رضي اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،ایک نابینہ صحابی 'حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئےاور عرض کئےکہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم !آپ اللہ تعالی کے دربار میں دعاء فرمائيں کہ وہ مجھے عافیت عطافرمائے،آپ نے ارشاد فرمایا:اگر تم چاہو تو میں اس کو مؤخر کرتا ہوں اور یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر تم چاہو تو میں دعاء کرتا ہوں،تو انہوں نے عرض کیا:آپ میرے حق میں دعاءفرمائیں!تو آپ نے انہیں بہتر طریقہ سے وضو کرنے اور دو رکعات ادا کرنے کا حکم فرمایااور نماز کے بعد یہ دعاء کرنے کے لئے فرمایا:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى اللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ "
اے اللہ!میں تجھ سے سوال کرتاہوں اور تیری بارگاہ میں نبی رحمت حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وسیلہ پیش کرتا ہوں-اے پیکر حمد وثنا صلی اللہ علیہ والہ وسلم !بیشک میں اس ضرورت میں آپ کے وسیلہ سے اپنے پروردگار کے دربار میں معروضہ کررہاہوں تاکہ میری ضرورت پوری ہوجائے-اے اللہ!میرے حق میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شفاعت قبول فرما!-
(سنن ابن ماجہ،باب ما جاء في صلاة الحاجة، حدیث نمبر: 1375-
جامع ترمذی ،ابواب الدعوات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، باب في دعاء الضيف، حدیث نمبر:3502 –
مستدرک على الصحيحين ، من كتاب صلاة التطوع ، حدیث نمبر:1128/1865/1884/1885-
مسند امام احمد، مسند الشاميين،، حدیث نمبر:16604/16605-
السنن الكبرى للنسائي،ج6،ص168/169-
جامع الأحاديث للإمام السيوطى، حدیث نمبر:4989-
صحيح ابن خزيمة، جماع أبواب ذكر الوتر وما فيه من السنن، حدیث نمبر:1152-مسند عبد بن حميد، حدیث نمبر:382-
دلائل النبوة للبيهقي، جماع أبواب دعوات نبينا صلى الله عليه وسلم، حدیث نمبر:2415/2416-
كنز العمال، الباب الثامن الدعاء، الفصل السادس: جوامع الأدعية، حدیث نمبر:3640/16816-
التاریخ الکبیر للبخاری-
الخصائص الكبرى، باب اختصاصه صلى الله عليه وسلم بجواز أن يقسم على الله به-
الشفابتعريف حقوق المصطفى، الباب الرابع ففيما أظهره الله تعالى على يديه من المعجزات وشرفه به من الخصائص والكرامات، فصل في إبراء المرضى وذوى العاهات-ج1،ص321-
سبل الهدى والرشاد، جماع أبواب التوسل به - صلى الله عليه وسلم، الباب الثالث في ذكر من توسل به - صلى الله عليه وسلم - في حياته من الإنس ،ج12،ص404-
البداية والنهاية لابن كثير،ج 6،ص178/179-)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں