ہفتہ، 28 نومبر، 2015

Imam Ahmed Raza ki Nigah me Dunya ki Haesiyat



امام احمد رضا کی نگاہ میں دنیا کی حیثیت
محمد توفیق برکاتی مصباحی  الجامعۃ الغوثیہ، ۱۳۲؍کامبیکر اسٹریٹ ممبئی۳
پوسٹ بذریعہ: ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی

            کیا دنیا کا کوئی انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ ریاست وامارت میں آنکھیں کھولنے والا شخص عسرت و غربت کی زندگی گزارے گا، یہ عسرت وغربت عرفی نہیں جو دست سوال دراز کرنے پر آمادہ کرے، بھیک مانگنے پر اکسائے، بلکہ جو زہد وقناعت کی علم بردار ہو، صبر وشکیب کی آئینہ دار ہو۔کیا کوئی ایسا مرد درویش نظر آیا، جس کی چوکھٹ پر شاہان زمانہ جبیں سائی کو ترس رہے ہوں؟وہ انداز فقیرانہ کیسا ہوگا ، جسے دیکھ کر امیروں کے منھ میں پانی آجاتا ہو، وہ کیسا قلندر ہوگا، جو دنیاکوپیروں کی ٹھوکر پر رکھتا ہو، جس کی شان استغنا دلوں کو موہ لیتی ہو، جس کی بارگاہ میں امارت وسیاست دریوزہ گری کرتی نظر آئے۔یہ دنیا ایسی شیٔ ہے ،جسے دیکھ کر اچھے اچھوںکی نیت بدل جاتی ہے ، جس کے تذکرے ہی سے قلب میں احساس طلب موجیں مارنے لگتا ہے ۔
            یہ بات سب کو تسلیم ہے کہ بڑے سے بڑا سرمایہ دار جب دیوالیہ پن کا شکار ہوجاتا ہے ، تو اس کی زندگی عسرت میں گزرتی ہے ،غربت میں بسر اوقات کرتاہے ،قناعت کی روٹیاں کھانے لگتا ہے ، اس کا صبر جبری ہوتا ہے ،لیکن یہ زندگی واقعی حیرت انگیز اور فکر آمیز ہے کہ راحت وآسائش ،مال وثروت کی کثرت کے باوجود فقیروں ، غریبوں جیسی زندگی گزاررہا ہے ۔
            مسئلہ اب بھی حل نہیں ہوا ،مطلع اب بھی صاف نہیں ہوا ،درویشوں کی سی زندگی کیوں ہے؟ غریبوں جیسا انداز کیوں ہے ؟کیا اس کے پاس مال ودولت کی فراوانی نہیں ؟ساز وسامان نہیں؟ٹھاٹ باٹ کا انتظام نہیں ؟ہے،ضرورہے ،مگر وہ غریبوں کو کھلانے کا سبق ازبر کیے ہوئے ہے،فقیروں کی دل جوئی اس کا مشغلۂ محبوب ہے ،درویشوں کا انداز اختیار کرنا اسے بھاتا ہے ،اسے کسی دنیا دار کی دل جوئی مقصود نہیں ،وہ تو خالق کائنا ت کی خوش نودی کا طلب گارہے ،رحمت الٰہی کا متمنی ہے ، رضاے رسول برحق کا دل دادہ ہے ،در اصل جو زندگی کی معراج ہے، سب سے عظیم سرمایہ ہے ،بیش قیمت دولت ہے۔
            اس نے یہ ڈھنگ ،یہ طریقہ ،یہ اندازاپنے آقا رسول اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سیکھا، ان کے اصحاب کی زندگی سے لیا ، اولیاے امت کی سیرت سے پہچانا ،صوفیاے ملت کے حالات سے اخذ کیا، مقربان بارگاہ باری سے حاصل کیا ،جبھی تو اس کی زندگی میں اسوۂ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تابندگی ملتی ہے ،صحابۂ کرام کے طریقہ ہاے حیات کے جمالیات نظرآتے ہیں ،اولیا وصوفیا کے انداز درویشی کا رنگ وآہنگ دکھائی دیتا ہے، جنھوں نے مال وثروت ہوتے ہوئے قناعت بھری زندگی گزاری،مال و دولت کو راہ خدامیں لٹا دیا ، انسانوں کو کھلا دیا ،ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کر دی، سیرت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وتاریخ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور احوال صوفیا واولیا پڑھنے والے ان حقائق کی توثیق کریں گے ،انھوں نے دنیا کو کس نگاہ سے دیکھا ،مال ودولت کے لیے کیا کیا نظریہ قائم کیا ،امارت کو کیوں ٹھکرا دیا ؟ کیوں کہ وہ خداکی یاد سے غافل کردینے والے سامان تھے ،عبادت الٰہی میں رخنہ ڈالنے والے اسباب تھے ۔
            زندگی بلا شبہہ عطاے ربانی ہے ،نعمت الٰہیہ ہے، لیکن جب دنیا کی محبت میں اس پر مردنی چھا جائے تو اس کا وقار گھٹ کر رہ جاتا ہے ، اس کی شان کم ہو جاتی ہے، لیکن جو زندگی وقف بندگی ہو جائے، وہ معراج کمال کو پہنچ جاتی ہے، زندہ دلی تو اسے ہی کہیں گے، جب زندگی وقف بندگی ہوجائے، بہ قول شاعر   ؎
زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل کیا خاک جیا کرتے ہیں
            موضوع سخن کس کی زندگی ہے، کس کی حیات مبارکہ کے شب وروز ہیں؟ ذرا ان کی تعلیمات کو تو دیکھیں کہ وہ کس بات کا اشاریہ ہیں، ذرا ان کی عملی زندگی پر بھی نگاہ ڈالیں وہ کیا ثبوت فراہم کرتی ہے؟
            بات ہے محقق اسلام، مجدد اعظم، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہ کی، یہ نام بڑا پیارا ہے، بڑا معروف ومقبول ہے، ان کی حیات کے ایام کھلی کتاب ہیں، آج ہم کتاب کے ایک اہم باب کو پڑھنے کی کوشش کریں گے اور پھر فیصلہ کریں گے کہ دنیا کو انھوں نے کس نگاہ سے دیکھا؟ دنیا کی رعنائیاں ان کی نظر میں کیا حیثیت رکھتی ہیں؟ سب سے پہلے ان کی تعلیمات پر اچٹتی نگاہ ڈالتے ہیں۔
            انسان دنیا میں کمانے آیا ہے، کھانے نہیں، بونے آیا ہے، کاٹنے نہیں، پودا لگانے آیا ہے، پھل کھانے نہیں، کام کرنے آیا ہے، آرام کرنے نہیں، امام احمد رضا قدس سرہ کے ایک خط کا یہ جملہ پڑھیں:
            ’’اہل اسلام پر روشن ہے کہ انسان دنیا میں دنیا کمانے کے لیے نہیں بھیجا گیا، دنیا مزرع ہے اور آج کا بویا کل ملتا ہے، مبارک وہ دل کہ طلب دنیا میں دین وعقبیٰ سے غافل نہ ہو‘‘۔
(کلیات مکاتیب رضا۲۰۶؍۲)
            حدیث مبارکہ میں ارشاد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے:’’الدنیا مزرعۃ الاخرۃ‘‘ دنیا آخرت کی کھیتی ہے،یہاں اس کھیتی میں فصل لگانا ہماری ذمہ داری ہے، آخرت میں ان شاء اللہ عزوجل ضرور ہمیں ہی کاٹنا ہے، اس کا صلہ ملے گا، امام احمد رضا نے اسی حدیث کی ترجمانی کی ہے، بتایا ہے ، دنیا کھیتی ہے، مزرع ہے، آج کا بویا کل ملے گا، ضرور ملے گا۔
            مال اور اولاد فتنہ ہیں، آزمائش ہیں، ابتلا کے ساز وسامان ہیں، امتحان کے پرچے ہیں، انہیں حل کرنا ہے، ان سے گزر کر کام یابی لینی ہے، ان مشکلات سے گزرنا ہے، ان فتنوں کا سد باب کرنا ہے، ان کا صحیح ٹھکانا متعین کرنا ہے، ان کا موزوں مصرف ڈھونڈنا ہے، یہی زندگی کا مقصد ہے، عبادت کاحصول ہے، کام یابی کی ضمانت ہے۔
            ایک بار امام احمد رضا قدس سرہ سے عرض کیا گیا: بچہ سے محبت تو اپنا بچہ ہونے کی بنا پر ہوتی ہے، اللہ کے واسطے کون کرتا ہے؟ ارشاد فرمایا:
            ’’ الحمد للہ ! میں نے مال ’’من حیث ہو مال‘‘ سے کبھی محبت نہ رکھی، صرف انفاق فی سبیل اللہ کے لیے اس سے محبت ہے، اسی طرح اولاد’’من حیث ہو اولاد‘‘سے بھی محبت نہیں، صرف اسی سبب سے کہ صلۂ رحم عمل نیک ہے، اس کا سبب اولاد ہے اور یہ میری اختیاری بات نہیں، میری طبیعت کا تقاضا ہے‘‘۔
(الملفوظ ۵۰؍۴)
            یہ اللہ والوں ہی کی شان ہے کہ مال واولاد سے ان کی محبت مال واولاد ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ صرف اس لیے کہ وہ نیک کاموں کا حصہ بنتے ہیں، وسیلہ بنتے ہیں۔
            جو اللہ کے برگزیدہ ہوتے ہیں وہ دنیا کو قید خانہ سمجھتے ہیں، اپنے آپ کو قیدی جانتے ہیں، آزادنہیں، بندہ عبادت وریاضت کے حصار میں مقید رہتا ہے، کیا دنیا اسے سکون دے سکتی ہے، قرار مل سکتا ہے، صاف وشفاف دل والا، اجلے کپڑوں والا دنیا کو پکڑتا ہے، اس کے قریب ہوتا ہے، گلے لگاتا ہے، دنیا بڑی فاحشہ ہے، غلیظ ہے، اس کا دل داغ دار کر دیتی ہے، اس کے کپڑے بد رنگ کر دیتی ہے، وہ یہ کام کر کے بھاگتی ہے، اور دنیا کا طلب گار اسے دوڑاتا ہے، نہ عزت کا خیال، نہ وقار کی فکر، نہ ناموس کا دھیان، فاحشہ کا یہی کام ہے، غلاظت اسی کو کہتے ہیں، امام احمد رضا قدس سرہ ان حقائق کو اس طرح کھولتے ہیں، آگاہ کرتے ہیں، تنبیہ فرماتے ہیں:
            ’’دنیا سجن مومن ہے، سجن مومن ہے، سجن میں اتنا آرام مل رہا ہے؟ محض فضل نہیں؟ دنیا فاحشہ ہے، اپنے طالب سے بھاگتی ہے، اور ہارب کے پیچھے دوڑتی ہے، دنیا میں مومن کاقوت کفاف بس ہے‘‘۔           (کلیات مکاتیب رضا ۳۹۲؍۱)
            الملفوظ شریف میں امام احمد رضا ایک حکایت فرماتے ہیں:
            ’’ امام دائود طائی امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگردوں میں سے ایک تھے، امام نے جب دیکھا کہ ان کی دنیا کی طرف توجہ نہیں، ان کو سب سے الگ کر کے پڑھانا شروع کیا، ایک دن تنہائی میں فرمایا:’’ اے دائود! آلہ تیار کر لیا، مقصود کس دن حاصل کرو گے‘‘ایک سال درس میں حاضر رہے، یہ ریاضت کی کہ طلبا آپس میں مذاکرہ کرتے، ان کو آفتاب سے زیادہ وجہیں روشن معلوم ہوتیں،نفس بولنا چاہتا مگر یہ چپ رہتے، غرض ایک سال کامل سکوت فرمایا، جب ان کے والد ماجد کا انتقال ہوا، اسّی درہم اور ایک مکان ورثہ میں ملا، وہ درہم عمر بھر کے لیے کافی ہوئے، اور مکان کے ایک درجہ میں بیٹھا کرتے، جب وہ گر گیا، دوسرے میں بیٹھنا شروع کیا، جب وہ اس قابل نہ رہا تو اور درجہ میں۔ ادھر ان کی روح نے پرواز کیا، ادھر بعض صالحین نے خواب میں دیکھا کہ دائود طائی نہایت خوشی کے ساتھ ہشاش بشاش دوڑے ہوئے چلے جارہے ہیں، انھوں نے کبھی آپ کو اس حالت میں نہ دیکھا تھا؟ پوچھا کیاہے؟ کیوں دوڑے جاتے ہو؟ فرمایا: ابھی جیل خانے سے چھوٹا ہوں، خبر پائی کہ وہی وقت انتقال کا تھا،اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ‘‘۔
            یہ حکایت بیان کرنے کے بعد آگے مزید فرمایا:
            ’’ مسلمان عمر بھر کتنی ہی تنگی ومصائب میں رہے، ایک ہوا جنت کی دیں گے اور پوچھیں گے تم نے دنیا میں کیا تکلیف اٹھائی؟ کہے گا: واللہ کوئی تکلیف نہ اٹھائی، اور کافر کو ہزار برس تک ناز ونعم میں رکھا جائے، کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائی جائے، گرم ہوا بھی نہ لگنے پائے، قبر میں ایک جھونکا اسے جہنم کا دیں گے، کہے گا: واللہ مجھے دنیا میں کوئی آرام نہ ملا‘‘۔(الملفوظ۲۷؍۴)
            دنیا میں مشکلات برداشت کرنے والوں کے لیے آخرت میں راحت وآرام کا مژدۂ جاں فزا ہے،اور آرام طلبوں کے لیے مصائب وآلام ضیافت کے بہ طورپیش ہوں گے، کافر دنیا کو جنت تصور کرتا ہے، اس کی آسائش کو جنت کے سامان جانتا ہے، امام احمد رضا قدس سرہ بیان فرماتے ہیں:
            ’’حدیث میں ہے:اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر ہوتی تو ایک گھونٹ اس میں کافر کو نہ دیتا، ذلیل ہے ، ذلیلوں کو دی گئی، جب سے اسے بنایا ہے،کبھی اس کی طرف نظر نہ فرمائی، دنیا کی روحانیت آسمان وزمین کے درمیان جَو(فضا) میں معلق ہے، فریاد وزاری کرتی ہے اور کہتی ہے، اے میرے رب! تو مجھ سے کیوں ناراض ہے، مدتوں کے بعد ارشاد ہوتا ہے: چپ، خبیثہ‘‘۔
            اور آگے فرمایا:
            ’’سونا چاندی خدا کے دشمن ہیں، وہ لوگ جو دنیا میں سونے چاندی سے محبت رکھتے ہیں ، قیامت کے دن پکارے جائیں گے، کہاں ہیں وہ لوگ جو خدا کے دشمن سے محبت رکھتے تھے، اللہ تعالیٰ دنیا کو اپنے محبوب سے ایسا دور فرماتا ہے جیسے بلا تشبیہ بچے کو اس کی مضر چیزوں سے ماں دور رکھتی ہے‘‘۔                    (الملفوظ ۲۵؍۴)
            یہ تو اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے پیغامات ہیں، تعلیمات ہیں، ان کے فرامین ہیں، ذرا آگے بڑھ کر دیکھیں، کیا ان کی عملی زندگی میں اس تعلیم کے اثرات ملتے ہیں، اس پیغام کے مظاہر نظر آتے ہیں، امام احمد رضا کی زندگی میں بندگی کے سوا کچھ نہ تھا، بندگی ہی بندگی تھی، عبادت ہی عبادت تھی، اطاعت ہی اطاعت تھی، ان کی زندگی نے زندگی کے لیے کچھ سوچا نہیں ، دنیا کے لیے کچھ کیا نہیں، نہ آرام کے لیے، نہ نام کے لیے، جو کچھ کیا، دین کے لیے، برکت کے لیے، رضاے رب کے لیے، خوش نودیِ حبیب ِ رب کے لیے، جبھی تو عزت بھی ہے، وقار بھی ہے اور رضوان کی خوش خبری بھی، آیے آگے بڑھ کر ملاحظہ کرلیں:
            امام احمد رضا اپنی دینی خدمات کے لیے کبھی اجرتِ دنیا کے طالب نہ ہوئے، بعض حضرات نے ناواقفی میںاستفتا کے ساتھ یہ بھی پوچھ لیاکہ فتوے کی فیس کیا ہوگی؟ جواباً تحریر فرمایا:
            ’’ یہاں بحمد اللہ تعالیٰ فتویٰ پر کوئی فیس نہیں لی جاتی، کبھی ایک پیسہ نہ لیا گیا اور نہ لیا جائے گابعونہ تعالٰی ولہ الحمد، معلوم نہیں کون لوگ ایسے پست ہمت ہیں جنھوں نے یہ صیغہ کسب کا اختیار کر رکھا ہے جس کے باعث دوردور کے ناواقف مسلمان کئی بار پوچھ چکے ہیں کہ فیس کیا ہوگی۔ بھائیو! ’’مااسئلکم علیہ من اجر ان اجری الا علی رب العلمین‘‘میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو سارے جہان کے پروردگار پر ہے اگر وہ چاہے‘‘۔
(فتاویٰ رضویہ۲۳۰؍۳،مبارک پور)
            آپ نے علماے شریعت اور برادران طریقت کو ہدایت بھی دی کہ خدمت دین کو کسب معیشت کا ذریعہ نہ بنائیں، اس کا ثبوت وہ ہدایت نامہ ہے جو ماہ نامہ الرضا بریلی بابت ماہ ربیع الاول وجمادی الاولیٰ ۱۳۳۸ھ میں ملتا ہے جس کامتن یہ ہے:
            ’’احباب علماے شریعت اور برادران طریقت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ خدمت دینی کو کسب معیشت کا ذریعہ نہ بنائیں اور سخت تاکید ہے کہ دست سوال دراز کرنا تو در کنار ، اشاعت دین وحمایت سنت میں جلب ِ منفعت مالی کا خیال دل میں نہ لائیں، بلکہ ان کی خدمت خالصاً لوجہ اللہ ہو، ہاں اگر بلا طلب اہل محبت سے کچھ نذر کریں، رد نہ فرمائیں کہ اس کا قبول کرنا سنت ہے‘‘۔       (امام احمد رضا اور تصوف۸۰۔۸۱)
            یہاں ان کے مکتوبات کے بھی دو تراشے ذہن نشین کر لیں، مولانا شاہ سید حمید الرحمٰن رضوی نواکھالی ،بنگلہ دیش کے مشہور عالم دین تھے اور امام احمد رضا کے تلمیذ، انہوں نے ۱۳۳۹ھ میں جواب مسائل کے لیے ایک مکتوب روانہ کیا، اس میں یہ بھی لکھا: ایک روپیہ بہ طور استاذی خدمت کے روانہ کیا جاتا ہے، امام احمد رضا جواب میں لکھتے ہیں:
            ’’جواب مسئلہ حاضر ہے، الحمد للہ کہ آپ کا روپیہ نہ آیا اور آتا اگر لاکھ روپے ہوتے تو بعونہٖ تعالیٰ واپس کیے جاتے، یہاں بحمدہٖ تعالیٰ نہ رشوت لی جاتی ہے، نہ فتویٰ پر اجرت‘‘۔                              (فتاویٰ رضویہ ۷۷؍۹، کلیات۲۲۰؍۱)
            راول پنڈی سے ایک سائل نے کئی بار خطوط لکھ کر جواب مسائل حاصل کیے، ہر بار انھوں نے اجرت وقیمت کی بات کی ہے، قلم کا تیور دیکھیے، لکھتے ہیں:
            ’’قیمت کاغذ کی نسبت پہلے آپ کو لکھ دیا گیا کہ یہاں فتویٰ اللہ کے لیے دیا جاتا ہے، بے جا نہیں لیا جاتا، آئندہ کبھی یہ لفظ نہ لکھیے‘‘۔
                                                     (فتاویٰ رضویہ ،مترجم، لاہور، ۲۵۴؍۱۱)
            حوالوں کی اس کہکشاں میں امام احمد رضا قدس سرہ کی ذات نیر تاباں بن کر نمودار ہوتی ہے اور ان جزئیات سے امام احمد رضا کا جو چہرہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ امام احمد رضا نے جو کچھ کیا دین کے لیے، آخرت کے لیے، اللہ عز وجل و رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے، پوری زندگی مال و دولت اور دنیاوی جاہ واقتدار سے کوسوں دور رہے، اور اپنے فرزندان واحباب کو بھی اس سے دور رکھا، دنیا سے بھاگتے رہے، دنیا کو قید خانہ جانا، ان کی نگاہ میں دنیا ہروقت بے حیثیت رہی، بے وقعت رہی، اس لیے ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ انھیں اللہ عز وجل کی رضا حاصل رہی اور روز قیامت انھیں اس کا بہترین اجر وثواب ملے گا۔
٭٭٭

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں