ہفتہ، 28 نومبر، 2015

Kanzuliman Awr Deobandi Tarajum Ka Mawazna



کنزالایمان اور دیوبندی تراجم کا موازنہ
مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ

            کسی بھی زبان کے مفہوم و معانی کو دوسری زبان میں منتقل کرنا جتنا مشکل کام ہے وہ اہل علم پر مخفی نہیں خصوصاً قرآن مجید کا ترجمہ تو اس لحاظ سے اور بھی زیادہ مشکل ہے کہ ایمان و اسلام کی تفصیلات اور شریعت کے احکام کا وہ اصل ماخذ بھی ہے اس لیے ترجمہ میں ذر ابھی لغزش ہوئی تو نہ صرف یہ کہ قرآن مجید کا مدعا فوت ہو کر رہ جائے گا بلکہ بسا اوقات اسلام کے بجائے کفر ہوگا۔ اس لیے قرآن مجید کے ترجمہ کے سلسلے میں صرف اردو اور عربی زبان کی واقفیت کافی نہیں بلکہ مفہوم کی صحیح تعبیر پر قدرت ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن فہمی کی دینی بصیرت، تفاسیر کا گہرا مطالعہ، ذات باری تعالیٰ کے بارے میں صحیح تصور اور ذات نبوی علیہ الصلاۃ والتسلیم کے ساتھ غایت عشق و عقیدت اور والہانہ جذبہ و احترام کا تعلق بھی نہایت ضروری ہے۔
            یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ العزیز جن کا قلب عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ اور جن کا ذہن بصیرت دینیہ کا خزینہ ہے، ان کے ترجمۂ قرآن یعنی کنزالایمان کے ایک ایک لفظ سے ایمان و ایقان کی شعاعیں روشن ہیں جو تفاسیر معتبرہ قدیمہ کے بالکل مطابق ہے۔ جس میں خداے ذوالجلال کی عزت و جلال کا پورا پورا لحاظ کیا گیا ہے۔ اور جس میں حضرات انبیاے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی حرمت و عظمت کی پوری پوری رعایت کی گئی ہے بہ خلاف اس کے دیوبندی مولوی جن کے قلوب ایمان سے خالی ہیں، جو خداے ذوالجلال کی رداے عزت و جلال میں نقص و عیب کا دھبا لگاتے ہیں اور جو حضرات انبیاے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی شان میں کھلم کھلا گستاخی و بے ادبی کرتے ہیں وہ زبان اردو کے محقق اور عربی ادب کے مبصر کہے جانے کے باوجود قرآن مجید کے ترجمہ میں قدم قدم پر ٹھوکریں کھائے اور وہ کتاب الٰہی جس کی ایک ایک آیت ایمان و اسلام کا درس دیتی ہے اس کے ترجمہ میں بے شمار کفریات بکتے چلے گئے۔ ثبوت کے لیے مندرجہ ذیل مثالیں ملاحظہ کیجیے:
            پارہ۲؍ رکوع اول میں ہے  وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ
            دیوبندیوں کے حکیم الامت مولوی اشرف علی تھانوی اس آیت کریمہ کا ترجمہ اس طرح لکھتے ہیں:
            ’’اور جس سمت قبلہ پر آپ رہ چکے ہیں (یعنی بیت المقدس) وہ تو محض اس کے لیے تھا کہ ہم کو (یعنی اللہ کو) معلوم ہو جائے کہ کون تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا اتباع اختیار کرتا ہے اورکون پیچھے کو ہٹتا جاتا ہے۔‘‘
            مولوی اشرف علی تھانوی نے عربی اردو ڈکشنری میں  العلم  کا ترجمہ جاننا اور معلوم ہونا پڑھا تھا بس اس کے مطابق آیت کریمہ میں  لِنَعْلَمَ  کا ترجمہ ’’ہم کو یعنی اللہ کو معلوم ہو جائے‘‘ لکھ دیا لیکن اتنا نہ سوچ سکے کہ ’’معلوم ہو جائے‘‘ کا محاورہ اس کے لیے استعمال کیا جائے گا جس کو پہلے معلوم نہ ہو اور اللہ تعالیٰ تو ہر چیز کا ازلی و ابدی طور پر جاننے والا ہے پھر اس کے بارے میں ’’معلوم ہو جائے‘‘ کا کیا مطلب؟… اور کنزالایمان میں آیت مذکور بالا کا ترجمہ یوں لکھا گیا:
            ’’اور اے محبوب تم پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے وہ اسی لیے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پائوں پھر جاتا ہے۔‘‘
            یعنی کنزالایمان میں  لِنَعْلَمَ کا ترجمہ ’’دیکھیں‘‘ لکھا گیا ہے۔ اب رضوی اور تھانوی ترجمہ کا موازنہ کرنے سے ہر انصاف پسند پر بالکل عیاں ہو گیا کہ دیوبندیوں کے حکیم الامت نے قرآن کی ترجمانی نہیں کی ہے بلکہ عربی کی اردو بنائی ہے، جس سے خداے تعالیٰ کا نہ جاننا یعنی جاہل ہونا لازم آتا ہے اور اعلیٰ حضرت نے کنزالایمان میں قرآن مجید کی صحیح طور پر ترجمانی کی ہے۔
            پارہ ۴ ؍رکوع۵؍ میں ہے  وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ
            اس آیت کریمہ کا ترجمہ شیخ دیوبند مولوی محمود حسن نے اس طرح لکھا ہے:
            ’’اور ابھی تک معلوم نہیں کیا اللہ نے جو لڑنے والے ہیں تم میں اور معلوم نہیں کیا ثابت رہنے والوں کو۔‘‘
            اور کنزالایمان میں اعلیٰ حضرت نے یوں ترجمہ فرمایا:
            ’’اور ابھی اللہ نے تمہارے غازیوں کا امتحان نہ لیا اور نہ صبر والوں کی آزمائش کی۔‘‘
            یعنی شیخ دیوبند نے اس آیت کریمہ کے ترجمہ میں یہ لکھ دیا کہ خداے تعالیٰ کو لڑنے والوں اور ثابت رہنے والوں کا علم نہیں جو قرآن کی منشا کے بالکل خلاف ہے… اور اعلیٰ حضرت کا ترجمہ قرآن کی منشا کے عین مطابق ہے کہ: خداے تعالیٰ کو غازیوں اور صبر والوں کا علم تو ہے لیکن ابھی امتحان اور آزمائش باقی ہے۔
            پارہ ۹؍ رکوع۲؍ میں ہے  فَلَا یَاْمَنُ مَکْرَاللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ
            ابوالاعلیٰ مودودی جو ائمہ کرام اور مجتہدین عظام کو اپنے آگے طفل مکتب سمجھتے ہیں اس آیت کریمہ کا ترجمہ اپنی کتاب ’’تفہیمات ‘‘حصہ اول صفحہ ۱۳۴؍ میں یوں رقم طراز ہیں:
            ’’سو اللہ کی چال سے تو وہی لوگ بے خوف ہوتے ہیں جن کو برباد ہونا ہے۔‘‘
            اس ترجمہ میں مودودی نے خداے قدوس کے بارے میں ’’چال‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جو اردو زبان کے بہت بڑے ادیب کہے جاتے ہیں اور جنھوں نے بہ زعم خویش مسلمانوں کی فلاح و بہبودی کے لیے بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں صرف اتنا کہنا ہے کہ خداے تعالیٰ ایسے مصنفین کی ’’چال‘‘ سے ہمیں محفوظ رکھے۔ آمین۔ اب کنزالایمان کا ترجمہ پڑھیے اور اس کی خوبی کی داد دیجیے۔ اعلیٰ حضرت نے آیت مذکور بالا کا ترجمہ اس طرح فرمایا ہے:
            ’’تو اللہ کی خفی تدبیر سے نڈر نہیں ہوتے مگر تباہی والے۔‘‘
            مولوی عبدالشکور کاکوروی اپنے ماہ نامہ النجم مورخہ ۱۱؍ جون ۱۹۳۷ء میں یوں رقم طراز ہیں کہ:
            ’’نبی کریم نے فرمایا  اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ  (پارہ ۱۶؍ رکوع ۳) یعنی میں تمہاری طرح ’’ایک معمولی انسان‘‘ ہوں اگر تم میں اور مجھ میں کچھ فرق ہے تو صرف اتنا کہ میں تمہارے پاس خداے تعالیٰ کا پیام لایا ہوں۔‘‘
            اس ترجمہ میں کاکوروی نے افضل الحق سید المرسلین علیہ التحیۃ والتسلیم کو عام لوگوں کی طرح ’’ایک معمولی انسان‘‘ لکھ کر اپنی رسول دشمنی کو آشکارا کیا ہے اور قرآن کریم کی کھلم کھلا تحریف بھی کی ہے اس لیے کہ آیت کریمہ میں ہرگز کوئی ایسا لفظ نہیں ہے کہ جس کا ترجمہ ’’ایک معمولی انسان‘‘ کیا جائے۔ اب کنزالایمان کا ترجمہ ملاحظہ فرمایے:
            ’’تم فرمائو ظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہوں مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔‘‘
            اس ترجمہ میں اللہ کے پیارے نبی کی عظمت کا لحاظ کرنے کے ساتھ قرآن کے ہر لفظ کی بھی پوری رعایت کی گئی ہے جیسا کہ واضح ہے۔
            پارہ ۱۶؍ رکوع ۱۶؍ میں ہے  وَعَصٰٓی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی اس آیت کریمہ کا ترجمہ مولوی عاشق الٰہی دیوبندی نے اس طرح لکھا ہے:
            ’’اور آدم نے نافرمانی کی اپنے رب کی پس گم راہ ہوئے۔‘‘
            اس ترجمہ میں عاشق الٰہی دیوبندی نے حضرت آدم علیہ السلام کو گم راہ ٹھہرایا حالاں کہ حضرات انبیاے کرام علیہم الصلاۃ والسلام بعثت سے پہلے بھی گم راہی سے محفوظ رہتے ہیں جیسا کہ تفسیر عزیزی پارۂ عم صفحہ ۲۲۱؍ میں ہے: انبیا قبل از بعثت نیز از ضلال و کفر اصلی و طبعی معصوم و محفوظ اند… لیکن دیوبندی مترجم نے بلا کھٹک حضرت آدم علیہ السلام کو گم راہ لکھ دیا۔ اب کنزالایمان کا ترجمہ ملاحظہ فرمایے:
            ’’اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی تو جو مطلب چاہا تھا اس کی راہ نہ پائی۔‘‘
            اس ترجمہ میں حضرت آدم علیہ السلام کے علوے مرتبت کا لحاظ کرنے کے ساتھ لفظ فَغَوٰیکا صحیح ترجمہ کیا گیا ہے جس کی تائید تفسیر کی مشہور کتاب جملؔ کی اس عبارت سے بھی ہوتی ہے:  قولہ فغوی ای ضل عن مطلوبہ وھوالخلود فی الجنۃ
            پارہ ۱۷؍ رکوع ۶؍ میں ہے  فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَعَلَیْہِ  اس آیت کا ترجمہ شیخ دیوبند مولوی محمود حسن نے اس طرح لکھا ہے۔
            ’’پھر (یونس نے) سمجھا کہ ہم نہ پکڑ سکیں گے اس کو۔‘‘
            اور فتح محمد جالندھری نے یوں لکھا ہے:
            ’’اور (یونس نے) خیال کیا کہ ہم ان پر قابو نہیں پا سکیں گے۔‘‘
            اس آیت کریمہ کے ترجمہ میں شیخ دیوبند اور جالندھری نے حضرت یونس علیہ السلام پر یہ اتہام لگایا کہ ان کا یہ خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر قابو نہیں پا سکتا اور نہ میری پکڑ کی طاقت رکھتا ہے، یعنی ان مترجمین کے نزدیک حضرت یونس علیہ السلام، خداے تعالیٰ کی قدرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔ العیاذ باللہ تعالیٰ۔
            اصل میں شیخ دیوبند اور جالندھری نے یہ سمجھا کہ آیت کریمہ کا لفظ ’’نقدر‘‘ القدرۃ سے مشتق ہے، بس بغیر سوچے سمجھے قرآن کی منشا کے خلاف اس کی اردو بنا دی حالاں کہ یہ ’’نقدر‘‘ القدر سے مشتق ہے۔ کنزالایمان میں آیت مذکور کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے:
            ’’تو گمان کیا (یونس علیہ السلام نے) کہ ہم اس پر تنگی نہ کریں گے۔‘‘
            اعلیٰ حضرت کا یہ ترجمہ قرآن کی منشا کے عین مطابق ہے اور حضرت یونس علیہ السلام پر کسی قسم کا اتہام لگانے سے پاک ہے۔
            مولوی اشرف علی تھانوی نے  قُلْ یٰٓاَ یُّھَا الْکٰفِرُوْنَ  کا ترجمہ اس طرح لکھا ہے: ’’آپ کہہ دیجیے کہ اے کافرو!‘‘ اور اعلیٰ حضرت نے کنزالایمان میں اس طرح ترجمہ فرمایا ہے: ’’تم فرمائو اے کافرو!‘‘… ان دونوں ترجموں پر غور کرنے سے اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ تھانوی صاحب کے ترجمہ سے نہ تو اللہ رب العزت کی حضور علیہ الصلاۃ والسلام پر برتری ظاہر ہوتی ہے اور نہ حضور کے مخاطبین پر حضور کی عظمت واضح ہوتی ہے۔ برخلاف اس کے کنزالایمان کے ترجمہ میں دونوں پہلو کی پوری رعایت کی گئی ہے اس لیے کہ آمر یعنی حکم فرمانے والا خداے تعالیٰ ہے اور مامور یعنی جن کو حکم دیا جا رہا ہے وہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام ہیں تو رضوی ترجمہ کا لفظ ’’تم‘‘ بتا رہا ہے کہ آمر مامور سے برتر و اعلیٰ ہے اور لفظ ’’فرمائو‘‘ پتہ دے رہا ہے کہ خداے تعالیٰ کی طرف سے حضور علیہ السلام مخاطبین کے لیے فرماں روا بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ اسے کہتے ہیں ترجمہ… اور تھانوی صاحب نے ترجمہ نہیں کیا ہے بلکہ عربی کی اردو بنائی ہے۔
            سورۃ فاتحہ میں ہے  اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ  یعنی خداے تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم فرمایا کہ اس طرح دعا مانگتے رہو۔ مولوی اشرف علی تھانوی نے اس دعائیہ جملہ کا ترجمہ یوں لکھا ہے۔
            ’’بتلا دیجیے ہم کو سیدھا راستہ۔‘‘
            اور اعلیٰ حضرت نے اس طرح ترجمہ فرمایا ہے۔
            ’’ہم کو سیدھا راستہ چلا۔‘‘
            یعنی مولوی اشرف علی تھانوی گویا اللہ تعالیٰ سے اس طرح دعا کر رہے ہیں کہ اب تک ہمیں سیدھا راستہ نہیں معلوم ہو سکا لہٰذا اے اللہ! ہم کو سیدھا راستہ بتلا دیجیے۔ اور اعلیٰ حضرت بارگاہِ خداوندی میں اس طرح دعا مانگ رہے ہیں کہ اے رب کریم! ہم تیرے فضل و کرم سے سیدھا راستہ پا چکے ہیں اب تو ’’ہم کو سیدھا راستہ چلا‘‘ اور مسلمان کے لیے یہی دعا لائق و مناسب ہے۔ اور تھانوی صاحب کی دعا تو کافروں کی دعا ہے۔
            دیوبندی تراجم اور کنزالایمان کی مذکورہ بالا چند مثالوں سے اچھی طرح واضح ہو گیا کہ دیوبندی ترجمے قرآن کریم کی منشا کے خلاف ہیں اور اغلاط سے پر ہیں بلکہ اسلام کے بجائے کفر کا درس دیتے ہیں، اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ کا ترجمہ جو ’’کنزالایمان‘‘ کے نام سے شائع ہے قرآن کی منشا کے عین مطابق ہے جس میں خداے قدوس اور حضرات انبیاے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی عزت و عظمت کا پورا پورا لحاظ کرنے کے ساتھ قرآن کے ہر ہر لفظ کی پوری رعایت بھی کی گئی ہے۔  فللّٰہ الحمد
٭٭٭

..:: Follow us on ::..

http://www.jamiaturraza.com/images/Twitter.jpghttp://www.jamiaturraza.com/images/Facebook.jpg


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

ٹیوٹر اپڈیٹس دیکھیں اور فالو کریں